بروز جمعہ۵؍ شوال۱۴۴۶ھ بمطابق ۴؍ مارچ۲۰۲۵ء جمعہ سے کچھ دیر قبل مولانا محبوب الرحمن عمری مدنی کی خبر وفات نے سینکڑوں علماء، طلبہ اور عام لوگوں کو غمگین کردیا اور میرے لیے یہ خبر بڑی حیرت کا باعث بنی کیوں کہ آپ کی وفات سے کچھ گھنٹے پہلے ہی میں نے آپ سے فون پر گفتگو کی تھی اور گفتگو سے کہیں کسی بیماری یا کمزوری کے آثار نہیں نظر آرہے تھے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیمی مراحل:
آپ کی پیدائش سن۱۹۵۱ء میں کرناٹک ضلع بیجاپور کے ایک قصبہ چٹرکی میں ہوئی۔ پانچویں جماعت تک کی ابتدائی تعلیم آپ کے گاؤں ہی میں ہوئی پھر آپ نے جامعہ دارالسلام عمرآباد میں تعلیم حاصل کی اور سن ۱۹۷۳ء میں سند فضیلت حاصل کی۔ امتیازی نتیجہ کی بنا پر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تعلیم حاصل کرنے کی سعادت حاصل کی، آپ نے وہاں كلیۃ اللغۃ سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی، رسالہ کا عنوان تھا: النقد الأدبي عند ابن جني
آپ نے میسور یونیورسٹی سے اردو میں بھی ایم اے کیا اور ایس وی یونیورسٹی تروپتی سے منشی فاضل فارسی میں کیا نیز افضل العلماء عربی نصاب مدراس یونیورسٹی سے مکمّل کیا۔ یوں آپ عربی، اردو، فارسی اور کنڑا کےمستند اور ماہر عالم بن گئے۔
تدریسی خدمات:
جامعہ دارالسلام عمرآباد میں ایک سال (۱۹۷۴ء)
جامعہ محمدیہ عربیہ رائے درگ میں ایک سال(۱۹۷۵ء)
محمدیہ اورینٹل ہائی اسکول رائے درگ میں ڈھائی سال(۱۹۷۶ء تا ۱۹۷۸ء)
شہر بیجاپور کے معروف کالج سیکاب کالج میں بحیثیت عربک لکچرار ۱۹۸۶ء سے ۲۰۱۱ء تک خدمت انجام دیتے رہے۔ ۲۰۱۱ء میں وظیفہ یاب ہوئے لیکن کالج کے بانی وصدر جناب شمس الدین پونيکر صاحب کے اصرار پر اس کے بعد بھی کالج سے جڑے رہے اور وہاں مدرسین کی ٹریننگ کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ یہاں آپ کے تربیت یافتہ مدرسین میں مولانا عبد السبحان عمری ،مولانا عبد الرشید سرخی عمری اور عمران محبوب عمری بلکہ عربی شعبہ سے جڑے تمام ہی اساتذہ آپ کے فیض یافتہ ہیں۔
خطابت اور تقریر:
۱۹۹۵ءمیں مجھے مسجد قنات بیجاپور میں تراويح سنانے کا موقع ملا تو آپ یہاں کبھی درس تفسیر کے لیے اور کبھی طاق راتوں میں خطاب کےلیےتشریف لایا کرتے۔
لوگ بڑے انہماک اور شوق سے آپ کی تقریر سنا کرتے۔ دینی اجتماعات میں لوگ بے صبری سے آپ کی باری کا انتظار کرتے ،بڑے منجھے ہوئے خطیب اور مقرر تھے ۔خطاب میں نصوص کتاب وسنت کے ساتھ ساتھ مرجع کی حیثیت والی کتابوں کے حوالے دیتے، موقع ومحل سے اردو عربی اشعار کا استعمال کرتے۔ کبھی انگریزی اور کنڑا زبان کے جملے سامعین کی دلچسپی کو بڑھادیتے۔ جب آپ کا خطاب جاری رہتا مجلس بندھی کی بندھی رہتی افراتفری کا عالم بالکل نہ ہوتا، دردمندانہ خطاب ہوتا۔ انڈی، سندگی دیور ہپرگی ہنچال بلکہ پورے ضلع بیجاپور میں مختلف مقامات جہاں بھی جمعیت و جماعت کے پروگرام ہوتے آپ پہنچتے اور دعوت واصلاح کا فریضہ انجام دیتے۔
تصنيف و تالیف:
(۱)النقد الأدبي عند ابن جني (غير مطبوع) عربی ادب و تنقید کے موضوع پر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ماجستیر کے لیے لکھا گیا رسالہ جو ۳۳۷صفحات پر مشتمل ہے۔
(۲)بساتین سلاطین (عادل شاہان بیجاپور کی مکمل تاریخ) مؤلف محمد ابراہيم زبیری
آپ نے فارسی مخطوطہ سے اردو ترجمہ کیا جو۴۸۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب سیکاب کالج نے طبع کروائی اور یہی آپ کی کلیدی تصنیف ہے جس کے لیے آپ نے کئی سال انتھک محنت کی۔اس کے علاوہ ملک کے مشہور و معروف مجلات جیسے ترجمان دہلی، البلاغ ممبئی اور راہ اعتدال عمرآباد وغیرہ میں آپ کے علمی مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔
وفات:
الحمد للہ آپ کی صحت بہت بہتر تھی ،آپ نے حسب معمول وفات سے چار روز قبل اے ون اسکول بیجاپور کے گراونڈ میں عید الفطر کا خطبہ دیا، کہا :
’’آئندہ سال میں رہوں نہ رہوں، آپ لوگ عید کی نماز عیدگاہ میں ادا کریں۔‘‘
عید کے بعد۵؍ شوال کو خطبہ جمعہ مسجد علی حکیم چوک بیجاپور ہی میں طے تھا۔ آپ خطبہ جمعہ کےلیے تیار ہورہے تھے کہ بلڈ پریشر لو ہونے کی وجہ سے کرسی سے گر پڑے۔ اسپتال پہنچنے سے قبل راستے ہی میں وقت موعود آپہنچا اور آپ نے بروز جمعہ۵؍شوال۱۴۴۶ ھ بمطابق۴؍ مارچ۲۰۲۵ ٹھیک ۷۴؍ سال کی عمر میں جان جان آفریں کے حوالے کردی۔انا لله وانا الیہ راجعون
اسی روز رات ساڑهے دس بجے جامع مسجد میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ آپ کے تایا زاد بھائی مولانا حنیف عمری نے نماز پڑھائی اور روڑ گیا قبرستان بیجاپور میں تدفین عمل میں آئی۔
عادات واخلاق:
مولانا بڑے ملنسار، نرم مزاج، خوش اخلاق اور معاملات میں صاف وشفاف تھے۔ بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت آپ کا شیوہ تھا۔طلبہ کی ہر چھوٹی بڑی کامیابی پر ہمت افزائی کرتے۔وقت کے پابند تھے۔
والد محترم مولانا اسحاق مومن عمری رحمہ اللہ سے اچھے مراسم تھے۔ آپ نے وصیت کر رکھی تھی کہ آپ کی نماز جنازہ ہمارے والد محترم پڑھائیں، لیکن آپ سے چار سال قبل ہی والد محترم فروری۲۰۲۱ میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔
زندگی کے شب وروز میں آنے والی مشکلات کا بڑی ہمت و جواں مردی سے مقابلہ کرتے۔ گزشتہ چند سال قبل آپ کے بڑے داماد کینسر جیسے مہلک مرض میں مبتلا رہے، ان کے علاج کے لیے اسپتالوں کے چکر لگائے، مہنگے علاج کے اخراجات برداشت کیے مگر اللہ کی مرضی کچھ اور تھی کہ وہ وفات پا گئے۔ مولانا انھیں دفن کرکے جب گھر لوٹے تو گھر والوں سے کہا :
’’میں ڈیوٹی کےلیے کالج جارہا ہوں، آپ لوگ رونا بند کریں گھر کے کام کاج میں لگ جائیں۔‘‘
ایسے حادثات سے اکثر انسان غم والم کی شدت سے اندر ہی اندر ٹوٹ جاتا ہے لیکن یہاں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔
حالات حاضرہ سے واقف رہتے، اخبارات پر بڑی گہری نظر ہوتی اور محفلوں میں اس پر تبادلہ خیال کرتے۔
پسماندگان میں اہلیہ، دو بیٹے مجیب الرحمن، انیس الرحمن اور دو بیٹیاں ہیں۔ سب کو بہتر تعلیم و تربیت دی۔ بیٹے طب کی پریکٹس اور تدریس سے جڑے ہیں، ایک بیٹی بنگلور میں گورنمنٹ ٹیچر ہیں۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی بشری لغزشوں کو درگزر فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین
آپ کے تبصرے