گاؤں کی عید اسلامی سادگی کا حسین مظہر

رشید سمیع سلفی عبادات

گاؤں کے حالیہ سفر میں عید الاضحی آبائی وطن میں منانی تھی۔ عید کی دلکش صبح آچکی تھی، ہلکی ہلکی بادصبا ساز دل کو چھیڑ رہی تھی، بھولی بسری یادوں کے قافلے دل میں اترنے لگے، دیہات کے عیدی ماحول کی پرانی کسک نے سرشار کردیا، صبح سے لے کر شام تک خوشگوار احساسات کی لذت ہر لمحے سے ٹپک رہی تھی، ماضی حال کے دروازے پر دستک دے رہا تھا، ذہن گاؤں کی عید کا شہر کی عید سے موازنہ کررہا تھا۔ سادگی، بے تکلفی، اپنائیت، محبت، ملنساری اور خلوص کی موجِ خوشبو گلی و کوچے میں بہہ رہی تھی، ہر چہار جانب انسانی و اخلاقی قدروں کے پھول کھلے ہوئے تھے۔
شہر میں عید کی خریداری کیسے ہلکان کردیتی ہے؟ شہر کے لوگ بخوبی واقف ہیں، آدمی پوری رات عیدی ضروریات و تکلفات کی فراہمی میں الجھا رہتا ہے، اسی لیے تو چاند رات کا لفظ ایک طویل گہما گہمی کا تصور پردۂ ذہن پر ابھارتا ہے، یہاں نہ تو مارکیٹ کا شور و ہنگامہ تھا، نہ دکانوں پر لمبی قطاریں تھیں، نہ راستوں پر امڈتی بھیڑ تھی، نہ نفسا نفسی تھی، نہ محشر کا ہنگامہ تھا، نہ مسجدوں کے شور مچاتے سپیکر تھے، نہ تکلفات کی بھرمار تھی، بکرے گھروں کےصحن میں بندھے ہوئے تھے اور بھینسیں منظر سے غائب تھیں، یوپی کا ماحول شروع سے چھوٹے جانور کی قربانی کا رہا ہے۔
رات بڑی پرسکون تھی، صبح عیدگاہ کا منظر بھی سہانا تھا، ہر کوئی رونق اور تازگی سے معمور تھا، چہرے پر بےخوابی اور تکان کے آثار دور دور تک نظر نہیں آئے، سب چاق و چوبند تھے، شہروں کی طرح نئے کپڑوں میں کہیں مریل صورتیں بھی نظر نہیں آئیں، پرانے کپڑوں میں بھی زندگی توانائی سے بھرپور تھی، خوشگوار ماحول میں نماز دوگانہ ادا ہوئی اور خطبہ جیسے تیسے ختم ہوا، البتہ نماز سے پہلے عیدگاہ میں بعض طلبہ کا حمد نعت اور نظم پڑھنا ناگوار محسوس ہوا، عید کی نماز کے بعد مبارکبادیوں کے تبادلوں اور معانقوں کا سلسلہ شروع ہوا تو دیر تک چلتا رہا۔۔۔
عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے
قمر بدایونی
عیدگاہ میں نماز ادا کرنا اور گاؤں سے پیدل عید گاہ کی طرف جانا اور لوٹنا بھی ٹھیٹھ شریعت کی تعلیمات کا اثر ہے، اب باری بکروں کی قربانی کی تھی، ایک‌ مزاح نگار نے لکھا ہے کہ اسلام کے لیے سب سے زیادہ قربانی بکروں نے دی ہے، مگر یہ اس جذبۂ قربانی کے سامنے ہیچ ہے جس سے ابراہیم علیہ السلام سرشار تھے، بکرے جونہی قربان ہوئے تو گھر سے زیادہ دوسروں کے گھروں تک گوشت پہنچانے کی فکر دامن گیر تھی، یہاں قصائی کا انتظار نہیں تھا بلکہ لوگ خود جانور اپنے ہاتھوں ذبح کر رہے تھے، خود اس کی بوٹیاں ماررہے تھے، یہاں تقسیم کے لیے بڑے کے حصے کا گوشت اور دسترخوان کے لیے چھوٹے جانور کے نفیس گوشت کی کوئی تفریق بھی نہیں تھی، قربانی کا عمل بھید بھاؤ سے یکسر پاک تھا، گلیوں اور راستوں میں خون اور جانور کے باقیات بھی کہیں پڑے نظر نہ آئے، جانوروں‌ کی قربانی سے گاؤں کی نفاست پر کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔
یہاں شہروں جیسی لذت کام و دہن کے دس بکھیڑے بھی نہیں تھے، وہی قدیم طرز کے روایتی پکوان جنھیں ایک خاص ڈھب سے تیار کیا گیا تھا اور جنھیں کھاتے ہوئے روحانی لذت کا احساس ہوتا تھا، یہاں بکرے کے جسم کے الگ الگ پارٹس الگ الگ ڈشوں کے لیے علیحدہ نہیں کیے گئے تھے، جو دسترخوان کے لیے تھا وہی سب کچھ غریبوں کے دان‌ کے لیے بھی تھا، یہاں کلیجی، ران اور چانپ پر لار ٹپکانے والے بھی نہیں تھے، خلوص سے جو بھی ملا شکر بجالاتے ہوئے رکھ لیا، یہاں سیخ، کباب، پلاؤ اور کھچڑے کی دعوت عام بھی نہیں تھی کیونکہ اس نوابی شوق کی تکمیل کے لیے وافر مقدار میں گوشت کہاں ہوتا تھا؟ بوٹیوں کو پیٹ میں دھکیلنے کے لیے کولڈ ڈرنک کی کھیپ بھی نہیں تھی اور‌ احتیاطی تدابیر کے لیے ہاضمے کے چورن کا کوئی پیک بھی نہیں تھا، کم جانور ہونے کے ناطے دوسرے، تیسرے اور چوتھے دن بہت زیادہ قربانیاں بھی نہیں تھیں، بس اکا دکا لوگ ہی یہ سعادت حاصل کرسکے۔۔۔۔یہ تھی گاؤں کی ہماری عید جو 18/سال بعد نصیب ہوئی تھی، اور ایک نئے احساس اور ولولۂ انبساط سے طبعیت کو شاد کرگئی اور میں دیر تک سوچتا رہا کہ عید تو سب کی ایک ہے لیکن جغرافیہ بدلنے سے کیسے اس میں تنوع اور رنگارنگی آجاتی ہے؟ سچ کہا ہے۔
گلہائے رنگ رنگ سے ہے رونق چمن
اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے

آپ کے تبصرے

3000