انسانی زندگی پر روزوں کے تربیتی اثرات

تسلیم حفاظ عالی عبادات

اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن رمضان المبارک کے مہینے میں روزہ رکھنا ہے۔ تمام مسلمانوں پر اس ماہِ مقدس کے روزے کی ادائیگی فرض ہے۔ یہ عبادت نفس کی طہارت اور تزکیہ کے لیے بہت ہی اہم ہے۔ اس کی ایک امتیازی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر قوم میں مختلف شکلوں میں اس کا تصور پایا جاتا ہے۔ بالخصوص تمام آسمانی ادیان ومذاہب میں روزے کی فرضیت کا ذکر موجود ہے۔ چناں چہ اللہ تعالی نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر روزے کو فرض قرار دیتے ہوئے اس بات کا بھی تذکرہ فرمایا ہے کہ یہ عظیم الشان عبادت صرف تم پر فرض نہیں ہے، بلکہ اسے تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیا گیا تھا۔ ارشاد باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة: 183) اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔
سورۂ بقرہ کی مذکورہ آیت میں اللہ تعالی نے روزے کی فرضیت و وجوب کو واضح کیا ہے، ساتھ ہی ساتھ اس کی تاریخ بھی بتادی ہے کہ روزہ صرف موجودہ امت پر فرض نہیں ہے بلکہ گزشتہ امتوں پر بھی اسے فرض کیا گیا تھا۔ اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں روزے کی فرضیت کا بنیادی مقصد حصولِ تقوی کو قرار دیا ہے۔ کیوں کہ تقوی انسان کے اخلاق وکردار کو سنوارنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اس سے قلوب واذہان میں خوف الہی کے نقوش مرتسم ہوتے ہیں۔صاحبِ تقوی مامورات پر عمل کرتا ہے اور منہیات سے دامن کشاں رہتا ہے۔ محرمات ومحظورات سے کلی طور پر اجتناب کرتا ہے اور اپنی حیات مستعار کے تمام لمحات کو جائز مصروفیات اور اخروی زندگی کو سنوارنے والے اسباب وعوامل کو اپنانے میں صرف کرتا ہے۔
روزہ انسانی زندگی کی تہذیب واصلاح کا موثر ترین ذریعہ ہے۔ اس سے انسان کی معاشی، نفسیاتی روحانی اور اخلاقی تربیت ہوتی ہے۔ اہل علم نے روزے کی مشروعیت کی متعدد حکمتیں بیان کی ہیں اور روزے دار کی زندگی پر اس سے مرتب ہونے والے مختلف اثرات ونتائج کی نشان دہی کی ہے، جو درحقیقت تقوی ہی کی خصلتیں ہیں۔ افادۂ عام کی غرض سے ذیل میں اس کے چند تربیتی اثرات کو معرضِ تحریر میں لانے کی کوشش کی گئی ہے:
روزہ شکرانِ نعمت پر ابھارتا ہے:
روزہ نام ہے وقتِ سحر سے وقتِ افطار تک کھانا پینا ترک کرنے کا۔ روزہ دار جب پورا دن بھوکا پیاسا رہتا ہے، انواع واقسام کے ماکولات ومشروبات کی فراہمی کے باوجود وہ بھوک پیاس کی شدت وتکلیف کو برداشت کرتا ہے، تو اس کے ذہن و دماغ کے ریشے ریشے اور قلب وجگر کے گوشے گوشے میں اللہ تعالی کے عطاکردہ رزق کی قدروقیمت کا صحیح احساس پیدا ہوتا ہے۔ پھر انسان اللہ تعالی کی عطاکردہ نعمتوں پر اس کی شکرگزاری پر راغب ہوتا ہے۔
روزہ شہواتِ نفسانی پر قابو پانے کا اہم ذریعہ ہے:
شکم سیری شہوت انگیزی کا بہت بڑا سبب ہے۔ جب انسان آسودہ ہوتا ہے تو اسے شہوت کی تمنا ہوتی ہے۔ وہ اپنے جنسی جذبات کی تسکین کا سامان طلب کرتا ہے۔ لیکن جب بھوکا پیاسا ہوتا ہے تو اس کی خواہشات وشہوات میں فطری طور پر کمی واقع ہوتی ہے۔ خلوے معدہ شہواتِ نفسانی کی طغیانی کو کچلنے کا موثر ترین ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے نکاح کی استطاعت نہ رکھنے والے نوجوانوں کو روزے کا خاص اہتمام کرنے کی ہدایت دی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ البَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فإنَّه أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَن لَمْ يَسْتَطِعْ فَعليه بالصَّوْمِ، فإنَّه له وِجَاءٌ. (مسلم :1400) اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جسے نکاح کرنے کی استطاعت ہو، اسے نکاح کرنا چاہیے، کیوں کہ نکاح نظر کو جھکانے والا اور شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والا ہے۔ اور جو نکاح کی طاقت نہ رکھتا ہو اس کے لیے روزے کا اہتمام والتزام ضروری ہے، اس لیے کہ روزہ اس کے لیے ڈھال ہے۔
روزہ فقرا پروری کا درس دیتا ہے:
انسان کے پاس جو نعمت موجود ہوتی ہے اسے اس کی صحیح قدروقیمت کا اندازہ نہیں ہوتا۔ لیکن جب وہ نعمت اس سے چھن جاتی ہے تو اسے اس کی اہمیت کا ادراک ہوتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں قدرِ نعمت بعد زوال۔ جس نے خود کبھی بھوک کی تکلیف محسوس نہ کی ہو اسے دوسروں کی بھوک کے درد والم کا صحیح احساس نہیں ہوسکتا۔ روزہ دار جب پورا دن بھوکا پیاسا رہتا ہے تو اسے ان لوگوں کے تکلیف دہ حالات کا احساس ہوتا ہے جنھیں ہر وقت کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ اس طرح روزہ دار فقرا ومساکین کے ساتھ شفقت ورحمت اور رفق ونرمی کا معاملہ کرتا ہے۔ ان کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان کے ساتھ شفقت واحسان کرنے کا فطری داعیہ اس کے اندر خود بخود پروان چڑھنے لگتا ہے۔
روزہ حرام اشیا سے اجتناب کا ذریعہ ہے:
روزہ، روزےدار کی حرام وممنوع اشیا واعمال سے اجتناب کی تربیت کرتا ہے۔ روزہ انسان کے نہاں خانۂ دل میں اس شیریں احساس کو پورے آب وتاب کے ساتھ بیدار کر دیتا ہے کہ وہ خالق کائنات، مالک ارض و سماوات کا ایک لاچار و عاجز بندہ ہے۔ وہ اس کی مرضی کے بغیر شدید گرمی میں بھوک پیاس کی شدت کے باوجود کھانے کا ایک نوالہ اور پانی کا ایک قطرہ بھی زیرِ حلق نہیں اتار سکتا۔ اذان فجر سے کھانا پینا اور جماع جیسے نفس کے چند بنیادی مطالبات پر حرمت کا قفل لگتے ہی یہ احساس بندگی پروان چڑھنا شروع ہوتا ہے اور بتدریج بڑھتے بڑھتے افطار کے وقت تک اس کے پورے وجود کا احاطہ کر لیتا ہے۔ یہ کس قدر خوبصورت احساسِ عبدیت ہے کہ گرمی کی شدت میں ایک روزہ دار کی آنت قل ھو اللہ پڑھتی ہے، انواع و اقسام کے کھانے موجود ہوتے ہیں مگر ہاتھ لگانا تو دور کی بات اس کے ذہن کے کسی زاویے میں بھی اس کا خیال تک نہیں پھٹکتا۔ پیاس کی شدت تنگ کرتی ہے، حلق چٹختا ہے، برفاب میسر ہے، چاہے تو آسانی سے پیاس بجھا سکتا ہے مگر نہیں بجھاتا۔ نئی نئی شادی ہوئی ہے، میاں بیوی جوان ہیں، جنسی جذبات پوری قوت کے ساتھ اپنی تسکین کا مطالبہ کرتے ہیں، تنہائی میسر ہے، چاہے تو اپنی خواہشات کی تکمیل کرسکتا ہے مگر نہیں کرتا۔ احساس بندگی اسے اپنے معبود کے حقوق میں ادنی سی خیانت کا مرتکب ہونے سے بچاتا ہے۔ روزہ ڈھال بن کر اسے فرج و بطن کے داعیات کی تکمیل اور دیگر تمام محظورات سے روکتا ہے۔ اس طرح روزہ دار اپنے تمام افکار و خیالات، عادات و اطوار، اخلاق و کردار اور اقوال واعمال میں آزادی و خود مختاری سے دستبردار ہوکر مکمل تسلیم ورضا کے ساتھ رب کائنات کی فرماں روائی کے سامنے سپرانداز ہو جاتا ہے۔ جب وہ اللہ تعالی کی خوشنودی کے حصول کی خاطر حلال و جائز اشیا تک کو ترک کردیتا ہے تو حرام و ناجائز چیزوں سے اجتناب پر بدرجۂ اولی تیار ہوگا۔
روزہ انسان کی اخلاقی تربیت کرتا ہے:
روزے کی حقیقت یہی ہے کہ وہ ڈھال بن کر ہر قسم کی اخلاقی بیماریوں سے روزے دار کی حفاظت کرتا ہے۔ غلط بیانی، جہالت و نادانی، غیبت وچغل خوری اور لاف و گزاف سے اسے دور رکھتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
والصِّيَامُ جُنَّةٌ، وإذَا كانَ يَوْمُ صَوْمِ أحَدِكُمْ فلا يَرْفُثْ ولَا يَصْخَبْ، فإنْ سَابَّهُ أحَدٌ أوْ قَاتَلَهُ، فَلْيَقُلْ: إنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ. ( بخاری :1904) روزہ ڈھال ہے۔ اور تم میں سے کوئی شخص جب روزے کی حالت میں ہو تو وہ نا شائستہ و غیر مہذب بات نہ کرے، لڑائی جھگڑا، شور و ہنگامہ سے پرہیز کرے، اور اگر کوئی شخص اسے گالی گلوچ کرے یا اس سے آمادۂ پیکار ہو تو وہ کہے: میں روزے سے ہوں۔
روزے کی تربیت گاہ سے انسان بلند اخلاق، شائستہ اطوار، حلیم الطبع اور منکسر المزاج بن کر نکلتا ہے۔ کیوں کہ روزہ اس کے قلب وذہن کی گہرائیوں میں اس بات کو اچھی طرح راسخ کردیتا ہے کہ اگر اس کے اخلاق وکردار میں معمولی سا بھی انحراف وکجی کا ظہور ہو تو اس کے اثرات اس کے روزے پر مرتب ہوں گے۔ اگر اس کی نشست وبرخاست، حرکات و سکنات، کردار و گفتار اور عادات و اطوار میں روزہ کے بنیادی ثمرات و نتائج ظاہر نہ ہوں، روزہ سے روحانی شفا یعنی تقوی، تسبیح و تقدیس، تکبیر و تہلیل اور حمد و ثنا حاصل نہ ہو، مطلوبات ِروزہ کی تکمیل اور ممنوعاتِ روزہ سے اجتناب نہ ہو تو حقیقت میں وہ روزہ نہیں بلکہ فاقہ کشی ہے اور ایسا روزہ دار فاقہ کش ہے، جس کو بھوک پیاس کی تکلیف کے علاوہ کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا۔ اور اللہ تعالی کے نزدیک ایسے روزے دار کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اسی حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كَم من صائمٍ ليسَ لهُ من صيامِهِ إلَّا الظَّمَأُ، وَكَم من قائمٍ ليسَ لهُ من قيامِهِ إلَّا السَّهرُ (تخریج مشکاۃ المصابیح :1956-قال الالبانی: اسنادہ جید) کتنے روزے دار ایسے ہیں جن کو تشنگی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں، اور کتنے تہجد گزار ایسے ہیں جن کے تہجد سے سواے بیداری کے کچھ فائدہ نہیں۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ معاصی و سیئات کے ارتکاب، نفسانی خواہشات کی پیروی، کذب و زور، عصیان و طغیان اور بیہودہ گوئی سے روزہ نہیں ٹوٹتا، مگر یاد رکھنا چاہیے کہ دل و روح کا روزہ ضرور ٹوٹ جاتا ہے اور جب قلب وروح کا روزہ باقی نہ رہے تو جسم کا روزہ بے سود ہے اور محض جسم کے روزے سے اللہ کو کوئی سروکار نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
مَن لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ والعَمَلَ به، فليسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ في أنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وشَرَابَهُ (بخاری: 1903) جو شخص جھوٹی بات اور اس پر عمل کو نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالی کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے۔
ایک دوسری روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ليس الصيامُ من الأكلِ و الشربِ، إنما الصيامُ من اللَّغوِ و الرفَثِ، فإن سابَّك أحدٌ أو جهِل عليك فقل: إني صائمٌ، إني صائمٌ، لا تُسابِّ و أنت صائمٌ، وفي رواية: فإن سابَّك أحدٌ فقل: إني صائمٌ ، وإن كنتَ قائمًا فاجْلِسْ (صحیح الترغیب والترھیب :1082) روزہ صرف کھانا پینا چھوڑنے کا نام نہیں، بلکہ روزے کی حالت میں بے ہودہ گوئی و بے حیائی کو چھوڑنا بھی روزے میں شامل ہے، پس اگر تمھیں کوئی شخص گالی دے یا بدتمیزی کرے تو تم کہو: میں تو روزے کی حالت میں ہوں، میں تو روزے کی حالت میں ہوں۔ روزے کی حالت میں کسی کو گالی مت دو۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اگر تمھیں کوئی گالی دے تو کہو: میں روزے سے ہوں۔ اور اگر کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ۔
روزے دار کے بارے میں ان تمام نبوی تعلیمات و ہدایات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اگر وہ روزے کے شرعی احکام اور اس کے مطلوبہ شروط و آداب کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے روزہ رکھے تو اس کے اخلاق و کردار کے تمام گوشے خود بخود سنورتے چلے جائیں گے۔
روزہ وقت کی پابندی کرنا سکھاتا ہے:
اسلام میں وقت کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ پانچوں نمازوں کے لیے اوقات مخصوص ہیں۔ حج شریعت کی طرف سے متعین کردہ مہینے ہی میں ادا کرنا ہے۔ اسی طرح فرض روزے کی ادائیگی ماہِ رمضان ہی میں کرنی ہے۔ سحری وافطار کا ایک وقت مقرر ہے۔ غروبِ آفتاب سے کچھ دیر پہلے اگر کوئی شخص جان بوجھ کر افطار کرلے تو پورا دن اس کا بھوکا پیاسا رہنا بیکار ہوجائے گا۔ اذانِ فجر کے بعد اگر کوئی سحری کھائے تو اس کا روزہ غیر معتبر ہوجائے گا۔ روزہ یہ بتاتا ہے کہ کب اور کس وقت آپ کو کیا کرنا ہے۔ مشاہدہ ہے کہ عام دنوں میں انسان نماز کے اہتمام میں کوتاہی کا مرتکب ہوتا ہے۔ بعض لوگ سرے سے نماز پڑھتے ہی نہیں۔ لیکن ماہ رمضان میں روزہ رکھنے کی وجہ سے ایک انسان پانچ وقت کی نمازوں کا پابند بنتا ہے۔ اذانِ فجر سے پہلے پیاری اور میٹھی نیند سے بیدار ہوکر سحری کا اہتمام کرتا ہے۔ دن کے اوقات کو غیر ضروری اور لایعنی کاموں سے بچاتا ہے۔ زبان کی حفاظت کرتا ہے۔ عبادات اور ذکر واذکار میں اپنے آپ کو مشغول رکھتا ہے۔ افطار کے وقت کا انتظار کرتا ہے۔ افطار کے وقت انواع واقسام کی ڈشیں سامنے دسترخواں پر موجود ہوتی ہیں، مگر روزے دار اذانِ مغرب کے ایک سیکنڈ پہلے بھی کچھ چکھنا گوارا نہیں کرتا ہے۔ الغرض روزہ رکھنے والا وقت کا پابند ہوجاتا ہے۔ ہر کام کو اس کے وقت کے مطابق انجام دیتا ہے اور اس طرح روزہ رکھنے کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان وقت کا پابند بن جاتا ہے۔ شب و روز گزارنے کا طریقہ سیکھ لیتا ہے۔وقت جیسی بیش بہا نعمت کا حقیقی قدرداں بن جاتا ہے اور پھر اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی لا یعنی کاموں میں ضائع کرنا گوارا نہیں کرتا۔
روزہ اصولِ حفظانِ صحت کی تعلیم دیتا ہے:
ایک طرف روزہ جہاں اخلاقی، روحانی اور نفسیاتی تربیت کرتا ہے۔ گناہوں سے روکتا ہے۔ انسان کو متقی اور پرہیزگار بناتا ہے، اس کے وجود کو برے اخلاق وعادات سے مجلا ومصفا کر کے اچھے اطوار و کردار سے مزین کرتا ہے، عبادات پر دوام وہمیشگی برتنے کا گر سکھاتا ہے، وہیں یہ حفظانِ صحت کے اصول وضوابط سے بھی انسان کو واقف کرتا ہے اور اسے بہت ساری بیماریوں سے نجات دلاتا ہے۔ روزہ آنتوں کی صفائی، معدے کی درستگی، فضلات سے بدن کی تطہیر، موٹاپے اور وزن کی کمی کا سبب ہوتا ہے جو کہ صحت مند رہنے کے لیے ضروری ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
ما ملأَ آدميٌّ وعاءً شرًّا مِن بطنٍ، بحسبِ ابنِ آدمَ أُكُلاتٌ يُقمنَ صُلبَهُ، فإن كانَ لا محالةَ فثُلثٌ لطعامِهِ وثُلثٌ لشرابِهِ وثُلثٌ لنفَسِهِ(صحيح الترمذي: 2380) کسی آدمی نے اپنے شکم سے بدتر ظرف کو نہیں بھرا، ابن آدم کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں، جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھ سکیں۔ اور اگر زیادہ ہی کھانا ضروری ہو تو پیٹ کا ایک تہائی حصہ اپنے کھانے کے لیے، ایک تہائی کو پینے کے لیے اور ایک تہائی کو سانس لینے کے لیے باقی رکھے۔
فٹنیس کے مریضوں کو عام طور پر ڈاکٹر بسیارخوری سے پرہیز کرنے اور ڈائٹنگ کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس حدیث میں پیٹ خالی رکھنے کی بات کہی گئی ہے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ پیٹ خالی رکھنا اور کم کھانا انسان کے لیے بہت سی جسمانی بیماریوں جیسے بلڈ پریشر، ذیابیطس، آنتوں کے عوارض، گردوں اور دل کے امراض اور موٹاپے سے حفاظت کا سبب ہے۔ اور روزے کی حالت میں اس قیمتی نسخے پر آسانی سے عمل ہوجاتا ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کے روزہ ایک عظیم عبادت اور اللہ تعالی کی طرف سے بندوں پر بہت بڑا انعام و احسان ہے، جو انسانوں کی اخلاقی، جسمانی، روحانی اور نفسیاتی ہر سطح پر تربیت کرتا ہے۔ تقوی شعاری کا درس دیتا ہے۔ سماجی ومعاشرتی زندگی کے آداب سے روشناس کرتا ہے۔ حلال رزق کے اہتمام کی تعلیم دیتا ہے۔ غریبوں سے ہمدردی اور غم گساری کا مادہ پیدا کرتا ہے۔ وقت کی پابندی کرنا سکھاتا ہے۔ قانون الہی پر عمل کرنے کا جذبہ ابھارتا ہے۔ انسانی اخوت اور بھائی چارے کا پیغام دیتا ہے۔ اتحاد و یکجہتی کی دعوت دیتا ہے۔ اور حفظانِ صحت کے اصول وضوابط سے انسان کو آشنا کرتا ہے۔

آپ کے تبصرے

3000