ماسٹر احمد حسین بستوی جامعہ سلفیہ بنارس کے ان اساتذہ میں سے تھے جنھیں سلفیہ کبھی فراموش نہیں کرسکتا، افسوس کہ کچھ دنوں قبل مرحوم نے حیات مستعار کے مقررہ ایام کاٹ کر داعی اجل کو لبیک کہا اور اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
موت کہتے ہیں جس کو اے ساغر
زندگی کی کوئی کڑی ہوگی
ماسٹر صاحب کو پہلے پہل اس وقت دیکھا تھا جب میں جامعہ سلفیہ کے شعبہ حفظ میں زیر تعلیم تھا، میرے حفظ کے استاد حافظ عبدالحکیم فیضی رحمہ اللہ سے ماسٹر صاحب کا گہرا یارانہ تھا اور اکثر وبیشتر وہ درس گاہ میں تشریف لاتے اور استاد محترم کے پاس بیٹھا کرتے تھے، حافظ صاحب مرحوم کا یہ طریقہ تھا کہ وہ کم از کم چار طلبہ کو اپنے سامنے بٹھاتے اور ان کے اسباق بیک وقت سنا کرتے تھے، کیا مجال کہ کوئی طالب علم ان کی نظر وسماعت کو دھوکا دیتے ہوئے آگے نکل جائے، جب ماسٹر صاحب حفظ کی درسگاہ میں آتے اور استاد محترم کے بغل میں بیٹھتے تو خود بھی بغور طلبہ کی تلاوت سنا کرتے تھے، یہیں سے پتہ چلا کہ یہ ماسٹر احمد حسین صاحب ہیں۔
لمبا اونچا قد، بھاری بھرکم جسم، ستواں ناک، کشادہ پیشانی، لمبی گھنی داڑھی، تراشیدہ مونچھیں، سفید کرتا پاجامہ زیب تن کرتے، پاجامہ عموما چوڑا ہوتا تھا، گہرا رنگ، سر پر سفید ٹوپی، کبھی تو لمبی گاندھی ٹوپی ہوا کرتی اور کبھی کبھار گول ٹوپی لگاتے، میں نے کبھی سفید لباس کے علاوہ کوئی اور لباس پہنے نہیں دیکھا، سخت سردیوں میں صرف ایک شال سر سے اوڑھ لیتے جس سے جیکٹ اور مفلر دونوں کا کام لیتے تھے۔ کبھی ننگے سر یا لنگی میں جامعہ کے احاطے میں نہیں دکھے، البتہ بسا اوقات جب مجھے ہاسٹل جانے کا موقع ملتا بالخصوص جاڑے کے دنوں میں تو مرحوم کمرے کے باہر دھوپ سینکتے نظر آتے اس وقت لنگی میں ملبوس اور بغیر ٹوپی کے ہوتے، یہ تھی ہمارے ممدوح ومحبوب استاد جناب ماسٹر احمد حسین کی شخصیت جنھیں اب مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آ رہا ہے۔
ماسٹر صاحب کا حلیہ دیکھ کر عوام انھیں مولوی گمان کرتے کیوں کہ عام طور سے مدارس میں عصری علوم کے اساتذہ کا حلیہ شرعی علوم کے مدرسین سے قدرے مختلف ہوا کرتا ہے، ماسٹر صاحب واحد(انگریزی/ہندی) کے استاد تھے جنھیں طلبہ “سر” کے بجائے “شیخ” کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے، میرے خیال سے یہ ان کی ظاہری وضع قطع کے اعتبار سے تھا، مرحوم کا جیسا ظاہر تھا ویسا ہی اخلاق بھی تھا، صاف ستھری طبیعت کے مالک، خوش مزاج اور ہنس مکھ، شاہد دہلوی نے خواجہ حسن نظامی کا جو خاکہ رقم کیا ہے مجھے اس میں مرحوم کی جھلک نظر آ تی ہے “خاموشی میں پہاڑ کا سکوت ہوتا اور گفتگو میں دریا کی سی روانی، خوش گفتار ایسے کہ بات کرتے ہی منہ سے پھول جھڑتے، سننے والے دھیان کا دامن پھیلا کر انمول پھولوں سے اپنے من کی جھولیاں بھر لیتے، سنجیدگی اور بردباری کے چنور ان کے چہرے پر ہوتے رہتے، کوئی خوش مذاقی کی بات بھی کرتے تو خندہ دنداں نما سے آگے نہ بڑھتے، بڑوں میں بڑوں کی سی باتیں کرتے اور بچوں میں بچوں کی سی۔” (گنجینہ گوہر از شاہد احمد دہلوی، ص65)
ماسٹر صاحب ایک بااخلاق اور دینی مزاج کے حامل شخص تھے، نمازوں میں کبھی سستی برتتے نہیں دیکھے گئے، کوئی طالب علم خواہ وہ کتنے ہی نچلے کلاس کا ہو خود بڑھ کر سلام کرتے، کئی بار ایسا ہوتا کہ مرحوم دور سے نظر آتے اور ہم طلبہ اب مستعد ہو جاتے کہ جیسے ہی قریب آئیں گے ہم سلام کریں گے، مگر مجال ہے کہ ماسٹر صاحب کسی طالب علم کو اس کا موقع دے دیں، ہم قریب پہنچنے کا انتظار کرتے اور موصوف دور ہی سے سلام میں پہل کر دیتے۔ بڑی نرالی طبیعت پائی تھی، طلبہ کے ساتھ ہمیشہ مشفقانہ رویہ رکھتے، ڈانٹ ڈپٹ، غصہ، ناراضگی، دھمکی، جیسی چیزوں سے بچ بچا کر رہتے، عموما غصہ نہیں ہوتے ایک آدھ مرتبہ میں نے ان کا غصہ دیکھا اور یوں کہیے کہ دیکھ کر لرز گیا، مگر یہ شاذ ونادر واقعات تھے۔
وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
گئے تو تری بزم خیال سے بھی گئے
مرحوم سے میں نے عربی سال اول تا سال پنجم( 2006-2011) ہندی، انگریزی اور جغرافیہ جیسے مضامین پڑھے، ان کے طرز تدریس کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ وہ طلبہ کے تمام سوالات کو بڑی واضح مثالوں سے سمجھاتے تھے، کسی طالب علم نے کوئی سوال کیا تو موصوف کہتے کھڑے ہو جائیے، اور جتنی دیر میں طالب علم کھڑا ہوتا اتنی دیر میں وہ کوئی مثال تیار کرلیتے اور طالب علم کو تشفی بخش جواب دیتے، ایک مرتبہ کوئی طالب علم ان کی گھنٹی میں کسی دوسرے مضمون کی کتاب پڑھ رہا تھا، مرحوم نے دیکھا تو اسے کھڑے ہونے کو کہا اور فرمایا “دیکھیے، درود پڑھنا بہت ثواب کا کام ہے، لیکن اگر نماز کھڑی ہوچکی ہو اور آپ اس وقت درود پڑھنا شروع کر دیں تو پھر یہ درست نہیں ہوگا۔” ایک مرتبہ کسی امر کی تشریح کرتے ہوئے کہنے لگے کہ “نہرو کا پیریڈ ختم ہوا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ پنڈت نہرو ابھی پچھلی گھنٹی پڑھا کر گئے ہیں۔” عربی سال اول و دوم میں ماسٹر صاحب سے ہم نے آخری گھنٹیوں میں پڑھا تھا، عموما 12 بج کر 40 منٹ پر چھٹی کی گھنٹی لگتی تھی، مگر مرحوم کبھی کبھار وقت سے پانچ سات منٹ پہلے چھٹی دے دیتے تھے اور وہ بھی بڑے دل چسپ طریقے سے، فرماتے کہ جو کوئی تین الفاظ کے معانی بتا دے گا وہ جاسکتا ہے، پھر مزید آفر دیتے کہ اگر کوئی 5 الفاظ کے معانی بتا دے گا تو وہ اپنے ساتھ ایک طالب علم کو مزید لے جاسکتا ہے۔ کچھ اس طرح سے ان کا تدریسی طریقہ کار رہا کرتا تھا، البتہ انگریزی کے مضمون میں وہ مفہومی ترجمہ پر دھیان دیا کرتے تھے، طالب علم جملہ/عبارت پڑھتا تو استاد اس کا مفہوم بتاتے تھے، جب کہ مجھے اس وقت سے محسوس ہوتا تھا کہ اس مرحلے میں لفظی ترجمہ زیادہ بہتر اور مفید ہوتا، بہر کیف یہ ایسی چیز ہے کہ اس سے ماسٹر صاحب کی عظمت پر کوئی حرف نہیں آتا۔
ماسٹر صاحب بڑی محنت سے پڑھاتے تھے، درس گاہ میں ہمیشہ وقت مقررہ پر پہنچ جاتے، تاخیر بالکل نہیں کرتے، بہت کم ہی غیر حاضر ہوتے، کلاس میں موجود تمام طلبہ کی درسی وغیر درسی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھتے اور ہر طالب علم سے سوال وجواب کرتے، اور طلبہ کے سوالوں کا تشفی بخش جواب دیتے، ان کی زبان بھی بڑی شستہ اور رواں تھی، اردو الفاظ اور محاوروں کو خوب سلیقے سے استعمال کرتے، ترجمہ کرتے ہوئے الفاظ چنتے اور بڑی عمدگی سے صحیح تلفظ کے ساتھ ادا کرتے، کل ملا کر ایک بہترین استاد، ایک اچھے انسان اور اور باکمال شخص تھے۔ مشفق خواجہ نے لکھا ہے: “مرحومین کو یاد رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کا ذکر اسی طرح کرتے رہیں جس طرح ان کی زندگی میں کرتے تھے تاکہ وہ ہمیں اپنے آس پاس چلتے پھرتے نظر آتے رہیں۔” (سخن در سخن: مرتبہ مظفر علی سید، ص:8)
پڑھتے پڑھتے یوں لگا کہ شیخ روز مرہ کی طرح ٹہل رہے ہوں اور ہم اپنے کمرے کے باہر آپسی گپ شپ میں لگے ہوں…