کوہِ گراں

وسیم المحمدی تذکرہ

کتابوں سے محبت انسانی زندگی میں موجود معروف محبتوں سے جداگانہ ہے۔ کتابیں انٹریکٹ نہیں کرتی ہیں مگر انسانی طبیعتوں کو استقلال، استقامت، انکساری اور یکسوئی کا جو درس دیتی ہیں وہ جذبات میں اعتدال کا تاپمان بنائے رکھنے میں بہت معاون ثابت ہوتا ہے۔

کتابوں سے بے مثال محبت کرنے والی ایسی ہی ایک یگانہ شخصیت کا بیان ہے زیر نظر مضمون‌ میں۔ یہ عظیم شخصیت بنیادی طور پر ایک استاذ ہے مگر اس کے مثالی کردار میں جو رنگارنگی ہے اس کو مختلف ابعاد و جہات میں شاگرد رشید ڈاکٹر وسیم محمدی صاحب نے جس طرح پیش کیا ہے معلمی پیغمبری ہی معلوم ہوتی ہے۔

یہ مضمون ایک شخص کی زندگی کا مرقع ہی نہیں ہے، اس‌ میں ایک طرف جہاں جامعہ اسلامیہ جیسی مایہ ناز درس گاہ کے نقوش ہیں وہیں مدینہ منورہ کی زمین میں بکھری ہوئی پیغمبرانہ خصلتوں کے مظاہر بھی ہیں۔ اللہ کے کلام اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کی زبان میں کار‌ ہائے نمایاں کا بکھان ہے تو کتابوں سے محبت کے نتیجے میں قول و عمل میں در آنے والی رفعتوں کا بیان بھی ہے۔

جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے ٹائم لائن کا ایک ٹکڑا استاذ ترکستانی کے اس تذکرے میں اس طرح موجود ہے کہ جامعہ کا ایک پورا عہد اس میں سانسیں لیتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ عظمت کا جو احساس موصوف کو مختلف صورتوں میں تصور کی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے ہوتا ہے وہ احساس ایک کردار کے اردگرد نہیں بلکہ پورے کیمپس اور پھر سارے مدینہ کے کلچر کا احاطہ کرلیتا ہے۔

ایسے مضامین میں نہ نقطہ نظر ایک ہوتا ہے اور نہ بیانیہ کسی ایک کیفیت کے زیر اثر۔ دماغ میں جیسے خیالات ہوں، دل میں جیسے جذبات ہوں آنکھوں کو ویسے ہی مناظر بھاتے ہیں اور بیانات میں ویسے ہی الفاظ پنپتے ہیں۔

زیر نظر مضمون پڑھ کر طبیعت میں سرشاری کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ دیر تک باقی رہتی ہے۔ دل میں نرمی اور آنکھوں میں نمی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ علم تو انگلیوں کی نوک پر ایسا‌ دستیاب ہے کہ ایک انسان کی ساری انرجی اور پوری زندگی بھی احاطے سے قاصر ہیں مگر دل کی دنیا بدلنے والے لوگ اور کتابیں کم ہیں۔ یہ مضمون، مضمون نگار اور زیر تذکرہ شخصیت بھی انھی میں سے ہیں۔ (مدیر)


دو ہفتہ پہلے میرے نہایت ہی موقر استاذ پروفیسر محمد یعقوب ترکستانی کا فون آیا۔ کہنے لگے: میں ایک کتاب ترتیب دے رہا ہوں جو اہم خطوط اور پرانی یاد داشتوں پر مشتمل ہے۔ پندرہ سال پہلے تم نے میرے متعلق کچھ تاثرات لکھے تھے۔ میری خواہش ہے وہ تاثرات بھی اس کتاب کا حصہ بنیں، لیکن میں چاہتا ہوں کہ تحرير ہاتھ سے لکھی ہوئی ہو۔ تمھیں کوئی حرج نہ محسوس ہو تو اسے ہینڈ رائٹنگ میں لکھ کر بھیج دو۔
در اصل جون ۲۰۰۸ میں جب پروفیسر محمد یعقوب ترکستانی ریٹائر ہوئے تو کلیہ نے ان کی طویل خدمات کے اعتراف میں ایک الوداعی پروگرام کیا، اسی مناسبت سے میں نے ان کے بارے میں چند صفحات پر مشتمل تاثرات لکھے تھے۔ وہ انھی تاثرات کی بات کر رہے تھے۔
ظاہر ہے میرے لیے یہ چیز کسی شرف سے کم نہیں تھی کہ پندرہ سال پہلے لکھے گئے میرے ٹوٹے پھوٹے کلمات کو میرا کوئی موقر استاذ اپنی کتاب کا حصہ بنانے کا خواہش مند ہو۔ تاہم میں نے یہ کہہ کر معذرت کرنی چاہی کہ کہاں میری کمزور سی عربی اور کہاں آپ کی موقر تالیفات؟ شاید یہ مناسب نہ ہو کہ وہ کلمات آپ کی کسی كتاب کا حصہ بنیں!
حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہنے لگے کہ پہلی بات تو تمھاری زبان ما شاء الله بہت اچھی ہے۔ پھر وہ تمھارے دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے کلمات ہیں۔ تمھارے احساس وشعور کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ میرے نزدیک ان کی بہت اہمیت ہے۔ اس لیے معذرت مت کرو اور وقت نکال کر یہ کام کر ڈالو۔
پروفیسر محمد یعقوب ترکستانی مدینہ یونیورسٹی کے عربک کالج کی شان تھے۔ ایک الگ ہی پہچان رکھتے تھے۔ علم، نفاست، اسلوب، طرز حیات، طرز تدریس، طرز تصنیف وتحقیق سب کچھ بالکل نرالا تھا۔ ایسے ذی علم، بلند اخلاق، باوقار اور سنجیدہ اساتذہ بہت کم ہوتے ہیں۔ واقعی وہ اپنی مثال آپ تھے۔
کالج کے تیسرے سال وہ ہمیں ’دراسات في كتب اللغة‘ جیسا انتہائی اہم سبجیکٹ پڑھانے آئے۔ تعارف ہوا تو میں ان سے کافی قریب ہوگیا۔ اور پھر جو تعلق قائم ہوا تو آج تک قائم و دائم ہے۔ ایم اے میں ان سے لسانیات جیسا اہم سبجیکٹ پڑھا اور وقتا فوقتا قدیم علماء کی بعض اہم کتابوں کے متعدد اسباق خصوصی طور سے پڑھنے کی توفیق ہوئی۔
ایک زمانے میں ان کا آفس ہمارے کالج کے بالكل سامنے تھا، جب بھی وقت ملتا چلے جاتے، آپ فری ہوتے تو کسی کتاب کا کوئی سبق پڑھ لیتے، یا کسی علمی مسئلہ پر گفتگو ہو جاتی، بسا اوقات زندگی کے عام تجربات بھی شیئر کرتے اور بھرپور فائدہ پہنچاتے۔
ابن جنّي (وفات 392ھ) كی ’الخصائص‘ عربی اصول وضوابط اور فقہ اللغہ کی عظیم ترین کتاب ہے۔ عربی زبان کے خصائص اور اس کی فقہ وفہم میں اس کتاب کی ایک الگ ہی شان ہے۔ ابن جنی عربی زبان کے ایک عبقری عالم تھے۔ ان کی عبقریت اس کتاب میں جھلکتی ہے۔ بلکہ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ کتاب ان کی عبقریت کا ٹائٹل ہے۔
آپ کو ابن جنی کی شخصیت اور ان کی مایہ ناز کتاب الخصائص سے والہانہ تعلق تھا۔ ان کا نام آجاتا تو آپ کا لہجہ بدل جاتا۔ ان کے ذکر خیر میں رطب اللسان ہوجاتے۔ اس کتاب کی اہمیت اور عربی زبان کے طالب علم کے یہاں اس کی قدر وقیمت پر روشنی ڈالتے۔
ام القرى یونیورسٹی کے معروف پروفیسر ڈاکٹر عبد الرحمن عثیمین -رحمہ اللہ- آپ کے کلاس فیلو تھے۔ وہ آپ کے علمی رفیق تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے سے خوب علمی فائدہ اٹھایا۔ یہ دوستی طالبعلمی کى زندگی سے لے کر ان کی موت تک دراز رہی اور افادہ واستفادہ کا دور مسلسل چلتا رہا۔
آپ فرماتے ہیں:یہ غالبا 1980م کی بات ہے۔ اس وقت ہم پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ ایک رات بارہ بجے کے قریب انھوں نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے کہا خیریت؟ کہا تیار ہو کر فورا نکلو۔ میں نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہنے لگے پہلے باہر آؤ۔ جب تیار ہوکر آگیا تو بولے:بہت بڑی خوشخبری ہے۔ الخصائص کا سب سے عمدہ ایڈیشن محمد علی النجار کی تحقیق سے چھپ کر آگیا ہے۔ ابھی پہلی ہی جلد آئی ہے۔ مدینہ منورہ کے فلاں مکتبہ میں مل رہی ہے۔ قبل اس کے کہ ختم ہو جائے چل کر لے آتے ہیں۔ عبد الرحمن نے بعض معقول وجوہات کی بنا پر کہا دونوں اپنی اپنی گاڑیوں سے نکلیں گے۔ چنانچہ ہم لوگ اسی وقت نکل گئے۔ اس وقت مدینہ کا پرانا راستہ تھا جو کافی ناہموار اور سنگل تھا۔ رات بھر سفر کرکے ہم فجر میں مدینہ پہنچے۔ نماز پڑھی۔ فول اور تمیز کا ناشتہ کیا۔ مکتبہ کھلنے سے پہلے ہی اس کے چوکھٹ پر جاکر بیٹھ گئے اور کھلنے کا انتظار کرنے لگے۔ جب مکتبہ کھلا ہم نے دس نسخے خریدے۔ دو اپنے لیے اور باقی دوستوں کو ہدیہ کرنے کے لیے۔ کتاب لے کرفورا مکہ روانہ ہوگئے۔ کہتے تھے ایسے کئی واقعات ہیں جب ہم نے کوئی کتاب خریدنے یا اسے حاصل کرنے کے لیے سفر کیا۔ جانفشانی کی اور مشقت برداشت کی۔
الخصائص کے کئی اسباق ہم نے آپ سے کلاس کے باہر پڑھے۔ آپ کی اسی محبت وعنایت اور اس کتاب سے شغف کا نتیجہ تھا کہ میں نے طلبہ کے لیے اس کتاب کی تلخیص وتہذیب کا ارادہ کیا ۔ جب کام شروع کرنے لگا تو پتہ چلا کہ ہمارے ایک فاضل دوست پروفیسر مشعان نازل الحربی اس اہم اور مبارک عمل سے فارغ ہو چکے ہیں اور کتاب چھپنے والی ہے۔ پھر واقعی تین جلدوں پر مشتمل یہ کتاب ایک جلد میں مہذب ہوکر ’لباب الخصائص‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ عربی زبان سے دلچسپی رکھنے والے ہر فاضل شخص کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔
اسی طرح ابن فارس (وفات:395ھ) کی بے نظیر ڈکشنرى ’مقاییس اللغۃ‘ سے آپ کو خصوصی دلچسپی تھى۔ یہ منفرد ڈکشنرى کلمات کے اصول (مادے)اور اس کے اشتقاقات پر بحث کرتى ہے۔ کلمہ کو اس کے مشتقات سے جوڑتے ہوئے ان کے درمیان تعلق کو واضح کرتی ہے۔ ہر اصل (مادہ)کے شروع ہی میں یہ بات واضح کر دیتی ہے کہ اس اصل سے کتنے معانی نکل سکتے ہیں؟ پھر مشتقات اور مثالوں کے ذریعہ اس کی توثیق وتوضیح کرتی ہے۔ عربی زبان سے شغف اور واسطہ رکھنے والے طلبہ کو یہ ڈکشنرى اپنے پاس ضرور رکھنی چاہیے۔ بہت ہی نادر اور قیمتی ڈکشنرى ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ جوہری(393ھ) کی الصحاح ، زمخشری (وفات:538) کی اساس البلاغہ، ابن منظور(وفات:711ھ) کی لسان العرب اور فیروزآبادی(وفات:817ھ) کی القاموس المحیط بہت مفید ہیں۔ الصحاح ، لسان العرب اور القاموس المحیط اگرچہ معانی جاننے کے لیے بہت ہی اہم اور مفید ہیں اور عربی ڈکشنریوں میں ان کا ایک مقام ومرتبہ ہے۔ تاہم مقاییس اللغہ اور اساس البلاغہ میں جو ندرت اور فن کارى ہے اس کی بات ہی الگ ہے۔ امیر صنعانی رحمہ اللہ نے اساس البلاغہ کا اختصار بھی کیا ہے، جس میں اس کے مجازات کو الگ کردیا ہے۔ پی ایچ ڈی میں میری خواہش تھی کہ اس کی تحقیق کروں، تاہم کسی وجہ سے ڈیپارٹمنٹ سے موضوع رجیکٹ ہوگیا اور یہ کام نہیں ہوسکا۔
اصول واشتقاق کے باب میں ابن فارس سے پہلے بھی یہ کاوش ہوئى ضرور تھی مگر بہت ہلکی پھلکی یا منتشر تھی۔ ابن فارس نے اس کو موصَّل کیا، رخ دیا اور مستقل فن بنا دیا۔ آپ نے بہت ہی پختہ انداز میں ایک مکمل ڈکشنرى کی شکل میں اس نادر اور اہم ترین فکر کو پیش کیا، اور عربی زبان کی ایک اور خصوصیت سے دنیا کو بہت ہی اچھے انداز میں روسناش کرایا۔
استاذ محترم ہی کے اشارے پر الحمد للہ میں نے پہلے مکمل مقاییس اللغۃ دقت سے پڑھی، پھر اس کی تلخیص بھی کی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالى اسے نشر واشاعت سے شرف یاب کرے۔
مقاییس اللغۃ کے علاوہ ایک اور ڈکشنرى جس کا آپ خصوصیت سے ذکر کرتے تھے، وہ ہے اندلس کے عبقری عالم ابن سیدہ (وفات: 458ھ) کی ’المخصَّص‘۔ آپ فرماتے تھے کہ اس ڈکشنرى کے ساتھ بھی بہت ظلم ہوا۔ اسے اس کا حق نہیں ملا۔ کہتے :المخصص محض ڈکشنرى نہیں ہے۔ علوم عربیہ کا خزانہ ہے۔ ابن سیدہ نے اس عظیم کتاب میں صرف کلمات کے معانی نہیں بیان کیے ہیں۔ زبان کے مختلف علوم و مسائل اتنی دقت وباریکی سے بیان کیے ہیں جو صرف انھی کا خاصہ ہے۔ بہت افسوس ہوتا ہے جب دیکھتا ہوں کہ اس علمی خزانہ سے طلبہ تو طلبہ اہل علم تک اس قدر فائدہ نہیں اٹھا تے ہیں جس قدر اٹھایا جا نا چاہیے۔
ویسے تو آپ کی کلاس میں تقریبا تمام مشہور لغویوں اور ان کی کتابوں کا ذکر آتا رہتا تھا۔ جس سے طلبہ کا بہت فائدہ ہوتا تھا۔ تاہم کچھ لوگوں کا آپ خصوصی اور بار بار تذکرہ کرتے تھے۔
قدیم لغوی کتابوں اور ان کے مؤلفین کو آپ خصوصی اہمیت دیتے اور ان کا ذکر خیر کرتے تھے۔ ان کی کتابیں پڑھنے پر ابھارتے اور ان کے ناقابل فراموش جہود کا مسلسل ذکر کرتے۔
جن کتابوں کا آپ بکثرت ذکر کرتے اور انھیں پڑھنے پر ابھارتے تھے ان میں ابن فارس ہی کی’الصاحبی فی فقہ اللغۃ‘ اور امام سیوطی (وفات:911ھ) کی ’المزھر فی علوم اللغۃ وأنواعہا‘ قابل ذکر ہیں۔ امام سیوطی سے بھی آپ کو کافی لگاؤ تھا۔ اسی طرح ابن جنی کے استاذ ابو علی الفارسی (وفات:377ھ)، امالى کے مؤلف ابو علی القالی (وفات:356ھ)، الکامل فی اللغۃ والأدب کے مؤلف مبرِّد(وفات:286ھ) وغیرہ کا برابر ذکر ہوتا۔ سیبویہ(وفات:180ھ)تو خیر سیبویہ ہیں ان کے ذکر کے بغیر عربی زبان پر ہونے والی کوئی گفتگو کیسے مکمل ہو سکتی ہے؟ ان کے استاذ خلیل فراہیدی(وفات:170ھ) کا بھی بہت احترام سے ذکر کرتے۔ ان کی علمی خدمات کے ساتھ ساتھ ، ان کی عبقری شخصیت اور زہد وتقشف سے پر زندگی کو خصوصی طور سے ہائی لائٹ کرتے تھے۔ خلیل فراہیدی سے آپ بہت متاثر تھے۔ اہل علم کے لیے انھیں ایک آئیڈیل کی طرح دیکھتے تھے۔ اسی طرح خلیل کے استاذ شیخ العربیۃ ابو عمرو بن العلاء (وفات:154ھ) کا آپ کے یہاں ایک خصوصی مقام تھا۔
قدیم مؤلفین سے دلچسپی کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ جدید مؤلفین سے غافل تھے۔ عصر حدیث میں فقہ اللغۃ اور علم اللغۃ سے دلچسپی رکھنے والے مصنفین سے بھی آپ کو گہرا تعلق تھا۔
تمام حسان ، کمال بشر ، عبدہ الراجحی ، صبحی صالح ،ابراہیم انیس ، آپ کےساتھی پروفیسر خلیل عمایرہ کا بکثرت ذکر کرتے۔ ان کی کتابوں کى طرف رہنمائی کرتے۔ انھیں پڑھنے اور ان سے استفادہ کی راہ ہموار کرتے۔
تما م حسان کی علمی عبقریت سے آپ متاثر تھے۔ بسا اوقات ان کی بعض کتابوں خصوصا ’اللغۃ العربیۃ معناھا ومبناھا‘سےاستفادہ کرنے کے لیے بعض موضوعات کا انتخاب بھی کرتے یا بحث ونقد کی شکل میں مقرر کرتے۔ تاہم آپ ان کی سیلابی عقلانیت اور سیلانی مغربیت سے بہت نالاں تھے۔ بسا اوقات اس پر افسوس بھی کرتے ۔
کمال بشر نے پی ایچ ڈی میں آپ کا مناقشہ کیا تھا۔ ان کی منظم زندگی اور علمی خدمات سے آپ کافی متاثر لگے۔ علم اصوات و لہجات میں ان کی دو مشہور کتابوں علم الأصوات اور اللھجات العربیۃ کا ہمیشہ ذکر خیر کرتے اور ان سے استفادہ پر ابھارتے۔
عبدہ الراجحی کی کتابوں کو نفع بخش بتاتے اور انھیں پڑھنے کی تلقین کرتے۔ ان کی مختصر مگر نہایت علمی تالیف ’النحو العربی والدرس الحدیث‘ کا بکثرت تعارف کراتے اور اس میں موجود علمی افکار سے طلبہ کو روشناس کراتے۔
صبحی صالح کی ’دراسات فی فقہ اللغہ‘سے استفادہ کو لازم بناتے اور درس وبحث کے لیے اسے مقرر کرتے۔ بعض موضوعات میں یہ کتاب ان کے نوٹس اور دروس کی تیاری کے لیے اساسی حیثیت رکھتی تھی۔
ابراہیم انیس نے اپنی مشہور کتاب ’من أسرار اللغۃ‘میں اعراب کے تعلق سے جو نا قابل قبول اور ظالمانہ نظریہ پیش کیا تھا اس پر رد کرواتے۔ اس سلسلے میں متقدمین اور متاخرین کی آراء کو جمع کرواتے۔ ان کا مناقشہ کرواتے اور پھر اپنی رائے پیش کرتے۔
پروفیسر خلیل عمایرہ ان کے ساتھی اور علمی رفیق تھے۔ بکثرت ان کا ذکر خیر کرتے اور ان کی کتاب ’فی نحو اللغۃ وتراکیبھا‘ پڑھنے پر ابھارتے ۔
مؤلفین کے ساتھ ساتھ عصر حدیث کے مشہور محققین واساطینِ بحث وتحقیق کا بھی بکثرت ذکر آتا۔ علامہ احمد شاکر، علامہ محمود شاکر، ، عبد السلام ہارون، محمود طناحی، رمضان عبد التواب، بشار عواد معروف، احمد عبد الغفور عطار، یہ وہ نام ہیں جن کا آپ ہمیشہ ذکرکرتے۔ ان کی تحقیقات اور علمی کاوشوں کا تعارف کراتے اور ان سے استفادہ کی راہ ہموار کرتے۔
یورپ کے جدید لغوی مکاتب فکر (Schools of Thought) آپ کی دلچسپی کا خصوصی محور تھے۔ نیوم چومسکی کو آپ کافی پسند کرتے اور اس کے جہود کو تفصیل سے ذکر کرتے تھے۔ تاہم جب بھی اس کا ذکر آتا تو یہ بھی بتاتے کہ کس طرح چومسکی نے نظریہ تولید امام عبد القاہر جرجانی (وفات:471ھ) سے لیا ہے۔ اور کس طرح یہ نظریہ ان کے یہاں پوری دقت اور باریکی سے موجود ہے۔ خیر چومسکی تو خود امام عبد القاہر کی امامت کا معترف اور ان کے جہود کا قصیدہ خواں ہے۔ امام عبد القاہر کی مایہ ناز کتاب دلائل الاعجاز اس کے اس لغوی نظریہ کی تکوین کے بنیادی عناصر میں شامل ہے۔
آپ کا کہنا تھا کہ یورپ میں جو لغوی انقلاب آیا ہے اس سے عربی زبان پر ریسرچ کرتے وقت استفادہ تو کیا جا سکتا ہے۔ کرنا بھی چاہیے۔ اس سے کافی فائدہ ہوگا۔ تاہم ان کے قواعد وضوابط اور زبان سے متعلق فقہی اصول کو ہو بہو اور على الاطلاق عربی زبان پر فٹ نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں کہ ہر زبان کے کچھ ایسے خصائص ہوتے ہیں، جن میں وہ منفرد ہوتی ہے۔ پھر عربی زبان کی تو بات ہی الگ ہے۔ اس پر کسی دوسری زبان کے قواعد وضوابط اور اصول فقہ کو لادنا بہت زیادتی ہوگی۔ دوسری بات مغرب اپنى لغوی تحقیقات میں عقلانیت کی طرف مائل ہے۔ جبکہ ہماری عربی زبان سماع اور قیاس دونوں کا مجموعہ ہے۔ بلکہ اس کا قیاس سماع پر قائم ہے۔ اور یہ اس زبان کی پختگی اور اصالت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ جبکہ مغرب میں قیاس ہی قیاس ہے۔ وہاں ہماری طرح سماع کا تصور بالکل نہیں ہے۔ اور یہ ہمارے اور ان کے مابین بہت بڑا فرق ہے۔ عربی زبان کے ثبات واستقرار کے مقابل انگریزی سمیت دیگر یورپی زبانوں کا عدم ثبات اور مسلسل اس میں پیدا ہونے والی تبدیلی کا ایک سبب اسے بھی قرار دیتے۔
ان یورپی محققین کو آپ زیادہ نہیں پسند کرتے تھے جنھوں نے عربی زبان کے بارے میں لکھا اور اس پربے جا تنقیدیں کی ہیں۔ بلکہ ایک طرح کی ناگواری کا اظہار کرتے۔ کہتے تھے ایک تو ان کی ایک بڑی جماعت متعصب ہے جو عربی زبان کے تعلق سے معاندانہ رویہ رکھتى ہے۔ دوسرا عربی زبان کے تعلق سے ان کا علم اس قدر سطحی اور کمزور ہے کہ فاش سے فاش غلطیاں کر جاتے ہیں اور انھیں احساس تک نہیں ہوتا۔ بلکہ اس پر ڈھٹائی سے نہ صرف اڑ جاتے ہیں بلکہ اسے تحقیق کا نام دیتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ ان کا عربی زبان سے کما حقہ متعارف نہ ہونا اور اس کی تہ تک پہنچ نہ پانا ہے۔ کہتے:ان میں کتنے ہیں جو عربی زبان جانتے تک نہیں۔ کسی دوسری زبان کے ذریعے اسے جانا ہے۔ وہ بھی اس کے خصائص پر بحث ونقد کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔ اور نتیجتا ٹھوکریں کھاتے ہیں۔
بسا اوقات عربی زبان کے تعلق سے بعض مستشرقین کےمشہور اعتراضات بھی ذکر کرتے۔ ان کا مناقشہ کرتے۔ اور پھر کہتے: یہ مسکین لوگ ہیں۔ علم کی گہرائی نہیں ہے۔ پھر بھی اعتراض کر رہے ہیں۔ اور نتیجتاً
ایسی ایسی باتیں بھی ذکر کر رہے ہیں جو سچائی سے بہت دور اور حقیقت سے بالکل عاری ہیں۔
جب ہم ایم اے (M.Aکے پہلے سال میں تھے تو آپ نے مجھے یہ مشورہ دیا کہ تم اپنی فصلی بحث (یہ مختصر بحث عموما دس سے بیس صفحات پر مشتمل ہوتی تھی اور اس پر دس سے پندرہ نمبرات مقرر کیے جاتے تھے ) میں یورپی زبان دانوں کے بعض اعتراضات کا دراسہ کرو۔ اسى طرح یورپ کے بعض لغوی مکاتب فکر کا دراسہ کرکے علماء عرب کے جہود کو درشاؤ۔ اور دلیل سے یہ ثابت کرو کہ ان افکار ونظریات کا ان عربوں نے بہت پہلے ہی کتنى باریکی سے جائزہ لیا ہے؟ آج بعض یورپی محققین جن لغوی افکار ونظریات پر فخر کر رہے ہیں اور دنیا کو بتا رہے ہیں کہ وہ اس کے موجد اول ہیں، تم یہ ثابت کرو کہ کس طرح عرب اہل علم ان پر سبقت لے گئے ہیں؟
چنانچہ میں نے اپنی فصلی بحث ’النحو العربي بين التقليد والوصف والتحويل والتجميم والسياق‘ایک سو بیس صفحات میں مکمل کی۔ تفصیل سے چند یورپی افکار ونظریات اور بعض مکاتب فکر کا تقابلی دراسہ کیا۔ جب بحث پیش کی تو آپ بہت خوش ہوئے۔ فرمایا:اسے بحث کہتے ہیں۔ میں جیسے چاہتا تھا تم نے ویسے ہی لکھا ہے۔ حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مزید فرمایا:میرے نزدیک تم اس بحث پر ایم اے کی ڈگرى کے مستحق ہو۔
در اصل مدینہ منورہ میں ہمارے اساتذہ بہت وسیع الظرف اور کشادہ دل تھے ، دنیا بھر سے آئے ہوئے طلبہ کو وہ اپنی گردن میں امانت سمجھتے ۔ ان کو مہمان اور غریب الدیار جان کر ان کی ہر طرح سے مدد کرتے۔ جو طلبہ محنتی اور لائق وفائق نظر آتے ان سے خصوصی لگاؤ رکھتے۔ انھیں ہمت وحوصلہ دیتے اور تعلیم وتحصیل کا خوبصورت سفر جاری رکھنے میں ان کا بھرپور تعاون کرتے۔
اساتذہ کرام کے منہ سے نکلے اس طرح کے تشجیعی کلمات بھی اسی تعاون کا حصہ ہوتے تھے۔ جبکہ ہماری کم مائیگی اور کم علمی قطعا اس کی مستحق نہیں ہوتی تھی۔ عموما ایک طالب علم ایک تجربہ کار، با صلاحیت، موقر اور متخصص استاذ کے سامنے کیا حیثیت رکھتا ہے؟ تب بھی وہ ہماری پیٹھ اس طرح تھپتھپاتے جیسے ہم ہی اس میدان کے چمپئن ہوں۔ ہمارى تمام چھوٹی بڑی کامیابیوں پر ہمارے والدین کی طرح خوشى کا مظاہرہ کرکے مزید کے لیے حوصلہ پردان کرتے۔ ہم اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اس طرح کی باتیں حقیقی کم مجازی زیادہ ہوتی ہیں ۔ اور ہم طلبہ کی علمی کسمپرسی اس کی بعینہ مستحق نہیں ہوتی ہے۔ مگر یہ وسیع القلب اساتذہ ہماری حوصلہ افزائی کی خاطر ایسے کلمات کہا کرتے تھے۔ جو ہمارےلیے اکسیر کا کام کرتے تھے اور ہمارے قدم تعلیم وتعلم کی راہ سے نہ صرف ہٹنے نہیں دیتے تھے بلکہ ہمیں مزید جدو جہد پر ابھارتے اور آمادہ کرتے تھے۔
پروفیسر مبارک شتیوی ہمارے نہایت ہی موقر استاذ تھے۔ دو بار ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ رہے۔ بڑے ہی باصلاحیت، کم گو، علم کے تئیں نہایت سنجیدہ تھے۔ ڈاکٹر محمد محمد أبو موسى عصر حاضر میں علم بلاغت کے امام عبد القاہر جرجانی ہیں۔ آپ ایک زمانہ تک مکہ مکرمہ میں اپنے علم کا دریا بہاتے رہے۔ ایک بار مدینہ یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے آپ سے کچھ پوچھا تو آپ نے فرمایا:تمھارے یہاں ڈاکٹر مبارک جیسا صاحب علم موجود ہے۔ جبکہ ڈاکٹر مبارک ان کے شاگردوں کے درجہ میں آتے ہیں۔
ڈاکٹر مبارک بھی مجھ سے بڑی محبت کرتے تھے۔ حوصلہ افزائی کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتے تھے۔ پی ایچ ڈی کے لیے لکھے گئے میرےتھیسس (کتاب المغازی فی صحیح البخاری -دراسۃ بلاغیۃ تحلیلیۃ ) کا مناقشہ انھوں نے یہ کہہ کر شروع کیا کہ یہ پی ایچ ڈی کا ایک رسالہ نہیں، تین رسالے ہیں، جنھیں طالب علم نے ایک ہی رسالہ میں خوبصورتی سے جمع کردیا ہے۔ پھر اس کی تفصیل بھی بتائی کہ یہ تین رسالہ کیسے ہے؟ اور کہا کہ ایسا کام وسیم جیسا فاضل طالب علم ہی کر سکتا ہے۔
بلاغہ کا بیشتر حصہ میں نے انھی سے پڑھا۔ کلاس میں جو کچھ بولتے لکھتا رہتا۔ فصل کے آخر میں میری کاپی کا ایک نسخہ لے لیتےاور کہتے یہی معتمد ہے۔ ایک بار کہنے لگے:امتحانات میں تمھاری کاپی چیک کرو تو جوابات پڑھ کر دل کو ٹھنڈک حاصل ہوتى ہے۔
پی ایچ ڈی کے مرحلہ میں کالج میں ایک سال علم نحو اور دو سال علم بلاغت پڑھانے کا موقع ملا۔ فن بلاغت میں طلبہ کے لیے نوٹس تیار کیے۔ باقاعدہ کتابی شکل میں مرتب کرکے انھیں دے دیا تاکہ امتحان کی تیاری میں اس سے فائدہ اٹھائیں۔ انھیں پتہ چلا تو مجھ سے اس کا ایک نسخہ طلب کیا۔ کچھ دنوں بعد کہنے لگے:تم نےبہت منظم اور شاندار کام کیا ہے۔ اسی طرز پر پورے بلاغہ کا نصاب بنا ڈالو۔ بلاغہ کی کوئی کتاب پڑھ کر جاتا، تذکرہ کرتا تو اس کى اہم باتیں خلاصہ کے طور پر پوچھتے۔ اندازہ لگاتے کہ مسائل کا کس قدر استیعاب کیا ہے۔ کوئی اہم بات چھوٹ جاتی تو بہت ہی سلیقہ سے حاشیہ لگا کرکے اس کی طرف توجہ دلاتے۔
ایک دن کسی مسئلہ پر بات چھڑى تو گفتگو کے اختتام پر کہنےلگے:وسیم میں نے تم کو کبھی طالب علم نہیں سمجھا۔ تم میرے نزدیک استاذ کی حیثیت رکھتے ہو۔ تقریباایک سال قبل مدینہ منورہ میں آپ کے گھر پر ملاقات ہوئى۔ آپ نے خصوصی دعوت کر رکھی تھی۔ دیگر کئی اہل علم موجود تھے۔ سب سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہنے لگے:میرے پورے کیریئر میں ایسا فاضل طالب علم نہیں گزرا۔ بہت اچھے اچھے طلبہ کو دیکھا، مگر اس قدر علم سے وابستگی رکھنے والا، اس کے لیے مسلسل جدوجہد کرنے والا، با صلاحیت طالب علم میں نے نہیں دیکھا۔ مزید فرمایا:آج بھی طلبہ کو میں وسیم کے بنائے ہوئے نوٹس کی طرف رہنمائی کرتا ہوں کہ اس سے استفادہ کریں۔
واقعی پیار محبت سے جل تھل مدینہ منورہ کی زندگی شہزادوں والی زندگی تھى۔ ہمارے اساتذہ ہم پر ایسی محبت لٹاتے تھے کہ ہم ان کی کرم فرمائیوں سے ہمیشہ بوجھل رہتے۔ ہمیں اپنے بچوں کى طرح پیار کرتے۔ ہر طرح سے تعاون کرتے۔ کئی اساتذہ تو بیٹا کہہ کر ہی بلاتے تھے۔ اللہ کے فضل وکرم سے ہمارے حصے میں وہ عزت ومحبت آئی جو سعودی طلبہ کے حصے میں بھی نہیں آئی۔ کبھی کسی مسئلہ میں منافست یا مشارکت کی بات آجاتی تو اساتذہ ہمیں ترجیح دیتے۔ بلا شبہ یہ محض ان کی فراخ دلی، کشادہ ظرفی اور حوصلہ افزائی تھی۔ ہمارے سعودی ساتھی بھی بڑے دل کے ہوتے تھے۔ بڑی محبت سے اسے قبول کرلیتے تھے۔
ذُمَّ المنازلَ بعد منزلۃِ اللِّوى
والعیشَ بعد أولئک الأیامِ
جب ہمارے کالج کی نئی بلڈنگ بنی اس وقت ہمارے ہیڈ ڈاکٹر علی العوفی تھے۔ اخلاق کے وہ ایسے پہاڑ ہیں جس کی بلندی اور شموخ پر ان کے موافقین و مخالفین سب کا اجماع ہے۔ کرم، سخاوت، فیاضی میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ طلبہ کی ہر طرح اعانت کرتے ہیں۔ مالی تعاون اور پیسہ خرچ کرنے میں معروف ہیں۔ کالج کی نئى بلڈنگ میں منتقل ہونا تھا۔ ہم پانچ طلبہ -جن میں چار سعودی اور میں اکیلا غیر سعودی تھا- ان کے آفس میں مختلف ذمہ داریاں سنبھالتے تھے۔ مجھ سے کہنے لگے:وسیم چلو نئی بلڈنگ میں آفسوں کے کمرے دیکھ لو۔ جو تمھیں پسند آئے اختیار کرلو۔ پھر باقی آفسوں کو تقسیم کروں گا۔ چنانچہ میں نے سب سے پہلے جاکر اپنا آفس اختیار کیا۔ پھر آپ نے سب میں باقی آفسوں کو تقسیم کیا۔ در اصل وہ ہمیں مہمان کی طرح سمجھتے تھے۔ کہتے تھے یہ ہمارے معزز مہمان ہیں۔ اپنے ماں باپ، بھائی بہن، دیگر رشتہ داروں اور اپنے وطن کو چھوڑ کر تعلیم حاصل کرنے اتنی دور ہمارے پاس آئے ہیں۔ یہ ہر عزت وتکریم کے مستحق ہیں۔
پی ایچ ڈی کے ہی مرحلہ میں مجھے گاڑی لینے کی خواہش ہوئی۔ ایک دن ان سے ذکر کیا تو کہنے لگے ابھی رک جاؤ میں بتاتا ہوں۔ پھر ایک دن گھر بلایا۔ ان کے پاس تین گاڑیاں تھیں۔ کہنے لگے ایک میں یومیہ استعمال کرتا ہوں۔ دوسری فیملی ضروریات کے لیے ہے۔ یہ تیسری خالی ہے۔ اسے تم لے لو۔ میں اسے ورکشاپ میں بھیج دیتا ہوں۔ وہاں سے نئی بن کر چمچماتی ہوئی نکلے گی۔ اسى کو استعمال کرو ۔ پیسہ مت ضائع کرو۔ میں نے بہت معذرت کرکے جان چھڑائی۔ ناراض ہوگئے اور کئی دن تک ناراضگی ظاہر کرتےرہے۔
ایک بار فیملی کے ساتھ اپنے گھر پر دعوت کی۔ اتفاق سے میرے ہم زلف مسیح الدین کےبچے بھی میرے ہی گھر پر تھے۔ ہم سب دعوت میں گئے۔ کھانے کے بعد ان ایک بچی گلیکسی چاکلیٹ کے لیے رونے لگی۔ آپ کو پتہ چلا تو اس کو گود میں اٹھایا۔ ڈرائیور سے گاڑی نکالنے کو کہا۔ اس کو سپر مارکیٹ لے گئے۔ ایک ڈبہ گلیکسی چاکلیٹ خرید کر اسے دیا اور پیسے بھی دیے۔
حائل یونیوسٹی میں جب میری تعیین ہوگئی مدینہ منورہ ان سے ملاقات کرنے گیا۔ رمضان کا آخرى عشرہ چل رہا تھا۔ اپنے محل نما گھر پر ایک پر تکلف دعوت کی۔ جب رخصت چاہی تو استفسار کیا: اب کیا ارادہ ہے؟ میں نے بتایا کہ کاروائی مکمل ہوگئى ہے۔ سالانہ چھٹی ہو چکی ہے۔ ان شاء اللہ کل مکہ جاکر عمرہ کروں گا۔ پھر وطن واپس لوٹ جاؤں گا۔ پھر نئے تعلیمی سال سے یونیورسٹی جوائن کروں گا۔ اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور جتنے پیسے تھے زبردستی میری جیب میں ڈالنے لگے۔ اچھی خاصی رقم تھی۔ میں نے معذرت کرتے ہوئے کہا:شیخ پہلے ہی آپ کے احسانات تلے دبا ہوں۔ اب طالب علمی کا دور نہیں رہا۔ الحمد للہ استاذ بن چکا ہوں۔ اللہ کا فضل ہے۔ شرمندہ نہ کریں۔ کہنے لگے:تم پروفیسر بھی بن جاؤ گے تب بھی میرے لیے وہی وسیم رہوگے جسے میں اپنے بچے کی طرح سمجھتا تھا۔ میرے بیٹے کی طرح ہو۔ میں صرف اجر میں شریک ہونا چاہتا ہوں۔ رکھ لو۔ وعاؤں میں یاد رکھنا۔ مدینہ آتے جاتے رہنا۔ جب بھی آنا ملاقات ضرور کرنا۔
أولئکَ آبائی فجِئْنی بمثلہِم
إذا جمَعَتْنا یا جریر ُالمجامعُ
پروفیسر محمد یعقوب ترکستانی ایک مثالی استاذ تھے، پڑھانے کا انداز بالکل اچھوتا اور نادرتھا۔ جس موضوع پر اگلے ہفتہ لیکچر ہوتا، اس کے مصادر و مراجع لکھوا دیتے۔ سارے طلبہ کو انھی مصادر ومراجع کی مدد سے اس موضوع پر بحث نما نوٹ تیار کرکے لانا واجب ہوتا۔ اگلے ہفتے سارے طلبہ ترتيب سے اپنے لکھے ہوئے نوٹس پڑھتے۔ خود پورے انہماک سے سنتے رہتے۔ بسا اوقات یہ سلسلہ دوسرے ہفتے تک دراز رہتا۔ آخر میں آپ تفصیل سے اپنی رائے پیش کرتے۔ پھر یہ سارا بحث و مناقشہ اس موضوع کا نصاب اور مقرر قرار پاتا۔ سال بھر آپ کا یہی طریقہ رہتا۔ہر موضوع کے تئیں آپ یہی طرز اپناتے۔ اس طرح وہ بیک وقت درس بھی دیتے اور بحث وتحقيق، طریقہ تدریس، عرض، مناقشہ، مصادر و مراجع کی معرفت؛ سب کچھ سکھلا دیتے ۔
علم تو ویسے بھی عبادت کا اعلى ترین درجہ ہے۔ تعلیم کا مبارک عمل خالص انبیائی مشن ہے۔ ایک معلم کے لیے یہی شرف کافی ہے کہ انبیاء کی جماعت در اصل معلمین کی جماعت تھی جو تعلیم وتزکیہ کے لیے بھیجی جاتی تھی تاکہ بندے کا نفس کما حقہ عبادت کے لیے سازگار ہو سکے ۔ ابراہیم علیہ السلام نے بعثت محمدی کے لیے اپنی دعا میں اس صفت کو خصوصی طور سے اس لیے بھی ذکر کیا تھاکہ انس وجن کی تخلیق کے ہدف تک اس کے بغیر پہنچا ہی نہیں جا سکتا تھا۔
تاہم تعلیم وتربیت کو عبادت کی طرح برتنا ہم نے اپنے اس عظیم استاذ کے یہاں دیکھا۔ دو دو تین تین گھنٹے وہ اس وقار سے بیٹھ کر سنتے اور مناقشہ کرتے کہ جیسے عبادت میں مشغول ہوں اور کوئی بھی فضول و لا یعنی حرکت اس عبادت کو باطل کر دے گی۔ طلبہ سے بھی یہی مطالبہ کرتے۔ کوئی طالب علم اگر دوران تدریس ایسی کوئی بھی حرکت کر دیتا جو مجلس علم یا آداب طلب علم کے خلاف ہوتی تو ان کے لیے اسے برداشت کرنا بہت مشکل ہوجاتا۔ ایسے لگتا جیسے ان کی عبادت باطل ہوگئی ہو۔
آپ کی شخصیت بہت ہی منفرد اور علمی وعملی زندگی قابل نمونہ تھی۔ عربی زبان پر آپ کا درک بہت گھرا تھا۔ فقہ اللغۃ کی قدیم مولفات سے لے کر لسانیات کی جدید کتابوں تک سے آپ کا تعامل یکساں تھا۔ یہ کتابیں آپ کا اوڑھنا بچھونا تھیں۔
بہت سارے علمی مسائل میں آپ منفرد رائے رکھتے تھے۔ آپ کی قوی شخصیت، منفرد آراء اور ٹھوس دلائل دیکھ کر ہم طلبہ بسا اوقات کہتے کہ استاذ محترم اگر فقیہ ہوتے تو صاحب مذہب ہوتے۔
آپ محض ایک استاذ نہیں تھے، اعلیٰ درجہ کے مربی اور اخلاقیات کے معلم تھے۔ ایک مثالی مربی اور ربانی معلم کی شان آپ کے یہاں نمایاں تھی۔ ویسے تو اخلاقیات پر ان کی گفتگو بڑی جامع اور معنی خیز ہوتی تھی، تاہم عملی زندگی میں ان کا طرز تعامل اور رہن سہن ہی سراپا لیکچر تھا، جس سے سیکھنے والوں کو بہت کچھ سیکھنے مل جاتا تھا۔
ایک لمبے وقت تک میں آپ کے ساتھ رہا۔ کلاس سے لے کر گھر تک ملاقاتیں رہیں۔ آپ کی نگرانی میں کالج میں اور کالج سے باہر جامعہ کے موقر مجلہ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ میں نے آپ کو بہت قریب سے دیکھا۔ آپ بلا شبہ ایسے متعدد صفات سے متصف تھے جو آپ کو مثالی افراد کےصف میں لا کھڑا کرتی ہیں۔
علم اور اہل علم سے گہرا لگاؤ آپ کی خصوصی پہچان تھى۔ ہمیشہ پڑھنے لکھنے میں مشغول ، تحقیق وتالیف میں منہمک رہتے۔ ہر مجلس میں اہل علم کا ذکر خیر، ان کی کاوشوں کا تعارف اور ان کا کامیاب دفاع کرتے۔
علماء سلف اور قرون اولى کے اہل علم سے خصوصی محبت ان کے حصہ میں آئی تھی ۔ ہمیشہ ان کا خصوصی ذکر کرتے، علم کے لیے ان کی عظیم جدو جہد کو بیان فرماتے اور ان کے لیے دعائیں کرتے۔
پرانے اہل علم سے خصوصی محبت کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی کتابوں سے آپ کو شدید لگاؤ تھا، انھیں پڑھنا، ان کی تحقیق کرنا، انھیں اپنے لائبریری کا حصہ بنانا ان کا مشغلہ تھا۔
مدینہ یونیورسٹی میں جب کتابوں کی نمائش لگتی، پابندی سے اس کی زیارت کرتے، کتابیں خریدتے اور مجھے تاکید کرتے کہ کوئی بھی اہم کتاب نظر آئے تو فورا خبر کرنا۔
بسا اوقات بعض اہم کتابیں لینے کے لیے مجھے باہر بھی بھیجتے۔ کسی ادارہ سے اگر طلبہ کے لیے کتابیں ملتیں تو خصوصی سفارش کرتے اور متعلقہ ادارہ کے ذمہ داروں کو تلقین کرتے کہ میرے ساتھ فیاضی سے کام لیں۔
جس وقت جامعہ الامام محمد بن سعود الإسلامیہ میں ان کے فاضل دوست اور عربی زبان کے معروف پروفیسر ترکی بن سہو العتیبی عمید البحث العلمی تھے، میں نے ان سے ذکر کیا کہ وہاں سے اپنے فن کی کچھ کتابیں چھپی ہیں جو سینئر طلبہ کو دی جا رہی ہیں ، دل کہہ رہا ہے جاکر لے آؤں، مگر کسی کو جانتا نہیں ہوں، آپ کچھ تعاون کردیتے تو بہتر ہوتا۔ فورا انھوں نے کہا کہ میرے دوست ہی وہاں کے ذمہ دار ہیں، میں ان سے کہہ دیتا ہوں۔ آپ نے ان سے بات کی۔ اور مجھے رات کو فون کرکے کہا کہ بات ہوگئی ہے تم چلے جاؤ۔ میں نے رات ہی کو بس پکڑی۔تقریبا ہزار کیلو میٹر کا سفر کرکے صبح ریاض پہنچا۔ پروفیسر ترکی بڑے ہی تپاک سے ملے۔ بھر پور عزت دی، پھر گودام کے ذمہ دار سے کہا کہ اس طالب علم کو لے جاؤ اور جو بھی کتاب اسے پسند آئے دو دو نسخے دے دو۔ ایک ان کے لیے اور ایک میرے محترم دوست اور ان کے استاذ کے لیے۔ کتابوں کا گودام اس قدر بڑا تھا کہ کتابوں کا صرف نام پڑھنے کے لیے کافی وقت درکار تھا۔ میں نے اپنے فن کی اور بعض دیگر اہم کتابیں پسند کیں جو فوری طور سے پیک کر دی گئیں۔
پروفیسر ترکی نے پھر مجھ سے کہا کہ سینٹرل لائبریری چلے جاؤ۔ وہاں کچھ نہایت اہم کتابیں موجود ہیں۔ میں نے ذمہ دار سے بات کر لی ہے۔ انھیں بھی لیتے جاؤ۔ چنانچہ وہاں سے ڈاکٹر محمد رشاد سالم کا تحقیق کردہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی عظیم کتاب منہاج السنۃ النبویۃ اور رضی الدین استراباذی کی شرح کردہ کافیہ کا سب سے عمدہ تحقیق شدہ نسخہ لیا۔ اور اسی شام مدینہ واپس ہو گیا۔ صبح یونیورسٹی پہنچ کر آپ سے ملاقات کی۔ کتابیں ان کے حوالہ کیں۔ بہت خوش ہوئے اور ڈھیر ساری دعائیں دیں۔
اسی طرح ایک بار ان کی خواہش پر مکہ گیا اور دونوں کے لیے چوبیس (24)جلدوں پر مشتمل امام قرطبی کی تفسیر کا وہ شاندار نسخہ لے کر آیا جس کی تحقیق پروفسیر عبد المحسن الترکی کے زیر اشراف ہوئی تھی۔
ہندوستانی عالم سید کرامت حسن(وفات 1335ھ) کی تین جلدوں پر مشتمل نادر اور مایہ ناز تالیف’فقہ اللسان‘عربی ڈکشنریوں میں ایک الگ ہی مقام رکھتی ہے۔ اس کا موضوع بالکل اچھوتا اور نادر ہے اور اس پر کام بالکل منفرد۔ اس بیش بہا اور اپنے فن میں یکتا کتاب میں انھوں نے ان مصادر کو جمع کیا ہے جو اپنے الفاظ (مخارج واصوات) ہی سے معانی پر دلالت کرتے ہیں۔ اور ان الفاظ کے اصوات اپنے معانی سے واضح طور سے جڑے ہوتے ہیں۔ جیسے مثال کے طور پر:’جرّاور جَرْ جَرَ ‘ بولنے میں جو آواز پیدا ہوتی ہے وہ گھسیٹنے میں جو آواز پیدا ہوتی ہے اس سے ملتی جلتی ہے۔ اور یہی اس کا معنى ہے۔ اسی طرح ’غلّ اور تَغَلْغَل‘بولنے میں جو آواز پیدا ہوتی ہے اسی طرح کی آواز درختوں میں پانی ڈالتے وقت پیدا ہوتی ہے۔ اور یہی اس کا اصل معنى ہے۔ سید کرامت حسین نے اس ڈکشنرى میں صرف ایسے مصادر جمع کرنے پر اکتفا نہیں کیا ہے۔ بلکہ ان مصادر کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے:مصادر اصلیہ جو کہ اصل ہیں۔ مصادر فرعیہ جو کہ ان مصادر سے نکلتے ہیں۔ پہلے وہ ایک اصلی مصدر اور اس کا معنى بیان کرتے ہیں، پھر اس اصل مصدر سے جتنے فرعی مصادر نکلتے ہیں انھیں بیان کرتے ہیں۔ ان سارے فرعی مصادر کے معانی بیان کرتے وقت حتى الامکان انھیں معانی کے اعتبار سے ان کے اصلی مصدر سے جوڑتے چلے جاتے ہیں۔ ہر مصدر کے ساتھ وہ یہی طریقہ اپناتے ہیں۔
کلمات کے اصوات کا معانی سے جو تعلق ہے ابن جنی نے ’الخصائص‘میں اس پر ایک مکمل باب (باب إمساس الألفاظ أشباہ المعانی)باندھا ہے۔ اور اس موضوع کی طرف اپنے مخصوص انداز میں قدرے تفصیل سے اشارہ کیا ہے۔ جہاں تک اصل اور فرع (مشتق منہ اور مشتق)میں معانی کا تعلق ہے تو ابن فارس کی ’مقاییس اللغہ‘میں یہ چیز موجود ہے۔ مگر اتنے منظم، مؤصَّل اور وسیع پیمانے پر اس قوت، دقت اورعرق ریزی کے ساتھ میرے علم کے مطابق متقدمین ومتاخرین میں کسی کے یہاں یہ کام نہیں ہوا ہے۔ اگر چہ مؤلف نے یہ ڈکشنری تیار کرنے اور اس کے الفاظ ومعانی چننے میں ابن منظور کے ’لسان العرب‘ اور دیگر دو عبرانی اور سریانی ڈکشنریوں پر کافی اعتماد کیا ہے۔ مگر جس طرح ایک اچھوتے نظریہ کو بالکل مؤصل انداز میں ایک مکمل معجم کی شکل میں ترتیب دیا ہے وہ بالکل منفرد کام ہے۔
اس پر سونے پر سہاگہ اس کتاب کا مقدمہ ہے جو تقریبا دو سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس مقدمہ میں مؤلف نے اس مسئلہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ اپنے اصوات سے معانی پر دلالت کرنے والے یہ اصلی مصادر کیسے وجود میں آتے ہیں؟ پھر ان سے فرعی مصادر کیسے نکلتے ہیں؟ اصل اللغۃ العربیۃ، اشتقاق اکبر، قلب وابدال، کسی بھی کلمہ کے اصل کی پیدائش کا طریقہ سمیت عربی زبان سے متعلق متعدد علمی مسائل پر اس مقدمہ میں وقیع بحث کی ہے۔ اور اس بابت چند نہایت اہم اصول بھی ذکر کیے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس میں متعدد فلسفی مباحث کو بھی داخل کردیا ہے۔ اور بعض ایسى منطقی چیزیں بھی در آئی ہیں جو اس مقدمہ کی سلاست کو بوجھل کر دیتی ہیں۔ اگر ان غیر ضروری مباحث کو نکال دیا جائے تو آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ مؤلف نے اس مقدمہ میں مصادر کے تئیں جو نظریہ پیش کیا ہے، باقی دو جلدیں اسی نظریہ کی عملی تطبیق ہیں۔
میں اس وقت ایم اے میں تھا۔ آپ ایک دن مجھے ’فقہ اللسان‘کے بارے میں بتانے لگے۔ اس کی ایک جلد ان کے پاس تھی مگر دو جلدیں وہ بہت تلاش کے باوجود نہیں پا رہے تھے۔ مجھ سے کہا کہ اسے کسی طرح تلاش کرکے لاؤ میں اس پر کام کرنا چاہتا ہوں۔ یہ کتاب 1915م میں لکھنؤ کے مشہور پریس نولکشور سے شائع ہوئی تھی۔ اس سال گرمی کی چھٹیوں میں جب گھر آیا تو اس کی تلاش میں لکھنؤ گیا۔ حسن اتفاق دارالعلوم ندوۃ العلماء کی پرشکوہ لائبریری میں یہ کتاب موجود تھی۔ پوری کتاب کا فوٹو لے کر مدینہ منورہ آیا۔ ان کے حوالے کیا۔ بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیں۔
میری بہت خواہش تھی کہ یہ کتاب شاندار تحقیق کے ساتھ طبع ہو اور لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ پی ایچ ڈی کے مرحلہ میں میرے ایک ساتھی نے قسم اللغویات میں اس کتاب کی تحقیق کا پروجیکٹ پیش کیا۔ میں نے پوری کتاب اس کے حوالے کردی۔ قسم(شعبہ) والے ابتدائی طور سے راضی بھی ہوگئے۔ چونکہ میں قسم چینج کرکے قسم اللغویات سے قسم الأدب والبلاغہ میں آچکا تھا اس لیے یہ طے ہوا کہ میں ذاتی طور سے مقدمے کی تحقیق کرکے اس پروجیکٹ میں شامل رہوں اور قسم اللغویات کے چند طلبہ مل کر باقی دونوں جلدیں علمی رسالے کی شکل میں تحقیق کرڈالیں۔ اور اسی پر ان کو پی ایچ ڈی کی ڈگری مل جائے گی۔ پروجیکٹ پاس ہونے کے بالکل آخری مرحلے میں تھا کہ کسی نے ٹانگ اڑائی اور پرجیکٹ کینسل کر دیا گیا۔ بعد میں پتہ چلا وہاں سے پروجیکٹ نکلا اور جامعہ ازہر مصر میں رجسٹرڈ ہوگیا۔ ہمیں تو وہ نسخہ تک نہیں ملا جو ہم نے قسم کے حوالے کیا تھا۔ کسی باذوق نے اسے بھی اڑا لیا۔ واللہ تعالى اعلم!
مدینہ یونیورسٹی میں کتابوں سے مجھےجو شغف تھا اور عمدہ ونایاب نیز کتابوں کے معتبر نسخے جمع کرنے کا جو ذوق وشوق تھا اس کی تکوین میں بلا شبہ ہمارے محترم استاذ پروفیسر محمد یعقوب ترکستانی کا بھی بہت بڑا کردار تھا۔
عربی زبان سے محبت آپ کی رگوں میں دوڑتی ہے۔ ہمیشہ اس کی اہمیت، خصوصیات، دقت،اصالت، اس کی ہمہ گیری پر گفتگو کرتے۔تعلیم وتعلم پر ابھارتے۔اس کا دفاع کرتے اور فصیح زبان کو اپنانے پر زور دیتے۔ کلاس روم کے اندر اور باہر دونوں جگہ بات چیت میں ہمیشہ فصیح اور کتابی زبان کا اہتمام کرتے۔ شاذ ہی ایسا ہوتا کہ عام بول چال کے بعض الفاظ استعمال کر بیٹھتے۔
آپ کے نزدیک زبان سیکھنے کے تین مراحل ہیں۔ پہلا مرحلہ تعریف وتعارف کا ہے جس میں ایک طالب علم کسی زبان کے ابجدیات سے واقف ہوتا ہے۔ اسے پڑھنا لکھنا اور معمولی انداز میں بولنا سیکھتا ہے۔ اسے وہ ’مرحلۃ التعرف على اللغۃ‘کہتے ہیں۔
دوسرا مرحلہ اس زبان میں مہارت کا ہے جس میں ایک انسان کسی زبان میں اس طرح مہارت حاصل کرلیتا ہے کہ اس کے قواعد وضوابط اور ادبیات سے کما حقہ واقف ہوجاتا ہے۔ زبان پر اسے قدرت حاصل ہوجاتی ہے۔ لکھنا پڑھنا اہل زبان کى طرح آجاتا ہے اور وہ اپنے خاص اسلوب میں لکھنے کی قدرت حاصل کرلیتا ہے۔ اسے وہ’مرحلۃ الاستیعاب‘کہتے ہیں۔
تیسرے مرحلے میں زبان سیکھنے والا اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اسے اس زبان کے خصائص اور باریکیوں کا ادراک حاصل ہوجاتا ہے۔ وہ اس زبان کی ادبیات کو پڑھتے وقت لذت محسوس کرتا ہے۔ اس کا ذوق اس زبان کی چاشنی کو اس طرح پا لیتا ہے کہ اس کو پڑھنے سے لے کر اس کی خدمت کرنے تک اسے اس کی مٹھاس ملتی رہتی ہے۔ اس مرحلہ کو وہ ’مرحلۃ الاستمتاع‘کہتے ہیں۔
ان مراحل کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آپ کہتے کہ کسی بھی زبان کو کما حقہ سیکھنے کے لیے ان مراحل سے گزرنا اور تیسرے مرحلے تک پہنچنا ضروری ہوتا ہے۔ مگر عموما لوگ پہلے ہی مرحلے پر اکتفا کر لیتے ہیں۔ کچھ ہی لوگ دوسرے مرحلے تک پہنچتے ہیں۔ اور تیسرے مرحلے تک پہنچنے والوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ مزید فرماتے کہ ہمارے قدیم علماء تیسرے مرحلے تک پہنچ کر ہی رکتے تھے۔ اسی لیے ان کی کتابوں میں جو روحانیت اور کشش ہے وہ عموما متاخرین اور معاصر اہل علم کی کتابوں میں نہیں ہے۔ سبب وہ لذت ہے جو انھیں اس زبان کے پڑھنے، لکھنے اور خدمت کرنے میں ملتی تھی اور وہ توجہ و انہماک ہے جو اس لذت کے حصول کی خاطر وہ اس زبان کو دیتے تھے۔
عربی زبان لکھنے کے تئیں ان کا ایک خاص منہج ومسلک تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ عربی زبان کی ایک اہم خصوصیت اس کے حرکات ہیں۔ اور یہ حرکات حروف کا لازمی حصہ ہیں۔ چنانچہ لکھتے وقت ان حرکات کی پابندی بھی ضروری ہے۔ ورنہ تحریر وکتابت ناقص مانی جائے گی۔ خود بھی کافی حد تک اس کی پابندی کرتے اور طلبہ سے بھی کرواتے۔
ہاتھ سے لکھنا آپ کو بہت پسند تھا،خود بہت ہی خوش خط تھے، بلیک بورڈ پر لکھتے تو پھول کھل جاتے۔ طلبہ کو خوش خطی پر ابھارتے اور ہاتھ سے بحثیں لکھ کر لانے پر زیادہ خوش ہوتے۔
میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ وہ کسی علمی مسئلہ میں کسی سے بے جا جدال اور لا یعنی بحث ومباحثہ کریں۔ ان کا مناقشہ بہت سنجیدہ اور با وقار ہوتا تھا۔ بحث ومباحثہ میں مخاطب ذرا بھی عدم سنجیدگی کا مظاہرہ کردے تو بالکل خاموش ہوکر گفتگو ختم کردیتے تھے۔
آپ ان نادر لوگوں میں سے ہیں جو اپنے ہر معاملے میں بہت ہی واضح اور دقیق ہوتے ہیں۔ تعلیم سے لے کر معاشرتی امور تک میں وقت کے بالکل پابند اور قول وقرار کے ایک دم پختہ تھے۔ بہت سوچ کر بولتے اور جب بولتے تو وہی حرف آخر ہوتا۔
آپ کے ساتھ بکثرت بیٹھنے کا موقع ملا۔ میں نے کبھی انھیں کسی کی غیبت یا برائی کرتے نہیں سنا۔ اگر انھیں کبھی کسی سے کوئی تکلیف پہنچتی تو زیادہ سے زیادہ بعض الناس کہہ کر اصل مسئلہ ذکر کرتے اور اس شخص کے لیے ہدایت اور توفیق کی دعا کرتے جس نے ایسا کیا تھا۔ اس طرح کی باتیں عموما وہ بطور مثال ذکر کرتے تھے۔
استاذ تو تھے ہی۔ اس حیثیت سے ان کا ایک الگ ہی مقام ومرتبہ تھا۔ جسے ہم طلبہ برتنے کی پوری کوشش کرتے تھے۔تاہم اپنى محبت واپنائیت اور شفقت و ہمدردی میں وہ بھائی اور دوست لگتے۔ ذاتی طور سے میں ان سے بہت قریب تھا تو مجھ سے بسا اوقات ایسے ملتے جیسے بڑے بھائی یا مخلص دوست ہوں۔ کلاس میں اپنے طلبہ کو ہمیشہ بھائی یا میرے بھائی کہہ کر مخاطب کرتے۔
آپ کا ظرف بہت ہی وسیع اور دل سمندر کی طرح کشادہ تھا۔ ہر معاملہ اور ہر تعامل میں آپ کی یہ وسعت ظرفی نمایاں ہوجاتی۔ علمی اختلاف میں مخالف کی رائے قبول کرنے میں ویسا وسیع الظرف انسان میں نے بہت کم دیکھا۔ طلبہ کی رائے اگر ان کی رائے سے بالکل مخالف ہو تو بھی وہ اسے پوری توجہ سے سنتے۔اس کے دلائل نیز علل واسباب پر بھر پور توجہ دیتے۔ اس پر حوصلہ افزائی کرتے۔ امتحانات میں اگر کوئی طالب علم ان کى رائے کے خلاف رائے پیش کرتا تو اسے بھی پوری وسعت ظرفی سے قبول فرماتے، بشرطیکہ دلائل یا علل واسباب سے مزین ہو۔ البتہ بلا دلیل مجرد رائے جو محض ذاتی پسند اور ہوائے نفس پر مبنی ہو اسے سخت نا پسند فرماتے۔
لا یعنی امور سے حد درجہ اجتناب کرتے۔ فضول گفتگو سے بالکل پرہیز کرتے۔ کسی مجلس میں علمی بات چلتے چلتے گفتگو ادھر ادھر نکلنے لگتی تو فورا اٹھ کھڑے ہوتے اور جانے کے لیے اجازت مانگنےلگتے۔
حقیقی معنوں میں آپ سفید پوش تھے۔ سفید لباس پر سفید رومال، اس پر آپ کا سرخ وسپید رنگ آپ کی خوبصورتی میں مزید اضافہ اور آپ کی باوقار شخصیت میں چار چاند لگا دیتا تھا۔ بڑی ہی نفیس طبیعت کےمالک نفاست پسند انسان تھے۔ دیکھتے ہی دل میں اتر جانے جانے والی شخصیت۔
آپ اپنے دامن سے ہیبت ووقار کی چادر کبھی کھسکنے نہیں دیتے تھے۔ ایسی مجلسوں سے آپ بہت دور رہتے جہاں فضول گفتگو ہوتی ہو اور ایسی جگہوں سے بہت دور بھاگتےجہاں انھیں یہ خدشہ ہوتا کہ ان کا وقار مجروح ہوگا یا ان کی سنجیدگی متاثر ہوگی۔
خیر خواہی آپ کی ایک اہم صفت تھی۔ اس معاملے میں وہ نہایت مخلص اور امانت دار تھے۔ کہا کرتے تھے:المستشار مؤتمن۔ ہمیشہ اچھا مشورہ دیتے۔ اور مشوروں میں امکانیت کو پیش نظر رکھتے۔
ہمارے ایک محترم ، فاضل اور نہایت با صلاحیت دوست جو کہ قسم التفسیر میں تھے ایم اے کی بحث میں ابن القیم رحمہ اللہ کی کتابوں میں موجود تفسیری قواعد جمع کرکے ان کا دراسہ کرنا چاہتے تھے۔ بحث کا موضوع تھا:القواعد التفسیریۃ عند الإمام ابن قیم الجوزیۃ۔ جب وہ بحث کے لیے خاکہ بنا چکے تو اسے اپنے ڈیپارٹمنٹ میں پیش کرنے سے پہلے مشورہ لینے کے لیے میری معیت میں آپ کے پاس آئے۔ آپ نے خاکہ لے لیا اور کہا کل آنا۔ دوسرے دن جب ہم گئے تو فرمایا:موضوع بہت عمدہ ہے۔ خاکہ بھی بہت اچھا بنا ہے۔ تاہم یہ موضوع ایم کے لیے نا مناسب ہے۔ یہ پی ایچ ڈی کے لیے بہتر رہے گا۔ ہمارے دوست موضوع کسی طرح چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ علمی شخصیت تھی۔ ایک اچھے طالب علم کی صفات سے متصف تھے۔ اللہ تعالى نے بڑی خوبیوں سے نواز رکھا تھا۔ دن رات محنت کی۔ پھر بھی وقت پر بحث ختم نہیں ہو سکی اور ایک سال کی اضافی مدت لینی پڑی۔ ویسے ہمارے یہ فاضل دوست بہت ہی خوش نصیب واقع ہوئے تھے۔ ایم اے میں ان کا موضوع ابن القیم رحمہ اللہ سے متعلق تھا۔ پی ایچ ڈی میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے متعلق موضوع لیا۔ اور بحث کا عنوان رکھا:الظاہر والمؤوّل فی القرآن الکریم عند شیخ الإسلام ابن تیمیۃ۔ اس طرح انھیں شیخین رحمہما اللہ کی تقریبا تمام کتابیں پڑھنے کا موقع ملا۔ وہ ہمیشہ اپنی اس خوش نصیبی پر اللہ تعالى کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ اس نے انھیں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی تقریبا دس سالہ مدت میں شیخین رحمہما اللہ سے جوڑے رکھا اور ان کی کتابوں سے بھرپور استفادہ کی عظیم نعمت سے نوازا۔ ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔
آپ طلبہ کی حتى الامکان مدد کرتے۔ کوئی طالب علم کسی سلسلے میں سفارش یا کسی تعاون کا طلب گار ہوتا تو اس کی ضرور مدد کرتے۔ اگر معاملہ دراز ہوتا تو اکتاہٹ کے بالکل شکار نہیں ہوتے۔ بسا اوقات بعض معاملات کا سال سال بھر فالو اپ کرتے۔ ہمارے ایک عزیز دوست کا ایک نہایت اہم معاملہ پھنس گیا تو تقریبا سال بھر اس کے لیے کوشش کرتے رہے، انھیں حوصلہ دیتے رہے۔ نہ خود مایوسی کے شکار ہوئے نہ ہی انھیں ہونے دیا۔ آخر میں اللہ کے فضل وکرم سے وہ اہم ترین کام بھی ہوگیا۔
دنیاوی معاملات میں آپ کی شان زاہدوں والی تھی۔ نہ کوئی لالچ نہ طمع۔ اسراف و فضول خرچی سے بلا شبہ اجتناب کرتے تھے۔ مگر جہاں خرچ کرنا ہو وہاں بلا دریغ خرچ کرتے۔ کتابوں کے سلسلے میں کسی رعایت سے کام نہیں لیتے تھے ۔ کوئی طالب علم کتابوں کی مہنگائی کی شکایت کرتا تو اسے الٹا سمجھاتے ۔ کتابوں کے لکھنے پر صرف ہونے والی محنت اور طباعت سے لے کر قاری کے ہاتھ تک پہنچنے والی جدو جہد کا ذکر کرکے کہتے کہ ناشرین کی بھی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ کتابیں خریدتے وقت کتاب کی معنوی قیمت پر زیادہ دھیان دینا چاہیے، مادی قیمت پر نہیں؛ اس کی ہمیشہ تلقین کرتے۔
طلبہ کے وہ بہت ہی ہمدرد تھے۔ ہمیشہ ان پر شفیق و مہربان رہتے۔ مگر ان کی شفقت کا انداز دوسرا تھا۔ ہمیشہ کہتے کہ طلبہ کے ساتھ شفقت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ان کےساتھ تساہل اور بے جا رعایت سے کام لے کر ان کو بگاڑ دیں۔ شفقت کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے ساتھ محنت کریں۔ ان کو جدو جہد کا عادی بنائیں۔ تعلیمی امور کی انجام دہی میں ان کے ساتھ بالکل رعایت نہ کریں۔ تاکہ وہ یہاں سے لائق بن کر نکلیں اور تعلیم کے تئیں سنجیدہ رہیں۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے یہ طلبہ امانت ہیں۔ شفقت کے نام پر انھیں سست بنا دینا یہ شفقت نہیں ظلم ہوگا۔
وقت کی قدر کرنا، اسے منظم رکھنا، اس کو ضائع ہونے سے بچانا؛ ایک کامیاب انسان کی اہم ترین علامت ہے۔
وقت کی پابندی کرنا، وعدوں کی پاسداری کرنا، مواعید کا التزام کرنا؛ یہ ایمان، اخلاق اور انسانیت کا اعلیٰ ترین درجہ ہے- اس سے ایک کامیاب با اصول انسان اور ایک ناکام بے اصول فرد میں تمیز ہوتی ہے۔
وقت کی اہمیت نہ پہچاننے والا شخص، اسے ضائع کرنے والا فرد کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔
وقت کی پابندی نہ کرنے والا زندگی کے سفینے کو کبھی سلیقے سے راہ نجات پر نہیں ڈال سکتا۔ایسے انسان کا سفینہ ہمیشہ دنیا کے بھنور میں ڈگمگاتا رہتا ہے۔ اور کب ڈوب جائے اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔
آپ وقت کی حفاظت، اس کی تنظیم، اس کی پابندی، تینوں بہت سختی سے کرتے، طلبہ کو اس پر ابھارتے اور کہتے: طالب علم وقت کا پابند ہوتا ہے۔ وہ کبھی خالی اور فضول نہیں رہتا۔ اس کا وقت منظم رہتا ہے۔ طالب علم ہمیشہ مشغول رہتا ہے۔ اس کے پاس وقت نہیں رہتا۔ اسے فرصت نہیں ملتی۔ وہ اپنے ایک ایک لمحہ کی حفاظت کرتا ہے۔
کبھی کہتے: طالب کے علم پاس چھٹی نہیں ہوتی۔ اس کے پاس جمعرات جمعہ نہیں ہوتا۔ اس کے سارے ایام یکساں ہوتے ہیں۔
کبھی فرماتے: ایک طالب علم اگر اپنا وقت منظم رکھے؛ تو اس کے پاس کتنے بھی کام ہوں، آرام سے ختم ہوجائیں گے۔ لیکن اگر وہ سوء نظم کا شکار ہے تو آسان سے آسان عمل بھی مشکل ترین ہو جائے گا۔ اس لیے ایک طالب علم کے لیے وقت کی تنظیم بہت ہی ضروری اور اولویات کی ترتیب نہایت ہی اہم ہے۔
کبھی کہتے: طلب علم چاہے تعلیم کی شکل میں یا تعلم کے، وہ کوئی نوکری اور وظیفہ نہیں ہے جس کے لیے چھٹی کی ضرورت پڑے۔ وہ تو عبادت کا سرورق، سعادت کا سرچشمہ اور شرف کا عنوان ہے جس کے لیے ایک طالب علم کو ہمیشہ کوشاں رہتا ہے۔ بھلا اس میں چھٹی کا کیا مطلب؟
خود ہمیشہ پڑھنے پڑھانے، لکھنے لکھانے اور تحقیق و تالیف میں مشغول رہتے، اور طلبہ سے بھی یہی مطالبہ کرتے۔ سال بھر روٹینی تدریس میں وقت کا ایسا التزام کرتے کہ حیرت ہوتی۔ کلاس سے طلبہ کی غیر حاضری سخت نا پسند کرتے۔
بلا شبہ وقت کی پابندی، اولویات کی تنظیم و ترتیب اور وقت کی حفاظت تینوں چیزیں آپ کے یہاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ اور ان تینوں اہم ترین اور عظیم صفات میں بھی آپ ایک یکتا شخصیت اور مثالی استاذ تھے۔

جب سالانہ چھٹی کا وقت قریب آتا تو نصیحت کرتے ہوئے کہتے:یہ چھٹی پڑھنے لکھنے سے چھٹى نہیں ہے۔ ایک طالب علم کی ذات پڑھنے لکھنے سے چھٹی نہیں لیتی۔ یہ چھٹی در اصل روٹینی تعلیم سے چھٹی ہے تاکہ آپ کچھ دنوں تک آزاد رہ کر مطالعہ کریں۔ ہر طالب علم اچھى طرح جانتا ہے کہ وہ کس سبجیکٹ اور کن موضوعات میں کمزور ہے۔ ان چھٹیوں میں ان پر خصوصی توجہ دینا۔ کتابیں ساتھ لے کر جانا۔ ان چھٹیوں کو ضائع ہرگز نہ ہونے دینا۔
بد گمانی اور تشاؤم سے بہت دور رہتے۔ ہمیشہ حسن ظن اور اچھی امید رکھتے ۔ ان کی شخصیت، ان کی گفتگو، ان کے نقطہ ہائے نظر، ان کی نصیحتوں اور ان کے مشوروں، سب میں یہ اہم صفت نمایاں رہتی۔
مزاج ایجابی نہ ہو تو انسان اکثر اوقات تشاؤم کا بیانیہ اور نحوست کا استعارہ بن جاتا ہے۔
سلبی فکر اور منفی مزاج رکھنے والے افراد معاشرہ کے لیے بہت مہلک ہوتے ہیں۔ در اصل یہ ایک نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ بیماری اس قدر متعدی ہوتی ہے کہ ایسے نفسیاتی مریضوں سے بار بار تعامل کرنے والا شخص اگر اس بیماری سے کسی طرح بچ بھی نکلے تو اس کے مضر اثرات سے نہیں بچ پاتا، اور لا محالہ تنگی نفس اور تکدر مزاجی کا شکار ہونے لگتا ہے۔ اسی لیے شریعت نے نہ صرف اس امر سے روکا ہے بلکہ علم نفس کے ماہرین ایسے افراد کی صحبت سے بڑی شدت سے منع کرتے ہیں۔
آپ کی شخصیت بڑی ایجابی تھی، جو آپ کے مزاج میں تفاؤل اور حسن ظن کا نتیجہ تھا۔ آپ سلبی امور سے ہمیشہ اجتناب کرتے اور سلبیت سے سخت گریز۔ نتیجتاً اس کا اثر آپ کے مزاج سے جھلکتا اور آپ کی گفتگو سے چھلکتا تھا۔
آپ کا روشن چہرہ ہمیشہ حسن ظن، تفاؤل اور ایجابیت کا خوبصورت مرقع نظر آتا تھا۔
اپنے مسلمان بھائی کے لیے عذر تلاشنا ایمان و اخلاق کا بہت ہی اعلى درجہ ہے۔اس میدان میں اچھے اچھے شہسوار منہ کے بل گر پڑتے ہیں۔ ایمان کی یہ حلاوت اوراخلاق کی یہ عظمت بہت ہی کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ میں نے آپ کی طرح اپنے مسلمان بھائی کے لیے عذر تلاشنے والا نہیں دیکھا۔ کوئی منفی خبر آپ تک پہنچتی یا کسی کے تئیں کوئی ناگوار بات آپ کی سماعت سے ٹکراتی تو (لعلّہ…..کذا) کا خوبصورت اسلوب استعمال کرتے ہوئے خود ہی عذر مہیا کردیتے۔ آپ کے اندر یہ صفت بھی بہت ہی نمایاں تھی۔
لوگوں کے تعلق سے ان کا نقطہ نظر ’إن أکرمکم عند اللہ أتقاکم‘ کے ارد گرد گھومتا۔ باقی چیزوں کا اعتبار ثانوی ہوتا۔ ہمیشہ کہتے:اگر میں سکون سے کھاتا پیتا اور سوتا ہوں اور بادشاہ بھی سکون سے کھاتا پیتا اور سوتا ہے تو سکون واطمینان میں ہم سب برابر ہیں۔ اور وہی مطلوب ہے۔ اصل معیار تقوى ہے۔ جس کی بنا پر اللہ تعالى کے یہاں بندے کو مقام ومرتبہ حاصل ہے۔
کبھی کبھار بعض گھریلو باتیں بھی ذکر کرتے۔ کسی ناگوار حادثہ سے دوچار ہوتے تو بسا اوقات اس کا بھی ذکر آجاتا۔ ہمیشہ محسوس کرتا کہ اللہ تعالى پر ان کا بھروسہ اور رب العالمین کے تئیں ان کا حسن ظن بہت ہی پختہ اور غیر متزلزل ہے۔
آپ اس وقت ایک معزز سعودی شہری ہیں۔ پورا گھرانہ علمی ہے۔ اور اکیڈمک لائن سے جڑا ہوا باوقار زندگی گزار رہا ہے۔ تاہم آپ کا خاندان اصلا ترکستانی اور نسلا ایغور ہے۔ آپ کے آباء و اجداد کا تعلق ترکستان سے تھا۔ قشقر جو کسی زمانے میں ترکستان کا مکہ ہوا کرتا تھا وہاں سے آپ کے دادا احمد نے مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت کی، اسے اپنا مسکن بنایا اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ آپ کے والد یعقوب یہیں پیدا ہوئے۔ وہ کپڑوں کی تجارت کرتے تھے۔ پھر اسی مبارک سرزمین پر آپ کی ولادت، تعلیم وتربیت اور نشونما ہوئی۔ مدینہ یونیورسٹی میں آپ استاذ مقررہوئے۔ ایک طویل خدمات انجام دے کر جب ریٹائر ہوئے تو بعض گھریلو وجوہات اور ذاتی ظروف کی بنا پر مکہ چلے گئے۔ مدینہ سے آپ کو والہانہ محبت ہے۔ برابر آتے جاتے رہتے ہیں۔ اس وقت مکہ مدینہ اور جدہ تینوں جگہ زندگی کے ایام گزر رہے ہیں۔
آپ کے تعلیم کی ابتدا حرم مکی سے ہوئى جہاں کے حلقات علم سے آپ نے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے تعلیم وتعلم کی مبارک شروعات کی۔جس زمانے میں آپ نے تعلیم حاصل کی اور مکہ مکرمہ میں آپ کی علمی نشونما ہوئی اس وقت سعودی عرب میں مصر وشام کے اساطین علماء بکثرت موجود تھے۔ آپ نے ان سے کما حقہ کسب فیض کیا ۔ آپ کے اساتذہ میں علامہ محمود شاکر، محمد متولی شعراوی، خلیل محمود عساکر، مشہور محقق سید احمد صقر، رمضان عبد التواب، عبد الرحمن حبنکہ میدانی، نوری حمودی قیسی، یحیى وہیب الجبوری، کمال ابو النجا اور کمال بشر جیسی با کمال شخصیات قابل ذکر ہیں۔
مدینہ یونیورسٹی میں صرف پڑھنا خوش نصیبی نہیں ہے۔ وہاں پڑھانا بھی بہت بڑی خوش نصیبی ہے۔ جہل سے نجات اور اس بنیاد پر شرف تعلم کونکال دیں تو پڑھانا کہیں زیادہ خوش نصیبی اور شرف کی بات ہے۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے طلبہ کو تعلیم دینا، ان کی رہنمائی کرنا،انھیں ذخیرہ آخرت اور صدقہ جاریہ بنانا، بھلا اس سے بڑی خوش بختی اور کیا ہو سکتی ہے؟
آپ سنہ 1396ھ میں مدینہ یونیورسٹی میں تدریس کے لیے آئے اور مسلسل پینتالیس (45) سال سنہ 1441ھ تک طلبہ کو پڑھاتے رہے۔ ہوا یوں کہ سنہ1429ھ میں ریٹائر ہونے کے بعد بھی جامعہ نے آپ کی خدمات حاصل کیں اور آپ 1441ھ تک جامعہ میں اپنی تعلیمی، تربیتی اور ادارتی خدمات انجام دیتے رہے۔ اس مدت میں اپنے والد صاحب کی خرابی صحت کی بنا پر چھ سال تک جامعۃ الملک عبد العزیز جدہ میں مدرس رہے۔ باقی سارے ماہ وسال مدینہ منورہ میں گزرے۔ اس دوران سیکڑوں طلبہ نے آپ سے استفادہ کیا۔ سعودی طلبہ میں آپ کے بہت سارے شاگرد آج علم وعمل تعلیم وتربیت ہر میدان میں اعلى مقام اور اپنى ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ آپ کے شاگردوں میں مشہور لغوی عالم ڈاکٹر عبد الرزاق الصاعدی، جو مدینہ یونیورسٹی میں ایک زمانے تک ہائر ایجوکیشن کے روح رواں رہے اور جامعہ کے ریکٹر بن کر ریٹائر ہوئے۔ مشہور لغوی عالم ڈاکٹر احمد سعید قشاش، ڈاکٹر عبدالعزیز سالم الصاعدی، ڈاکٹر عبد الرحمن عیسى الحازمی، ڈاکٹر محمد مبارکی،ڈاکٹر عبد اللہ العتیبی جو مدینہ یونیورسٹی کے ریکٹر بھی رہے، ڈاکٹر إبراہیم سالم الصاعدی (عمید شؤون الخریجین بالجامعۃ الإسلامیۃ)، ڈاکٹر حسن العوفی (وكيل الجامعة الإسلامية للدراسات العليا والبحث العلمي، والقائم بأعمال رئیس الجامعة الإسلامية حاليا)، ڈاکٹر عبدالرحمن المطرفی، ڈاکٹر عبد العزیز عاشور العبیدان، ڈاکٹر محمد ظافر الحازمی،ڈاکٹر نصار حمید الدین،ڈاکٹر الزبیر محمد ایوب،ڈاکٹر بدر محمد الجابری، ڈاکٹر ماہر مہل رحیلی (عمید کلیۃ اللغۃ العربیۃ بالجامعۃ الإسلامیۃ سابقا)، ڈاکٹر عیسى صلاح الرجبی (عمید القبول والتسجیل بالجامعۃ الإسلامیۃ سابقا)اور ڈاکٹر عبد اللہ الیتیمی (عمید القبول والتسجیل بالجامعۃ الإسلامیۃ سابقا) حفظہم اللہ جمیعا قابل ذکر ہیں۔
اللہ تعالى نے آپ کو بہت عزت دی۔ ایک سنجیدہ، باوقار اور نہایت ذمہ دار شخصیت کی حیثیت سے آپ نے پہچان بنائی۔ کالج کے اساتذہ اور طلبہ سب میں آپ کا ایک مقام تھا۔ آپ کا علمی دبدبہ اور آپ کی با رعب شخصیت معروف تھی۔ آپ دو دو بار کالج کے ڈین بنے۔ تین بار یونیورسٹی کی شاندار لائبریری کے ڈین رہے۔ جامعہ کے موقر علمی مجلہ کے لمبے عرصے تک چیف ایڈیٹر رہے۔ جامعہ کے باوقار ریسرچ سینٹر کے دو بار رئیس مقرر کیے گئے۔ چار سال مدینہ یونیورسٹی کی مجلس علمی کے چیف سکریٹری رہے۔ اتنے ہی سال یونیورسٹی کی مجلس اعلى کے بھی چیف سکریٹری رہے۔
پڑھنا لکھنا ، کتابوں کی تحقیق کرنا آپ کا مشغلہ ہے۔ اس قدر تعلیمی اور ادارتی مشغولیات کے باوجود آپ نے تقریبا بیس کتابیں لکھیں اور تحقیق کیں۔ تالیفات میں فی فقہ اللغۃ العربیۃ، فی أصول الکلمات، العامیات الفِصاح فی لہجاتنا العربیۃ المعاصرہ اورأخطاء شائعۃ فی فصحانا المعاصرۃ، جبکہ تحقیقات میں غلام ثعلب کی یاقوتۃ الصِّراط، ابن طحان کی مخارج الحروف وصفاتھا، دملیجی کی الجوھر الفردقابل ذکر ہیں۔ آپ کی تالیفات وتحقیقات دونوں بہت ہی معیاری اور ضبط واتقان کا اعلى نمونہ ہوتی ہیں۔
ہمیشہ آپ کی علمی پہچان غالب رہی۔ موقر اساتذہ کی ایک جماعت آپ کی شاگردی میں رہ چکی تھی۔ کالج کے اندر باہر ہر جگہ نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ سرکاری وغیر سرکاری اداروں سے آپ کی متعدد بار عزت افزائی ہوئى۔ مگر ان سب چیزوں نے آپ کی تواضع وخاکساری پر کسی طرح کا کوئی منفی اثر نہیں ڈالا۔ بلکہ آپ کے تواضع ، خوش خلقی اور کسر نفسی میں مزید اضافہ ہوا۔
خوبصورتی چاہے مرد میں ہو یا عورت میں شخصیت کو پرکشش بناتی ہے۔ خوبصورت چیز کی طرف سلیم طبیعت اور باذوق انسان طبعی طور سے مائل ہوتا ہے۔ اللہ تعالی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔یوسف علیہ السلام کو دنیا کی آدھی خوبصورتی عطا کر دی گئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چودہویں کے چاند سے زیادہ خوبصورت تھے۔ خوبصورتی شخصیت کو نکھارتی اور اس میں چار چاند لگاتی ہے۔ خوبصورتی کے الگ الگ پیمانے اور مظاہر ہیں۔ مردکے لیے الگ تو عورت کے لیے الگ معیار ہے۔ تاہم کچھ معیار مشترک اور تسلیم شدہ ہیں۔ انھی میں سے حیا بھی ہے جو حسن وجمال کا ایسا سرورق ہے کہ جس کتاب پر بھی لگ جائے اس کی قدر وقیمت بڑھ جاتی ہے۔
حیا ایسی صفت ہے جو انسان کے ظاہر وباطن دونوں کو خوبصورت ترین بناتی ہے۔ تاہم اس کا باطنی کردار زیادہ ہے۔ پھر بھی اگرچہ حیا ایک انسان کو معتبر اور با کردار بننے میں اس کی بھرپور مدد کرتى ہے لیکن اس کے ظاہرى جمال میں جو کشش ہے وہ ایک الگ ہی شے ہے۔ حیا کی ایک ہلکی سى تنی ہوئی چادر چہرے پر خوبصورتی کا وہ چمن کھلاتی ہے کہ دیکھنے والے کی آنکھ مخمور، طبیعت سحرزدہ ہوجاتی ہے۔ اس کےنفس کا چمن لہلہا اٹھتا ہے۔ حیا سے کھلتے حسن وجمال کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ رنگ و نسل کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔ وہ کسی اضافی شے کی محتاج نہیں ہوتی۔ حیا بذات خود حسن وجمال کا استعارہ ہوتی ہے۔
حیا ظاہری جمال کا بھی سبب بنتی ہے اور شخصیت کو سنجیدہ ، باوقار اور باوزن بنانے میں بھی خوب مدد کرتی ہے۔آپ حیا کی نعمت سے مالا مال تھے۔ بہت کم مذاق کرتے۔ کوئی بے تکلف دوست یا ساتھی مذاق کرلیتا تو شرما جاتے۔ مسکرانے پر اکتفا کرتے۔ بہت ہی نادر ہوتا کہ باآواز ہنس دیں۔ میں نے کبھی آپ کو قہقہہ لگاتے نہیں دیکھا۔ کبھی بھی نہیں سنا کہ کسی چیز پر آپ نے فخر کیا ہو۔ اپنے کسی عمل کی تعریف کی ہو۔ کسی علمی یا غیر علمی پروجیکٹ کی مدح سرائی کا ارتکاب کیا ہو۔ اگر کوئی آپ کے کسی عمل کی تعریف کرنے لگتا تو آپ شرما جاتے، حیا کی ایک سرخ چادر چہرے پر تن جاتی۔ سر جھکا لیتے۔ فورا کہتے:نہیں نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ بس اللہ تعالى کا فضل اور محض اس کی توفیق ہے۔ ورنہ ہمارى کیا حیثیت ہے۔ اللہ تعالى سے حسن توفیق، سلامتى اور عافیت کا سوال کرتے ہیں۔
ذاتی طور سے مجھے آپ سے بڑی محبت ملی۔ مدینہ یونیورسٹی میں جن اساتذہ نے میری بھرپور رہنمائی کی، مجھے مسلسل تعلیم وتعلم اور کتابوں سے جڑے رہنے میں برابر تعاون کیا اور مجھ پر براہ راست اثر انداز ہوئے ان میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں ہے۔ آپ کی صحبت نے مجھے تعلیم وتعلم کے تئیں بہت سنجیدگی عطا کی۔ اس کے تئیں حرص میں اضافہ اور اس کے حصول کی خاطر دائمی جد وجہد پر آمادہ اور برسر پیکار رکھا۔
اللہ تعالى کی توفیق کے بعد شاید یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ مدینہ یونیورسٹی کی زندگی میں تعلیم وتعلم کے تئیں میں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اپنی کسی مصلحت کو نہ اس پر مقدم کیا، نہ ہی اولیات میں اسے کبھی دوسرے نمبر پر رکھا ۔ بلا شبہ اساتذہ کے ساتھ ساتھ تعلیم کے تئیں میرے سنجیدہ اور ذی علم سنجیدہ احباب کا بھی اس میں بھر پور کردار رہا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ احساس بارہا ہوتا ہے کہ مدینہ منورہ کی مبارک زندگی میں اگر مزید کوشش کرتے تو اور بہت کچھ حاصل کر سکتے تھے، مگر اللہ کے فضل سے ان بیش بہا سالوں پر کبھی ندامت نہیں ہوئی۔ جب بھی وہ ماہ سال یاد آئے تو اللہ کا شکر ادا کیا۔ اس کی حسن توفیق کو یاد کیا اور احساس تشکر سے جسم وجان بوجھل ہوگیا کہ اللہ تعالى نےبہت کچھ عطا کیا اور اصل مقصد سے کبھی بھٹکنے نہیں دیا۔ ایسے وقت میں آپ جیسے اساتذہ بھی ہمیشہ یاد آئے۔ ان کے لیے دل سے دعائیں نکلیں کہ انھوں نے ہمارے لیے کتنی جدوجہد کی۔
حقیقت یہ ہے کہ ان دنوں آپ سے مسلسل گفتگو نے مدینہ یونیورسٹی کے تابناک دنوں کی یادیں تازہ کردیں، علم کے وہ شب و روز رہ رہ کر یاد آئے جب پڑھنے لکھنے کے سوا کوئی ھم و غم نہ تھا۔ با صلاحیت اساتذہ کی علمی مجلسیں، ان کی محبتیں اور عنایتیں یاد آئیں۔ ذمہ داروں کی حوصلہ افزائیاں اور ذرہ نوازیاں یاد آئیں۔ با صلاحیت احباب کی علمی مجلسیں اور ان کے ساتھ گزرے ہوئے محبت بھرے خوبصورت لمحات یاد آئے۔ اور پھر یادوں کی ایسی گھٹا چھائی کہ آنکھوں کا ساون جھوم کر برسا۔ اب حالت یہ ہے کہ بارش تو تھم چکی ہے مگر بوندا باندی ابھی بھی جاری ہے۔
اللہ تعالى سے دعا ہے کہ اللہ تعالى آپ کو صحت وعافیت سے نوازے۔ آپ کے علم، عمل، عمر اور ذریت سب میں برکت دے، آپ کے وہ علمی وغیر علمی اعمال جنھیں آپ مکمل کرنا چاہتے ہیں انھیں پورا کرنے کی توفیق دے۔
اللہ تعالى مدینہ یونیورسٹی کو سرسبزوشاداب رکھے۔ وہاں کے اساتذہ، ذمہ داران، طلبہ، فارغین اور علم کی خاطر اس کا قصد کرنے والے، سب کو حسن توفیق سے نوازے۔ اپنے اصل اہداف ومقاصد کو جاننے، پہچاننے اور انھیں حاصل کرنے کی توفیق دے۔ انھیں مقام ومنزلت عطا کرے، بھرپور عزت دے۔ ان کے عمر ، رزق، ذریت سب میں خوب برکت دے۔ انھیں ہر ھم وغم اور حزن والم سے نجات دے۔ ان کا خصوصی ناصر وحامی ہو۔ ان کے ساتھ عفو ودرگزر، سترو مغفرت کا معاملہ کرے۔ ان کو دنیا وآخرت دونوں میں کامیاب وکامران کرے اور سعادت ہمیشہ ان کی حلیف ہو۔ آمین!

5
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
ارشادالحق روشاد

کاش کہ یہ معلوماتی مضمون بشکل پی ڈی ایف دستیاب ہو جاتا۔۔ تو ہرینٹ نکال کر بھی پڑھتا۔۔
جزاکم اللہ خیرا

وسیم

موجود ہے۔
واٹساپ پر آکر حاصل کر سکتے ہیں

عطاء الله بن عبد المجيد

ماشاء اللہ
دکتور وسیم وفقک اللہ! پڑھ کر بہت مزا آیا، جب تک مکمل نہیں پڑھا سکون نہیں ملا، طلبا کے لیے فوائد سے بھر پور مضمون ہے۔ بالخصوص لغتِ عربیہ کی اہم کتب کا مختصر تعارف اور ساتھ شیخ ترکستانی حفظہ اللہ کے تذکرے کا حسین امتزاج مضمون کو چار چاند لگا گیا۔
بارک اللہ فیکم وزادکم من فضلہ

MOHAMMAD KHAN

بہت بہت شکریہ

Moin Sahar

آپ کی دس تحریر نے میری زندگی میں ایک جدول بنا دیا ہے، بعض جگہوں پر لگا جیسے یہی اوصاف تو کبھی کبھار میرے اندر بھی جھلک آتے ہیں، اسی لیے شخصیات کو پڑھنا چاہیے ۔۔ شیخ آپ کی یہ تحریر کسی مقالہ سے کم نہیں، تحریر ایک موضوع انیک، واللہ میں نے اس ایک تحریر میں بچپن، طالب علمی زندگی کے سارے اتار چڑھاؤ دیکھ ڈالے۔۔۔ اور بھی بہت کچھ ۔۔۔ بارک اللہ فیکم