روشن چراغ ہجر سے ہے رات کیا کریں
جل بجھ رہے ہیں کتنے ہی جذبات کیا کریں
سوچا تو تھا کہ حسرتیں ساری مٹائیں گے
اب اتنی مختصر ہے ملاقات کیا کریں
کہہ دیں کہ ضبط کر لیں، وہی کشمکش ہے پھر
ہونٹوں پہ آ رہی ہے وہی بات کیا کریں
ان کی طرف سے کوئی جواب آ نہیں رہا
پڑھ پڑھ کے رو رہے ہیں سوالات کیا کریں
معلوم ہے کہ سہہ نہ سکیں گے ترا فراق
بس میں نہیں ہے گردش حالات کیا کریں
آنکھیں تمھیں تلاش رہی ہیں یہاں وہاں
ہلچل مچا رہے ہیں خیالات کیا کریں
شاید تمھارے آنے سے آجائے فصلِ گل
ورنہ یہ پھول پتے، یہ باغات کیا کریں
ساقی کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں شاد!
بھڑکا رہی ہے پیاس یہ برسات کیا کریں
آپ کے تبصرے