انسان کو اللہ کی طرف سے ان گنت نعمتیں عطا کی گئی ہیں جن کی اہمیت و افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہے ۔جسمانی نعمتوں میں قوت گویائی، بصارت، سماعت اور ذہانت ممتاز حیثیت کی حامل ہیں کیونکہ یہی نعمتیں تعلیم و تربیت اور کردار سازی کی بنیاد ہیں ۔اس لیے شریعت نے بطور خاص ان نعمتوں کی یاد دہانی کراکے ان کے شرعی تحفظ کی تاکید کی ہے، اور کہا ہےکہ قیامت کے دن ان کے تعلق سے باز پرس کی جائے گی۔ لہذا عقل مندی کا تقاضہ یہی ہے کہ ان نعمتوں کو اللہ کے حکم کے موافق استعمال کیا جائے اور ہر اس کام اور بات سے اجتناب کیا جائے جن کی وجہ سے ان پر کفران نعمت کا اطلاق ہوسکتا ہے ۔
جھوٹ، مکر وفریب، غیبت، کردار کشی، بہتان تراشی جیسی برائیاں انہی نعمتوں کے غلط استعمال کا نتیجہ ہیں ۔اس لیے سورہ بنی اسرائیل میں کئی بڑے بڑے گناہوں کا ذکر کرنے کے ساتھ یہ بھی تاکید کی گئی ہے کہ “جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ، کیونکہ آنکھ، کان اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے “(36) سماجی صالحیت اور بقائے امن کے لیے ضروری ہے کہ قولی اورعملی جھوٹ سے نفرت کی جائے ۔ نفاق کے بجائے ایمان زندگی کا معیار بنا رہے ۔اور حق کو سچائیوں کے ساتھ قبول کرکے ذاتی معاملات کو صداقت پر استوار کرنے کا حوصلہ اور عزم اپنے اندر پیدا کیا جائے ۔
سچ ایمان کی بنیاد اور دخول جنت کی بشارت ہے ۔ جب کہ جھوٹ نفاق کی شاخ اور برائیوں کی آماجگاہ ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ “بلا شبہ سچائی نیکی کی طرف، اور نیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے ۔اور یقینا آدمی سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے پاس بھی سچا لکھ دیا جاتا ہے ۔اور بلا شبہ جھوٹ نافرمانی کی طرف ،اور نافرمانی جہنم کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے پاس جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے (متفق علیہ )قولی اور عملی جھوٹ کے امتزاج نے شعوری یا غیر شعوری طور پر ہمارے سماج کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے رکھا ہے جس سے مفر بہت عزیمت اور استقامت کا کام ہے لیکن ایمان کی مضبوطی اس گرفت کو مکمل طور پر ختم کرنے پر قادر ہے ۔کیونکہ مسلمان اپنے حال میں سچا اور اس کا ظاہر و باطن یکساں ہوتا ہے۔
جھوٹ سے نفرت کا اظہار اس بات کا ثبوت ہے کہ اس پر وارد وعید سے عام طور پر ہر شخص کو آگہی ہے ۔اور کوئی بھی اپنے آپ کو جھوٹوں کی فہرست میں شامل دیکھنا پسند نہیں کرتا ہے ۔تبھی تو یہ دعوی زبان زد ہے کہ” میں جھوٹ نہیں بولتا ہوں “لیکن شدت کی یہ نفرت بھی جھوٹ سے فاصلہ بنانے میں ناکام ثابت ہورہی ہے ۔کیونکہ جھوٹ درج ذیل نوعیتوں سے اپنی نفرت کو کہیں نہ کہیں چاہت ،ضرورت،مزاح اور تسلی کے نام پر تسلیم کرانے میں کامیاب ہوہی جاتا ہے ۔
(1)مذاقیہ جھوٹ کی کثرت : ہنسی مذاق اور تفریح انسانی طبیعت کا خاصہ ہے ۔مزاج کی شگفتگی کی لیے عموما جھوٹی باتیں کہہ کر دوستوں کے ساتھ محفل میں قہقوں کا دور چل پڑتا ہے ۔اور یہ سوچ کر دل کو تسلی دی جاتی ہے کہ مذاق ہی تو ہے اگر دوچار لفاظی کردی یا کچھ غلط کہہ دیا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے ۔جبکہ شرعا یہ فکر غلط ہےکیونکہ شریعت کی تعلیم ہے “اس شخص کے لیے ہلاکت و بربادی ہے جو لوگوں کی تفریح یا تسکین کے لیے مزاحا بھی جھوٹ کہتا ہے “(ابوداؤد)گویا کہ ہنسی مذاق میں بھی شرعی اصول و ضوابط اپنی پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں لہذا ہر اس شخص کے لیے جنت کی ضمانت دی گئی ہے جس نے دوستوں کی محفل میں بھی شرعی ضابطوں کی پامالی سے اجتناب کرتے ہوئے مزاحا بھی جھوٹ بولنے کو پسند نہ کیا ۔(ابوداؤد)
(2)شیخی بگھارنا (اپنے منہ میاں مٹھو بننا ): جھوٹ کی ایک عام شکل یہ بھی ہے بعض لوگ اپنی بڑائی اور کردار کی پاکیزگی کے لیے اس انداز کو اپناتے ہیں۔اور کسی بھی واقعے کو مبالغہ آمیزی کے ساتھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ سننے والے حیرت کا مظاہرہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔اور لوگوں کے استعجاب کے ساتھ مبالغہ آمیزی اور منظر کشی کی شدت کئی گنا بڑھ جاتی ہے ۔جھوٹ کی یہ شکل قابل نفریں ہے کیونکہ آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ ” سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ آدمی اپنی نگاہوں کو وہ دکھلائے جو اس نے دیکھا ہی نہیں ہے۔”(بخاری) اور شیخی خورعام طور سے جو منظر کشی اور واقعے کی تشریح کرتا ہے وہ محض اس کی ذہنی اپج ہی ہوتی ہے ۔تاکہ لوگ اس کی ہمت جرات یا قوت فیصلہ کی تعریف کریں ۔کچھ لوگ تو محض واہ واہی کے لیے جھوٹ گڑھنے میں ممتاز ہوتے ہیں جنھیں عرف میں پھینکو کے نام سے جانا جاتا ہے ۔اور یہ دونوں رویے شرعا قابل گرفت ہیں ۔
(3)افواہ سازی اور جھوٹی خبروں کی ترسیل : اپنے حال سے بے خبر انسان اس وقت دنیا بھر کی خبروں کا دلدادہ بنا ہوا ہے۔خبروں کی تیز رفتار ترسیل نے انسان کو تحقیق کے بنیادی اصول سے بے پروا کردیا ۔ اولیت کی خواہش ہر خبر کی فوری ترسیل کی ترغیب دیتی رہتی ہے جب کہ بیشتر خبریں غیر مصدقہ یا کسی مخصوص نظریےکے تحت شائع کی جاتی ہیں ۔جن میں سے بعض تومحض افواہ ہی ہوتی ہیں ۔ اس لیے بلا تحقیق انھیں آگے منتقل کرنا یا ان کی بنیاد پر فیصلے کرنا انتہائی عاجلانہ اور غیر دانشمندانہ اقدام ہوتا ہے جس کی وجہ سے سماج انارکی اور انتشار کی سمت میں جانے لگتا ہے اور افواہ کی ترسیل لوگوں کی جان جانے کا بھی سبب بن جاتی ہے ۔شب معراج آپ ﷺ نے ایک ایسے جھوٹے گنہ گار کا بھی مشاہدہ کیا جس کے منہ نتھنے کو اس کی گدی تک چیرا جارہا تھا کیونکہ لوگ اس کی جھوٹی باتوں اور پوسٹ کو شام ہوتے ہوتے بین لاقوامی سطح پر پھیلا چکے ہوتے ہیں ۔اور قرآن میں بھی تاکید کی گئی ہے کہ جھوٹی خبر یا فاسق کی بات کی تصدیق ضروری ہے ۔ورنہ کسی قوم ،جماعت کو ایسا نقصان پہنچایا جاسکتا ہے جس پر بعد میں صرف افسو س ہی ہوگا کہ کاش ہم نے فیصلہ لینے سے پہلے ایک بار حقیقت حال کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرلی ہوتی ۔
(4)مذہبی معاملات میں جھوٹ بولنا : یہ جھوٹ کی قبیح ترین صورت ہے ۔اس سے ملت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے اور اسلام کی شبیہ بگاڑنے میں اس جھوٹ کا سب سے اہم کردار رہا ہے اسی وجہ سے ایسے کذابوں پر شریعت نے لعنت فرمائی ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف جھوٹ کی نسبت کریں کیونکہ جب قصہ گو واعظین اور مصنفین تقریر و تحریر کے ذریعے اپنی خود ساختہ شریعت کو عین اسلام قرار دینے کی جسارت کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں اصل اسلام کی تعلیمات مخفی ہوجاتی ہیں اور لوگوں میں شرک و بدعات کا فروغ دین کے حوالے سے عام ہونے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ آپ ﷺ نے اس شخص کے لیے جہنم کی وعید بیان کی ہے جو جان بوجھ کر غیر مسنون اور بدعی اعمال کو سنت کے حوالے سے بیان کرتا ہے ۔گویا کہ مذہبی جھوٹ کے فروغ سے نہ صرف معاملات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے بلکہ یہ دین و ملت کی تعلیمات کو ہی مسخ کرکے مسلمان کو شرک و بدعات کا دلدادہ بنا دیتا ہے جو اسلام کی منشا کے عین خلاف ہے ۔
(5)بچوں پر جھوٹ کے اثرات : بچے صرف اپنے والدین کے مستقبل کی امید نہیں ہوتے ہیں بلکہ یہ پوری قوم کا مستقبل ہیں۔ اس لیے ان کی صالح تربیت اور کردار سازی پر زور دینے کی تاکید کی گئی ہے اور اسےوالدین کے فرائض منصبی کا حصہ بنا دیا گیا ہے ۔لیکن بے حسی یا ذمے داریوں سے فرار کا یہ نتیجہ ہےکہ والدین ان کی دینی ذہن سازی کرنے کے بجا ئے اپنی غلطیوں کے ذریعے انھیں گناہوں کی غیر شعوری تربیت دے رہےہیں اور بچوں کا معصوم ذہن اپنے ماحول کا مشاہد ہ کرکے ان خرابیوں کو اپنے کردا رکا حصہ بنا لیتا ہے جن سے دور رہنے کی ذمے داری تربیت کے نام پر والدین کو تفویض کی گئی ہے ۔ مثال کے طور پر والدین اپنے بچوں کے سامنے کاروبار ،ملاقات یا اور کسی حوالے سے جھوٹ کا اعادہ کرتے رہتے ہیں تاکہ انھیں وقتی راحت مل جائے اسے سن سن کر بچے کو حیرت ہوتی ہے لیکن جب اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح جھوٹ کہنے سے کام بن جاتا ہے تو پھر بچہ اپنے والدین اور اساتذہ کے سامنے اس اعتماد کے ساتھ جھوٹ بولتا ہے کہ انھیں احسا س تک نہیں ہوپاتا ہے۔اس طرح والدین کی یہ روش بچوں کو ایک بہت برے کام کی ترغیب دینے کا سبب بن جاتی ہے ۔
(6)بچوں کی تربیت میں سچ کا معیار کیا ہو: اس کی وضاحت عبد اللہ بن عامر ؒ کی بیان کردہ حدیث سے ہوجاتی ہے کہ ایک مرتبہ رسول کریم ﷺ ہمارے گھر میں تشریف فرما ہیں، والدہ نے مجھے آواز دی کہ بیٹا ادھر آؤ میں تمھیں کچھ دوں گی۔ آپ ﷺ نے سوال کیا کہ تم کیا دینے والی تھیں؟ انھوں نے کہا کہ کھجور۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم انھیں کھانے کے لیے کچھ نہ دیتی تو تمھاری یہ بات اللہ کے یہاں جھوٹ لکھ دی جاتی ۔ (ابوداؤد)
(1) گویا کہ والدین اپنے بچوں کو اگر کچھ دلانے کی بات یا وعدہ کریں تو اس کی تکمیل ضروری ہے ۔ (2) انھیں یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ترغیب یا ڈرانے کے لیے بھوت ،بلی یا غیر موجود اشیاءکے حوالے سے جھوٹ بولیں ۔ (3) ا نھیں اچھے نمبرات پر تحفہ دینے کی بات کریں تو اس کی تکمیل ضروری ہے ۔یعنی کہ بچوں کی خوشی کے لیے جھوٹے اقرار سے بہتر ہے کہ ان میں بچپن سے ہی سچ سے روشناس ہونے کی عادت ڈالی جائے ۔اور سچ کی یہ تربیت آگے چل کر مشکلات سے نپٹنے میں کافی مددگار ثابت ہوگی ۔ (4) ا سی طرح سے اگر اولاد اپنے بوڑھے والدین سے کوئی وعدہ کرے یا گاؤں سے شہر لانے کی بات کرے تو یہ سب محض جھوٹی تسلی کے لیے نہیں ہونا چاہیے ۔کیونکہ اگر ایسا ہی ہےتو پھر یہ اللہ کے یہاں قابل گرفت ہوگا ۔
(7) موبائل پر جھوٹ : انسان نے اپنی ذہانت کا بہتر استعمال کرکےکچھ ایسی چیزیں ایجاد کی ہیں جو انسانیت کے لیے انتہائی نفع بخش حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ ان کے ذریعے افکار و خیالات کی ترسیل اور کاروباری معاملات میں بے انتہا سہولت میسر ہوتی ہے۔ وقت اور سرمایے کی بچت بھی ممکن ہوجاتی ہے۔موبائل اور ٹیلی فون بھی ان میں سے ہی ہیں لیکن ذہانت کا غلط استعمال کرکے اب انھیں جھوٹ بولنے کا ذریعہ بنا لیا گیا ۔ جیسے کہ فون کرکے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کہاں ہیں ؟ تو بسا اوقات دوسرے کو موبائل دے کر کہا جاتا ہے کہ وہ اس وقت موجود نہیں ،یا میں تو پہنچنے ہی والا ہوں،میں تو بہت دور ہوں آج آنا ممکن نہیں ،کیا بتاؤں اس وقت نیٹ ورک کا بہت مسئلہ تھا وغیرہ،وغیرہ۔
کاروبار ی جھوٹ کی عام شکلیں :
(1)خرید و فروخت میں جھوٹ : عموماً یہ سمجھا جاتاہے کہ دکان دار ہی جھوٹ بولتا ہے۔اسی وجہ سے عام طور پر خریدار کی پیمائش چھوڑ دی جاتی ہے ۔لیکن سامان کی قیمت معلوم ہونے کے بعد خریدار فوری طور پر یہ جملے ادا کرتے ہیں کہ ابھی کچھ دن پہلےتو ہم نے اسے اتنی ہی قیمت پر خریدا تھا تو خریدار کی طرف سے جھوٹ کی شروعات ہوتی ہےکیونکہ چند دن پہلے اس نے جب یہ چیز خریدی ہی نہیں تو اس کی بتلائی قیمت کیونکر درست ہوسکتی ہے اور پھر دکان دار کہتا ہے کہ میں تو قیمت خرید پر بس اتنی ہی رقم آپ سے لے رہاہوں،یا مجھے اس پر کچھ بھی نفع نہیں مل رہا ہے پھر بھی آپ کو فرخت کررہا ہوں۔ اور دوسرا ،تیسرا جھوٹ شامل ہوتا جاتا ہے اور تھوڑی سی رعایت اور نفع کے لیے حلال سودے کو حرام کی شکل میں بدل دیا جاتا ہے۔
(2)قیمت بڑھانا اور قسمیں کھانا: بہت سارے دکان دار اپنے سامان کے فرضی خریدار کھڑا کرکے زائد قیمت ملنے کا جھوٹ گڑھتے ہیں اور بآسانی خریدار کو دھوکہ دے لیتے ہیں جب کہ کچھ تو جھوٹی قسمیں کھانے میں بہت معروف ہوتے ہیں ۔لیکن نجش اور جھوٹی قسم دونوں ہی حرام کمائی کا سبب بن جاتے ہیں ۔جو مسلمان کے لیے قطعی درست نہیں ہے ۔
(3)کوالیٹی یا نقص پر پردہ پوشی: اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ دکان دار اپنے خراب مال کو عمدہ کہہ کر یا اس کے عیوب کو خریدار سے پوشیدہ رکھ کراسے بہتر مال کہہ کر فروخت کردیتا ہے ۔ جھوٹ اور دھوکے کی آمیزش کی بنا پر یہ سودا بھی اسلام میں درست نہیں ہے ۔
(4)زیادہ مقدار بتلا کر سودے کے وقت کم کردینا : خرید و فروخت میں دھوکے اور جھوٹ کی ایک شکل یہ بھی رائج ہے کہ ابتدا میں مقدار زیادہ بتلائی جاتی ہے تاکہ قیمت اچھی مل سکے اور جب سودا طے ہوجاتا ہے اس وقت اصل مقدار کے بجائے لفظی ہیر پھیر کا کھیل دکھلا کر خریدار کو کم مال لینے پر مجبور کردیا جاتا ہے ۔تاکہ ایک ہی مال سے دگنا نفع حاصل کیا جاسکے۔
(5) قرض کی واپسی اور ادائیگی میں جھوٹ : معاشی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے بعض دفعہ قرض ناگزیر ہوجاتا ہے۔ آپ ﷺنے مقروض کی عزت نفس اور ممکنہ جھوٹ سے بچنے کے لیے تعلیم دی اور کہا کہ اگر قرض نیک نیتی سے لیا جائے تو اللہ اس کی واپسی کی سبیل پیدا فرماتا ہےلیکن اگر قرض لینے والے کی نیت میں ہی فساد ہے تو پھر ایسی صورت میں معاشی تنگ دستی اس کا مستقبل بن جاتی ہے۔وقت پر قرض یا قیمت کی ادائیگی بہت ضروری ہے لیکن رقم کو اپنے پاس رکھنے کے لیے یہاں بھی کثرت جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے کہ ابھی رقم ملی نہیں ،چیک پاس نہیں ہوا،کل ادا کردوں گا ،سامنے والے نے مجھے رقم دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس نے مجھے دھوکہ دے دیا، سامان بکا نہیں حالانکہ قرض دینے والے نے ان شرائط پر قرض نہیں دیا تھا بلکہ اس نے تو ایک متعینہ مدت کے لیے آپ کی مدد کی تھی۔ تو اب رقم کی واپسی میں ٹال مٹول انتہائی غیر اخلاقی اور غیر شرعی ہے۔عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں آپ ﷺنماز میں کثرت سے گناہ اور قرض سے اللہ کی پناہ طلب کیا کرتے تھے اور کثرت دعا کا سبب بیان کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ قرض کی وجہ سے آدمی جھوٹا اور وعدہ خلاف بن جاتا ہے ۔چونکہ جھوٹ ایمانی کیفیت کی تبدیلی کا نام ہے اس لیے آپ ﷺ نے بکثرت اس کا سبب بننے والے قرض سے اللہ کی پناہ طلب کی ہے ۔
(6)حصول برکت کا آسان نسخہ : ہر شخص اپنے مال میں اضافے کے لیے سرگرداں رہتا ہے اور اس کے لیے خوب محنت مشقت بھی کرتا ہے لیکن حصول برکت کا جو نسخہ آپ ﷺ نے امت کوبتلایا ہے،چونکہ اسے خاطر میں نہیں لایا جاتا ہے،اس وجہ سے محنت اور کوشش سب رائیگاں ہورہی ہے اور مسلمان مجموعی اعتبار سے شدیدذہنی دباؤ کا شکار بن رہا ہے ۔برکت اور کامیابی کا اصول جھوٹ اور دھوکے پر مبنی نہیں ہے بلکہ آپ ﷺ کے فرمان سے واضح ہوتا ہے کہ جو سودا سچائی اور وضاحت کے ساتھ کیا جاتا ہے اس میں فریقین کے لیے برکت ہوتی ہے اور جس سودے میں دھوکہ جھوٹ شامل ہوتا ہے اس کی برکت ختم کردی جاتی ہے ۔یعنی کہ جھوٹ صرف اخروی عذاب کا ہی سبب نہیں ہے بلکہ دنیاوی برکتوں کے خاتمے کی وجہ بھی ہے ۔اب یہ مسلمان پر منحصر ہے کہ وہ دنیا و آخرت کی فلاح کا خواہش مند ہے یا نہیں ؟
عمدہ اردو نگاری کے ساتھ بہت ہی قیمتی مضمون
جزاک اللہ خیرا