امامت صرف وقت کی پابندی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ حالات کےادراک، سماج سے گہری واقفیت، بدلتے سیاسی اور سماجی منظر نامے میں ملت کی درست رہنمائی کا فریضہ اور دو نسلوں کے درمیان پیدا ہونے والی فکری خلیج پر پل تعمیر کرنے کا کام ہے۔مسجدیں ملت کی لائٹ ہاوس تو امام اس کا لائٹ مین ہے، اس سے پھیلنے والی روشنی کو قائم رکھ کر راستہ دکھانے والا ہے۔ اہمیت کے لحاظ سے امامت کا عہدہ ملت کی شہ رگ ہے ۔ لیکن ملی بے حسی اور ناقدری شاید اسے بہت جلد وینٹی لیٹر تک پہنچا دے۔ لہذا ملت کی بقا کے لیے دین کے اس اہم ادارے کا تحفظ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم ائمہ کی قدر اور ان کی کفالت کو شرعی ذمے داری سمجھیں۔ اور انھیں بدنام اور متہم کرنے کے بجائے اپنے اعمال اور کردار کا احتساب کریں۔
معاشی اعتبار سے امامت اور مکاتب میں درس و تدریس سفید پوشی کے بھرم کا سب سے اعلی وسیلہ ہے۔ جسے تقوی، برکت، للہیت کے خوشنما الفاظ سے معاشرے نے قبول عام کی سند عطا کر رکھی ہے۔ اسی وجہ سے کبھی کبھی امامت کچھ ایسے معاملات میں زبان بندی پر مجبور کردیتی ہے جو امامت کے مزاج اور منشا کے بالکل خلاف ہے۔ لیکن اگر امام کو معاش کی طرف سے تھوڑا اطمینان حاصل ہو اور لوگ چہروں کے بجائے اعمال کی مناسبت سے نقد و احتساب کی خوبی سے متصف ہوں، امام پر بے جا بندشوں کے بجائے انھیں معروف و منکر کے بارے میں علی الاعلان کہنے کی عملی آزادی دیتے ہوں تو اس کے نتیجے میں معاشرے میں سست ہی سہی لیکن تبدیلی کا آغاز تو ہو ہی جاتا ہے ۔
اٹھارہ انیس سال کی عمر ذمے داری اٹھانے کے حساب سے ناتجربہ کاری کے مرحلے میں شمار ہوتی ہے۔ اسی عمر میں خالد کی فراغت ہوگئی اور امامت کے لیے ایک مسجد میں تقرری بھی ہوگئی ۔ خالد خوش مزاج امام ہے ۔ مصلیان کے ساتھ ادب واحترام کا رویہ ہے۔ مسجد سے متصل مکان میں رہنے والے ایک صاحب سعودی عرب میں برسر روزگار ہیں۔ کھاتا پیتا گھرانا ہے اور چھٹیوں کی مناسبت سے جاوید صاحب کی سعودی عرب سے کئی سوٹ کیسوں کے ساتھ اپنے گھر آمد ہوتی ہے، دوست احباب اور محلے والوں کی زبانوں پر ان کی ترقی اور کامیابی کے ترانے ہیں۔ تحفے تحائف سے لوگوں کی قدردانی کی جارہی ہے۔ خالد نے بھی ان کا ذکر سنا اور اسے بھی ان کی کامیابی کا ذکر سن کر خوشی ہوئی۔ چونکہ نئی نئی تقرری تھی اس لیے شناسائی اور تعارف کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔
اذان ہورہی تھی، خالد مسجد میں بیٹھے ہوئے ہیں، ان کی نگاہ جاوید صاحب پر پڑی، سوچا کہ نماز کے بعد ان سے ملاقات کرلیں گے۔ نماز ختم ہوگئی لیکن وہ مسجد میں نہیں آئے اور ایک ہفتے سے زائد ایسے ہی گذر گیا کہ وہ اذان سن کر کبھی بھی نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں نہ آئے۔ ایک دو دفعہ راستہ چلتے ہوئے ملاقات ہوئی لیکن نہ انھوں نے امام کو سلام کرنا اپنی شان کے موافق سمجھا اور نہ ہی خالد نے ترک نمازکی وجہ سے ان سے سلام کرنا مناسب سمجھا۔ ایک دفعہ ناصر صاحب نماز کے بعد خالد کے پاس آکر کہنے لگے: “مولانا! جاوید صاحب تو آپ کی بڑی شکایت کررہے تھے۔ کہتے ہیں کہ یہ امام بہت گھمنڈی ہے۔ اسے لوگوں سے ملنے کی بھی تمیز نہیں ہے” تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟ میں نے تو کبھی ایسا محسوس نہیں کیا۔ اس پر جاوید صاحب کہنے لگے کہ ان سے پہلے جو امام مسجد ہوتے تھے وہ میری آمد پر مجھ سے بہت دعا سلام کرتے تھے اور میں بھی ان کے لیے خوب تحائف لے کر آتا تھا لیکن اس امام نے کبھی مجھ سے سلام نہیں کیا۔ ابھی بھی کچھ چیزیں بطور تحفہ میرے پاس رکھی ہوئی ہیں۔
آپ ان سے مل کر دعا سلام کرلیں تاکہ آپ کی بھی ان سے اچھی دوستی ہوجائے ۔اوراسی بہانے آپ کا کچھ فائدہ بھی ہوجائے گا، اس پر خالد نے کہا کہ آپ جا کر جاوید صاحب سے کہہ دیں کہ مجھے کسی سے سلام کرنے کے لیے تحفے تحائف کی ضرورت نہیں ہے۔ بس آپ نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد آجایا کریں۔ اور پھر کبھی آپ کو یہ شکایت نہیں ہوگی کہ امام مسجد مجھ سے سلام نہیں کرتا ہے یا وہ بہت گھمنڈی ہے۔ لیکن نہ وہ نماز کے لیے مسجد آئے اور نہ ہی خالد کی ان سے کبھی دوستی ہوسکی ۔
آج بھی ایسے کردار ہمارے اطراف میں موجود ہیں جو اپنی غلطیوں کو امام مسجد سے تعلقات کی بنیاد پر مضبوطی فراہم کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ اور جو امام ان کے دام فریب میں آنے سے انکار کردیتے ہیں ان کے لیے بے انتہا مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن فیصلے کا نفاذ تو رب العالمین کے حکم سے ہوتا ہے۔ کیونکہ “اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر وہی جو رب العالمین چاہے” (سورہ التکویر ) توکل کا سبق امام اور مصلیان دونوں کے لیے یکساں ہی ہے اس لیے غلطیوں پر نکیر کرنے سے کسی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہیے ۔
اگر مسلمان اللہ کی عبادت سے اعراض کرکے اپنے آپ کو نیک، پارسا اور ملنسار سمجھ سکتا ہے تو کیا امام مسجد کا ایسے آدمی سے اعراض کرنا واقعی گھمنڈ اور تکبر کے زمرے میں آتا ہے؟
میں نے اپنے کسی مضمون میں لکھا تھا کی مساجد اور مدارس میں کام کرنے والے علماء کی یہ آخری نسل ہے۔ اب اس کے بعد جو نئی نسل آرہی ہے وہ مدارس سے نکلتے ہی یونیورسٹیوں میں پہنچ جاتی ہے۔
مساجد کے اماموں کا المیہ یہ ہے کی مسجد میں نماز پڑھنے والا ہر آدمی اس کو اپنا نوکر سمجھتا ہے۔ہر شخص کو امید ہوتی ہے کہ امام صاحب اس سے جھک کر سلام کریں۔امام بچارہ کس کس کو خوش کرے۔