ذکر ان کا ہوتے ہی دل مرا ہُمکتا ہے
لب پہ نعت آتے ہی نور سا چمکتا ہے
ریشمی بدن پر تھا خوشبوؤں کا پیراہن
کیوں نہ دیکھ پایا میں، جی مرا سسکتا ہے
مصطفی کی باتیں ہوں، مجتبی کی نعتیں ہوں
ماہ جب نکلتا ہے، مہر جب ڈھلکتا ہے
میں درود پڑھتا ہوں، روح گنگناتی ہے
دل مرا منور ہے، تن بدن مہکتا ہے
ذکر کو “رفعنا لکْ” جب خدا نے کہہ ڈالا
کیسے مدح ممکن ہو من مرا ہچکتا ہے
آپ کی محبت میں، آپ کی اطاعت میں
جاں مری چہکتی ہے، دل مرا دھڑکتا ہے
نعمتیں تو جنت میں ہیں بہت مگر کاشف
آپ کو جو سوچوں میں، رخ مرا دمکتا ہے
بہت خوب
ماشاءاللہ بہت عمدہ