بے خواب صبح کرتے ہیں ہائی کلاس لوگ

عبدالکریم شاد شعروسخن

خضرِ جنوں سے کرنے چلے التماس لوگ

خود کو سمجھ رہے تھے ستارہ شناس لوگ


الزام دے رہے ہو مری مے کشی کو کیوں

کیا کیا نہ کر رہے ہیں بہ ہوش و حواس لوگ


آئینہ بن گیا تو ہوئے سب ادھر ادھر

کل تک جو پھر رہے تھے مرے آس پاس لوگ


کیسا جدیدیت کا ہے یہ خبط یا خدا!

فیشن پہن رہے ہیں بہ جائے لباس لوگ


مفلس ہے خواب بستر عیش و طرب میں مست

بے خواب صبح کرتے ہیں ہائی کلاس لوگ


مجنوں کو جاننا ہے تو پھر عشق کیجیے

اس دشت سے گزرتے ہیں فوق القیاس لوگ


ہم دم بہ خود تھے پوچھتے کس سے ترا پتا

چاروں طرف دکھائی دیے بد حواس لوگ


کس کو ہماری پیاس بجھانے کی فکر ہے

اشکوں سے بھر رہے ہیں ہمارا گلاس لوگ


ہستی کا پاس ہے تو تناور درخت بن

پیروں سے ورنہ روندتے رہتے ہیں گھاس لوگ


عبدالکریم شاد سے مل تو پتا چلے
ہنس ہنس کے زیست کرتے ہیں کیسے اداس لوگ

آپ کے تبصرے

3000