رہا نہ ہوش ہمیں ہم تو بے خبر بھٹکے
نکل کے کوچۂ جاناں سے در بہ در بھٹکے
کہیں تو ہوگا مداوائے رقص نیش فراق
اسی خیال سے یاران چارہ گر بھٹکے
نہ کارواں کا تصور نہ منزلوں کا سراغ
ہم اہل خاک شہیدان رہ گزر، بھٹکے
رہین موج بلا ہے خود آگہی کا جہاں
اب ایسے دشت میں بھٹکے کوئی اگر بھٹکے
زمین ہجر کی بے برگ و ساز راہوں میں
وفا پرست ستاروں کے راہبر بھٹکے
حریم عشق سے زنداں کی خواب گاہوں تک
کہاں سے آئے کہاں پہنچے اور کدھر بھٹکے
دھڑکنے لگتی ہے تصویر آزری دل کی
لیے ہوئے کوئی نامہ جو نامہ بر بھٹکے
کسی مقام پہ ٹھہرے کہیں سے کوچ کیا
سراب شوق و تمنا میں عمر بھر بھٹکے
رہ حیات میں کچھ وجہ انتظار نہ تھی
ظہور وعدۂ انجام تک مگر بھٹکے
وہ خواب جن کے مقدر میں ہجرتیں تھیں حسن
جنوں صفات جزیروں میں بے سفر بھٹکے
واہ کیا عمدہ کلام ہے۔
کہاں سے آئے کہاں پہنچے اور کدھر بٹکے۔۔ واہ کیا مصرعہ ہے ❤️