موج ہزار رنگ میں رنگ زیاں ملے

حمود حسن فضل حق مبارکپوری شعروسخن

ہے دل کی آرزو کہ اسے بھی زباں ملے

ویرانیوں کے دشت میں کوئی مکاں ملے


تم کو متاع عشق پے کتنا غرور تھا

آخر ذرا بتاؤ تمھیں ہم کہاں ملے


کیونکر دیار جاں سے کہیں اور جائیں ہم

زندہ نہیں تو مرگ کے بدلے اماں ملے


یوں جستجو میں تیری گزاری گئی حیات

تیرے نشاں جہاں بھی ملے ہم وہاں ملے


اب جبر انقباض کے سائے سے کیا ڈریں

خوشیوں کے راستوں میں بھی جب غم نہاں ملے


یہ سچ ہے ہم کو موت نہیں آئی ہجر میں

لیکن تمام عمر ہی ماتم کناں ملے


اک آرزوئے وصل تھی سو وہ بھی مرگئی

تم بھی ملے تو ویسے ہی جیسے جہاں ملے


گھبرا کے اب امید بھی کہنے لگی حسن

موج ہزار رنگ میں رنگ زیاں ملے

آپ کے تبصرے

3000