شوال کے چھ روزے: فضائل ومسائل

تسلیم حفاظ عالی عبادات

مذہب اسلام کے تمام تر احکام وتعلیمات انسانی فطرت کے عین مطابق اور دینی و دنیاوی ہر اعتبار سے مفید ہیں۔ اس میں ہر اس چیز کی ہدایت وترغیب دی گئی ہے جس میں انسانیت کی فلاح وبہبود اور سماج ومعاشرے کے حق میں ادنی سی بھی بھلائی وبہتری موجود ہو۔ اور ہر اس چیز سے سختی کے ساتھ روکا گیا ہے جس میں دینی ودنیاوی کسی بھی اعتبار سے ذرہ برابر بھی ضرر کا شائبہ پایا جاتا ہو۔

روزہ اسلام کی ان مفید اور سنہری تعلیمات میں سے ایک عظیم الشان تعلیم ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے بے شمار دینی ودنیاوی مصالح وفوائد، ان کے نفسوں کی تہذیب واصلاح اور انھیں بشری کمال تک پہنچانے کے لیے ماہ رمضان کے روزے فرض کیے ہیں۔ روزہ انسانی جسم کو نئی روح اور توانائی بخشتا ہے۔ اس سے بے شمار سماجی رذائل وقبائح، معاشی مشکلات اور بدنی امراض کا ازالہ ہوتا ہے۔ روزے کے انھی روحانی، جسمانی، سماجی اور اقتصادی فوائد وثمرات کے پیش نظر آپ ﷺ نے ماہ رمضان کے فرض روزوں کے علاوہ کثرت سے نفلی روزوں کے اہتمام کی تاکید فرمائی ہے۔

ماہ رمضان کے اختتام کے بعد ماہ شوال میں چھ نفلی روزوں کی کتب احادیث میں بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

مَن صامَ رَمَضانَ ثُمَّ أتْبَعَهُ سِتًّا مِن شَوَّالٍ، كانَ كَصِيامِ الدَّهْرِ(صحيح مسلم:۱۱۶۴)جو شخص رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ عمل سارا سال روزے رکھنے کی مانند ہوگا۔

سارے سال کے روزوں کی مانند اس لیے کہا گیا ہے کیوں کہ ایک نیکی کا بدل دس گنا ہوتا ہے، لہذا ماہ رمضان کے روزے دس ماہ کے برابر ہوئے اور شوال کے چھ روزے دو ماہ کے برابر۔ جیسا کہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

من صامَ ستَّةَ أيَّامٍ بَعدَ الفطرِ كانَ تَمامَ السَّنةِ {مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا}(صحيح ابن ماجه:۱۴۰۲) جس نے عید الفطر کے بعد چھ روزے رکھے تو یہ پورے سال کے روزوں کی طرح ہوں گے۔ کیوں کہ جس نے ایک نیکی کی اس کے لیے اس کے مثل دس گنا اجر ہوگا۔

مذکورہ دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ ماہ شوال کے چھ روزے مستحب ہیں۔ یہی اکثر علما کی رائے ہے۔ اس لیے ہر مسلمان کو ان کا خاص اہتمام کرنا چاہیے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے مسلم شریف کی مذکورہ حدیث کے تحت لکھا ہے:

فِيهِ دَلَالَة صَرِيحَة لِمَذْهَبِ الشَّافِعِيّ وَأَحْمَد وَدَاوُد وَ مُوَافِقِيْهِم فِي اِسْتِحْبَاب صَوْم هَذِهِ السِّتَّة، وَقَالَ مَالِك وَأَبُو حَنِيفَة: يُكْرَه ذَلِكَ، قَالَ مَالِك فِي الْمُوَطَّإِ: مَا رَأَيْت أَحَدًا مِنْ أَهْل الْعِلْم يَصُومهَا، قَالُوا : فَيُكْرَهُ ؛ لِئَلَّا يُظَنَّ وُجُوبُهُ . وَدَلِيل الشَّافِعِيّ وَمُوَافِقِيهِ هَذَا الْحَدِيث الصَّحِيح الصَّرِيح ، وَإِذَا ثَبَتَتْ السُّنَّة لَا تُتْرَكُ لِتَرْكِ بَعْضِ النَّاسِ أَوْ أَكْثَرِهِمْ أَوْ كُلِّهِمْ لَهَا ، وَقَوْلهمْ : قَدْ يُظَنّ وُجُوبهَا ، يُنْتَقَض بِصَوْمِ عَرَفَة وَعَاشُورَاء وَغَيْرهمَا مِنْ الصَّوْم الْمَنْدُوب (شرح النووي:۸/۵۶)

ان چھ روزوں کے استحباب کے بارے میں اس حدیث کے اندر امام شافعی، امام احمد، امام داود اور ان کے موافقین کے مذہب کی صریح دلیل موجود ہے۔ امام مالک اور امام ابوحنیفہ انھیں مکروہ سمجھتے ہیں۔ امام مالک نے موطا میں کہا:میں نے اہل علم میں سے کسی کو یہ چھ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا،ان کا کہنا ہے کہ یہ روزے اس بنا پر مکروہ ہیں کہ کہیں ان کے وجوب کا گمان پیدا نہ ہو جائے۔امام شافعی اور ان کے موافقین کی دلیل یہ صحیح اور صریح حدیث ہے۔جب سنت ثابت ہوجائے تو اسے بعض لوگوں یا اکثر لوگوں یا تمام لوگوں کے چھوڑنے کی وجہ سے نہیں چھوڑا جائے گا۔اور ان چھ روزوں کے عدم استحباب کے قائلین کا یہ کہنا کہ کہیں ان کے وجوب کا خیال نہ پیدا ہوجائےاس وجہ سے درست نہیں ہے کیوں کہ یہی خیال عرفہ،عاشورہ اور ان کے علاوہ دیگر مندوب ومستحب روزوں کے بارے میں بھی تو پیدا ہو سکتا ہے۔

سیوطی العصر علامہ محمد بن علی بن آدم اثیوبی رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں علما کے مختلف اقوال ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے:

والحاصل أن الحق والصواب ما قاله كثير من أھل العلم من استحباب صوم ستة أيام من شوال، لصحة الأحاديث بذلك.(البحر المحیط الثجاج…۲۱/۵۳۶)

حاصل کلام یہ ہے کہ اکثر اہل علم نےماہ شوال کے چھ روزوں کے استحباب کی جو بات کہی ہے وہی حق اور صواب ہے کیوں کہ اس پر صحیح احادیث دلالت کناں ہیں۔

شش عیدی روزوں کے فوائد:

رمضان المبارک کے بعد شوال کے چھ روزوں کے اہتمام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے پورے سال روزے رکھنے کا اجر ملتا ہے۔جیسا کہ سطور بالا میں یہ بات گزری۔دوسرا عظیم فائدہ یہ ہے کہ رمضان سے قبل وبعد شعبان وشوال کے روزے فرض نمازوں سے قبل وبعد والی موکدہ سنتوں کے مشابہ ہیں۔جس طرح فرض نمازوں میں واقع ہونے والی تقصیرات کا ازالہ سنتوں سے کیا جائے گا اسی طرح فرض روزوں میں سرزد ہونے والی فروگزاشتوں کا تصفیہ نفلی روزوں سے کیا جائےگا۔ ماہ رمضان کے بالکل پہلے یا بعد کے روزوں کی حکمت بیان کرتے ہوئے علامہ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں :

أفضل التطوع ما کان قريبا من رمضان قبله وبعده ، وذلك يلتحق بصيام رمضان لقربه منه، وتکون منزلته من الصيام بمنزلة السنن الرواتب مع الفرائض قبلها وبعدها، فيلتحق بالفرائض في الفضل، وهي تکملة لنقص الفرائض وکذلك صيام ما قبل رمضان وبعده، فکما أن السنن الرواتب أفضل من التطوع المطلق بالصلاة ، فکذلك صيام ما قبل رمضان و بعده أفضل من صيام ما بعد منه (لطائف المعارف :۲۴۹)

سب سے بہتر نفلی روزہ وہ ہے جوماہ رمضان کے پہلے یا بعد میں بالکل اس سے قریب رکھا جائے،رمضان کے روزوں سے قریب ہونے کی وجہ سے اس کا وہی مقام ومرتبہ ہے جو فرائض سے پہلے وبعد والے سنن رواتب کا ہے۔اسے فضیلت میں فرائض کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔جس طرح سنتیں فرض نمازوں کی کمیوں کو پورا کرنے والی ہیں اسی طرح رمضان المبارک کے پہلے اوربعد والے نفلی روزے فرض روزوں کے نقص کے ازالے کا سبب ہیں۔نیز دیگر نفلی روزوں کے مقابلے میں رمضان سے معاً پہلے اوربعد میں روزہ رکھنابھی اسی طرح افضل ہے جس طرح فرض نمازوں کے پہلے وبعد والی سنتیں مطلق نوافل پڑھنے سے بہتر ہیں۔

اسی طرح کی بات شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی حجة اللہ البالغہ میں کہی ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:والسر في مشروعيتها أنها بمنزلة السنن الرواتب في الصلاة… (حجة اللہ البالغة ۔ الجزء الثاني:۸۵)

یعنی ان چھ روزوں کی مشروعیت کاراز یہ ہے کہ جس طرح نماز کے سنن ونوافل ہوتے ہیں جن سے نماز کا فائدہ مکمل ہوتاہے،اسی طرح یہ چھ روزے بھی روزوں کے سنن ونوافل کے قائم مقام ہیں۔

کیا شوال کے چھ روزے رمضان کے فورا بعد رکھنا ضروری ہے؟:

یاد رہے کہ یہ چھ روزے شوال کی ابتدا میں، درمیان میں،آخر میں اور پے درپے یا الگ الگ ہر طرح جائز اور درست ہیں، کیوں کہ ان تمام اشیا کی تعیین شارع نے نہیں کی ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

قَالَ أَصْحَابنَا : وَالْأَفْضَل أَنْ تُصَامَ السِّتَّةُ مُتَوَالِيَةً عَقِبَ يَوْم الْفِطْرِ ، فَإِنْ فَرَّقَهَا أَوْ أَخَّرَهَا عَنْ أَوَائِل شَوَّال إِلَى أَوَاخِره حَصَلَتْ فَضِيلَة الْمُتَابَعَةُ ؛ لِأَنَّهُ يَصْدُقُ أَنَّهُ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّال(شرح النووي:۸/۵۶)

ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ افضل یہ ہے کہ یہ روزے عید الفطر کے بعد پے در پے رکھے جائیں۔لیکن اگر کوئی وقفے وقفے سے یہ روزے رکھے یا انھیں ماہ شوال کی ابتدا سے آخر تک موخر کردے تو اسے بھی پے در پے روزے رکھنے کی فضیلت حاصل ہوگی، کیوں کہ اس پر یہ بات صادق آئے گی کہ اس نے شوال کے یہ چھ روزے رمضان کے بعد ہی رکھے ہیں۔

علامہ صدیق حسن خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

أقول ظاهر الحديث أنه يكفي صيام ست من شوال سواء كانت من أوله أو أوسطه أو آخره(الروضة الندية: ۱/۲۳۳)میں کہتا ہوں کہ حدیث کا ظاہر یہ ہے کہ ماہ شوال کے چھ روزے کفایت کرجاتے ہیں، خواہ شوال کی ابتدا میں رکھے جائیں،یا اس کے درمیان میں رکھے جائیں یا اس کے آخر میں رکھے جائیں۔

لیکن افضل یہ ہے کہ عید الفطر کے بعد والے دن سے یہ روزے پے در پے رکھے جائیں، جیسا کہ اوپر امام نووی کا قول ذکر کیا گیا۔علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بھی یہی رائے اختیار کی ہے۔وہ فرماتے ہیں:

قال الفقهاء-رحمهم الله-: والأفضل أن تكون هذه الست بعد يوم العيد مباشرة لما في ذلك من السبق إلى الخيرات. والأفضل أن تكون متتابعة، لأن ذلك أسھل غالبا، ولأن فيه سبقا لهذا الأمر المشروع(الشرح الممتع:۶/۴۶۵)

فقہا رحمہم اللہ کا کہنا ہے کہ ان چھ روزوں کو عید کے دوسرے دن سے براہ راست رکھنا افضل ہے کیوں اس عمل میں نیکیوں کی طرف سبقت پائی جاتی ہے۔اور افضل یہ ہے کہ انھیں لگاتار رکھا جائے، کیوں کہ عام طور پر لگاتار روزے رکھنا آسان ہوتا ہے اور تتابع میں اس امرِ مشروع کی طرف سبقت بھی ہوتی ہے۔

عید الابرار بدعت ہے:

بعض لوگ باگ شوال کے آٹھویں دن کو عید الابرار کہتے ہیں۔یعنی ان لوگوں کی عید جنھوں نے شش عیدی روزے رکھے۔لیکن اس کی کوئی اصل نہیں ہے،بلکہ یہ بدعت ہے۔علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اس امرکی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

ولكن هذا بدعة، فھذا اليوم ليس عيدا للأبرار ولا للفجار،ثم إن مقتضى قولهم أن من لم يصم ستة أيام من شوال ليس من الأبرار، وهذا خطأ، فالإنسان إذا أدى فرضه فهذا بر بلا شك وإن كان بعض البر أكمل من بعض (الشرح الممتع:۶/۴۶۶)

لیکن عید الابرار منانا بدعت ہے۔شوال کا آٹھواں دن نیک لوگوں کی عید ہے نہ فاجر لوگوں کی۔ان کے اس قول کی رو سے شوال کے چھ روزے نہ رکھنے والا شخص نیک لوگوں میں سے نہیں ہے حالاں کہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ جو انسان اپنا فرض ادا کر لے وہ بلا شک وشبہ نیک ہے گرچہ بعض کی نیکوکاری بعض کے مقابلے میں زیادہ مکمل ہوتی ہے۔

جس پر رمضان کے روزوں کی قضا ہو وہ کیا کرے؟:

اس سلسلے میں صحيح بات ہے كہ شوال كےچھ روزوں كا تعلق رمضان كےروزوں كو پورا كرنے سےہے۔ اس کی دليل مسلم شریف کی مذکوہ حدیث ہے۔اس میں حرف عطف “ثم”موجود ہے جوترتيب اور تعقيب پر دلالت كرتا ہے۔ اور یہ اس بات كی دليل ہے كہ پہلے رمضان المبارك كےروزے ادا اور قضا دونوں اعتبار سے مكمل كرےپھر اس كےبعد شوال كےچھ روزے ركھے تاكہ حديث ميں وارد شدہ اجروثواب حاصل ہو سكے۔

علامہ ابن عثیمين رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ثم إن السنة أن يصومھا بعد قضاء رمضان لا قبله، فلو كان عليه قضاء ثم صام الستة قبل القضاء فإنه لا يحصل على ثوابھا، لأن النبي ﷺ قال : ’’من صام رمضان‘‘ ومن بقي عليه شيئ منه فإنه لايصح أن يقال إنه صام رمضان بل صام بعضه(الشرح الممتع:۶/۴۶۶)

سنت یہ ہے کہ کوئی شخص شوال کے چھ روزے رمضان کے روزوں کی قضا کے بعد رکھے نہ کہ پہلے،اگر اس پر قضا ہو اور وہ قضا سے پہلے یہ چھ روزے رکھے تو اسے ثواب حاصل نہیں ہوگا، اس لیے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:”جس نے رمضان کے روزے رکھے”، اور جس پر رمضان کے روزوں میں سے کچھ باقی ہو اس کے بارے میں یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ اس نے رمضان کے(مکمل) روزے رکھے بلکہ یہ کہا جائے گا کہ بعض روزے رکھے۔

ليكن اگر انسان كوكوئی ايسا عذر پيش آجائےجس كی بنا پر وہ شوال كےچھ روزے شوال كے مہینےميں نہ ركھ سكے، مثلا عورت نفاس كی حالت ميں ہو اور وہ شوال كا پورا مہینہ ہی رمضان كےروزوں كی قضاكرتی رہے تووہ دوسرے مہینے ميں شوال كے چھ روزے ركھ سكتی ہے یا نہیں ؟ اس سلسلے میں علما کے مختلف اقوال ہیں۔بعض علما عدم جواز کے قائل ہیں اور بعض جواز کے۔شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ اس طرح کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:

يقضيھا ويكتب له أجرھا كالفرض إذا أخره عن وقته لعذر، وكالراتبة إذا أخرھا لعذر حتى خرج وقتھا، فإنه يقضيھا كما جآءت به السنة(الشرح الممتع:۶/۴۶۷)

اگر کوئی شخص كسی عذر کی بنا پر یہ روزے شوال کے مہینے میں نہ رکھ سکے تو وہ بعد میں ان کی قضا کر لے اسے اجر مل جائے گا، جیسے فرض کا وقت اگر کسی عذر کی وجہ سے نکل جائے، یا سنن رواتب کو اگر عذر کی وجہ سے موخر کردے تو ان کی قضا کرے گا،جیسا کہ ایسا کرنا سنت سے ثابت ہے۔

حروف آخریں یہ کہ ماہ شوال کے چھ روزے بڑی اہمیت وفضیلت والے ہیں۔ان کا اہتمام اللہ تعالی کی رضا وخوشنودی کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔یہ ان اعمال میں سے ہیں جنھیں لازم پکڑ کر ایک بندۂ مومن رب کی رحمت ومغفرت کا مستحق بن سکتا ہے۔اللہ تعالی ہمیں توفیق عطا فرمائے۔آمین

آپ کے تبصرے

3000