اپنی آمد میں کام یاب نہیں
شعر جو تیرا انتخاب نہیں
توٗ سراپا کتاب ہے لیکن
زندگی کا مری نصاب نہیں
مجھ سے کتنے لبوں کو ہے امید
ایک قطرہ ہوں میں سحاب نہیں
میری جانب قدم بڑھاتا ہے
وہ ابھی عارفِ سراب نہیں
ہر پیالے میں ڈھلتا جاؤں مَیں
آدمی ہوں کوئی شراب نہیں
معذرت اے مرے لطیفہ گو!
مسکرانے کی مجھ میں تاب نہیں
آئنہ کیا بھرے گا رنگ کوئی
آپ کے رنگ کا جواب نہیں
سارے بازار میں اتر آئے
بام پر کوئی ماہتاب نہیں
شیشۂ دل سنبھال کر رکھنا
زندگی ہے خیال و خواب نہیں
قیس کیا جانے شہر کی وحشت
میں کہ ہوں شاد آنجناب نہیں
آپ کے تبصرے