کھلتے ہیں کم ہی لوگ سلام و کلام میں

عبدالکریم شاد شعروسخن

رندوں کی ہے خطا نہ خرابی ہے جام میں

ساقی کوئی کمی ہے ترے انتظام میں


ہم سادگی کے مارے سمجھتے ہیں دیر سے

کھلتے ہیں کم ہی لوگ سلام و کلام میں


ساقی کدھر گیا کہ یہاں اہل مے کدہ

الجھے ہوئے ہیں بحثِ حلال و حرام میں


دل مجھ کو ڈھونڈتا ہے سرِ محفلِ بتاں

میں دل کو ڈھونڈتا ہوں سجود و قیام میں


وہ تھا تو مہر و ماہ میں رونق کچھ اور تھی

اب تو کوئی کشش ہی نہیں صبح و شام میں


سانسوں کی آندھیوں میں گھرا ہے مرا وجود

اک عمر لگ گئی ہے مرے انہدام میں


اس کے بھی گورے گال پہ تل ہے تری طرح

میں تجھ کو دیکھ لیتا ہوں ماہ تمام میں


لگتا ہے پھر چھپایا گیا ہے کسی کا سچ

افواہ پھر اڑائی گئی ہے عوام میں


پنچھی سمجھ رہے ہیں کہ آزاد ہو گئے

در اصل اب کے سارا ہی جنگل ہے دام میں


صحرا کی خاک چھان کے لوٹا غریب گھر

وحشت اتر گئی در و دیوار و بام میں


رندوں کو وعظ کرنے گئے تھے جناب شاد

واپس ہوئے تو فرق عیاں تھا خرام میں

آپ کے تبصرے

3000