استاد محترم شیخ حافظ ذكاء الله سلفی مدنی /حفظہ اللہ

آصف تنویر تیمی تذکرہ

جامعہ امام ابن تیمیہ میں ہم نے جن اساتذہ سے کسب فیض کیا ان میں سے ایک استاد محترم شیخ ذکاء اللہ مدنی حفظہ اللہ ہیں۔جامعہ میں ہمارا داخلہ جب ہوا شیخ کی تمام تر گھنٹیاں طالبات (کلیہ خدیجہ الکبری لتعلیم البنات) میں تھیں۔ثانویہ سے مرحلہ فضیلت تک ہم پہنچ گئے لیکن شیخ سے پڑھنے کا شرف حاصل نہیں ہوا۔البتہ ہم جامعہ کی مسجد میں شیخ کے خطبات جمعہ اور دروس عامہ سے محظوظ ہوا کرتے تھے۔طلبہء جامعہ کو جن اساتذہ کے خطبہ جمعہ کا شدت سے انتظار ہوا کرتا تھا شیخ ان میں سر فہرست تھے۔اور علم وعمل پر ایسا دل پذیر اور موثر خطبہ دیتے تھے کہ ہم طلبہ شوق علم سے سر شار ہوجاتے۔ کئی دنوں تک آپ کا خطبہ ہم طلبہ کے مابین موضوع بحث بنا رہتا۔علم وعمل کی اس حسین وادی میں ہم مہینوں آپ کی صدا محسوس کرتے اور اس صدا کی سمت آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ۔کبھی تو ہم اس فراق میں لگ جاتے کہ آخر شیخ نے کس کتاب کو پڑھ کر خطبہ دیا ہے تاکہ ہم بھی اس کتاب کو پڑھیں۔لیکن اب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ شیخ کی باتیں کسی کتاب سے مستعار نہیں ہوتی تھیں بلکہ کتاب وسنت کی روشنی میں وہ برجستہ گفتگو فرماتے تھے۔ان کے دل سے بات نکلتی تھی اور سیدھے ہمارے دلوں میں اتر جاتی تھی۔

صرف جامعہ ہی نہیں بلکہ پورے علاقے میں بطور خطیب آپ مدعو ہوتے تھے۔اپنے عوامی خطاب میں آپ ایسا گرجتے برستے اور دلوں پر چھا جاتے کہ لوگوں کی آنکھیں آنسؤوں سے تر ہوجاتی تھیں۔قرآنی آیات کی روشنی میں جنت اور جہنم کا ایسا نقشہ کھینچتے کہ بسا اوقات خطاب کے بعد گنہگار توبہ کے لیے آپ کے سامنے حاضر ہوجاتا تھا۔دیہاتوں اور گاؤں میں آپ کا خطاب بالکل سادہ اسلوب اور گاؤں کی زبان میں ہوتا تھا جس کو گاؤں اور بستی کے لوگ خوب پسند کرتے تھے۔

چونکہ گاؤں کے لوگ آپ کی تقریر سنے بغیر نہیں جاتے تھے اس وجہ سے منتظمین اجلاس عام طور سے آپ کا خطاب اخیر میں رکھا کرتے تھے۔غالبا 2001ء میں میری بستی “بھکورہر” میں یک روزہ جلسہ رکھا گیا تھا، جامعہ کے کئی اساتذہ مدعو تھے، شیخ ذکاء اللہ بھی اس جلسہ میں شریک تھے، حسب عادت اس جلسہ میں بھی آپ نے سب کے بعد خطاب فرمایا لیکن کیا مجال کوئی شخص آپ کا خطاب سنے بغیر جلسہ گاہ سے چلا جائے۔ جب آپ کی تقریر شروع ہوئی جلسہ گاہ میں موجود بیشتر خواتین بلک بلک کر رو رہی تھیں۔جس موضوع پر آپ تقریر کرتے اس کا شوق سامعین کے دلوں میں بھر دیتے تھے۔اس اجلاس میں غالباً آپ نے نماز کے موضوع پر تقریر کی تھی۔

اطراف جامعہ کے علاوہ دیگر جگہوں پر بھی آپ کے خطابات ہوا کرتے تھے۔شیخ کی مقبولیت مسلک اہل حدیث کے علاوہ دیگر مسالک کے لوگوں کے مابین بھی تھی۔دیگر مسالک والے بھی جمعہ وغیرہ کے خطبے کے لیے آپ کو بلا کر لے جاتے تھے۔جامعہ کی ایک دوسری مسجد جو چندن بارہ کے مغربی محلہ میں واقع ہے، مسلسل کئی سالوں تک آپ وہاں جمعہ کا خطبہ دیتے رہے۔اہالیان چندن بارہ دل وجان سے آپ کو چاہتے تھے۔آپ ان کے ساتھ ایسے مل جل کر رہتے کہ انھی میں کے ایک فرد لگتے۔آج بھی بستی اور علاقے کے لوگ آپ کو یاد کرتے ہیں۔

ہم لوگ جیسے ثانیہ فضیلہ میں پہنچے اچانک ہمیں معلوم ہوا کہ شیخ کی کچھ گھنٹیاں طلبہ (کلیہ سید نذیر حسین محدث دہلوی) کی طرف منتقل ہو گئی ہیں۔ان میں ایک ہماری کلاس کی گھنٹی بھی شامل ہے۔اس سے ہم ساتھیوں کو مسرت ہوئی کہ چلو فراغت سے ایک سال پہلے شیخ سے باضابطہ پڑھنے کا موقع ملا۔

شیخ سے ہم لوگوں نے 2004ء میں ثانیہ فضیلہ میں عربی ادب کی مشہور کتاب”مختارات” جلد ثانی پڑھی۔آپ کتاب کے اسباق کا سلیس با محاورہ ترجمہ کے ساتھ عبارت خوانی کی صحت اور الفاظ ومعانی کے حفظ پر زور دیتے تھے۔گاہے بگاہے کسی عبارت سے متعلق کوئی اہم نحوی قاعدہ ہوتا تو اس کے بارے میں ہمیں بتلاتے یا ہم میں سے کسی سے اس بارے میں سوال فرماتے تھے، اگر جواب دینے والا طالب علم درست جواب نہیں دیتا تو اس کی سخت سرزنش کرتے اور عار دلاتے تھے۔بکثرت آپ طلبہ کو یہ احساس دلانے کی کوشش کرتے کہ تم نے یہاں اتنے سال گزارے مگر کچھ حاصل نہیں کیا۔بطور تنبیہ فضلیت کے طلبہ کو مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ دوران درس ہماری کلاس میں بھی شیخ نے مارا۔آپ کا طلبہ پر خاص رعب تھا۔آپ کی بلند وبالا آواز کے سامنے کسی کی بھی آواز پست ہوجاتی تھی۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مختارات جلد ثانی کے بیشتر اسباق ہم نے آپ سے پڑھے اور سیکڑوں مشکل الفاظ ہم نے ازبر کیے۔جنھوں نے بھی مختارات کی دونوں جلدیں پڑھی ہوں گی انھیں معلوم ہوگا کہ دوسری جلد میں پہلی جلد کے بالمقابل زیادہ مشکل الفاظ ہیں۔مشکل الفاظ حل کیے بناکوئی استاد کتاب کو نہیں پڑھا سکتا۔ شیخ سے ہمیں فضیلت کے آخری سال میں حجة الله البالغة بھی پڑھنے کا موقع ملا اور ہم مستفید ہوئے ۔

شیخ مرنجاں مرنج آدمی ہیں۔جامعہ میں جب اساتذہ کے مابین ہوتے تو اپنی باتوں سے مجلس کو قہقہہ زار بنادیتے تھے۔ہم طلبہ آپ کی ہنسی کو اپنے ہاسٹل میں دور سے سنا کرتے تھے۔عربی اور فارسی کے اشعار آپ کو خوب یاد ہیں۔کئی درسی کتابوں کے متن پر مشتمل اشعار بھی آپ کو ازبر ہیں۔حسب موقع ان اشعار سے آپ برملا استشہاد بھی کیا کرتے تھے۔محنتی اور با شوق طلبہ کو آپ دل وجان سے چاہتے تھے۔گھر بلا کر ضیافت بھی کرتے تھے۔

آپ ان تین اساتذہ میں سے ایک تھے جنھیں موسس جامعہ امام ابن تیمیہ علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ نے جامعہ ریاض العلوم دہلی سے جامعہ امام ابن تیمیہ جانے پر راضی کیا تھا۔ان تین میں پہلے شیخ الحدیث مولانا امان اللہ فیضی رحمہ اللہ، دوسرے مولانا ڈاکٹر رحمت اللہ سلفی(کٹیہار) اور تیسرے آپ تھے۔جب تک تینوں جامعہ میں رہے ان کے درمیان گہرے روابط برقرار رہے۔بالخصوص شیخ امان اللہ اور شیخ ذکاء اللہ میں یارانہ تھا،جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ جس زمانے میں شیخ امان اللہ مدرسہ اصلاح المسلمین پٹنہ میں مدرسی فرما رہے تھے اس زمانے میں شیخ ذکاء اللہ شعبہ تحفیظ کے طالب علم تھے۔

شیخ ذکاء نوے کی دہائی کے شروع میں جامعہ آئے اور پورے آن بان اور شان سے 2017ء تک جامعہ میں تدریس کا فریضہ انجام دیا۔طلبہ کے ساتھ ساتھ طالبات کو آپ نے اپنی تدریس و نصیحت سے فیض یاب کیا۔بعد کے دور میں زیادہ تر گھنٹیاں آپ کی شعبہ بنات میں رہیں۔

جامعہ کی تدریس کے زمانے ہی میں آپ کی اہلیہ محترمہ کا انتقال ہوگیا تھا۔آپ کی ذات پر ان کے انتقال کا گہرا اثر پڑا۔آپ کی زندگی ادھوری سی ہوگئی۔آپ کی ہنسی اور خوش مزاجی کھو سی گئی۔آپ بیمار رہنے لگے۔اسی دوران آپ پر فالج کا اٹیک ہوا۔کئی سالوں تک چلنے پھرنے میں دشواری رہی۔اس دوران آپ کے تمام بیٹوں اور بیٹیوں نے زبردست خدمت کی۔طلبہ جامعہ بھی حسب ضرورت آپ کی خدمت میں پیچھے نہ رہے۔دھیرے دھیرے فالج کا حملہ کم ہوا۔لاٹھی کے سہارے آپ کلاس میں آیا جایا کرتے تھے۔

آپ مقرر داعی تھے۔جیسے سال 2017ء میں تقاعد کا موقع آیا آپ تدریس سے علاحدہ ہو کر اپنے وطن پٹنہ چلے گئے۔کئی سالوں تک وہاں کی مسجدوں میں آپ جمعہ کے خطبے دیتے رہے۔لیکن جیسے جیسے کئی بیماریوں کا دباؤ آپ پر بڑھتا گیا آپ اپنے گھر میں محصور ہوتے گئے۔اہلیہ کے انتقال کے بعد تاحال آپ کی بیٹیاں سائے کی طرح آپ کے ارد گرد رہتی ہیں۔آپ کی کئی صاحبزادیاں اور بڑے صاحب زادے انور ذکی جامعہ امام ابن تیمیہ سے فارغ التحصیل ہیں۔

اس وقت شیخ کی عمر تقریبا ستر سال کے قریب ہوگی لیکن شوگر اور دیگر بیماریوں نے آپ کو کمزور کردیا ہے۔چلنے پھرنے سے بالکل معذور ہیں۔ادھر کئی دنوں سے پٹنہ کے مشہور ہاسپیٹل میدانتا میں آپ زیر علاج ہیں۔اللہ پاک شیخ محترم کو صحت وایمان کے ساتھ زندگی میں برکت دے اور آپ کی خدمات کے عوض آپ کی لغزشوں کو معاف فرمائے۔ہم آپ کے شاگردان آپ کے جلد رو بہ صحت ہونے کی اپنے رب سے دعا کرتے ہیں۔

آپ کے تبصرے

3000