جماعت اسلامی کے دین کا خلاصہ

تعارف و تبصرہ عبدالرزاق عبدالغفار سلفی

’’جماعت اسلامی کے دین کا خلاصہ‘‘ یہ کتاب ملت اسلامیہ کے مشہور مفکر اسلام جناب صوفی نذیر احمد کاشمیری رحمہ اللہ کی ہے۔میں نے ان کی اس کتاب کو کئی بار الٹ پلٹ کر دیکھا ہے اور ایک بار بالاستیعاب پڑھا ہے۔ ایک ایک عبارت پر غور و فکر کیا ہے اور ہر پیرایۂ بیان پر فکر و نظر کی وادیوں کو عبور کیا ہے اس کے بعد قلم اٹھایا ہے۔ صرف ایک مقام ایسا نظر آیا جہاں پر ان کے قلم نے لغزش کھائی ہےاور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی نظر عالمی اور امریکی و یورپی پروپیگنڈوں کو بھانپ نہ سکی، یا عمر کے اس پڑاؤ میں تھے جہاں پر فکر کمزور پڑ جاتی ہے ان کی یہ لغزش اوروں کے لیے دلیل بن گئی۔

صوفی صاحب کوہ وقار اور قناعت و شرافت کا پیکر تھے، دین و دنیا کی اتھاہ معلومات رکھتے تھے، قدیم و جدید فلاسفر کی زندگیوں اور ان کے افکار و نظریات پر عمیق نظر تھی، یورپ کے سیاسی مفکرین اور ان کے نظریات بھی ان کی نظروں سے اوجھل نہ تھے، ان کا مطالعہ گہرا اور ٹھوس تھا جب وہ کچھ لکھتے تھے، تو بڑی گہرائی میں جاکر لکھتے تھے، اس لیے بعض اچھے صاحب قلم جب ان کی عبارتوں کو سمجھنے سے قاصر رہتے اور جب ان کی فکر کی گہرائی تک ان کی رسائی نہیں ہو پاتی تھی، تو اپنی کم علمی اور بے مائیگی کا اعتراف کرنے کی بجائے اپنی تحریروں میں صوفی صاحب کا مذاق اڑاتے تھے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صوفی صاحب کی ٹھوس باتوں کا دلائل کی روشنی میں معقول جواب دیتے مگر ایسا نہ کر سکے اور بطور استہزاء لکھتے رہے، کہ ’’صوفی صاحب اتنی اونچائی سے باتیں کرتے ہیں کہ ہم جیسے بالشتوں کو سیڑھی لگا کر بھی وہاں تک پہنچنا ممکن نہیں‘‘۔ ( عامر عثمانی )

یہ وہ لوگ تھے جو واقعی بالشتی تھے، اس لیے کہ ہر جدید نظریہ سے مرعوب ہو جاتے تھے، ہر نئی تحریک پر جان چھڑکنے لگتے، ہر نئی آواز پر لبیک کہنے لگتے۔ اس کا واحد سبب یہ تھا کہ وہ فکری و نظری اور عملی تقلید سے باہر ایک قدم رکھنا گناہ تصور کرتے تھے، چوں کہ قرآن و حدیث اور تاریخ کا مطالعہ وہ سرسری طور پر کرتے تھے اس لیے ان کو صوفی صاحب کی باتیں عجیب و غریب لگتی تھیں، مگر صوفی صاحب کی حالت اور کیفیت یہ تھی کہ جدید نظریات ہوں یا قدیم، ان سے وہ کبھی بھی مرعوب نہیں ہوئے، انھوں نے ہر نظریہ کا قرآن و حدیث اور سیرت انبیاء کی روشنی میں جائزہ لیا، تنقید کی سان پر رکھ کر اس کو پرکھا، پھر اپنے مطالعہ اور فکر سلیم کو صفحۂ قرطاس پر بکھیر دیا۔ جن کا مطالعہ گہرا، ذہن صاف اور دل کے کواڑ کھلے ہوئے تھے، انھوں نے صوفی صاحب کی باتوں سے اتفاق کیا اور اپنی روش پر نظر ثانی کی، پھر صراط مستقیم کی راہ پکڑ لی۔ مگر جن کے دلوں میں کجی تھی وہ اس کا ادراک نہ کر سکے اور اندھیرے میں بھٹکتے رہے۔

جماعت اسلامی اور اس کے بانی کے تعلق سے صوفی صاحب کا جو نظریہ تھا وہ شروع سے آخر تک ایک ہی نہج پر قائم رہا۔ در اصل یورپ کے سیاسی اتھل پتھل پر دو نظریات بہت زیادہ حاوی اور مسلط رہے، ایک ’’میکیاولی (۱۴۶۹-۱۵۲۷ء) اور دوسرے ہیگل (۱۷۷۰-۱۸۳۱ء) کا نظریہ تھا، یہی وہ مفکرین ہیں جن کے سیاسی نظریات کو مولانا مودودی نے اپنی فکر کی اساس قرار دیا ہے، پھر اسی بنیاد پر اپنی جماعت کی بنیاد رکھی، چوں کہ مولانا مودودی کا مطالعہ وسیع تھا اور صاحب قلم بھی تھے، اس لیے انھوں نے اپنے سیاسی اور دینی فکر کی ترویج و اشاعت میں جو کچھ لکھا اس کو نہایت خوبصورت اور پیارے انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کر دیا، چوں کہ تحریر میں بلا کی کشش تھی اس لیے لوگ شروع میں دیوانہ وار اس تحریک کی طرف دوڑ پڑے، بڑے بڑے مفکر، عالم دین، شیخ الحدیث اور ادیب و دانشور ان کی تحریروں کے اسیر ہوتے چلے گئے، اور دیکھتے ہی دیکھتے برصغیر ہند و پاک کے سیاسی اور دینی افق پر چھا گئے، صرف چند ہی اصحاب فکر سلیم اس تحریک کی جادو بیانی سے الگ رہے اور کچھ دور رس نگاہوں نے ابتدا ہی میں بھانپ لیا کہ مولانا مودودی کی تحریر اور تحریک میں تجدید کی نہیں بلکہ تجدد کی بو آرہی ہے، ( آزاد )، پھر چند ہی سالوں میں جماعت اسلامی میں بکھراؤ شروع ہو گیا، بڑے بڑے علماء اس سے اپنا دامن بچانے لگے، مثال کے طور پر چند علمائے کرام کے نام اوراختلاف کے بعد ان کی تصنیف کردہ چند کتابوں کے نام لکھنا ضروری خیال کر رہا ہوں:

۱- مولانا منظور نعمانی(۱۹۰۵-۱۹۹۷ء) ’’مولانامودودی سے میری رفاقت کی سرگزشت اور اب میر ا موقف‘‘۔

۲- مولانا سید ابو الحسن ندوی (۲۴؍نومبر ۱۹۱۴ء، ۳۱؍دسمبر ۱۹۹۹ء) ’’عصر حاضر میں دین کی تفہیم وتشریح‘‘

۳- مولانا محمد جعفر پھلواروی (۱۹۰۴-۱۹۸۲ء)

۴- مولانا حکیم عبد الرحیم اشرف (۱۹۲۲-۲۸؍جون ۱۹۹۶ء)

۵- ڈاکٹر اسرار احمد (۲۶؍اپریل ۱۹۳۲ء- ۱۴؍اپریل ۲۰۱۰ء) ’’تحریک جماعت اسلامی ایک تحقیقی مطالعہ‘‘

۶- مولاناعبد الغفار حسن رحمانی (۱۹۱۳ء- ۲۲؍مارچ ۲۰۰۷ء)

۷- مولانا حکیم عبید اللہ رحمانی رائے بریلوی (۱۹۳۲ء- ۲۴؍جنوری ۲۰۰۴ء) ’’اسلامی سیاست یا سیاسی اسلام‘‘

۸- مولانا امین احسن اصلاحی (۱۹۰۴ء- ۱۵؍دسمبر ۱۹۹۷ء)

۹- مولانا وحید الدین خان (۱؍جنوری ۱۹۲۵ء- ۲۱؍اپریل ۲۰۲۱ء) ’’تعبیر کی غلطی‘‘

اگرچہ ان میں سے بعض علماء کے افکار وخیالات سے اتفاق کرنا مشکل امر ہے، لیکن ان اجلّاء اور کبار علماء کا جماعت اسلامی سے نکلنا اور پھر اپنے موقف میں تبدیلی لانا اپنے اندر بہت معانی رکھتا ہے اور بہت سارے سوالات کو جنم دیتا ہے ، در اصل ان علماء کے نکلنے کا اصلی سبب یہ تھا کہمودودی صاحب نے اپنی جماعت کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی تھی بظاہر تو وہ اسلامی بنیادیں تھیں مگر جب لوگ گہرائی میں اتر کر اس کو پرکھنے لگے، تو ان کو معلوم ہوا کہ اس تحریک کی بنیاد اور اساس ’’میکیاولی‘‘ سیاست کی بنیادوں پر استوار ہے، جس میں منافقت، دوغلاپن، مصلحت اور مفاد پرستی کو اولین مقام حاصل ہے صرف اوپر سے اسلامی غلاف چڑھا دیا گیا ہے، دوسری غلطی یہ تھی کہ ’’ہیگل‘‘ کی فکر مستعار لے کر دین کی تعبیر ’’کلی اسٹیٹ‘‘ سے کی جانے لگی۔

صوفی نذیر احمد کاشمیری کے الفاظ میں:

’’وہ کلی ریاست کے لفظ کو استعمال کرنے سے قصداً اجتناب کرتا ہے مگر اس کے سب الفاظ کا مفہوم کلی ریاست ہی بنتا ہے۔‘‘

جماعت اسلامی اور اس کے بانی کی فکر کے تعلق سے صوفی صاحب کی تنقید اسی محور پر گردش کر رہی ہے، مودودی صاحب کے لیکچر ’’اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے سنہ ۱۹۴۱ء‘‘، نیز ان کی کتاب ’’تجدید و احیائے دین‘‘ ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘، ’’روداد جماعت اسلامی‘‘ حصہ اول، دوم و سوم، اور دوسری تحریروں پر صوفی صاحب کی تنقید کی بنیاد اور اساس ہے، صوفی صاحب کی تحریر بہت سخت اور الفاظ تلوار کی کاٹ کی طرح ہیں، پڑھتے وقت یہ احساس جاگ اٹھتا ہے کہ آخر صوفی صاحب نے اتنی سخت تنقید کیوں روا رکھی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مودودی صاحب کی تحریر بھی اتنی ہی گمراہ کن اور صراط مستقیم سے ہٹی ہوئی ہے جتنی سخت تنقید ہے۔ مودودی صاحب کی یہ عبارت پڑھیے اور خود فیصلہ کیجیے کہ کون حق پر ہے اور کون راہ حق سے بھٹک گیا ہے، مودودی صاحب اپنی تحریک اور اپنی دعوت کے تعلق سے لکھتے ہیں :

’’ اس موقع پر میں نہایت وضاحت کے ساتھ ایک بات کہ دینا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اس قسم کی دعوت کا، جیسے ہماری دعوت ہے، کسی مسلمان قوم میں اٹھنا اس کو ایک بڑی سخت آزمائش میں ڈال دیتا ہے، جب تک حق کے بعض منتشر اجزاء باطل کی آمیزش کے ساتھ سامنے آتے ہیں، ایک مسلمان قوم کے لیے اسے قبول نہ کرنے اور اس کا ساتھ نہ دینے کا ایک معقول عذر موجود رہتا ہے، اور اس کا عذر قبول ہوتا رہتا ہے، مگر جب پورا حق بے نقاب ہو کر اپنی خالص صورت میں اس کے سامنے رکھ دیا جائے، اور اس کی طرف اسلام کا دعویٰ رکھنے والی قوم کو دعوت دے دی جائے، تو اس کے لیے ناگزیر ہو جاتا ہے کہ یا تو اس کا ساتھ دے، اور اس خدمت کو انجام دینے کے لیے کھڑی ہو جائے جو امت مسلمہ کی پیدائش کی ایک ہی غرض ہے یا نہیں تو اسے رد کرکے وہی پوزیشن اختیار کرے جو اس سے پہلے یہود قوم اختیار کر چکی ہے۔ اس صورت میں ان دو راہوں کے سوائے کسی تیسری راہ کی گنجائش اس کے لیے باقی نہیں رہتی۔‘‘ (روداد جماعت اسلامی حصہ دوم ص ۱۷، بحوالہ جماعت اسلامی کے دین کا خلاصہ ص ۱۵-۱۶)

مودودی صاحب کی یہ پوری عبارت بار بار پڑھیں اور غور کریں کہ انھوں نے کیا دعویٰ کیا ہے کہ جو شخص ان کی جماعت میں داخل نہیں ہوگا، ان کی آواز پر لبیک نہیں کہے گا ان کی تحریک کا ساتھ نہیں دے گا اور ان کی دعوت کو قبول نہیں کرے گا، تو اس کی پوزیشن اور حیثیت یہود کی سی ہو گی، یعنی وہ شخص مغضوب علیہ ہوگا۔ العیاذ بالله

تم ہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے؟

اگر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیا جائے، تو اس نتیجہ پر پہنچا جا سکتا ہے کہ مودودی صاحب کا دعوی بھی غلام احمد قادیانی کی طرح ہے، فرق اسلوب کا ہے، پیرایۂ بیان کا ہے، ورنہ یہ صفت صرف انبیائے کرام کی رہی ہے کہ جو بھی ان کی دعوت کو قبول نہیں کرتا تھا وہ دائرۂ اسلام سے باہر ہو جاتا تھا، اور اس طرح کا دعویٰ صرف ایک نبی ہی کر سکتا ہے، کوئی دوسرا نہیں کہ اگر اس کی دعوت کو قبول نہیں کرو گے تو یہود کے زمرہ میں شامل ہو جاؤ گے۔ اب صوفی صاحب کے اسلوب اور بیان پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ان کی تنقید میں شدت نہیں ہے، بالکل سختی نہیں ہے، بلکہ حقیقت کا بیان ہے اور اسی بنیاد پر صوفی صاحب نے مودودی صاحب کا موازنہ مسیلمہ کذاب اور قادیانی سے کیا ہے، اور یہ موازنہ مودودی صاحب کے بیان کی روشنی میں ہی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ مودودی صاحب کی تحریروں نے ایک زمانے کو متاثر کیا ہے، پھر انھوں نے پوری ایک جماعت کھڑی کر دی، مگر چوں کہ ان کی فکر میں کجی تھی اور وہ فکر کتاب و سنت سے ہٹی ہوئی تھی اس لیے اس کے فائدے کم اور نقصانات زیادہ سامنے آئے، اس تحریک اور جماعت نے دین کی نشر و اشاعت پر کم زور دیا اور سیاسی میدان میں زیادہ زور آزمائی کی، جس کے سبب نقصانات زیادہ ہوئے۔ ان کی جماعت کا اصل ہدف حکومت پر کنٹرول حاصل کرنا تھا، اس لیے ان کے ماننے والوں نے وہی سیاست اور اسی طریقۂ کار کو اپنایا جس کی دہائی ’’میکیاولی‘‘ سیاست دیتی رہی، یعنی ایک جائز مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ناجائز وسائل کو استعمال کیا جا سکتا ہے، جب کہ دین میں حکومت کا حصول فرع کی حیثیت رکھتا ہے اصل کی نہیں، اور دین میں نیک مقاصد کے حصول کے لیے نیک وسائل ہی مطلوب ہیں، لیکن جماعت اسلامی کا رویہ اس کے برعکس رہا اسی لیے اس جماعت کے بانی اعلان کرتے ہیں کہ الیکشن میں جنرل ایوب کے خلاف مسز فاطمہ جناح کی حمایت اور تائید کی جائے، اور دلیل یہ دیتے ہیں :

’’ اگر کسی امید وار میں اس کے سوا اور کوئی خامی نہ ہو، کہ وہ عورت ہے اور دوسری طرف مرد امیدوار میں اس کے سوا کوئی خوبی نہ ہو کہ وہ مرد ہے تو اس صورت میں اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہ جاتا ہے کہ خاتون امید وار کی حمایت کی جائے۔‘‘ (ایشیا مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۶۴ء بحوالہ علامہ اقبال، قائد اعظم، پرویز، مودودی اور تحریک پاکستان ص ۶۱۵)

گویا مسز فاطمہ جناح میں صرف ایک خرابی ہے کہ وہ عورت ہیں باقی وہ اچھائیوں کا پیکر ہیں، اور جنرل ایوب میں صرف ایک اچھائی ہے کہ وہ مرد ہیں باقی وہ خرابیوں کا پتلا ہیں، اسی طرح اسکندر مرزا کے زمانے میں امریکہ کو کھلے عام دعوت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اگر اسے ( امریکہ کو پاکستان میں ) کوئی پائیدار کام کرنا ہے تو کسی ایسی جماعت سے ہاتھ ملائے جو پائیدار بنیاد رکھتی ہے۔‘‘ ( جماعت اسلامی کے دین کا خلاصہ ص ۸۵)

گویا کہ اب ایک دینی جماعت اور سیاسی پارٹی کے درمیان کوئی فرق نہیں رہ گیا، جو پروٹوکول ایک سیاسی جماعت اختیار کرے گی وہی اصول اور پروٹوکول ایک دینی جماعت بھی اختیار کرے گی، یہی وجہ ہے کہ شیعوں کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے مودودی صاحب سے ایسی بھیانک غلطیاں سرزد ہوئیں کہ اسلام کا نام لینے والی ساری جماعتیں مودودی صاحب کے خلاف ہوگئیں، جب انھوں نے شیعوں کی ہمنوائی میں صحابۂ کرام پر نا معقول تنقیدیں کیں اور ان کی عیب جوئی کرنے لگے، پھر تو نہ قرآن کی شہادت ان کے لیے حرز جان بن سکی، نہ ہی زبان رسالت کی قدر و قیمت رہی، اور نہ ہی اپنے علمی پوزیشن کا خیال رکھا ، نہ ہی مسلمانوں کے اعتقادات کو دل و دماغ میں جگہ دی، الم غلم جو دل میں آیا لکھتے چلے گئے، جس کی وجہ سے علماء ان سے دور ہوتے گئے اور عام آدمی کی نظر میں بھی ان کی ساکھ گرتی چلی گئی، پھر ایک قدم اور آگے بڑھ کر ایران میں امریکہ اور فرانس کی نگرانی اور زیر تربیت ہونے والے شیعی انقلاب کو سب سے پہلے اسی جماعت اسلامی نے امریکہ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے ’’اسلامی انقلاب‘‘ کہنا شروع کر دیا اور ہر طرح سے اس کی تائید کرنے لگی، ان سے غیرسرکاری طور پر سفارتی تعلقات قائم کرنے لگی، ہر ایک اسٹیج پر اس کو آئیڈیل مان کر اس کی دہائی دینے لگی، مولانا مودودی شیعیت کی تاریخ اور سازشوں سے بے خبر ہو کر اہل تشیع کی مجلسوں میں جانے لگے، اور غلط سلط روایات کا سہارا لے کر ان کی ہمنوائی کر نے لگے، یہ بھول گئے کہ یہود کے ساتھ مل کر حضرت عمر و عثمان و علی اور حضرت حسن و حسین کے قتل کی سازش کن دماغوں اور ہاتھوں نے رچی تھی۔

سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے قیام کا اصل مقصد کیا تھا اور وہ اپنے مقصد میں کس قدر کامیاب ہوئی ہے اور مستقبل میں اس کی کامیابی کے کیا امکانات ہیں اور کیا وہ واقعی اسلامی حکومت قائم کرنے میں مخلص رہی ہے یا نہیں، یا فقط اپنے چہرے پر اسلامی پروپیگنڈے کا نقاب چڑھا رکھا ہے اور مقصد کچھ اور ہے؟

درحقیقت جماعت اسلامی مجموعی طور پر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اور مستقبل میں بھی اس کے امکانات بہت کم ہیں کہ وہ کوئی سیاسی مقصد حاصل کر سکے، جماعت اسلامی کے قیام کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ اس کے ذریعہ حکومت الٰہیہ کا قیام ہوگا مگر اب تک پوری دنیا میں کہیں بھی یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا ہے، اپنے اس مشن میں جماعت اسلامی سو فیصد ناکام رہی ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ ایک اسلامی جماعت کو سیاسی جماعت نہیں بننا چاہیے، بلکہ اس کو انبیاء کے مشن کو آگے بڑھانا چاہیے اور اس کو ان خطوط اور نقوش پر رواں رہنا چاہیے جو انبیاء کا واضح مشن تھا یعنی تزکیۂ نفوس، کتاب و حکمت کی تعلیم اور اللہ تعالیٰ کی آیات کو پڑھ کر سنانا اور ان کی تفسیر و تشریح کرنا، سب سے پہلے لوگوں کو توحید خالص کی طرف بلانا اور دعوت دینی ہوگی، جب لوگوں کی پختہ ذہن سازی ہو جائے گی اور لوگ کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھام لیں گے تو اسلامی حکومت خود بخود قائم ہو جائے گی، آپ اپنے مشن میں کامیاب بھی ہوں گے اور اللہ کے یہاں ماجور بھی، دور جدید کے بعض مفکرین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم آخر کب تک انتظار کرتے رہیں گے، ہمیں آگے بڑھ کر یہ ذمے داری اٹھانی پڑے گی، عام لوگوں کو ہم نوا بنا کر جدید نظام کا ایک حصہ بن کر منزل مقصود کو حاصل کرنا ہوگا، میرے خیال میں یہ سوچ ہی غلط ہے، دنیا میں بے شمار انبیاء کرام ایسے گزرے ہیں جو دعوت الی اللہ کا کام آخری سانس تک انجام دیتے رہے اور چند افراد ہی ان کے ہاتھوں پر ایمان لائے، اسلامی حکومت نہیں قائم کر پائے تو کیا وہ اپنے مشن میں نا کام رہے ؟ نہیں ہرگز نہیں، ان کو جو دعوت کی ذمے داری دی گئی تھی اس کو پورا کیا اور اپنا اجر اللہ تعالیٰ سے لیا، یہی ہماری بھی ذمہ داری ہے اس لیے کہ ہم انبیاء کے مشن کے وارث ہیں اس کام کو ہمیں آگے بڑھانا ہے، حکومت اور اقتدار کا حصول ایک جزوی عمل ہے کلی نہیں اس لیے یہ کہنا کہ حصول اقتدار کے بغیر دین کا کام پورا نہیں ہوگا، یہ فکر سرے سے باطل ہے اور کتاب و سنت کے مطابق نہیں ہے۔

مودودی کا دین اور خدا:

اس عنوان کے تحت صوفی صاحب مولانا مودودی کے مرکزی کردار و افکار پر ایک کاری ضرب لگاتے ہوئے ان کی کتاب ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ پر ایسا شدید حملہ کرتے ہیں کہ مودودی صاحب کی ہر بات اور فکر تار عنکبوت ثابت ہوتی ہے اور ان کی عربی دانی پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔

در اصل جب بھی کوئی شخص اپنا کوئی فلسفہ یا اپنی فکر غلط بنیادوں پر استوار کرتا ہے تو اس کی اینٹ اور گارے کے لیے قرآن کریم کے صافی خانے سے ہی اس کا انتظام کرتا ہے اور یہ سمجھنے لگتا ہے کہ ہم نے تیر مار لی ہے اس لیے حضرت ابن عباسt کو جب حضرت علیt نے خوارج کے پاس بھیجا تو فرمایا: خوارج کے پاس جاؤ اور ان سے بحث کرو، لیکن قرآن کے ذریعہ نہیں، کیوں کہ وہ متعدد معانی والا ہے، بلکہ ان سے سنت کے ذریعہ بحث و مناقشہ کرو۔ (مفتاح الجنة في الاحتجاج بالسنة، ص ۵۹)

اہل باطل عموما ایسی جگہوں پر سنت سے دوری اختیار کرتے ہیں اور قرآن سے ہی استدلال کرتے ہیں، پھر من مانی تاویل کرتے ہیں اور گمراہ ہوتے ہیں، قادیانی اور دوسرے فرقوں کا ذکر تو چھوڑ دیجیے، پاکستان کے صوبہ سندھ میں ایک فرقہ ہے جس کا نام ’ذکری فرقہ‘ ہے وہ صرف ذکرو اذکار کی دعوت دیتا ہے اور ارکان اربعہ کو ترک کرنے کی باتیں کرتا ہے، وہ بھی استدلال قرآن سے ہی کرتا ہے ان کا کہنا ہے کہ قرآن خود کہتا ہے ’’اقم الصلاة لذكرى‘‘ (طٰہ: ۱۴) کہ نماز میرے ذکر کے لیے قائم کرو یعنی ہر عبادت اللہ کے ذکر کے لیے ہے تو پھر ذکر و اذکار کرو باقی چیزوں کی ضرورت نہیں۔ العیاذ بالله !

اسی طرح ہر باطل فرقہ یا شخص اپنی فکری کجی یا باطل نظریہ کے لیے دلیل قرآن میں ہی تلاش کرتا ہے پھر لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے، تاکہ عوام متاثر ہوں اور اس کے دام تزویر میں آسانی سے آجائیں، مولانا مودودی رحمہ اللہ نے بھی ایک فکر کی بنیاد رکھی، پھر اسی بنیاد پر پوری عمارت کھڑی کر دی، یہ سوچنے کی زحمت نہ گوارا کی کہ یہ فکر، فکر سلف صالحین کے مطابق ہے کہ نہیں، اور استدلال میں قرآنی الفاظ اور آیات پیش کرنے لگے گویا کہ عہد صحابہ سے لے کر ان کے دور تک کوئی عالم ایسا نہیں گزرا ہے جو ان کے بیان کردہ مفہوم کو سمجھا ہو، وہ اس مفہوم کے سمجھنے میں تنہا ہیں اور یہی سب سے بڑی غلطی تھی، چنانچہ صوفی صاحب مودودی صاحب پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’جماعت اسلامی کے بانی نے نا معلوم کب سے سیاست و ریاست کو اپنا موضوع بنا رکھا تھا، لہٰذا اس نے عمر بھر کی تحقیقات کے نتیجے میں یہ اعلان کر دیا کہ دین کا مرکزی مفہوم وہی ہے جسے موجودہ دور میں ریاست کہا جاتا ہے مگر اس کے مفہوم کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے وہ کلی ریاست کے لفظ کو استعمال کرنے سے قصدا اجتناب کرتا ہے مگر اس کے سب الفاظ کا مفہوم کلی ریاست ہی بنتا ہے، گویا دین کے حقیقی معنی اس کے نزدیک کلی ریاست کے ہیں، اس کی اس دین سازی کا پورا فلسفہ اس کی کتاب ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ میں درج ہے، جس میں اس نے اپنے سادہ نویسی کے طرز کو چھوڑ کر نہایت درجہ گمراہ کن پیچ در پیچ راستہ اختیار کیا ہے، وہ کہنا تو یہی چاہتا ہے کہ دین کے حقیقی معنی ’’کلی ریاست‘‘ کے ہیں مگر تحریر کا آغاز الوہیت، ربوبیت و عبادت کے مفہوم کی تحریف سے کرتا ہے، اور پوری امت کے ساتھ پوری انسانیت کی نجات کو اس کے قبول کرنے پر منحصر قرار دے کر ہیگل کے خانہ ساز خدا، صنم اکبر، طاغوت اعظم کے دھرم کو مذہبی دنیا میں بھی رائج کر دینے کی جانباز کوشش کر دی ہے، اس شخص کا خدا، خدائے قہار، اس کا دین ریاست قاہرہ اور اس شخص کی کائنات، کائنات مجبور و مقہور و مغضوب ہے، یہ شخص رحمت و رافت، ربوبیت و الوہیت کے سارے سلسلے کو لپیٹ کر اس کی جگہ جس دین کو رائج کر رہا ہے وہ ہیگل ازم ہے، لیکن اس شخص میں اور ہیگل میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ ہیگل تو اس طاغوت و اہرمن کے دین کو لا مذہب کے اسٹیج سے پیش کرتا ہے، مگر بانی جماعت اسلامی اسے اسلام کے دین کامل کے نام سے پیش کرتا ہے ؎

گو ان میں اور رقیب میں راہیں تھیں مختلف

لیکن وہ ایک منزل جاناں پہ جا ملے‘‘

( جماعت اسلامی کے دین کا خلاصہ ص: ۹۰-۹۲)

اس کے بعد مختلف عناوین قائم کرکے ہیگل اور مودودی صاحب کے نظریات کا موازنہ کرکے کتاب و سنت کی روشنی میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے مثلاً ایک عظیم مغالطہ، دوسرا جھوٹا دعویٰ، مودودی ازم کا خلاصہ، چند مطالبات، چند گزارشات، سیرت و سنت، ذکر و دعا، ذکر و دعا اور فطرت انسانی، قرآن کی چار بنیادی اصطلاحوں کی حقیقت اور فطرت کائنات اور فطرت انسانی سے ان کی مطابقت، حقیقت دین، ذرائع، اطاعت کس کا حق ہے ؟، توحید الوہیت و توحید ربوبیت، الوہیت کی ہمہ گیری اور ربوبیت جیسے بھاری بھرکم فلسفیانہ اور منطقیانہ عناوین قائم کرکے جماعت اسلامی اور اس کے بانی مولانا مودودی کے باطل افکار و نظریات کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں، اقامت دین و حکومت الٰہیہ کے موہوم تصور کو اس طرح چکنا چور کیا ہے جس کا جواب نہیں، پھر اس کے بعد ایک تاریخی تسلسل کو بیان کرکے بتا دیا ہے کہ اقامت دین کا تصور جو مودودی صاحب پیش کر رہے ہیں وہ کیوں کر باطل ہے چنانچہ صوفی صاحب لکھتے ہیں :

’’یہاں پر اشد درجہ ضروری ہے کہ تاریخ انبیاء کے تمام معلومہ ابواب پر ایک سرسری نظر ڈال لی جائے، اس کے ساتھ جبارین سیاست کو بھی سرسری طور پر دیکھ لیا جائے، تو جس کے دل میں نور ایمان کی شمع جل رہی ہے اسے حق و باطل، نور و ظلمت کی طرح بالکل دو علاحدہ علاحدہ چیزیں محسوس ہوں گی، اس کے بعد خاتم الانبیاء کی ساری مکی زندگی میں نازل ہونے والے احکام پر بھی نظر رکھ لی جائے، یہ سب احکام ایمانیات و اخلاقیات پر مشتمل ہیں، یہاں تمام انبیاء کا دین ایک محسوس ہو گا، یہ ہے اس مسلم الثبوت دعوت کی حقیقت کہ تمام انبیاء کا دین ایک رہا ہے، وہ تا ابد نا قابل تغیر رہے گا لیکن اکثر جہلاء اسے نہیں جانتے۔

رہا آپ ﷺ کی زندگی کا مدنی دور، تو یہ تکمیل شریعت کا دور ہے اور یہ مسلم الثبوت حقیقت ہے کہ انبیاء کی شریعتوں میں کھلا اختلاف رہا ہے، اور اگر ریاست کوئی چیز ہے بھی تو وہ محض شریعت کے اجراء کی ایک ایجنسی ہے جسے قائم کرنے کا سوائے چند استثناؤں کے تمام انبیاء کو موقع ہی نہیں ملا، اس کے باوجود ان کا دین کامل تھا، لہٰذا دین کا حقیقی مفہوم ’’ریاست‘‘ کو خاص کر کلی ریاست کو بتانا علی الاطلاق باطل ہے اور ہمہ جہتی تحریف دین ہے اور اس کا نام اقامت دین رکھنا اور اس کے لیے دعوت عالمگیر دینا دین کو لا دینیت سے بدلنے کی کوشش ہے۔‘‘

(جماعت اسلام کے دین کا خلاصہ، ص: ۱۱۵-۱۱۶)

واقعی جماعت اسلامی کو سمجھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ نہایت ضروری ہے صرف کم پڑھے لکھے لوگوں کے لیے نہیں بلکہ علماءاور فضلاء کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ مولانا مودودی کے افکار اور جماعت اسلامی کے غلط مقاصد کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس جماعت سے امت کو جو نقصان پہنچا ہے اس کا ادراک کریں، صوفی صاحب نے جو دردمندانہ اپیل کی ہے اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں، صوفی صاحب نے اپنی کتاب کے آخر میں خلاصۂ کلام کے عنوان سے جو بات لکھی ہے، ہے تو بہت فلسفیانہ مگر بہت ہی اہم اور کتاب و سنت کی روشنی میں ڈوبی ہوئی عبارت ہے آئیے اس کو پڑھ لیتے ہیں اور ان کی فکر عالی کا اندازہ لگاتے ہیں۔ صوفی صاحب لکھتے ہیں:

’’دین انسانی کے معنی وہ اخلاقی فطرت انسانی ہے، جو نوع انسانی کو باقی سلسلۂ حیات سے امتیاز دے کر اسے مقام شرافت پر متمکن کرتی ہے، اور رسالت کا عہدہ اسی فطرت انسانی کی تربیت و تکمیل کے لیے اللہ پاک نے معین فرمایا ہے۔

رہے مادی بقا و تسلسل کے اسباب و ذرائع تو وہ انسان کے لیے باقی حیوانات کی طرح موجود ہے اس کے لیے اسے مزید کسی عہدۂ رسالت کو قائم کرنے کی ضرورت نہ تھی ۔

عبادت اصولا اسی اخلاقی فطرت انسانی کو جبلت حیوانی کے مقابل قوی کرنے اور اس پر حاوی کرنے والے مجاہدات کا نام ہے، جو مقصود بالذات ہیں، انہیں قیام ریاست کے ذرائع قرار دینا، مقصد کو ذریعہ اور ایک بعید ترین ذریعہ (ریاست) کو مقصد قرار دینا طاغوتی اکھاڑ پچھاڑ ہے، جو حقیقی مقصد حیات (حیات ابدی ) کی طرف سے انسان کے رخ کو ماضی کی حیات حیوانی کی طرف پھیر دیتی ہے، العیاذ بالله !

توحید خدا کا اصول انسان کو اپنے خالق سے شعوری رابطہ قائم کرنے کی رہنمائی کرتا ہے اور انسان کی ساری اخلاقی صلاحیتیں، اپنے خالق کی صفات کاملہ سے مربوط ہو کر بالقوہ سے بالفعل اپنے کمال کو پہونچتی ہیں۔

اور انسان {وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْۤ اٰدَمَ} [الاسراء: ۷۰] {لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍٞ۰۰۴} (التین: ۴)

اور ’’خَلَقَ اللهُ آدَمَ عَلَى صُوْرَتِهِ‘‘ (بخاری: ۶۲۲۷، مسلم: ۲۶۱۲) کا سچا مصداق بنتا ہوا {اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّنَهَرٍۙ۰۰۵۴ فِيْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيْكٍ مُّقْتَدِرٍؒ۰۰۵۵} [القمر: ۵۴-۵۵] کی کائنات ابد بقا کی طرف روانہ ہو جاتا ہے ۔‘‘

(جماعت اسلامی کے دین کا خلاصہ، ص: ۱۲۶-۱۲۷)

میں صوفی صاحب کی اس کتاب کی عبارتوں کو پڑھتا رہا تو بار بار خیال آتا رہا کہ گویا ’’الكافيه‘‘ کی عبارتیں پڑھ رہا ہوں، یہی وجہ ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ یہ شکایتیں کرتے رہے کہ صوفی صاحب بڑی بلندی سے باتیں کرتے ہیں یا پھر ساتویں آسمان سے باتیں کرتے ہیں، اب احساس ہوتا ہے کہ ان کی شکایت بجا، فکر رسا کا قافیہ تنگ اور ان کی قوت ادراک کم یا کمزور تھی. اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه اللهم. آمین

آئیے اب اس بات کا جائزہ لیا جائے جہاں پر صوفی صاحب سے تھوڑی سی چوک ہو گئی ہے۔ در اصل ایرانی انقلاب جو ۱۹۷۹ء میں برپا ہوا، جس کے نتیجہ میں محمد رضا شاہ پہلوی کی حکومت ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی جو ایک امریکہ نواز حکومت تھی، لیکن اب اس کا کام اور دور پورا ہو چکا تھا، اب امریکہ اور فرانس کو ایک دوسری نئی حکومت کی ضرورت تھی، جو خلیجی ممالک کو آنکھیں دکھا سکے اور اسرائیل کا اندرون خانہ حلیف ہو۔ یہ بات بہت مشہور ہے کہ پیرس میں امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور آیت اللہ خمینی کے دفاتر ایک ہی بلڈنگ میں تھے، خمینی جو فرانس میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہا تھا ایک جنونی مذہبی رہنما تھا انقلاب ایران کے پس پردہ وہی تھا جو امریکہ اور فرانس کی مدد سے اب ایران آچکا تھا اور اس کے در و بست پر قابض ہو چکا تھا، چوں کہ اس انقلاب کے پس پردہ امریکہ اور فرانس کے خفیہ ہاتھ کام کر رہے تھے اس لیے اس کو سر بلند دکھانے کی ذمے داری بھی انھی کے سر تھی، سو انھوں نے اس کو نہایت درجہ چالاکی اور خوبصورتی سے انجام بھی دیا اور اس انقلاب کا اس قدر دو رخی پروپیگنڈہ کیا کہ

کمال یہ ہے کہ دنیا کو کچھ پتہ نہ لگے

ہو التجا بھی کچھ ایسی کہ التجا نہ لگے

( شہید فتح پوری )

ایک طرف تو امریکہ اور فرانس در پردہ خمینی اور اس کے ہم نواؤں کی بھر پور مدد کر رہے تھے اور اس کا غلط پروپیگنڈہ اس طرح کر رہے تھے کہ یہ اسلامی انقلاب ہے جس سے پوری دنیا کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور یہ دہشت گردی کا نیا روپ ہے، یہ اور بات ہے کہ چند ہی مہینوں میں امریکہ اور آیت اللہ خمینی کے درمیان اپنے اپنے مفادات کو لے کر شدید اختلاف ہو گیا اور اب دونوں کی راہیں الگ الگ ہو گئیں، مگر دونوں ہی ایک منزل جاناں پر ملتے رہے، یہی وجہ تھی کہ پہلی جنگ خلیج کے موقع پر جب کولن پاول (امریکہ کے سابق چیف آف آرمی اور وزیر خارجہ) نے سینئر صدر بش سے عراق کے بعد اجازت طلب کی کہ لگے ہاتھوں ایران کو بھی ٹھکانے لگا دیتے ہیں تو صدر بش نے سختی سے منع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا نہیں کر سکتے ہیں کیوں کہ ایران ہمارے لیے ’’گیٹ آف امریکہ‘‘ ہے، بظاہر ہمیشہ دونوں میں ٹھنی رہی اور ایک دوسرے پر اوچھے حملے بھی کرتے رہے، خمینی نے امریکہ کو ’’شیطان بزرگ‘‘ سے تعبیر کیا تو امریکہ نے خمینی کو دہشت گردی کی علامت قرار دیا، اس کے باوجود امریکہ کل بھی سنیوں کے خلاف در پردہ ایران کی مدد کر رہا تھا اور وہ سلسلہ آج تک جاری ہے، یہی نہیں دوسری طرف خمینی کو مسلمانوں کا امام قرار دیتا رہا اور اس کے بعد پورے یورپ اور امریکہ کی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس قدر نہایت بھیانک انداز میں تشہیر کرنے لگا کہ اچھے اچھے دانشوروں اور مفکرین و مصلحین کے دماغ ماؤف ہو کر رہ گئے، اسلامی انقلاب اور دہشت گردی کو ایک ہی کیٹیگری میں لا کر کھڑا کر دیا گیا ، یہی وجہ تھی کہ صوفی صاحب جیسے عظیم اسلامی مفکر بھی اس پروپیگنڈہ کا شکار ہو گئے اور خمینی جیسے جنونی انسان کو ’’مجاہد ملت‘‘ کے لقب سے یاد کرنے لگے۔ ( جماعت اسلامی کے دین کا خلاصہ ص: ۷۸)

حیرت کی بات ہے کہ صوفی صاحب نے خمینی کو ’’مجاہد ملت‘‘ کیوں کر لکھ دیا، جب کہ ’’ان کا یہ نظریہ تھا کہ دنیا میں دو گروہ ایسے ہیں جو جمہوریت کے سب سے بڑے دشمن ہیں -ایک برہمن ازم اور دوسرے شیعہ- دونوں کے نظریات میں شورائیت کا کہیں تصور نہیں ہے۔‘‘ ( قافلۂ حدیث ص ۲۱۳)

بہر حال صوفی صاحب کی یہ ایسی چوک اور بھیانک غلطی تھی جس کی کوئی بھی توجیہ قابل التفات و قبول نہیں ہے، بلکہ ان کی یہ غلطی اوروں کے لیے دلیل بن گئی کہ جماعت اہل حدیث کا ایک عظیم شخص خمینی کو ’’مجاہد ملت‘‘ سے یاد کرتا ہے تو دوسرے اگر خمینی کی جھولی میں پکے آم کی طرح جا گرے ہیں، تو اس میں کوئی عیب کی بات نہیں ہے، حالاں کہ یہ استدلال فی نفسہ باطل ہے کسی کی غلطی دوسرے کے لیے دلیل نہیں بن سکتی ہے، غلطی بہر حال غلطی ہے چاہے وہ کسی سے بھی سرزد ہو، مثل مشہور ہے کہ بڑے آدمی سے بڑی غلطی ہوتی ہے اور یہی بات صوفی صاحب پر منطبق ہوتی ہے ورنہ ان کی اس کتاب ’’جماعت اسلامی کے دین کا خلاصہ‘‘ میں عمیق پیغام اور سامان فکر موجود ہے، یہ کتاب چراغ راہ ہے اور حقیقی منزل کی سمت نشان دہی کرتی ہے، بہت ساری غلط فہمیوں کو دور کرتی ہے، جماعت اسلامی کو آئینہ دکھاتی ہے، مولانا مودودی کے غلط اور خود ساختہ افکار و خیالات کی بھر پور تردید کرتی ہے، اس کے ساتھ ہی عالمگیر انسانی اخوت کی دعوت دیتی ہے، یہ کتاب اللہ تعالیٰ کے قانون عدل و رحمت اور قانون قہر و غضب پر بڑی ہی چشم کشا روشنی ڈالتی ہے، صوفی صاحب کا ایک مخصوص اور ادق اسلوب ہے، ان کی تحریر سمندر کو کوزہ میں بند کر دیتی ہے، یہی وجہ تھی کہ بعض اچھے صاحب قلم ناک بھوں چڑھاتے تھے اور طنزا کہتے تھے کہ صوفی صاحب ساتویں آسمان سے باتیں کرتے ہیں۔ (مدیر قومی آواز، جنوری ۱۹۷۸ء)

چنانچہ صوفی صاحب اپنی اسی کتاب میں عالمگیر اخوت و مساوات کی دعوت دیتے ہیں اور امت اسلامیہ کے سارے مسائل کا حل اور تمام درد کا درماں اسی میں تلاش کرتے ہیں، اس کے ساتھ ہی ’’العروة الوثقى‘‘ اور ’’اعتصام بحبل اللہ‘‘ کا جاں فزا درس دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’عالم گیر جمہوری مساوات کا جو نعرہ آج عالم گیر ہو چکا ہے، اس نے خارجی طور پر اخوت و مساوات انسانی کے دینی پیغام کو سننے کے لیے عالم گیر فضا پیدا کر دی ہے، لہٰذا ملت اسلامیہ کی عرض کردہ کوشش بالکل بر محل اور بر وقت ہو گی، اصل کام تو ملت اسلامیہ کو اندرونی دینی انتشار سے پاک کرتے ہو ئے، اسے محکمات اور مسلمات دین سے مربوط کرنا ہو گا، مگر اس نئی تجدیدی حرکت کے خارجی رخ کو بھی متعین کرتے ہوئے اسلام کو ایک طے شدہ پروگرام کی شکل میں عالم انسانی کے سامنے لایا جائے۔

یہ ہے امت اسلامیہ کے سارے دردوں کا علاج، ہماری سعی و جہد کی اصل بنیاد اور اصل ’’العروة الوثقى‘‘ تو قطعا اعتصام باللہ اور اعتصام بحبل اللہ ہو گا، مگر اعدائے دین کے مقابل مادی تیاری سے دستبرداری نہیں ہو سکتی، اس کے لیے ’’واعدوا لهم ما استطعتم‘‘ کے فرض کو نظر انداز کرنا دین کا رہبانی تصور ہے، جسے خاتم الانبیاء نے ختم کرتے ہوئے تمسک با لاسباب کو فرض کر دیا ہے۔

وہ ایک متفقہ فرض تو ہے، مگر وہ اساس دین و ملت نہیں ہے، اس کی بنیاد تو اعتصام باللہ سے ہوتے ہوئے اجتماعی اعتصام بحبل اللہ ہے اور اس بنیاد کو دین کے نام پر رنگ رنگ کی بے دینیاں کھو کھلا کر رہی ہیں، اس ساری مخالف فضا کو عالم گیر توافق فضا سے بدلنے کی یہی مختصر صورت ہے جو عرض کی گئی، اللہ پاک ہر اس ادارے، جماعت اور فرد کو اپنی رحمت میں گھیر لے جو اس مختصر پیغام کو امت مسلمہ کے سامنے لائے۔‘‘ (جماعت اسلامی کے دین کا خلاصہ ص ۷۸-۷۹)

صوفی صاحب نہایت نڈر اور بے باک انسان تھے، ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو ان کے گھر پر کھری کھری سناتے تھے:

’’صوفی صاحب نے پنڈت نہرو اور جگ جیون رام سے لے کر تمام ہندو لیڈروں کو اپنی دعوت پہنچائی۔ پنڈت سندر لال اور پروفیسر رام سنگھ وغیرہ نے صوفی صاحب کی کتابوں پر مقدمے لکھے اور ان کے مشن کو بہت سراہا۔‘‘

(قافلۂ حدیث، ص۲۰۸)

صوفی صاحب کی کتاب پر پنڈت سندر لال اور پروفیسر رام سنگھ کے لکھے گئے مقدمے پیش خدمت ہیں:

’’تعارف: (۱) صوفی نذیر احمد صاحب کا شمیری سے اپریل ۱۹۳۸ء سے میری گہری واقفیت رہی ہے۔ اُس زمانے میں راقم تین ہفتے تک ان کے ساتھ روحانی مراقبے میں شرکت کرتا رہا۔ اس کے بعد میں نے اُن سے دریافت کیا کہ کیا وہ اس بات کو پسند کریں گے کہ اُن کی رہنمائی میں ایک عالمی نوعیت کا روحانی بیداری کا مرکز قائم کیا جائے۔ مگر یہ تجویز اُن کے لیے قابل قبول نہ تھی۔ اس لیے کہ وہ اس وقت روحانی پیری مریدی کے بجائے مذہبی مبلغ بننے کے متعلق سوچ رہے تھے۔ اس کے بعد بھی ہم اکثر اوقات ایک دوسرے سے ملتے رہے اور بعض وقت ان کے خیالات کے متعلق بات چیت بھی ہوتی رہی۔

ان کا مشن: صوفی صاحب کا مشن کہ جسے وہ تن تنہا چلا رہے ہیں۔ ایک خدا، ایک عالم گیر انسانی بھائی چارے اور شرافتِ انسانی (خلافت ِانسانی) کے تین اصولوں پر قائم ہے۔ انھیں تین عالم گیر اصولوں پر وہ ثقافتِ انسانی کے سارے ذخیرے کو پرکھتے ہیں۔ وہ اپنی طاقت اور منطق اور مضبوط یقین سے ہر اس چیز کو اُکھاڑ پھینکتے ہیں کہ جو ان اصولوں سے ٹکراؤ کرتی ہو۔ لہٰذا ان کی ساری تنقید دنیا سے تنگ نظری و تعصب کی نفی کرنے کے لیے ہوتی ہے نہ کہ تنگ نظری کی پیداوار۔ اس لیے کہ تعصب و تنگ نظری اس عالم گیر مذہبی ڈھانچے میں کسی صورت کھپ نہیں سکتے۔ لہٰذا اُن کی تحریرات کا مطالعہ کرنے والے کو اس بات کو ضرور پیشِ نظر رکھ لینا چاہیے کہ ان کا یہ غیر مراعات انداز فکر صرف اصول کی حد تک ہے۔ عملاً وہ قرآن مجید کے اس محا کمے کے پابند ہیں کہ ’’دین میں جبر کی گنجائش نہیں ہے۔‘‘

عام انسانوں کو یہ چیز ایک عجوبہ معلوم ہوگی مگر اسلام کے آغاز میں اس عجوبے کا نہایت کامیاب تجربہ ہو چکا ہے۔ اس لیے کہ جو شخص بھی اسلام کے انتظامی ڈھانچے کو مان لیتا تھا اُسے اپنے دینی اعتقاد و عمل میں کامل آزادی ہوتی تھی۔

سندر لال

سابق صدر آل انڈیا امن کا نفرنس۔ ۸۹-مارکیٹ سکوائر۔ نیو دہلی

۱۰؍مارچ ۱۹۷۴ء

(۲) صوفی نذیر احمد کاشمیری میرے ایک پرانے اور قابل احترام دوست ہیں، بہت دفعہ مجھے اُن کے قلم سے لکھے ہوئے مقالات و رسائل پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ وہ ہمیشہ نہایت صاف اور منطقیانہ انداز میں لکھتے ہیں۔ میری تمنا ہے کہ اُن کے مقالات و رسائل کو تمام دنیا کے مذہبی اداروں اور مذہبی شخصیتوں کے سامنے لایا جائے۔ وہ ازحد مفید ہیں اور زیادہ سے زیادہ وہ تمام دنیا میں اخلاقی و روحانی قدروں کی تازگی، بالیدگی اور تقویت کا باعث ہو سکتے ہیں، جس کی آج انسانیت کو ضرورت ہے۔ اُن کی اُس طوفانی تنقید سے کہ جو وہ بعض عالمی مذاہب کے بعض اصولوں پر کرتے ہیں، تنقیدی رنگ میں اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ان کا مرکزی تصور کہ جہاں وہ اخلاقی و روحانی قدروں پر زور دیتے ہیں، یہ بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے کہ کوئی غیر متعصب اور صحیح سوجھ بوجھ کا پڑھا لکھا آدمی اُس سے اختلاف کر سکے۔‘‘

رام سنگھ

صدر اکھل بھارت ہندو مہا سبھا، نیو دہلی‘‘

صوفی صاحب کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا، دین اسلام کی صاف ستھری اشاعت، اسلام کے انسانی مساوات و اخوت کی عالم گیر ترویج، باطل نظریات اور برہمن ازم کے خلاف اعلان جنگ، اپنی جان کی پروا کیے بغیر وہ اپنے مشن کو آگے بڑھاتے رہے، بڑے بڑے سیاست دانوں، حکمران وقت، سورماؤں، دانشوروں اور اسلامی و غیر اسلامی نام نہاد مفکرین کو دعوتی خطوط لکھتے رہے اور سب کو اسلام کے زیر سایہ آنے کی دعوت دیتے رہے، بعض احباب سوال کرتے ہیں کہ صوفی صاحب ایک مقام پر کیوں نہیں ٹھہرتے تھے اس کا جواب خود صوفی صاحب کی تحریر دیتی ہے آئیے ان کا بیان پڑھتے ہیں وہ اپنی اسی کتاب کے ص ۹۸؍پر یوں لکھتے ہیں :

’’مجھے ۱۹۵۲ء میں بعض خیر اندیش گاندھی بھگتوں نے اپنے آشرم میں پناہ دی تھی، یہ وہ زمانہ تھا کہ جب پورے ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات پورے زور شور سے بپا تھے، اور میں نے بھی برہمن ازم کے خلاف اپنی طوفانی تنقید کو پوری یکسوئی کے ساتھ شروع کر رکھا تھا، نتیجہ یہ تھا کہ میرے لیے کہیں قیام کرنا ناممکن ہو گیا تھا، اس لیے نہیں کہ مجھے کچھ اپنی جان کا خوف تھا بلکہ اس کے مقابل تو میری تمنا یہی تھی کہ کلمۂ توحید کا نعرہ لگاتے ہوئے کہیں قتل ہو جاؤں

کٹا دوں سر راہ سر کو وفا میں

صلہ یہ بھی ہے اک مری بندگی کا

یہ میر اپنا شعر ہے اور وہ نقطۂ آغاز ہے میر ی تحریرات کا، مگر مشکل یہ آن پڑی تھی کہ قتل تو کسی نے نہ کیا لیکن پولیس اور سی آئی ڈی نے میرا کہیں ٹھہرنا مشکل کر دیا، میرے میزبان خود مجھ سے تنگ آجاتے تھے، اسی زمانے میں گاندھی بھگتوں کے ایک دو افراد نے مجھے دعوت دی کہ میں ان کے آشرم، شیوا گنج آشرم، گنگا گھاٹ اناؤ میں قیام کروں، میں نے انھیں بلا لاگ لپیٹ یہ بتا دیا کہ میرا مقصد برہمن ازم کی صاف صاف تنقید اور اس کے ساتھ توحید محمدیﷺ کی تبلیغ ہے، اگر میرا یہ مشن وہاں بھی جاری رہ سکتا ہے تو مجھے ان کی دعوت کو قبول کرنے میں کوئی عذر نہ ہوگا، اس پر بھی انھوں نے مجھے اپنے یہاں ٹھہرنے کی دعوت دی، اور میں ان کے یہاں جا کر ٹھہر گیا، منتظمین کی طرف سے تو مجھے ہر قسم کی سہولت حاصل تھی، مگر آشرم میں رہنے والے لوگوں سے قدم قدم پر بحث و مناظرے کی صورت پیدا ہوجاتی تھی۔‘‘

( جماعت اسلامی کے دین کا خلاصہ، ص ۹۸-۹۹)

صوفی صاحب کی یہ داستان حیات تقسیم ہند اور آزادی کے بعد کی ہے، قبل از آزادئ ہند ان کی صحرا نوردی اور روداد زندگی پڑھنی ہے، تو عظیم خاکہ نویس اور مورخ اسلام مولانا محمد اسحاق بھٹی کی کتاب ’’قافلۂ حدیث‘‘ کا مطالعہ کریں، صوفی صاحب کی کہانی بڑی دلچسپ اور سبق آموز ہے ۔

صوفی صاحب رحمہ اللہ و غفر لہ جیسا دل و گردہ کہاں ملے گا ؟ تبلیغ اسلام کا یہ انداز اور اشاعت دین حنیف کا یہ طور و طریق اب کون سکھائے گا ؟ وہ اپنی در بدری اور خانہ بدوشی کے زمانے میں وصفی بہرائچی کے ان اشعار کو ضرور گنگناتے رہے ہوں گے

دل ان کی محبت کا جو دیوانہ لگے ہے

یہ ایسی حقیقت ہے جو افسانہ لگے ہے

عالم نہ کوئی پوچھے مری وحشت دل کا

گھر اپنے اگر جاؤں تو ویرانہ لگے ہے

(وصفی بہرائچی)

صوفی صاحب ہر الحادی فکر اور دین میں تفرقہ پیدا کرنے والی سوچ اورتحریک کے خلاف تھے یہی وجہ ہے کہ وہ جماعت اسلامی اور اس کے بانی مولانا مودودی کی ’’ہیگلی‘‘ اور ’’میکیاولی‘‘ فکر کے شدید ناقد تھے، اورامت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کے خواہاں، وہ علمائے امت کو ان کا فرض منصبی یاد دلاتے رہے اور ملحدانہ افکار و نظریات جو خوبصورت اسلامی غلاف میں ملفوف عام لوگوں کے سامنے بڑی چابک دستی کےساتھ پیش کیے جا رہے تھے اس کے خلاف ایک متحدہ محاذ بنانے کے حق میں تھے، وہ کہا کرتے تھاکہ ’’اپنی ملت کا قیاس اقوام مغرب پر نہ کرو، اس لیے کہ ’’قوم رسول ہاشمی ترکیب میں اپنا ایک خاص‘‘ مقام رکھتی ہے ان کا نعرہ فقط ایک ہی تھا: ’’واعتصموا بحبل الله جميعا‘‘ وہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے آزاد مفکرین کے افکار و خیالات اور نظام ہائے فکر کو ’’تجدید و احیائےدین‘‘ کے لیے سم قاتل گردانتے تھے، اور مولانا مودودی یورپ کی نشاۃ ثانیہ اس کی بے مثال ترقی اور زرق و برق تہذیب کی تائید میں تھے، اور صوفی صاحب اس کے مخالف، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی اسی غلط منہج کی تردید و تنقید میں گزار دی، اللہ تعالیٰ ان کی دینی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کی بصیرت کو عام کر دے۔ آمین

ایک دفعہ جب بندۂ عاجز نے ان کے حالات زندگی ان سے معلوم کرنے کی کوشش کی تو برملا کہنے لگے کہ ’’بیٹا! میری سوانح لکھ کر کیا پاؤ گے؟ کیا تمھارے لیے ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور اللہ کے رسولﷺ کی سیرتیں اور سوانح عمریاں کافی نہیں ہیں؟ میں دم بخود رہ گیا، خاموشی کا پتلا بن گیا اور سوچنے لگا واقعی صوفی صاحب ساتویں آسمان سے ہی بولتے ہیں، اور بقول بھٹی:

’’عام گفتگو وہ بڑے اچھے انداز سے کرتے تھے لیکن جب وہ اسی گفتگو کو ضبط تحریر میں لاتے تو وہ مشکل ہی سے سمجھ میں آتی تھی۔‘‘ (قافلۂ حدیث ص ۲۱۳)

واقعی ان کی ہر گفتگو اسی طرح انمول الفاظ کے سانچوں میں ڈھلی رہتی تھی، مگر سامنے والا اپنی بالشتی پر نظر نہیں رکھتا تھا اور دوسری لا یعنی باتوں میں الجھ کر رہ جاتا تھا، اب اسے تقدیر کا کرشمہ ہی کہ سکتے ہیں کہ جو شخص اپنی سوانح حیات بتانے کا روادار نہ تھا اور لکھنے والا خاموش ہو کر اپنا ہاتھ کھینچ لیا تھا آج وہی اس شخص کے حالات زندگی پر قلم اٹھانے کا عزم صمیم کر چکا ہے، تکمیل دست قدرت میں ہے، و ما ذٰلك على الله بعزيز!

صوفی صاحب کی تقریباً دو درجن تصنیفات ہیں، دو انگلش میں ہیں باقی اردو میں، الحمدلله ان کی ایک درجن کتابیں میرے پاس موجود ہیں، باقی کتابوں کی تلاش جاری ہے، دہلی، لکھنؤ، بنارس اور گاؤں شنکر نگر جیسے مقامات پر میں نے بعض احباب سے رابطہ کیا ہے، اور گزارش کی ہے کہ صوفی صاحب کی کوئی کتاب ملے یا خطوط ملیں، یا ان پر لکھے گئے مضامین ملیں تو میرے پاس روانہ کرکے مجھے شکریہ کا موقع دیں، کئی دوستوں نے دست تعاون بڑھایا ہے جس پر میں ان کا شکر گزار ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہوں کہ ہم سب کو تعاون علی البر کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین

صوفی صاحب کی اکثر کتابیں نادر موضوعات پر ہیں، اسلوب ادق اور فلسفیانہ ہے، جس کی بنا پر عبارتوں اور مطلوب کو سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے، ہمارے علماء ایسے موضوعات پر کم ہی قلم اٹھاتے ہیں، بطور مثال ان کی چند کتابوں کے نام کچھ اس طرح ہیں:

(۱) مذہب کی حقیقت اور اس کی عالمگیر شکل

(۲) انسانی معاشرے کی پائیدار و ابدی بنیادیں

(۳) کلی ریاست، جمہوری نظام اور نظام اخوت و مساوات

(۴) وحدت امت و دین کی مستقل بنیادیں

(۵) بہائی ازم کے مبلغوں سے محاسبۂ نفس کی درخواست

(۶) تجدید و تعمیر ملت اسلامی کا واحد طریق عمل

(۷) اسلام، ہندوستان اور ممالک اسلامیہ

(۸) ایک عالمگیر ثقافتی انقلاب کی ضرورت اور اس کی صحیح صورت

(۹) اسلام، برہمن ازم اور فرقہ واریت

(۱۰) عالمگیر امن انسانی کا قیام اور اس میں برہمن سماج کا حصہ

(۱۱) اصل ثابت، حصہ اول، دوم

(۱۲) کمیونزم اور اسلام

(۱۳) ذہن انسانی کی حقیقت اور اس کی مختلف شکلیں

(۱۴) اطمینان و فلاح انسانی کی واحد راہ

(۱۵) شورائیت ملی یا شخصی مرکزیت

یہ صوفی صاحب کی چند کتابوں کے نام ہیں جو مختلف مو ضوعات پر لکھی گئی ہیں، جن سے قاری ان کی فکر کی بلندی اور وسعت مطالعہ کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ مزید تفصیل اور ان کتابوں پر کچھ مختصر تبصرے ان شاء الله العزیز زیر ترتیب مستقل تصنیف میں آئیں گے وما التوفیق إلا بالله

صوفی صاحب:

آئیے اب آخر میں نہایت اختصار کے ساتھ صوفی صاحب کی پُرپیچ زندگی پر ایک اُچٹتی سی نظر ڈال لی جائے تو بہتر ہوگا۔

صوفی لقب کے تعلق سے مولانا محمد اسحاق بھٹی اپنی کتاب ’’بزم ارجمنداں‘‘ میں ص ۲۹۸؍پر مرکزی جمعیت اہل حدیث مغربی پاکستان کے نائب صدر جناب صوفی نذیر حسین کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’گوجرا نوالہ میں ایک صاحب صوفی نذیر حسین اقامت پذیر تھے جو قیام پاکستان کے زمانے میں امرتسر کی سکونت ترک کرکے گوجرنوالے آئے تھے ، وہ کشمیری برادری کے ان حضرات سے تعلق رکھتے تھے ، جنھیں ’’صوفی‘‘ کہا جاتا ہے۔‘‘

میرے خیال میں صوفی نذیر احمد کاشمیری رحمہ اللہ کا تعلق بھی اسی برادری سے رہا ہوگا اس لیے وہ بھی اپنے نام کے آگے لفظ ’’صوفی‘‘ لکھا کرتے تھے، و الله اعلم بالصواب۔

’’ریاست کشمیر کے صدر مقام پونچھ شہر میں صوفی نذیر احمد (کاشمیری) ۱۹۰۱ء میں عقیل الہاشمی خاندان میں پیدا ہوئے ، والد کا اسم گرامی مولوی نجم الدین تھا۔

انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے خاندان کے بزرگوں سے حاصل کی، سترہ یا اٹھارہ برس کی عمر میں مزید حصول علم کے لیے عازم لاہور ہوئے، یہاں اندرون شہر کے مدرسہ غوثیہ میں علوم دینیہ کی تحصیل کی، اس کے ساتھ ہی ادیب فاضل، منشی فاضل اور مولوی فاضل کے امتحانات پاس کیے پھر پنجاپ یونیورسٹی سے میڑک کا امتحان پاس کیا، طالب علمی کے اس زمانے میں اپنے وطن پونچھ میں ان کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہا۔

ان تمام امتحانات سے فارغ ہو کر اور مروجہ دینی تعلیم کی تکمیل کے بعد ۱۹۲۴ء میں وطن واپس آئے اور اسٹیٹ ہائی اسکول پونچھ میں اردو فارسی کے معلم کے طور پر ملازمت اختیار کر لی، انھی دنوں اپنے تایا مولوی جلال الدین کی صاحب زادی سے ان کی شادی ہوئی۔

صوفی صاحب نے اگر چہ دینی تعلیم لاہور میں بریلوی مکتب فکر کے مدرسے میں حاصل کی تھی جس کا نام مدرسہ غوثیہ تھا مگر وہ زندگی بھر سلفی مکتب و منہج فکر کے حامل اور اس کے پرچارک بنے رہے، ان کے صاحب زادے سید مختار احمد ہاشمی نے علامہ بھٹی کو ۳؍مئی ۱۹۹۹ء کو جو مکتوب ارسال فرمایا تھا اس میں وہ لکھتے ہیں:

’’مدرسہ غوثیہ اندرون شہر لاہور میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود ابا جی ہمیشہ سلفی رہے ، گھر میں بھی اس سلسلے میں اکثر ان کے ساتھ جھگڑا رہتا تھا۔‘‘

صوفی صاحب کا حلقۂ تعلقات بہت وسیع تھا جو پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں دور تک پھیلا ہوا تھا ان کی زندگی کا زیادہ تر عرصہ ہندوستان میں گزرا اس لیے ان کے ذاتی رابطے زیادہ تر وہیں کے حضرات سے تھے ، وہاں کی حکومت کے قائدین اور مختلف سیاسی جماعتوں کے افراد سے ان کے مراسم تھے، ابو الکلام آزاد، جوہر لال نہرو، بھولا بھائی ڈیسائی، ڈاکٹر راجندر پرشاد، رفیع احمد قدوائی ، آصف علی ، ڈاکٹر سید محمود، جے پرکاش نرائن، رام منوہر لوہیا وغیرہ سب کانگریسی اور غیر کانگریسی زعماء سے ان کے مراسم تھے، اسی طرح اکابر دیوبند میں سے مولانا اشرف علی تھانوی اور قاری محمد طیب سے، جمعیت علمائے ہند کے رہنماؤں میں سے مولانا حسین احمد مدنی، مولانا احمد سعید دہلوی، مفتی کفایت اللہ اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی وغیرہ سے، اکابر جامعہ ملیہ میں سے ڈاکٹر ذاکر حسین خاں اور ان کے ساتھیوں سے، اکابر ندوہ میں سے مولانا ابوالحسن ندوی اور ان کے رفقائے کرام سے، دارالمصنفین اعظم گڑھ میں سید سلیمان ندوی، مولانا مسعود علی ندوی، حاجی معین الدین وغیرہ سے، ہندو لیڈروں میں سے ایل کے ایڈوانی، ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی اور ان کے ہم نواؤں سے، اہلِ حدیث حضرات میں حاجی محمد صالح اور مولانا عبد الوہاب آروی وغیرہ سے ان کے علائق تھے، آر ایس ایس اور جن سنگھ وغیرہ جماعتوں کے چھوٹے بڑے سب لیڈر ان کا احترام کرتے تھے اور ان کی بات توجہ سے سنتے تھے۔‘‘

آپ کے تبصرے

3000