ماتھے کا تلک

جلال الدین محمدی

سیاسی اور سماجی اعتبار سے اس وقت ملک کی فضا پر فرقہ پرستی کی مہیب دھند چھائی ہوئی ہے۔ دھند کی چپیٹ میں سورج کی کرنیں بھی اپنی تابناکی کھودیتی ہیں تو ستاروں کی ضیا پاشی کی وقعت ہی کیا ہوگی؟ جب کہ ہم اس وقت چراغوں کی روشنی سے بھی محروم ہیں۔ ملت کے سامنے اس وقت کئی قسم کے مسائل ہیں جن کا بر وقت حل، ہماری اولین ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔ مسائل کا ادراک، وسائل کا درست استعمال ترقی کا زینہ ہیں۔ مسائل سے چشم پوشی اور وسائل کا غلط استعمال، نفس مسئلہ کی سنگینی کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں جیسے کہ ہمارے زمینی مسائل کی تشخیص اور ان کا حل ورچول دنیا میں پیش کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اور انھیں ملی عظمت رفتہ کی بازیابی کا حرف آخر سمجھا جارہا ہے۔ جبکہ حالات ثابت کررہے ہیں کہ ورچول مجاہدین، قومی سرخروئی کے لیے جن اقدامات کو ناقابل تسخیر سمجھ کر انجام دے رہے ہیں حقیقی دنیا میں ان کی حیثیت تار عنکبوت سے زیادہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم، کامیابی کے بجائے دانشوری اور مفکری کے بوجھ سے کراہ رہی ہے۔ مفکرین ملت کا تو اژدھام ہے لیکن کارکنان کا فقدان ہے۔ بساط جنگ کی ہو یا شطرنج کی، قیادت کی بقا اور پائیداری پیادوں پر ہی منحصر ہے۔ یہی پیمانہ تنظیمات کی اہدافی کامیابی کے لیے بھی مقرر ہے۔ جبکہ ہماری قیادت کارکنان سے ربط و ضبط کے بجائے ان سے دوری بنائے رکھنے کو کمال فن قیادت سمجھ رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ دوریاں اور فاصلے منزل کو بے نشان بنا رہے ہیں اور زندگی بے مقصدیت کے ارد گرد ختم ہوتی جارہی ہے۔ کامیابی، فکر اور جہد مسلسل کے صحیح تال میل کا ماحصل ہوتی ہے۔
سماجی ہم آہنگی مذہبی جبر کے عدم اظہار کا نام ہے۔ لیکن اس وقت حب الوطنی کے حوالے سے جتنے بھی سیاسی اور حکومتی اقدامات عمل میں آرہے ہیں یہ سب کو ساتھ میں لے کر ہندو احیا پرستی کے وکاس کا عکاس ہیں۔ ملک کی دائیں، بائیں بازو کی سیاست میں مسلمان انتہائی حاشیے پر آچکے ہیں جنھیں کبھی سیاست کا بادشاہ گر کہا جانے لگا تھا اب منہ بھرائی یا ہمنوائی کے خوف نے سیاست کے سارے رخوں کو ان کے مسائل سے بے رخی پر آمادہ کر کے انھیں سیاسی بے وقعتی کا نشان بنا دیا ہے۔ رواداری، صبر، تحمل، مساوات، اخوت جیسے الفاظ جدید معاشرے میں محض کمزور طبقات کی بے بسی اور ان کی کمزوری کا اظہار کرنے والے استعاروں سے بڑھ کر اور کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ سماج کی اکثریت اپنی طاقت کی نمائش پر یقین رکھتی ہے۔ اس لیے ان اصولوں کی دہائی تو اقلیت کے لیے پرکشش اور معنی خیز ہوسکتی ہے لیکن اکثریت تو بس جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی عملی مصداق ہے۔ اور ہم غیروں سے اس کا شکوہ کرنے میں کیوں کر بجا ہوسکتے ہیں؟ اگر ایمانی اظہار کے لیے بننے والی مسجدوں میں غیرمسلکی عبادت پر بندش، یا ایمانی بنیادوں پر بننے والے معاشرے میں مسلکی برتری کے لیے ان لفظوں کی تعبیرات کو عملی غنڈہ گردی سے الٹ پلٹ کر حصول جنت کی ضمانت ممبروں سے دی جانے لگے۔ اور خلاف مزاج تحریروں پر ایمان کی سرٹیفیکٹ تقسیم کرنا عین اسلام بن جائے تو جن کے لیے یہ دنیا ہی متاع کل ہے انھیں ان لفظوں کی سحر کاری یا اصولوں کی پاسداری کیونکر اپنی گرفت میں لے کر کردار و اطوار کی تبدیلی اور طاقت و جبر کے نفاذ سے روک سکتی ہے؟
حکومتی ایوانوں میں تبدیلی کے لیے محض اہل اقتدار کی ناکام اور کمزور پالسیوں پر ہی تکیہ کرنا دیوانے کا خواب ہوسکتا ہے۔ کیونکہ مذہبی احیا پرستی اور مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی منظم کوششوں نے اہل وطن کے ذہنوں میں اتنی نفرت بھر دی ہے کہ انھیں اپوزیشن کے وکاس اور اچھے دن کے طنزیہ نعرے غیر پرکشش محسوس ہورہے ہیں۔ اور جب بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کے بجائے ماتھے کا تلک، مندروں کا درشن اور دیوی دیوتاؤں کا ذکر سیاسی ایجنڈے کا سمبل مان کر اسے ملکی ترقی کا نقیب، اچھے دنوں کی آمد اور مندروں یا بلند و بالا مورتیوں کی تعمیر ملکی ترقی کا پیمانہ بنالیا جائے۔ آئی آئی ٹی یا دیگر اعلی تعلیمی اداروں کے قیام، طبی مراکز، مشن چندریان و مریخ کے بجائے مندروں کے گھنٹے بجانا اپنی زندگی کے سب سے بڑے خواب کی حسین تعبیر لگنے لگے تو ایسے تعصب زدہ سماج میں بھوک و افلاس یا مہنگائی و بے روزگاری کوئی خاص سیاسی معنی نہیں رکھتی ہے۔ تو پھر ایسے معاشرے میں ایمان اور توحید کے حوالے سے زندگی گذارنے والی قوم کے مسائل کیا اہمیت رکھیں گے؟ یہاں تو بس سماجی بھگوا کرن کی کوششیں ہی اہل اقتدار کی مضبوطی اور اس کی واپسی کے لیے ساتھ دینے پر اکساتی رہیں گی۔ ایسے فریب ذدہ معاشرے میں دعوت دین کے حوالے سے ہمیں از سر نو اپنا احتساب کرنے کی سخت ضرورت ہے کیونکہ انقلاب اور تبدیلی کے لیے اس راستے کے علاوہ اور کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ قوموں کی کامیابی کا میزانیہ مہینوں سالوں کے بجائے دہائیوں کی کاوش کا طلب گار ہوتا ہے۔
تاریخ اور تاریخی میراث قومی اور عالمی سرمایہ افتخار ہیں۔ تاریخی عمارتیں اور شہر ملکوں کے ماضی کا روشن باب ہوتے ہیں جن سےنسل انسانی کے تسلسل، تہذیبی و ثقافتی ارتقا کی معرفت ہوتی ہے انڈومان کے سینٹینل سمیت دیگر جزائر کا تحفظ دراصل تاریخ کے تسلسل کا تحفظ ہے۔ یونیسکو عالمی ثقافتی ورثے کے تحت دنیا کے تقریبا ڈیڑھ سو ممالک میں ساڑھے آٹھ سو سے زائد مقامات کو اسی لیے خصوصی طور پر تحفظ دیا جارہا ہے کہ آنے والی نسل اپنے ماضی کو بہتر طریقے سے سمجھ کردنیا کی موجودہ ترقی میں اپنے اسلاف کے کارناموں سے واقفیت حاصل کرسکے۔ تاریخ کا تحفظ مستقبل کی ذہنیت سازی سے عبارت ہے۔ اس لیے آزادی، افتخار، ماضی اور مذہبی بازیافت کی چاہت میں وہ تمام آثار، علامتیں، عمارتیں، شہروں اور قصبوں کے نام بھگوا کرن کا شکار ہو رہے ہیں جو اسلامی تہذیب و تمدن اور شاندار طرز حکمرانی کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ تاکہ آنے والی نسلیں نہ صرف اپنے جائز حقوق سے بے خبر ہوجائیں بلکہ وہ اپنی طرز معاشرت کے لیے مکمل طور پر اکثریت کی خواہشات کی تابع ہوجائیں۔ تہذیبی اور ثقافتی غلبے کے لیے کسی قوم کا قتل عام ہی ضروری نہیں ہے بلکہ اسے اپنے قومی حافظے یعنی کہ تاریخ سے محروم کرکے بھی یہ کام کیا جاسکتا ہے اور اس کے نتائج قتل عام کے بہ نسبت زیادہ ہلاکت خیز ہوتے ہیں کیونکہ اس میں چند صد افراد کے بجائے پوری پوری نسل کو باآسانی دین و مذہب سے بے گانہ کیا جاسکتا ہے۔ جس کا مشاہدہ روس، چین سمیت دیگر کمیونسٹ ملکوں میں آباد مسلمانوں کی مذہبی کیفیت سے کیا جاسکتاہے۔ اس لیے جہاں ہمیں اپنے موجودہ تشخص کی بقا کی فکر کرنی ہے وہیں آنے والی نسل کو اپنے ماضی سے مربوط رہنے کی بھی فکر کرنی ہے۔

آپ کے تبصرے

3000