یہ مضمون تقریبا دو مہینہ پہلے اس وقت لکھا گیا تھا جب اسرائیل اور حماس کے درمیان سیز فائر کا معاہدہ ہوا تھا اور حماس کے لیڈران پورا غزہ تباہ ہونے کے باوجود ایران میں جا کر طوفان اقصی کی کامیابی کا جشن منا رہے تھے۔ (ض ت)
سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر اچانک حملہ کیا، اس حملے میں ایک رپورٹ کے مطابق ۱۲۰۰؍اسرائیلی ہلاک ہوئے، ۲۵۰؍کو یرغمال بنا لیا گیا۔ کہا گیا کہ اس حملے سے حماس کا مقصد اسرائیلی جیلوں میں بند فلسطینیوں کو اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے رہائی دلانا تھا۔
اس کے بعد اسرائیل نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے غزہ پر ایک ہولناک جنگ مسلط کر دیا، جس میں غزہ کی سرکاری رپورٹ کے مطابق تقریبا ۶۲؍ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں ۸؍ہزار سے زائد بچے اور ۱۲؍ہزار سے زائد خواتین شامل ہیں۔ ۲۰۹۲؍خاندانوں کو مکمل ختم کر دیا گیا اور ان کی نسل مٹا دی گئی، جبکہ ۴۸۸۹؍ایسے خاندان ہیں جن میں سے صرف ایک فرد زندہ بچا، ۱۷؍ہزار بچے یتیم ہوگئے یا ماں باپ دونوں سے محروم ہوگئے۔
اس جنگ میں ایک لاکھ گیارہ ہزار سے زائد افراد کو زخمی اور معذور بنا دیا گیا جو بنیادی علاج سے بھی محروم رہے۔اس دوران اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد بھی دو گنا سے زیادہ ہوگئی اور ان پر ظلم وتشدد میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا گیا جس کی تاب نہ لا کر بہت سارے قیدی زندگی کی جنگ ہار بیٹھے۔
اس جنگ کی وجہ سے غزہ کے بیس لاکھ سے زاید شہری ۲۵؍ سے زیادہ بار انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں نقل مکانی کے لیے مجبور ہوئے، ایک لاکھ ستر ہزار سے زائد عمارتیں اور مکانات مکمل طور پر تباہ، ۸۰؍ہزار گھر بری طرح متاثر ہوئے۔
بلڈوزر اور تباہ شدہ زرعی زمینوں کی کل تعداد ۱۸۵؍ہزار مربع میٹر، ۴۹؍زرعی گودام، ۶۰۰۰؍مویشی، ۱۰۰۰؍پولٹری اور پرندوں کے فارم، ہزاروں میٹر آب پاشی کے نیٹ ورک اور ۳۵؍فشریز فارم ہیں۔
تباہ شدہ صنعتی تنصیبات کی کل تعداد ۳۷۲۵؍اور تباہ شدہ تجارتی تنصیبات کی کل تعداد ۲۳۰۰۰؍ تک جا پہنچی۔
تباہ شدہ گاڑیوں میں ۲۵۰۰۰؍کاریں، ۱۰۰۰؍ماہ گیری کی کشتیاں اور ۱۰۰۰؍میونسپل اور سول ڈیفنس گاڑیاں شامل ہیں۔
اسی طرح بجلی اور پانی کے نیٹ ورکس کو تقریبا مکمل تباہ کر دیا گیا۔ تفصیلی رپورٹ اس لنک میں موجود ہے: https://urdu.palinfo.com/?p=303755
الغرض حماس اس حملے سے قیدیوں کو آزاد کرانا چاہ رہا تھا لیکن نتیجے میں قیدیوں کی تعداد دو گنا ہوگئی، ان پر ظلم وتشدد کو بڑھا دیا گیا، اس پر مستزاد ہزاروں خاندانوں کو ملیامیٹ کر دیا گیا، لاکھوں لوگ شہید اور زخمی ہوگئے، پورا غزہ ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا اور لوگ بنیادی انسانی ضروریات سے محروم ہوگئے۔
لہٰذا ہونا یہ چاہیے تھا کہ حماس اپنا محاسبہ کرتا، اپنے اس اقدام پر افسوس وندامت کے آنسو بہاتا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتا، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس خوفناک تباہی اور خوفناک نسل کشی کے باوجود حماس کو اپنے اس اقدام پر نہ ہی کوئی افسوس وندامت ہے اور نہ ہی اپنی غلطی کا اعتراف، بلکہ وہ اس کارروائی کو فتح سے تعبیر کر رہا ہے اور اس کے واقعات کو بڑے فخریہ انداز میں بیان کر رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اسلام میں فتح ونصرت کا یہی معیار ہے؟ کیا اسلام میں جہاد کا یہی تصور موجود ہے؟ کیا امت کو ایسی تباہ کن اور ہولناک جنگ میں دھکیلنا جہاد ہے؟
اہل علم نے جہاد کی مشروعیت کی جو مصلحتیں بیان فرمائیں ہیں ان میں: دین اسلام کا غلبہ، فتنہ وفساد کا قلع قمع، امن کا قیام، سرحدوں کی حفاظت، مسلمانوں کی طاقت اور شوکت میں اضافہ، ان کی جان ومال، عزت وآبرو اور مصالح عامہ کا تحفظ جیسی چیزیں ہیں۔ لہٰذا اگر جہاد سے یہ مقاصد حاصل نہ ہوں بلکہ اس کے برعکس یہ اسلام اور اہل اسلام کی ذلت و نکبت اور کمزوری کا باعث بنے، ان کی جان ومال اور عزت وآبرو سب مزید خطرے میں پڑ جائیں اور مفاسد مصالح سے زیادہ ہوں تو ایسی صورت میں جہاد کرنا غالب ضرر کی وجہ سے ممنوع اور حرام ہو جاتا ہے، اس تعلق سے علمائے اسلام اور فقہائے عظام کے بہت سارے اقوال موجود ہیں، ان میں سےچند یہ ہیں:
علامہ عز الدین بن عبد السلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”التولي يوم الزحف مفسدة كبيرة، لكنه واجب إن علم أنَّه يُقتل في غير نكاية في الكفار، لأنّ التغرير في النفوس إنما جاز لما فيه من مصلحة إعزاز الدين بالنكاية في المشركين، فإذا لم تحصل النكاية، وجب الانهزام لما في الثبوت من فوات النفوس مع شفاء صدور الكفار، وإرغام أهل الإسلام، وقد صار الثبوت هنا مفسدة محضة ليس في طيها مصلحة.“ [قواعد الاحکام: 1/111]
’’میدان جنگ میں دشمن کو پیٹھ دکھانا بہت بڑا فساد ہے، مگر یہ اُس وقت واجب ہوجاتا ہے جب بغیر دشمن کو ضرر پہنچائے خودکا قتل ہو جانا یقینی ہو۔ کیونکہ جانوں کو خطرے میں ڈالنا اس وقت جائز ہے جب اس میں مشرکوں کو نقصان پہنچاکر دین کے غلبہ کی مصلحت مضمر ہو۔ لیکن اگر دشمن کو نقصان نہ پہنچ سکے، تو پیچھے ہٹنا ضروری ہو جاتا ہے، کیونکہ ایسی صورت میں دشمن کے سامنے ثابت قدم رہنے میں جانیں ضائع ہوتی ہیں اور دشمن کے دلوں کو سکون ملتا ہے، جس سے اہل اسلام کی توہین ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں ثابت قدمی سراسر نقصان دہ ہے اور اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وأما مسألة حمل الواحد على العدد الكثير من العدو، فصرح الجمهور بأنه إن كان لفرط شجاعته، وظنه أنه يرهب العدو بذلك، أو يجرئ المسلمين عليهم، أو نحو ذلك من المقاصد الصحيحة فهو حسن، ومتى كان مجرد تهوّر فممنوع، ولا سيما إن ترتّب على ذلك وهن في المسلمين، والله أعلم.“ [فتح الباري لابن حجر:8/ 186]
’’جمہور علماء نے صراحت کی ہے کہ اگر ایک شخص دشمن کی کثیر تعداد پر حملہ اپنی انتہائی شجاعت بہادری کی وجہ سے، اور یہ گمان کرتے ہوئے کہ اس طرح دشمن میں خوف پیدا ہوگا، یا مسلمانوں کو دشمن پر حملہ کرنے میں جرأت ملے گی، یا اس جیسے صحیح مقاصد کے لیے کرتا ہے، تو یہ عمل مستحسن ہے۔ لیکن اگر یہ محض جذبات میں آکر اور بغیر سوچے سمجھے کیا گیا ہو، تو یہ ممنوع ہے، خاص کر اگر اس کا نتیجہ مسلمانوں میں کمزوری کی صورت میں مرتب ہو۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ صبر اور جہاد کے مختلف احوال کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”فمن كان من المؤمنين بأرض هو فيها مستضعف، أو في وقت هو فيه مستضعف، فليعمل بآية الصبر والصفح عمن يؤذي الله ورسوله من الذين أوتوا الكتاب والمشركين، وأما أهل القوة فإنما يعملون بآية قتال أئمة الكفر الذين يطعنون في الدين , وبآية قتال الذين أوتوا الكتاب حتى يعطوا الجزية عن يد وهم صاغرون.“
[الصارم المسلول: 2 / 413 – 414]
’’اہل ایمان اگر کسی ایسی سرزمین میں ہوں جہاں وہ کمزور ہوں تو وہ ان آیتوں پر عمل کریں جن میں اہل کتاب اور مشرکین کی طرف سے اللہ اور اس کے رسول کو اذیت وتکلیف پر صبر ودرگزر کی تلقین کی گئی ہے ،اور اگر وہ طاقتور ہیں تو ان آیتوں پر عمل کریں جن میں ائمہ کفر کے ساتھ قتال کا حکم ہے جو دین کو مطعون کرتے ہیں اور ان آیتوں پر عمل کریں جن میں اہل کتاب کے ساتھ جنگ کا حکم ہے یہاں تک کہ وہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھوں سے جزیہ ادا کریں۔‘‘
علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”الدفاع عن الأرض واجب، أما هذه الهجمات التي في أكثر الأحيان تكون الخسارة المترتبة عليها أكثر من الربح -كما هو مشاهد- في كثير من أمثال هذه الهجمات، فليس هذا هو الجهاد الذي يوجب على المسلمين كافة أن ينفروا كما جاء في القراٰن-، إنما هو الجهاد الذي أشار الله -عز وجل- إليه في اٰية أخرى: {وَلَوْ أَرَادُواْ الْخُرُوجَ لأَعَدُّواْ لَهُ عُدَّةً}، ولذلك فعلى المسلمين -كما صرحنا بهذا في أكثر من مناسبة- أن يعودوا إلى أنفسهم، وأن يفهموا شريعة ربهم فهماً صحيحاً.“ [تفريغ ’’سلسلۃ الھدی والنور‘‘ للشيخ الالباني – الاصدار 4، 714/ 4]
’’زمین کا دفاع فرض ہے، لیکن یہ حملے جو زیادہ تر اوقات میں نقصان کا سبب بنتے ہیں اور ان سے فائدہ کم ہوتا ہے-جیسے کہ بہت سے ایسے حملوں میں مشاہدہ کیا جاتا ہے- یہ وہ جہاد نہیں ہے جو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ سب نکل کر حصہ لیں، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے؛ بلکہ یہ وہ جہاد ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں ذکر کیا: {وَلَوْ اَرَادُواْ الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَهُ عُدَّةً}، یعنی: اور اگر واقعی ان لوگوں نے (جہاد کے لیے) نکلنے کا ارادہ کیا ہوتا تو اس کے لیے کچھ نہ کچھ سازوسامان کی تیاری ضرور کرتے، اس لیے مسلمانوں پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنے آپ سے رجوع کریں، اور اپنے رب کی شریعت کو صحیح طور پر سمجھیں۔‘‘
علامہ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ جہاد کے شروط بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’لابد فيه من شرط، وهو أن يكون عند المسلمين قدرة وقوة يستطيعون بها القتال، فإن لم يكن لديهم قدرة، فإن إقحام أنفسهم في القتال إلقاء بأنفسهم إلى التهلكة؛ ولهذا لم يوجب الله – سبحانه وتعالى – على المسلمين القتال وهم في مكة؛ لأنهم عاجزون ضعفاء، فلما هاجروا إلى المدينة، وكوَّنوا الدولة الإسلامية، وصار لهم شوكة أُمروا بالقتال، وعلى هذا فلابد من هذا الشرط، وإلا سقط عنهم كسائر الواجبات؛ لأن جميع الواجبات يشترط فيها القدرة؛ لقوله تعالىٰ: {فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ}، وقوله: {لاَ يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا}.‘‘
[الشرح الممتع علی زاد المستقنع8/ 7]
’’اس میں ایک شرط ہے، اور وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس اتنی طاقت اور قوت ہونی چاہیے کہ وہ لڑائی کر سکیں، اگر ان کے پاس طاقت نہ ہو، تو اپنی جانوں کو لڑائی میں شامل کرنا خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے؛ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر مکہ میں لڑائی فرض نہیں کی تھی؛ کیونکہ وہ عاجز اور کمزور تھے، لیکن جب وہ مدینہ ہجرت کر گئے، اسلامی ریاست قائم کی اور ان کے پاس طاقت آگئی، تو ان کو لڑائی کا حکم دیا گیا۔ اس لیے یہ شرط ضروری ہے، ورنہ یہ دیگر واجبات کی طرح ساقط ہو جائے گا؛ کیونکہ تمام واجبات میں طاقت کا ہونا ضروری ہے؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ}، اور فرمایا: {لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا}۔‘‘
ائمہ اسلام کے ان اقوال سے پتہ چلتا ہے کہ دشمن کے ساتھ جہاد کبھی واجب ہوتا ہے اور کبھی ممنوع اور حرام ہوتا ہے، مثلا: جب مسلمان کمزوری اور ضعف کی حالت میں ہوں اور ان کے پاس دشمن سے مقابلے کی طاقت نہ ہو، یا جہاد کی وجہ سے مسلمانوں کی طاقت ٹوٹ جائے اور وہ مزید کمزور ہو جائیں، یا دین کے غلبے اورکسی مصلحت راجحہ کے بغیر مسلمانوں کی جانیں ضائع ہوں اور جنگ سے مرتب ہونے والے فوائد نقصانات سے زیادہ ہوں۔
اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے نبی محمدﷺ نے دشمنوں کے ساتھ صرف جہاد کا راستہ اختیار نہیں کیا، بلکہ آپ نے دشمنوں کے ظلم وستم پر صبر سے بھی کام لیا، دشمنوں کی ایذا رسانی کی وجہ سے ہجرت بھی کی، دشمنوں کے ساتھ صلح بھی کیا، کبھی آپ صلح میں بعض ایسی شرطوں پر بھی راضی ہوگئے جن میں بظاہر اہل اسلام کی پسپائی نظر آرہی تھی، گویا حالات وظروف کے اعتبار سے جہاد، صبر، ہجرت اور صلح یہ چاروں امور مشروع ہیں، لہٰذا حالت جس صورت کی متقاضی ہو اسی پر عمل کرنا منہج نبوی اور حکمت ومصلحت کا تقاضا ہے، اور اس کی مخالفت کرنا بسا اوقات سخت ہلاکت اور تباہی کا موجب ہے۔
اب کیا حماس کے پاس واقعی اتنی طاقت اور قوت ہے کہ وہ اسرائیل اور اس کی حلیف طاقتوں کے ساتھ جنگ کر سکے؟ یا پھر اس پر قرآن کریم کی یہ آیت منطبق ہوتی ہے {وَلَوْ اَرَادُوْا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَهُ عُدَّةً}، یعنی: اور اگر واقعی ان لوگوں نے (جہاد کے لیے) نکلنے کا ارادہ کیا ہوتا تو اس کے لیے کچھ نہ کچھ سروسامان کی تیاری ضرور کرتے۔
جیسا کہ معلوم ہے اسرائیل جدید ترین اسلحوں، ترقی یافتہ ہتھیاروں اور مضبوط دفاعی سسٹم کا حامل ایک مضبوط ملک ہے، نیز اس کے ساتھ امریکہ، برطانیہ اور دیگر عالمی طاقتیں شانہ بشانہ کھڑی ہیں، گویا اسرائیل کے خلاف جنگ کرنا اسرائیل کے ساتھ ان عالمی قوتوں کے خلاف بھی اعلانِ جنگ ہے۔
جبکہ حماس کے پاس نہ ہی اینٹی میزائل ڈیفنس سسٹم ہے، نہ ہی اینٹی ٹینک و راکٹ ہے، نہ اس کے پاس دشمن کے جدید ترین اور تباہ کن اسلحے کو روکنے کی صلاحیت ہے، نہ ہی عورتوں، بچوں اور عام شہریوں کو دشمن کے حملے سے بچانے کے لیے کوئی اسٹراٹیجی اور منصوبہ بندی ہے، نہ ہی جنگ کے دوران اشیاء خوردونوش اور زخمیوں کے علاج کے لیے ہاسپیٹل اور دوائیوں کا پائیدار انتظام وبندوبست، یہاں تک کہ پانی اور بجلی کی مکمل سپلائی اسرائیل کے ہاتھ میں ہے، یعنی وہ پانی اور بجلی جیسی بنیادی ضروریات کے لیے بھی اس دشمن کا محتاج ہے جس کو مٹانے کا دعویٰ کر رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حماس کی اس احمقانہ کارروائی کے بعد اسرائیل نے جس طرح چاہا غزہ میں تباہی مچائی، بچوں، عورتوں، مریضوں، بوڑھوں اور عام مسلمانوں کا قتل عام کیا، ان کی نسل کشی کی، زخمیوں کو علاج ومعالجہ سے محروم رکھا، ان کو تڑپنے، سسکنے اور دم توڑنے پر مجبور کیا، جس طرح چاہا لوگوں کے سروں پر بم اوربارود کے گولے برساتے رہا،ان کے خلاف ممنوعہ کیمیائی ہتھیار اور فاسفورس بموں کا استعمال کرتا رہا، ان کی بوٹیاں نوچتا رہا، انھیں ایک ایک دانے کے لیے تڑپنے پر مجبور کیا، ان کے گھروں کو مسمار کرتا رہا، مسجدوں، اسپتالوں، یونیورسیٹیوں، تعلیمی اور دینی اداراوں، تاریخی اور سیاحتی مقامات نیز آثار قدیمہ کو زمین دوز کرتا رہا، قیدیوں کے جسم کے کپڑے اتار کر انھیں سر عام ذلیل کرتا رہا، پورے شہر کو کھنڈرات اور ملبے میں تبدیل کر دیا، لیکن حماس کی فوج یا تو میدان سے غائب رہی یا پھر اپنی بے بسی کی وجہ سے تباہی کے مناظر دیکھتی رہی۔
لیکن اس کے باوجود حماس کو زعم ہے کہ وہ فلسطینی مسلمانوں کی آزادی کے لیے اسرائیل سے جہاد کر رہا ہے، وہ اسرائیل کی طاقت کو چیلنج کر رہا ہے اور اس کا ہر اقدام فلسطین کی آزادی کے لیے ہے، تو کیا اسلام میں جہاد کا یہی مطلب ہے؟ کیا کتاب وسنت کے دلائل اور علمائے اسلام کے اقوال سے جہاد کا یہی مفہوم نکلتا ہے؟
کیا ہمارے نبی محمدﷺ نے کبھی بلا تیاری اور بغیر کسی پلاننگ اور منصوبہ بندی کے دشمن کے ساتھ ایسی کوئی جنگ لڑی ہے؟ حالانکہ آپ اللہ کے پیغمبر تھے، آپ کو رب کی قدرت پر سب سے زیادہ یقین تھا اور رب سے نصرت وتائید کی امید آپ کو سب سے زیادہ تھی، پھر بھی آپ جنگ کے لیے حکمت عملی، منصوبہ بندی، تیاری اور پلاننگ کرتے تھے، میدان جنگ میں زرہ، خود،تلوار اور نیزے کا استعمال کرتے تھے، عورتوں، بچوں اور معذور افراد کو محفوظ قلعوں اور مامون جگہوں میں رکھتے تھے، غزوہ خندق میں آپ نے بڑی مشقت کے ساتھ اور بھوک پیاس برداشت کرکے خندق کھودی تاکہ دشمن مدینہ کے اندر داخل نہ ہو سکیں، جنگ بدر میں آپ نے حباب بن منذر رضی اللہ عنہ کے مشورے پر اس جگہ کا انتخاب کیا جہاں سے پانی کے کنویں پر کنٹرول رہے، اور ان سب مادی اور ظاہری اسباب ووسائل استعمال کرنے کے بعد بھی آپ کی حالت یہ تھی کہ آپ مسلسل رب کے سامنے گڑگڑا رہے تھے اور بار بار یہ دعا کر رہے تھے:
اللهم إن تهلك هذه العصابة لن تعبد في الأرض أبدا”، قال: فما زال يدعو مادًّا يديه حتى سقط رداؤه.
[صحيح مسلم3/ 1383، رقم:1763]
’’اے اللہ اگر یہ مقدس گروہ ختم ہو جائے تو پھر زمین میں تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں بچے گا، آپ مسلسل اپنے ہاتھوں کو پھیلائے یہ دعا کرتے رہے یہاں تک کہ کندھوں سے آپ کی چادر گر گئی۔‘‘
گویا رب کی نصرت اور تائید اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب رب کے احکام پر عمل کیا جائے، اور اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے ہر ممکن مادی اور معنوی تیاری کریں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
{وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمْ } [انفال: ۶۰]
’’اور کافروں کے مقابلے کے لیے ہر ممکن طاقت اور فوجی گھوڑوں کو تیار کرو، جن کے ذریعہ تم اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو مرعوب کروگے۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ اگر حماس ایسی حرکت نہیں بھی کرتا پھر بھی اسرائیل کو وہی کرنا تھا۔
یہ انتہائی غیر معقول دلیل ہے، کیونکہ یہ بدیہی امر ہے کہ کمزور مقابل کے رد عمل سے مضبوط دشمن مزید ضدی، ہٹ دھرم اور مجرم بن جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مکہ میں مسلمانوں کو اپنے ہاتھوں کو روکے رکھنا کا حکم دیا گیا تھا۔ {اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَهُمْ كُفُّوْۤا اَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ} [النساء: ۷۷] کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا کہ اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو ، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو ۔
چنانچہ صحابہ کرام میں سے کسی نے بھی مکہ میں رد عمل میں ابو جہل، ابو لہب، امیہ بن خلف، عقبہ بن أبی معیط، عتبہ، شیبہ جیسے صنادید قریش میں سے کسی کا قتل نہیں کیا تھا، اور نہ ہی آپ ﷺ نے اس طرح کا کوئی فرمان جاری کیا تھا، حالانکہ وہ ایسا کرنے پر قادر تھے اور اس کے اسباب بھی موجود تھے۔ کفار قریش نے سمیہr کا بڑی بے درری سے قتل کیا تھا، بلال حبشی، صہیب رومی اور دیگر کمزور مسلمانوں پر ظلم وستم کی انتہا کر دی گئی تھی، صحابہ کرام کو حبشہ ہجرت کرنے پر مجبور ہونا پڑا تھا، پھر بعد میں ان کے ظلم وستم سے تنگ آکر وہ مدینہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے، لیکن ان سارے مظالم کے باوجود اس وقت مسلمانوں کو اپنے ہاتھوں کو روکے رکھنا کا حکم تھا، اس کی وجہ اہل علم نے یہ بیان کی ہے کہ مسلمانوں کے پاس مکہ میں طاقت اور قوت نہیں تھی، وہ کفار کے زیر نگیں تھے، لہٰذا اگر وہ کوئی بھی ایسا اقدام کرتے تو کفار قریش کو انھیں چن چن کر قتل کرنے اور ان کا صفایا کرنے کا بہترین موقع مل جاتا اور پوری قوت کے ساتھ وہ اس دعوت کو کچل کر رکھ دیتے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حماس کا یہ رد عمل جہاد الدفع کے قبیل سے ہے اور جہاد الدفع میں قوت یا ولی امر کی شرط ساقط ہو جاتی ہے۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ بنیادی طور پر اقدامی جہاد اور دفاعی جہاد دونوں کے لیے یکساں شرطیں ہیں، نصوص میں ایسی کوئی تفریق موجود نہیں ہے، البتہ دفاعی جہاد میں بعض شرطیں اضطراری صورت میں ساقط ہو جاتی ہیں جس کی وضاحت اہل علم نے کی ہے، جیسے اگر دشمن کسی مسلم ملک پر اچانک دھاوا بول دے اور ولی امر سے اجازت طلب کرنے کا وقت نہ ہو، دشمن کے ملک کے اندر داخل ہو نے کا خدشہ ہو تو ایسی اضطراری صورت میں ولی امر کی اجازت کی شرط ساقط ہو جاتی ہے۔ اسی طرح دفع صائل میں قوت اور ولی امر دونوں شرطیں ساقط ہو جاتی ہیں، جبکہ اہل غزہ کا مسئلہ اس سے مختلف ہے، اس لیے اقدامی جہاد کے لیے جو شرطیں ہیں وہ یہاں بھی مطلوب ہیں، ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ جہاں تقریبا پچیس لاکھ لوگ بستے ہیں وہاں پر چند لوگوں کو حماقت کی اجازت دی جائے چاہے اس کا خمیازہ تمام لوگوں کو بھگتنا پڑے، نہ ہی شریعت اس کی اجازت دیتی ہے اور نہ ہی عقل سلیم اس کو ماننے کے لیے تیار ہے۔
شریعت میں کسی ایسے عمل کی قطعا گنجائش نہیں ہے جو ظلم وجور،بگاڑ اورفساد کا موجب اور حکمت ومصلحت سے عاری ہو۔
ابن القیم رحمہ اللہ پوری شریعت اسلامیہ کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”إن الشريعة مبناها وأساسها على الحكم ومصالح العباد المعاش والمعاد، وهي عدل كلها، ورحمة كلها، ومصالح كلها، وحكمة كلها، فكل مسألة خرجت عن العدل إلى الجور، وعن الرحمة إلى ضدها، وعن المصلحة إلى المفسدة وعن الحكمة إلى العبث فليست من الشريعة، وإن أدخلت فيها بالتأويل.“ [إعلام الموقعين: 1/ 41]
’’شریعت اسلامیہ کی بنیاد اور اساس حکمتوں اور بندوں کے معاش ومعاد کے مصالح پر مبنی ہے، یہ سراپا عدل، رحمت، مصالح اور حکمت پر مبنی ہے، پس کوئی بھی مسئلہ جو عدل سے جور کی طرف، رحمت سے ظلم کی طرف، مصلحت سے مفسدت کی طرف اور حکمت سے عبث کی طرف نکل جائے تو وہ شریعت نہیں ہو سکتی ہے گرچہ تاویل کے ذریعہ اس کو شریعت میں داخل کیا جائے۔‘‘
الغرض حماس جو کام جہاد جیسے مقدس لفظ کی آڑ میں کر رہا ہے وہ در اصل فتنہ وفساد اور تخریب کاری ہے، جہاد کا ایک ناقص اور گمراہ کن تصور ہے، البتہ ہم حماس کے عام جنگجو سے متعلق یہ حسن ظن رکھتے ہیں کہ وہ یہ کام اخلاص اور صدق نیت سے کر رہے ہوں گے، اس لیے ہم ان کے معاملے کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔
لیکن یہی حسن ظن حماس کے ان بڑے رہنماؤں کے تعلق سے بھلا کیسے رکھا جا سکتا ہے جو عبد اللہ بن سبا کی نسل سے راہ ورسم رکھتے ہیں، جن کے نزدیک اس امت کے یہود یعنی روافض ہی قابل اعتماد ہیں، جو دشمنان صحابہ کو اپنا دوست اور حلیف قرار دیتے ہیں، جو خمینی زندیق لعین کو اپنا پیشوا اور روحانی باپ قرار دیتے ہیں، جن کے یار غار وہ لوگ ہیں جن کے جسم کے ریشے ریشے میں غداری، خیانت، مکاری، عداوت اور بغض ونفرت کے خون دوڑ رہے ہیں، جن کے یہاں امت کے مسیحا وہ لوگ ہیں جنھوں نے خیار امت کا قتل کیا ہے، ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کی تکفیر کی ہے، اماں عائشہ پر تہمت لگایا ہے، جو خود کو اس بلاک کا حصہ قرار دیتے ہیں جس نے حال میں محض پچھلے پندرہ سالوں میں شام، عراق، یمن اور لبنان کے پچاس لاکھ مسلمانوں کو بڑی بے دردی سے قتل کیا ہے اور کڑوروں کو بے گھر ہونے پر مجبور کیا ہے، لاکھوں پاکدامن خواتین کی عفتوں اور عصمتوں پر ڈاکہ ڈالا ہے، جو میڈیا میں آکر صرف ان کی تعریف کرتے ہیں اور شکریہ ادا کرتے ہیں جنھوں نے اہل فلسطین کے لیے کبھی ایک بوتل پانی تک نہیں بھیجا ہے۔
جو پوری بے حیائی اور صراحت کے ساتھ فلسطینی مزاحمت کے ہیرو انھیں قرار دے رہے ہیں جن کے مکر وفریب، خیانت وغداری، شر انگیزی وفتنہ پروری، سازش ودسیسہ کاری سے باخبر کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
”وأما استخدام مثل هؤلاء (الروافض) في ثغور المسلمين أو حصونهم أو جندهم فإنه من الكبائر. وهو بمنزلة من يستخدم الذئاب لرعي الغنم: فإنهم من أغش الناس للمسلمين ولولاة أمورهم، وهم أحرص الناس على فساد المملكة والدولة، وأحرص الناس على تسليم الحصون إلى عدو المسلمين، وعلى إفساد الجند على ولي الأمر، وإخراجهم عن طاعته.“
[الفتاویٰ الکبریٰ لابن تيميۃ:3/509]
’’جہاں تک روافض کو مسلمانوں کی سرحدوں، قلعوں یا فوج میں استعمال کرنے کا تعلق ہے تو یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ یہ ویسا ہی ہے جیسے کوئی بکریوں کو چرانے کے لیے بھیڑیوں کا استعمال کرے، یہ لوگ مسلمانوں اور ان کے حکام کو دھوکہ دینے، اسلامی سلطنت اور ریاست کو برباد کرنے اور مسلمانوں کے قلعوں کو ان کے دشمنوں کے حوالے کرنے میں سب سے زیادہ کوشاں رہتے ہیں، نیز فوج کو ان کے حکمرانوں کی اطاعت سے باہر کرنے اور انھیں بگاڑنے کی سب سے زیادہ کوشش کرتے ہیں۔‘‘
ایک جگہ اور فرماتے ہیں:
”فقد عرف من موالاتهم لليهود والنصارى والمشركين ومعاونتهم على قتال المسلمين ما يعرفه الخاص والعام حتى قيل إنه ما اقتتل يهودي ومسلم ولا نصراني ومسلم ولا مشرك ومسلم إلا كان الرافضي مع اليهودي والنصراني والمشرك.“ [منھاج السنۃ النبويۃ:3/452]
’’ ان رافضیوں کی یہود ونصاری اور مشرکین سے دوستی اور مسلمانوں کے خلاف ان کا تعاون عوام وخواص سب کے یہاں اس قدر معروف ہے کہ کہا جاتا ہے : جب بھی ایک مسلمان کی کسی یہودی، یا نصرانی یا مشرک سے لڑائی ہوجائے تو رافضی ہمیشہ یہودی، نصرانی اور مشرک کے ساتھ ہوگا۔‘‘
مشہور حنبلی فقیہ ابو السعادات بہوتی فرماتے ہیں:
’’وَيَحْرُمُ أَنْ يَسْتَعِينَ مُسْلِمٌ بِأَهْلِ الْأَهْوَاءِ كَالرَّافِضَةِ فِي شَيْءٍ مِنْ أُمُورِ الْمُسْلِمِينَ مِنْ غَزْوٍ، وَعِمَالَةٍ، وَكِتَابَةٍ، وَغَيْرِ ذَلِكَ؛ لِأَنَّهُ أَعْظَمُ ضَرَرًا، لِكَوْنِهِمْ دُعَاةً، بِخِلَافِ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى. [کشاف القناع عن متن الاقناع:7/86]
’’اور یہ حرام ہے کہ کوئی مسلمان روافض جیسے ہوی پرستوں سے مسلمانوں کے کسی بھی معاملے میں مدد لے، جیسے کہ جنگ، خدمت گزاری اور منشی گری وغیرہ، کیونکہ ان کا نقصان سب سے زیادہ ہے۔‘‘
گویا یہ روافض امت اسلامیہ کے لیے نہ کبھی خیر خواہ رہے ہیں اور نہ رہیں گے، ان کی کوشش ہمیشہ یہی رہتی ہے کہ وہ مسلم حکمرانوں کے خلاف بغاوت اور شورش کا ماحول پیدا کریں، اسلامی ریاست کو نقصان پہنچائیں ، اس کو دشمنوں کے حوالے کریں یا خود ہتھیا لیں، اور ان کے خلاف یہودی، صلیبی اور صہیونی کا ساتھ دیں۔
لیکن حماس کے رہنما مختلف بیانات میں پوری صراحت کے ساتھ اس بات کا اعلان کرتے رہتے ہیں کہ فلسطینی مزاحمت کے محور: ایران، حزب اللہ، حوثی، شام کی سابقہ اسدی حکومت اور الحشد الشعبی ہیں، یعنی خالص رافضی بلاک۔ اب اگر حماس کے رہنما خود کو اس بلاک کا حصہ قرار دے رہے ہیں اور اسی بلاک کے مشورے پر وہ اسرائیل پر حملہ کرتے رہتے ہیں، وقت اور جگہ کا انتخاب کرتے ہیں، مفاسد اور مصالح کی تعیین کرتے ہیں، تو اس جنگ کا جو لازمی اور منطقی نتیجہ ظاہر ہونا چاہیے تھا وہی ہوا، جس طرح شام، عراق، یمن اور لبنان اس رافضی بلاک کے ہاتھوں برباد ہوئے، وہی غزہ کا بھی حشر ہوا، البتہ یہاں وہ کام اسرائیل کے ہاتھوں کرایا، شاید اسی وجہ سے غزہ کی تباہی کو یہ بلاک اپنی بہت بڑی کامیابی کے طور پر دیکھ رہا ہے۔
ورنہ لاشوں کے ڈھیر، لہولہان جسموں، اجڑتی آبادی اور شہر کی ویرانی پر کون جشن مناتا ہے؟ غزوہ احد میں تو صحابہ کرام میدان جنگ میں اپنے ستر ساتھیوں کے کھونے پر غم سے نڈھال تھے، لیکن یہ حماسی رہنما کس اسلام کی نمائندگی کر رہے ہیں کہ اس خوفناک نسل کشی اور امت کی اس ذلت، بے بسی اور لاچاری کو فتح ونصرت کا نام دے رہےہیں؟
بھلا ہم حماس کے ان رہنماؤوں سے کیسے حسن ظن رکھیں جن کے نزدیک عرب حکمراں تو امریکہ کے غلام ہیں اور عرب حکومتیں امریکہ کے رحم وکرم پر چل رہی ہیں لیکن وہ انھی سے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ جنگ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، لیکن وہ یہ مطالبہ ایران، حزب اللہ، حوثی، حشد شعبی، شام کی سابقہ حکومت سے نہیں کرتے ہیں جن کو وہ فلسطینی مزاحمت کا محور اور اپنا حلیف قرار دیتے ہیں اور جو صبح وشام امریکہ واسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکیاں بھی دیتے رہتے ہیں۔
اسی طرح وہ اردگان کو بھی آواز نہیں دیتے ہیں جن کے بارے میں ان کا دعوی ہے کہ وہ امت اسلامیہ کے سب سے بڑے ہمدرد، خلافت اسلامیہ کے حقیقی جانشین اور ایک بہادر اور بے خوف لیڈر ہیں، حقیقت میں جن کے پاس عرب ممالک سے زیادہ طاقتور فوج، جدید ہتھیار اور ذاتی ٹیکنالوجی موجود ہے۔
کیا اس کی وجہ اس کے علاوہ اور کچھ ہو سکتی ہے کہ وہ عربوں کو ایک ایسی جنگ میں جھونکنا چاہتے ہیں جن میں ان کی شکست اور تباہی یقینی ہے، وہ اپنی اس شکست اور تباہی کے مناظر سے اپنے مخصوص ایجنڈے کی تکمیل چاہتے ہیں، کیا گاہے بگاہے اسرائیل کے ساتھ جنگ کی آگ کو سلگانے کے بعد عربوں کو اکسانے، عار دلانے اور ان پر لعنت وملامت کی تیر برسانے کے پیچھے یہی مقاصد کار فرما ہیں؟
لہٰذا بظاہر یہی لگتا ہے کہ حماس کے رہنما اپنے بلاک کے دین اور مذہب پر ہیں اور ان کا مشترک مشن: اہل سنت کا صفایا کرنا، سنی حکومتوں کو گرانا، انھیں دشمنوں کے حوالے کرنا، صہیونی صلیبی اور صفوی ایجنڈے کی توسیع کرنا وغیرہ ہیں۔
اس لیے ضرورت ہے کہ امت اسلامیہ کے نوجوان ہوش کے ناخن لیں، دوست اور دشمن کے درمیان تمیز کرنا سیکھیں، فلسطین اور جہاد کے نام پر بلیک میل ہونا بند کریں۔ یاد رکھیں کہ نہ ہی روافض امت کے لیے کبھی خیر خواہ ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے مشورے پر چلنے والے اہل فلسطین کو اسرائیل سے کبھی آزادی دلا سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ جلد از جلد اہل فلسطین کو غاصب یہود سے آزادی دے، امت اسلامیہ کو ان کے شر سے محفوظ رکھے، مقتولین کو شہداء میں قبول فرمائے، یہود کو ہلاک وغارت کرے اور اہل فلسطین کے خلاف سازش کرنے والوں کو تباہ وبرباد کرے۔ آمین یا رب العالمین
Baarakallahu feekum wa jazakumullahu Khairan
وإياكم