قربانی اور آداب قربانی

آصف تنویر تیمی عبادات

قربانی ایک مشروع عبادت ہے۔ قرآن وحدیث میں اس کی مشروعیت کے دلائل موجود ہیں۔ سورة الكوثر کی آیت 2، سورة الأنعام کی آیت 162-163 اور سورة الحج کی آیت 34 سے قربانی کی مشروعیت معلوم ہوتی ہے۔ أنس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو چتکبرے مینڈھے کی اپنے ہاتھ سے قربانی کی، اور قربانی کرتے وقت بسم اللہ واللہ اکبر کہا اور جانور کی گردن پر پاؤں رکھ کر ذبح کیا۔ (بخاری ومسلم)
قربانی کے شرعی حکم میں علمائے اسلام کا اختلاف ہے۔بعض اہل علم قربانی کو واجب قرار دیتے ہیں جبکہ جمہور علماء کے نزدیک قربانی سنت موکدہ ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے وجوب کے قول کو راجح قرار دیتے ہوئے سنت موکدہ کے دلائل کا تفصیل سے جواب دیا ہے۔ جس کے لیے آپ علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی کتاب “أحكام الأضحية والذكاة” کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔
قربانی اذن ربانی ہے۔ قربانی کا مقصد اظہار عبودیت، تقوی شعاری اور اطاعت وفرماں برداری ہے۔ قربانی کے جانور کا کوئی بھی حصہ اللہ کو نہیں پہنچتا ہے۔ اس کا خون، گوشت، کھال سب یہیں رہ جاتا ہے ان میں سے کوئی چیز اللہ کو نہیں پہنچتی سوائے ہمارے دلوں کے احساسات وجذبات اور ارادے کے۔ قربانی ہمارا امتحان ہے کہ ہم دیگر احکامات کی طرح اس حکم کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں۔قربانی کا یہ سلسلہ ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔
ہم میں کا ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کی قربانی کو اللہ تعالی قبول فرما لے تاکہ رب کے حضور اس کا مقام ومرتبہ بڑھ جائے، اس کی نیکیوں میں اضافہ ہوجائے اور اس کے گناہ معاف ہوجائیں۔
چنانچہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ قربانی کی قبولیت کے لیے چار شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے، اگر وہ شرطیں ہماری قربانی میں پائی جاتی ہیں تو ہماری قربانی ان شاء اللہ رب کے حضور مقبول ہوگی:
١) قربانی کا جانور چوپائے جانوروں (بھیڑ بکری بیل اور اونٹ) میں سے ہو۔ اگر کوئی شخص جنگلی جانوروں یا پرندوں کو قربانی کے نام پر ذبح کرے تو اس پر قربانی کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ سورة الحج والی آیت میں قربانی کے لیے چوپائے کی قید موجود ہے۔
٢) قربانی کے جانور کا ان عیوب سے پاک ہونا ضروری ہے جن کا ذکر حدیث میں موجود ہے۔
چار طرح کے ایسے عیوب ہیں جن کی موجودگی میں جانور کی قربانی بالکل درست نہیں ہے:
ایسا کانا جانور جس کا کانا پن بالکل ہی عیاں ہو۔
ایسا بیمار جانور جس کی بیماری بالکل ظاہر ہو۔
ایسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن بالکل صاف ہو۔
ایسا دبلا اور لاغر جانور جس کے جسم میں گوشت نہ ہو۔
کسی جانور میں ان عیوب سے بڑے عیوب ہوں تو بدرجہ اولی اس جانور کی قربانی نہیں ہوسکتی جیسے کہ کسی جانور کا کوئی پاؤں ہی نہ ہو۔ کسی جانور کی ایک آنکھ ہی خراب ہو۔ کوئی جانور بیماری کی وجہ سے موت کے دہانے پر ہو۔ کسی جانور کے جسم میں ہڈی ہی ہڈی ہو گوشت کا نام ونشان نہ ہو۔
ان عیوب کے علاوہ بھی حدیثوں میں دیگر عیوب کا تذکرہ ہے حالانکہ ان میں سے بعض حدیثوں پر اہل علم نے کلام بھی کیا ہے جیسے کہ جانور کا سینگ ٹوٹا ہوا نہ ہو۔ اس کا کان کسی بھی جانب سے کٹا ہوا نہ ہو۔ اس کا دُم کٹا نہ ہو۔یہ عیوب ایسے نہیں ہیں جن کی وجہ سے قربانی صحیح قرار نہ پائے لیکن بچنا ممکن ہو تو ضرور بچنا چاہیے اور قربانی کے لیے تندرست اور صحت مند اور ظاہری عیوب سے پاک صاف جانور کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ اجر وثواب میں کسی طرح کی کمی واقع نہ ہو۔
٣) دانتے ہوئے جانور کی قربانی کی جائے: قربانی کے لیے ایسے جانور کا انتخاب ضروری ہے جو شرعی اعتبار سے اس عمر کو پہنچ چکا ہو، جس کے بعد اس کی قربانی ہوسکتی ہے۔ ہم من مانے طریقہ سے کسی جانور کو قربانی کے نام پر ذبح نہیں کرسکتے۔
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تم لوگ مسنہ(دانتے) ہوئے جانور کے علاوہ کی قربانی مت کرو”۔(صحیح مسلم) جب چوپائے ایک متعین عمر کو پہنچ جاتے ہیں تو وہ اپنے اگلے دو یا چار پیدائشی دانتوں کو گرا کر نئے دانت اگاتے ہیں۔جب چوپائے کا پرانا دانت گر کر نیا دانت اگ جاتا ہے تو اسے عربی زبان میں مسنہ(دانتا ہوا) کہا جاتا ہے۔
قربانی کے جانور کو پہچاننے کے لیے ماہ وسال کی قید وبند نہیں ہے بلکہ اس کے لیے ظاہری علامات قرار دیئمے گئے ہیں تاکہ کوئی بھی ان علامات کو دیکھ کر جان لے کہ یہ جانور قربانی کی عمر کو پہنچا ہے یا نہیں،اس موقع سے بہت سے لوگ غلطی کر بیٹھتے ہیں اور جانور کا دانت نہ دیکھ کر عمر کو بنیاد بناتے ہیں جو کہ سراسر غلط اور سنت کے خلاف ہے۔ ویسے بعض علماء کرام کا کہنا ہے کہ بکرا بکری دنبہ بھیڑ جب ایک سال کا ہوجاتا ہے، گائے بیل جب دو سال کا ہوجاتا ہے اور اونٹ پانچ سال مکمل کرلیتا ہے تو اس کے پرانے دانت ٹوٹ کر نئے دانت اگ جاتے ہیں۔ یہ ایک اندازہ ہے حتمی چیز نہیں، اصل دانت کا ٹوٹنا اور اگنا ہے۔
٤) قربانی کے جانور کو قربانی کے دنوں میں ذبح کرنا: جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن ہم لوگوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کیا، تو دیکھا کہ چند لوگوں نے عید الأضحى کی نماز سے قبل قربانی کر لی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: “جن لوگوں نے نماز سے پہلے قربانی کی ہے وہ دوسری قربانی کریں، اور جنھوں نے اپنی قربانی نہیں کی ہے وہ نماز کے بعد اللہ کے نام سے اپنے جانور کو ذبح کریں”۔(متفق علیہ)
قربانی کے گوشت کے استعمال کے بارے میں لوگوں کے الگ الگ نظریات پائے جاتے ہیں۔ لیکن اس حوالے سے صحیح بات یہ ہے کہ قربانی کا گوشت بذات خود کھانا کھلانا اور ذخیرہ اندوزی کرنا درست ہے۔ لیکن مقدار کی کوئی تحدید موجود نہیں تاہم بعض آثار سے ایک ثلث کھانے ایک ثلث کھلانے اور ایک ثلث اپنے پاس رکھنے کی دلیل ملتی ہے بعض فقہا اور ان کے متبعین کا اس پر عمل بھی رہا ہے۔ اس مقدار کے مطابق اگر قربانی کے گوشت کی تقسیم ہوجاتی ہے تو زیادہ بہتر ہے۔ اس امر کی وضاحت کے لیے سورة الحج کی آیت 28 کو دیکھا جاسکتا ہے جس میں اللہ تعالی نے قربانی کا گوشت خود کھانے اور بھوکے فقیروں کے کھلانے کا حکم دیا ہے۔ افسوس ان حضرات پر جو بذات خود قربانی کا سارا گوشت ہضم کر جاتے ہیں اور فقیروں کو خوشبو بھی لگنے نہیں دیتے۔
جانور چاہے قربانی کا ہو یا یونہی آدمی اپنے کھانے کے لیے ذبح کرے، جانور کو ذبح کرنے کا اسلام نے طریقہ بتلایا جس کے مطابق جانور کو ذبح کرنا ضروری ہے، ذیل میں جانور کے ذبح کرنے کے صحیح طریقے کو مختصرا بیان کیا جاتا ہے:
خشکی پر رہنے والے حلال جانور کو نحر کرنا، ذبح کرنا یا اس کو زخمی کرنے کا نام ذبح ہے جس کو عربی میں “ذکاة” کہتے ہیں۔ اونٹ کو نحر اور بقیہ تمام حلال جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے۔ اور جن جانوروں کو نحر یا ذبح نہ کیا جاسکے اس کو زخم لگایا جاتا ہے جس کو عربی میں “عقر” کہتے ہیں۔
جانور کے ذبح کے ذریعہ حلال ہونے کے چند شرائط ہیں جن کا پایا جانا ضروری ہے:
١) ذبح کرنے والا ایسا شخص ہو جو ذبح کا قصد کرسکتا ہو؛ یعنی اس کے اندر شعور پایا جاتا ہو۔ اس اعتبار سے شعور رکھنے والا بچہ بھی ذبح کردے تو اس کا ذبیحہ حلال قرار پائے گا۔ اور باشعور اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے اندر باتوں کے سمجھنے اور اس کا ٹھیک ٹھیک جواب دینے کی صلاحیت ہو۔
٢) ذبح کرنے والا مسلمان یا اہل کتاب ہو۔اس لیے کہ دونوں اللہ کے نام سے جانور کو ذبح کیا کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں واضح طور پر اہل کتاب کے ذبیحہ کو کھانے کی اجازت دی گئی ہے، سورة المائده کی آیت 5 میں اس کا تذکرہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ کئی حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب کی دعوت کو قبول کیا، یہاں تک کہ ایک مرتبہ ایک یہودی عورت نے زہر آلود گوشت آپ کو کھلا دیا۔ اگر اہل کتاب کا ذبیحہ حرام ہوتا تو آپ ہرگز یہودی کی دعوت اور ان کے کھانے کو نہ کھاتے۔(ملاحظہ ہو: صحیح بخاری،حدیث نمبر:1617، مسند احمد 3/210، صحیح مسلم،حدیث نمبر: 1772) عورت بھی ذبح کرسکتی ہے اور عہد رسالت میں ایک لونڈی نے اپنے جانور کو ذبح بھی کیا ہے۔ (ملاحظہ فرمائیں: صحیح بخاری،2304)
٣) باضابطہ جانور کے ذبح کرنے کا ارادہ ہو، غیر ارادی طور پر اگر چاقو چھری یا کوئی تیز دھار والا اسلحہ کسی جانور کی گردن پر چل جائے تو اس کو شرعی ذبح نہیں کہا جائے گا۔ اس لیے کہ اعمال کا انحصار انسان کے ارادے پر ہے۔(صحیح بخاری،حدیث نمبر: 1) جب ارادہ ذبح کرنے کا نہیں تھا تو پھر غیر ارادی طور پر جانور کی گردن کے کٹنے کو ذبح سے تعبیر کیسے کیا جاسکتا ہے۔
٤) جانور کو غیر اللہ کے لیے ذبح نہ کیا جائے۔ اگر جانور کو کسی بت اور قبر والے کے لیے ذبح کیا جائے تو وہ ذبیحہ حلال نہ ہوگا۔ غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے سے اللہ تعالى نے منع فرمایا ہے۔(سورة المائده: 3) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اللہ کی لعنت ہو اس شخص پر جس نے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا”۔(صحیح مسلم،حدیث نمبر: 1978)
٥) جانور کو غیر اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا جائے۔ جیسے اگر کوئی نبی کا نام لے کر، ولی کا نام لے کر، جبریل کا نام لے کر، کسی پارٹی یا گروپ کا نام لے کر ذبح کرے تو ایسے جانور کا کھانا حلال نہیں ہوگا۔ سورة المائده آیت 3 میں اس کی صراحت موجود ہے۔
٦) جانور کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھا جائے۔ قرآن وحدیث سے سختی سے ایسے جانور کو کھانے سے منع کیا گیا ہے جس کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو۔(الأنعام: 118/121) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جس سے خون نکل جائے اور اللہ کا نام لیا گیا ہو اس کو کھاؤ”۔(صحیح بخاری،2488)
٧) جانور کو تیز دھار دار چیز سے ذبح کیا جائے جس سے جانور کے جسم سے خون نکلے۔ لیکن یہ دھار والی چیز دانت اور ناخن نہ ہو۔ دانت ہڈی ہے اور ناخن اہل حبشہ کی چھری ہے۔ معلوم ہوا کہ اگر جانور دم گھٹنے سے مرجائے، اس کو بجلی کا کرنٹ لگ جائے، یا کسی چیز سے ٹکرا کر مر جائے تو اس کھانا حلال نہیں ہے، اس لیے کہ اس کو تیز دھار والے اسلحہ سے ذبح نہیں کیا گیا اور اس کے جسم سے خون نہیں نکلا۔
جانور کو ذبح کرتے وقت یہ خیال رکھنا چاہیے کہ گردن سے جڑی چار رگیں کٹیں۔ ‘حلق’ جس سے جانور سانس لیتا ہے۔ ‘مری’ جہاں سے جانور کھاتا پیتا ہے۔ ‘ودجان’ گردن کی وہ دونوں رگیں جو حلق اور مری سے منسلک ہوتی ہیں اور غصہ کے وقت پھول جاتی ہیں۔ اگر یہ چاروں چیزیں کٹ جائیں تو بہت بہتر ورنہ بیشتر چیزیں کٹ جائیں اور یہ یقین ہوجائے کہ اب جانور زندہ نہیں رہے گا تو بھی ذبیحہ حلال ہوگا۔
٨) جانور کو ذبح کرنے والوں کو شرعی طور پر ذبح کرنے کی اجازت حاصل ہو۔ اگر شرعی لحاظ سے ذبح کرنا اس کے لیے جائز نہ ہو تو وہ ذبیحہ حلال نہ ہوگا۔ مثلا کوئی شخص حرم میں شکار کرے، کوئی شخص حالت احرام میں ذبح کرے، کوئی کسی اور کے جانور کو بلا اس کی اجازت کے ذبح کرے، کوئی کسی کا جانور غصب کرکے یا چوری کرکے ذبح کرے۔
جانور کو ذبح کرنے کے کچھ آداب ہیں جن کا جانور کو ذبح کرتے وقت ضرور خیال رکھنا چاہیے۔ قربانی کے جانور کو ذبح کرتے وقت بھی ان کا خیال رکھا جانا ضروری ہے:
١۔ جانور کو قبلہ رو لٹا کر ذبح کرنا۔
٢. ذبح کرتے وقت جانور کے ساتھ بہتر سلوک کرنا۔
٣۔ اونٹ کو کھڑا کرکے اور اس کے بائیں پاؤں کو باندھ کر ذبح کرنا۔
٤۔ اونٹ کے علاوہ بقیہ جانوروں کو پہلو پر لٹا کر اور اس کی گردن پر پاؤں رکھ کر ذبح کرنا، تاکہ ذبح کرنے میں آسانی ہو۔
٥۔ حلق، مری اور گردن کی دونوں رگوں کو ٹھیک سے کاٹنا۔
٦۔ ذبح کرنے سے قبل چھری کو جانور سے چھپا کر رکھنا۔
٧۔ بسم اللہ واللہ اکبر کہہ کر ذبح کرنا۔
٨۔ جس کے نام سے قربانی ہورہی ہے اس کا نام لینا۔
٩۔ ذبح کے بعد قربانی کی قبولیت کے لیے دعا کرنا۔
اللہ پاک ہم سب کی قربانی کو قبول فرمائے۔

آپ کے تبصرے

3000