چشم کشا

اجمل منظور مدنی سیاسیات

1948 میں اسرائیل بنا۔ اسرائیل کو 1948 میں ہی ایران نے تسلیم کرلیا۔ دوسرے سال یعنی 1949 میں ترکی نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ قطر نے 1996 میں اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کیے۔

یہودیوں کی پشت پناہی فوری طور پر روافض نے کی، پھر ان کے حواری اور اخوانیوں نے۔

اسرائیل بنتے ہی سعودی عرب نے دوسرے عرب ممالک کے ساتھ مل کر اسرائیل سے جنگ کی تھی، اس کے بعد بھی کئی جنگیں ہوئیں۔ 1948 میں ملک عبدالعزیز نے یہودیوں سے لڑائی کی تھی، آج ان کے پوتے محمد بن سلمان بن عبدالعزیز یہودیوں سے کہتے رہتے ہیں کہ فلسطینی ریاست کے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی چانس نہیں ہے۔ پچھلے ستہتر سالوں سے سعودی عرب فلسطین کے لیے اپنے موقف پر قائم ہے اور اخوانی حماس ایرانی روافض کے ساتھ مل کر اسرائیلی یہودیوں سے سودا کرنے میں مصروف ہے۔

یہ سودا (صفقة القرن) کیسے ہوا اور کیوں ناکام ہوگیا، اس ناکامی کے نتیجے میں تباہی کس طرح ہوئی انھی تمام سوالوں کے جواب ہیں زیر نظر مضمون میں۔

حق کے علم کے لیے ایمان ضروری ہے، کفر تو آنکھوں پر پٹی باندھ دیتا ہے۔ یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًا ۙ وَّ یَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا ؕ وَ مَا یُضِلُّ بِہٖۤ اِلَّا الۡفٰسِقِیۡنَ (سورہ بقرہ: ٢٦)

جنھیں علم نہیں ہے ان کے لیے یہ مضمون چشم کشا ہے اور جنھوں نے رفض و فوضی کا چشمہ پہن لیا ہے ان کے اگر مگر تو ختم ہونے سے رہے۔

اللہ رب العالمین ہم سب کو حسن نیت اور نیک عمل کی توفیق دے۔ (ایڈیٹر)


جنوری۱۹۴۵ کی تاریخ ہے، امریکی صدر روزویلٹ ملک عبدالعزیز سے ملاقات کر رہا ہے، امریکی سفیر (Bill Eddy) گھٹنے ٹیک کر جھکا ہوا ہے، مطالبہ ہے کہ اس مسودے کو واپس لے لیا جائے جس کی رو سے یہودی اسٹیٹ بننے کی صورت میں عرب حملہ کرنے والے ہیں لیکن ملک عبدالعزیز نے اس مطالبے کو یکلخت ٹھکراتے ہوئے کہا کہ اگر یہودی اسٹیٹ بنانے کی کوشش ہوئی تو میں فلسطین کے میدان جنگ میں لڑ کر شہید ہونا پسند کروں گا۔ یہ الفاظ امریکہ کے سرکاری خارجہ امور سے متعلق دستاویزات میں اب بھی محفوظ ہیں:

https://history.state.gov/historicaldocuments/frus1945v08/d660

چنانچہ برطانیہ، امریکہ اور فرانس کی مدد سے ۱۹۴۸ میں جب فلسطین کے اندر یہودی اسٹیٹ بنانے کا اعلان کیا گیا تو ملک عبدالعزیز نے عرب فوج کے ساتھ حملہ کیا اور خونریز جنگ ہوئی، لیکن اس وقت اسرائیل کے ساتھ امریکی، فرانسیسی اور برطانوی فوج لڑ رہی تھی، اس لیے عرب فوج کو شکست ہوئی، سینکڑوں سعودی مجاہدین کی قبریں آج بھی فلسطین میں موجود ہیں۔

سعودی عرب اور دیگر عرب ملکوں (مصر، شام، اردن، لبنان، عراق، کویت اور سوڈان وغیرہ) نے فلسطین کی آزادی کے لیے کئی بڑی جنگیں لڑی ہیں: پہلی جنگ ۱۹۴۸ میں، دوسری جنگ ۱۹۵۶ میں،تیسری جنگ ۱۹۶۷ میں، اسی لڑائی میں اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس کے ساتھ ساتھ فلسطین کے بہت سارے علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔ چوتھی جنگ ۱۹۷۳ میں، جس کے اندر مصر نے اسرائیل پر حملہ کرکے نہر سویز اور صحرائے سینا کے سارے علاقے خالی کروا لیے۔ اور جب اسرائیل کا ساتھ امریکہ برطانیہ اور فرانس نے دیا تو شاہ فیصل نے پٹرول بند کردیا تھا، بالآخر وہ واپس جانے پر مجبور ہوئے، پانچویں جنگ ۱۹۸۲ میں لبنان کے مسئلے پر ۔

ان جنگوں میں ایک طرف اسرائیل کا ساتھ اگر کھل کر سپرپاور کافر ممالک دے رہے تھے تو کچھ مسلم ممالک نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرکے اس کا مالی اور تجارتی بلکہ فوج واسلحہ سے سپورٹ کیا، جیسے کہ ایران نے اسی سال ۱۹۴۸ میں اسرائیل کو تسلیم کرلیا اور عربوں کے خلاف اسرائیل کی مدد کی۔ اسی بنیاد پر اسرائیل نے بھی عراق ایران جنگ میں ایران کی مدد کی، بلکہ ۱۹۸۱ میں عراق کے نیوکلیئر پلانٹوں کو تباہ کرکے ایران کے لیے عراق پر قبضہ کرنے کا راستہ آسان کردیا، پھر ۲۰۰۳ میں مجوسی ایرانیوں کا وہ خواب بھی پورا ہوگیا۔

ترکی نے دوسرے سال ۱۹۴۹ میں اسرائیل کو تسلیم کیا اور سفارتی تعلقات مضبوط کیے اور اس وقت اردگانی پارٹی کے آنے کے بعد ہر پیمانے پر تعلقات مزید مضبوط ہوگئے ہیں۔

۱۹۹۶ میں قطر نے اسرائیل کا دورہ کیا اور اسرائیلی وزیراعظم ایرئل شیرون کو قطر بلایا جسے سونے کا تلوار دیا اور اسرائیلی تجارتی ہاؤس کھولنے کی اجازت دی، بلکہ قطری وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم تو چاہتے ہیں کہ خلیج کا ہر ملک اسرائیل سے تعلقات بنائے۔

https://twitter.com/ajmal_manzoor/status/1222054322311090177?s=19

انھی اسباب کی بنیاد پر جب عربوں نے دیکھا کہ اب جنگ کے ذریعے اسرائیل کو ہرانا مشکل ہے، بلکہ اپنوں اور غیروں کی مدد سے اسرائیل مزید مضبوط ہوتا جا رہا ہے تو ۲۰۰۲ کے اندر ملک عبد اللہ بن عبدالعزیز نے امن فارمولہ پیش کیا کہ اسرائیل 1967 سے پہلے جہاں تھا وہاں واپس چلا جائے، مقبوضہ علاقے چھوڑ دے، فلسطینی مہاجرین کی واپسی یقینی بنائی جائے اور فلسطین کو ایک آزاد ملک کے طور پر دنیا تسلیم کرے جس کی راجدھانی بیت المقدس ہو۔ اور لڑائی کا دور ختم کرکے دونوں ممالک ایک ساتھ رہیں۔

اس امن فارمولے کا بہت کم لوگوں نے ساتھ دیا، اسرائیل کے ساتھ اسے اخوانیوں اور رافضیوں نے بھی رد کردیا، جگہ جگہ مظاہرے کروائے کہ ہم ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اس میں حماس اور فلسطین کے نام پر لڑنے والی دسیوں عسکری اور سماجی تنظیموں نے حصہ لیا، دراصل لڑائی بند ہوجانے کی صورت میں ان کی روزی روٹی بند ہوجائے گی۔ اخوانیوں نے تقریر کرنا شروع کیا کہ فلسطین مسلمانوں کا ہے اور رہے گا، یہاں یہودیوں کا کوئی حق نہیں ہے، حالانکہ اگر ایسی بات ہوتی تو آخر اس حدیث کا کیا مطلب ہے جس میں ہے کہ مسلمان آخری وقت میں یہود ونصاری سے جنگ کریں گے، مسلمانوں کی جیت ہوگی، ایک ایک یہودی مارا جائے گا یہاں تک کہ درخت کہے گا: اے مسلم! یہ یہودی چھپا ہے اسے مار دے۔

یہ لڑائی فلسطین کے علاقے میں ہوگی، ایران یا ترکی میں نہیں ہوگی جہاں لاکھوں کی تعداد میں یہودی رہتے ہیں اور انھیں ہر طرح سے سہولتیں میسر ہیں۔

سعودی عرب کی طرف سے پیش کیے گئے امن فارمولہ پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں آج فلسطینوں کا قبضہ تین چوتھائی حصے پر جبکہ اسرائیل کا ایک چوتھائی پر ہوتا لیکن نہ ماننے کی صورت میں معاملہ بالکل الٹا ہے۔

سعودی عرب کی طرف سے امن فارمولہ پیش کیے جانے کی اصل وجہ یہ تھی کہ صہیونی یہودی امریکہ، فلسطینی حماسیوں اور اخوانیوں سے مل کر فلسطین پر صدی کی ڈیل کر رہے تھے اور اس ڈیل کو اوباما انتظامیہ نے پاس بھی کر دیا تھا۔ اسی ڈیل کو نافذ کرنے کے لیے اوباما انتظامیہ نے مرسی حکومت سے صحرائے سینا پر سودا بھی کرلیا تھا اور اس کا پیسہ بھی ادا کردیا تھا، اسی معاہدے کو پورا کرنے کے لیے حماسیوں کو تیار کیاگیا تھا اور عرب بہاریہ میں عرب فوجوں کو اسی ڈیل کی کامیابی کے لیے کمزور بھی کیا گیا کہ کوئی مقابلہ نہ کرسکے۔ اسی مقصد کی خاطر مصر میں بغاوت کرکے امریکی سپورٹ سے اخوانیوں کو اقتدار سونپا گیا تھا اور پھر اقتدار میں آنے کے بعد مصر میں اوباما اور لیبیا میں ہلیری کلنٹن نے آکر انھیں مبارکبادی پیش کی تھی ، نیز مصر کے اندر ایرانی صدر احمدی نژاد نے آکر کامیابی کا جشن بھی منایا تھا۔

سیاسی تجزیہ کار عبد الرحیم علی نے اپنی کتاب (الاخوان المسلمون ۔۔۔ قراءة فی الملفات السریہ) کے اندر لکھا کہ اخوانیوں نے امریکی وفد سے ملاقات کرکے کہا کہ فلسطین کے اندر ہماری جماعت حماس کو مان لیا جائے ہم بھی اسرائیل کو مان لیں گے، ہماری لڑائی ان سے دینی نہیں سیاسی ہے، ہم ان سے صرف زمین کے لیے لڑ رہے ہیں۔( ص۳۲۰) بالکل یہی بات شیخ احمد یاسین نے بھی کہی تھی۔

لیکن سعودی مصر کی کوششوں سے ان کی ساری امیدیں خاک میں مل گئیں ۲۰۱۳ میں اس وقت جب اخوانیوں کی سازشی حکومت کو ختم کردیا گیا۔

جب اخوانی سودا ناکام ہوگیا تو اس ڈیل کو جسے امریکی انتظامیہ نے پاس کردیا تھا ٹرمپ نے اپنے پہلے صدارتی ٹرم میں کسی طرح جوڑ توڑ کرکے پورا کرنے کی کوشش کی تھی مگر اسے اپنی اس مذموم کوشش میں پوری طرح ناکامی ملی۔ اس کی پوری تفصیل کچھ اس طرح ہے:

حقیقت میں ۲۰۱۷ کے اندر تل ابیب سے امریکی سفارت خانے کی منتقلی کے اعلان سے ایک سال پہلے ہی ۲۰۱۶ میں اردگان نے اسرائیل آ کر بیت المقدس کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کر کے فلسطینیوں کے خلاف سودا کر لیا تھا۔ اس لنک پر معاہدے کا وہ وثیقہ دیکھا جا سکتا ہے جس میں ترکی اور اسرائیل کی طرف سے دستخط کیے گئے ہیں کہ القدس اسرائیلی راجدھانی ہے:

https://slaati.com/2020/02/07/p1580528.html

پوری رپورٹ اس ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں:

https://www.slaati.com/2018/05/17/p1091008.html

اس سے تین سال پہلے مصر میں اخوانی حکومت کے دوران مرسی اور حماسی لیڈروں نے پورے فلسطین کا سودا کر لیا تھا۔ اس کے لیے حماس کو قطر نے راضی بھی کر لیا تھا۔ دیکھیں یہ رپورٹ :

أن حماس مستعدة للعمل مع الأمريكيين حول صفقة القرن مقابل السيطرة على غزة والنفوذ في الضفة الغربية، لكن اللافت للنظر هو أن قطر تحاول الدفع بحماس” نحو قبول ذلك المشروع، مشيرًا إلى أنه من الواضح أن “هذه الرسالة مصدرها هو الشيخ تميم بن حمد آل ثاني”.

ترجمہ:قطر کے بادشاہ وقت تمیم بن حمد آل ثانی نے کہا:غزہ اور مغربی پٹی پر اگر حماس کو مکمل حکومت دے دی جائے تو وہ اس معاہدے (صفقۃ القرن)کے بارے میں امریکیوں سے بات کرنے کے لیے راضی ہے اور اس پلان کو قبول کروانے کے لیے قطر کی پوری کوشش ہے۔

https://www.eremnews.com/news/arab-world/gcc/1306174

جہاں تک مرسی حکومت کی بات ہے تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ ۲۰۱۳ کے اندر مصر میں اخوانی مرسی حکومت کے دوران امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کی مفاہمت کے ساتھ یہ معاہدہ کیا گیا کہ مصر صحرائے سیناء کے اندر ۷۷۰مربع کیلومیٹر زمین فلسطینیوں کو بسانے کے لیے دے دے جو بالکل غزہ پٹی سے ملا ہوا ہو، اس کے بدلے میں اسرائیل جنوب میں مصری اسرائیلی سرحد پر اتنی ہی زمین دے دے گااور اس نوزائیدہ ملک کی آبادکاری کے لیے امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب، اردن اور اسرائیل کو دعوت دی جائے گی۔ تفصیلات اس رپورٹ میں دیکھیں:

أولا: تتنازل مصر عن۷۷۰ كيلومتراً مربعاً من أراضى سيناء لصالح الدولة الفلسطينية المقترحة. وهذه الأراضى عبارة عن مستطيل، ضلعه الأول ٢٤ كيلومتراً، ويمتد بطول ساحل البحر المتوسط من مدينة رفح غربا، وحتى حدود مدينة العريش، أما الضلع الثانى فيصل طوله إلى ٣٠ كيلومتراً من غرب «كرم أبوسالم»، ويمتد جنوبا بموازاة الحدود المصرية الإسرائيلية.

وهذه الأراضى (٧٢٠ كيلومتراً مربعاً) التى سيتم ضمها إلى غزة تضاعف مساحة القطاع ثلاث مرات، حيث إن مساحته الحالية تبلغ ٣٦٥ كيلومتراً مربعاً فقط.

ثانيا: منطقة الـ (٧٢٠ كيلومتراً مربعاً) توازى ١٢% من مساحة الضفة الغربية. وفى مقابل هذه المنطقة التى ستُضم إلى غزة، يتنازل الفلسطينيون عن ١٢% من مساحة الضفة لتدخل ضمن الأراضى الإسرائيلية.

ثالثا: في مقابل الأراضى التى ستتنازل عنها مصر للفلسطينيين، تحصل القاهرة على أراض من إسرائيل جنوب غربى النقب (منطقة وادى فيران). المنطقة التى ستنقلها إسرائيل لمصر يمكن أن تصل إلى ٧٢٠ كيلومتراً مربعاً (أو أقل قليلا)، لكنها تتضاءل في مقابل كل المميزات الاقتصادية والأمنية والدولية التى ستحصل عليها القاهرة لاحقا.

ترجمہ:پہلا:مصر مجوزہ فلسطینی ریاست کے حق میں ۷۷۰/مربع کلومیٹر سینائی اراضی چھوڑ دے گا۔ یہ زمینیں ایک مستطیل کی شکل میں ہیں، جس کا پہلا حصہ ۲۴/کلومیٹر طویل ہے اور یہ بحیرہ روم کے ساحل کے ساتھ مغرب میں رفح شہر سے عریش شہر کی سرحدوں تک پھیلا ہوا ہے، جہاں تک اس کے دوسرے حصے کا تعلق ہے تو اس کی لمبائی ۳۰/کلومیٹر “کرم ابو سالم” کے مغرب سے مصری اسرائیلی حدود کے جنوب تک پھیلا ہوا ہے۔

یہ اراضی (۷۲۰ مربع کلومیٹر)جو غزہ کے ساتھ مل جائیں گی، اس سے غزہ پٹی کے رقبے میں تین گنا اضافہ ہو جائے گا، کیونکہ اس کا موجودہ رقبہ صرف ۳۶۵/مربع کلومیٹر ہے۔

دوسرا:(۷۲۰/مربع کلومیٹر)کا رقبہ مغربی کنارے کے رقبے کے۱۲%کے برابر ہے، اس علاقے کے بدلے جو غزہ کے ساتھ الحاق کیا جائے گا، فلسطینی مغربی کنارے کا ۱۲/ فیصد حصہ ترک کر کے اسرائیلی علاقے میں شامل کر دیں گے۔

تیسرا:ان زمینوں کے بدلے جو مصر فلسطینیوں کو دے گا، قاہرہ نقب کے جنوب مغرب (وادی فران کا علاقہ)میں اسرائیل سے زمینیں حاصل کرے گا۔ اسرائیل جو اراضی مصر کو منتقل کرے گا وہ ۷۲۰/مربع کلومیٹر یا اس سے کچھ کم ہوگا، لیکن یہ ان تمام اقتصادی، سلامتی اور بین الاقوامی فوائد کے مقابلے میں کمزور اور بہت ہی حقیر ہے جو قاہرہ کو بعد میں حاصل ہوں گے۔

مزید معلومات اس ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں:

https://www.marefa.org/صفقة_القرن

اس پلان کو اس سے تین سال پہلے ہی اسرائیلی جنرل ((Giora Eiland۲۰۱۰ہی کے اندر بنا کر پیش کر چکا تھا۔ چنانچہ ۲۰۱۷ میں متشدد، کٹر اور یہودیوں کے قریبی مانے جانے والے امریکی صدر ٹرمپ کے آنے کے بعد اہل فلسطین کے خلاف اس سازشی معاہدے کو پھر اچھالا گیا تا کہ وہ اس مسئلے کو جلد سے جلد حل کردے۔ لیکن چونکہ اب اخوانیوں کی حکومت نہ رہی اس لیے یہ بیچارے اس کا الزام موجودہ مصری حکومت اور ساتھ میں سعودی عرب پر بھی لگاتے ہیں اور میڈیا میں اس کا جم کر پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ مصر، اردن اور سعودی عرب مل کر فلسطینی عوام کا سودا کر رہے ہیں۔ مقصد اس سے ان کا صرف یہ ہے کہ ان کی منافقت اور سازش اسی پروپیگنڈے میں چھپ کر رہ جائے۔

لیکن اتنی بڑی سازش کو کیسے چھپایا جا سکتا ہے؟!چنانچہ مصری خفیہ ایجنسی کے سابق چیف فواد علام نے اس راز کا انکشاف کرتے ہوئے کہا:

المقالات تؤكد ما سبق وتردد، بأن جماعة الإخوان المسلمين عقدت اتفاقًا مع اسرائيل بتسليم جزء من صحراء سيناء لتسكين الفلسطينيين بها، وأن مثل هذا التصريح يؤكد أن جماعة الإخوان المسلمين مستعدة للتحالف مع الشيطان فى سبيل تحقيق أهدافها والتواجد على الساحة السياسية والوصول إلى الحكم.

ترجمہ:یہ بات پوری تاکید سے کہہ رہا ہوں کہ اخوان المسلمین نے اسرائیل کے ساتھ یہ معاہدہ کیا تھا کہ فلسطینیوں کی آبادکاری کے لیے وہ انھیں صحرائے سیناء میں جگہ دینے کے لیے تیار ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اخوان المسلمین حکومت وسیادت حاصل کرنے کے لیے شیطان سے بھی دوستی کر سکتے ہیں۔

مذکورہ خبر کو اس ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں:

https://m.youm7.com/story/2017/4/5/وانكشف-المستور-عن-علاقة-الإخوان-بتل-أبيب-وزير-الخارجية-الإسرائيلى/3176491

فلسطینی صدر محمود عباس نے بھی اس کا بھانڈا یہ کہہ کر پھوڑ دیا کہ اس معاہدے کے پیچھے مرسی کی حکومت تھی اور میں نے مرسی کی درخواست کو اسی وقت رد کر دیا تھا، دیکھیں یہ ویڈیو:

مزید اس سنگین قضیے کی صراحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے تو اسے صاف صاف نکار دیا لیکن حماس نے مرسی کی اس درخواست کو شرح صدر کے ساتھ قبول کر لیا۔ سچ کہا ہے کسی نے:

کبوتر با کبوتر باز با باز

کند ہم جنس باہم جنس پرواز

محمود عباس کا یہ بیان بھی سن لیں:

۲۰۱۶ ہی میں امریکی کانگریس نے اوباما سے ۸/ارب امریکی ڈالر کا حساب مانگا تھا جسے انھوں نے اخوان المسلمین کو اسی سودے کو حل کرانے کے لیے دیا تھا لیکن مرسی حکومت کے گر جانے سے یہ سودا کھٹائی میں پڑ گیا۔ پڑھیں یہ رپورٹ :

في اجتماع الكونجرس الأمريكي امس في جلسة ساخنه وجهت الاتهامات الي الرئيس أوباما باهدار ثمانية مليار دولار دفعها المواطن الامريكي ثمنا لسوء ادارة اوباما وفريقه وطالبه الآن باسترداد مبلغ 8 مليار دولار استلمهم خيرت الشاطر دعما لجماعة الاخوان المسلمين مقابل تسليم 40% من مساحة مصر للفلسطينيين التابعين لأعضاء حماس، ولما أصبح خيرت وأعوانه خارج السلطة أصبح أوباما فى ورطة لعدم إتمام الصفقة, وهذا هو الحرج الأساسي في موقف اوباما الذى أثار حفيظة أعضاء الكونجرس فى جلستهم أمس۔

يذكر أن الوثيقة المتفق عليها والمُوقع عليها كلا من الرئيس المعزول مرسي ونائب المرشد العام خيرت الشاطر ومستشار الرئيس لشئون الخارجية عصام الحداد.

ترجمہ:امریکی کانگریس نے اوباما پر جم کر الزامات لگائے کہ اوباما ایڈمنسٹریشن نے امریکی عوام کے پیسے کو ضائع کر دیا۔ چنانچہ آٹھ ارب ڈالر کی واپسی کا مطالبہ کیا جسے اوبامہ انتظامیہ سے خیرت شاطر نے لے کر اخوان المسلمین کو دیا تھا تا کہ مصری صحرائے سیناء سے چالیس فیصد حصہ فلسطینیوں کو اس کے بدلے ہبہ کر دیں۔

لیکن مرسی حکومت کے گر جانے کے بعد جب خیرت شاطر اور ان کے معاونین اقتدار سے باہر ہوگئے تو اس سودے کی عدم تکمیل کی وجہ سے اوباما بڑی مصیبت میں پھنس گئے۔ ۔۔۔۔۔۔ بتایا جاتا ہے کہ (اس منحوس)معاہدے پر معزول صدر مرسی، نائب مرشد عام خیرت شاطر اور صدر کے مشیر خاص برائے خارجہ امور عصام حداد نے دستخط کیے تھے۔

پوری خبر اس ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں:

http://www.elbyan.com/الكونجرس-يطالب-اوباما-بسداد-8مليار-دول/

انگریزی میں اس ویڈیو کو بھی دیکھ سکتے ہیں:

چونکہ اسرائیل نے مرسی حکومت سے جس فلسطینی زمین کے حوالے سے سودا کیا تھا اس میں مشرقی یوروشلم کے ساتھ صرف وہی علاقے شامل تھے جو الفتح کے زیر کنٹرول ہیں۔ اس میں حماسی زیر کنٹرول غزہ کا علاقہ شامل نہیں ہے۔ کیوں کہ بدلے میں ملنے والی زمین اس سے ملحق ہے۔ لہٰذا اسے بھی اس میں شامل مان لیا گیا تھا۔ چنانچہ یہ عین معقول اور منطقی بات ہے کہ اس معاہدے کو تسلیم کر لینے میں اس سے حماس کو کوئی نقصان نہیں ہے۔ نقصان اور پریشانی صرف انھی فلسطینیوں کو ہے جو فلسطینی صدر محمود عباس کے سپورٹر ہیں۔ ایسی صورت میں کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ اسے محمود عباس نے مانا ہوگا یا سعودی عرب نے اس کی تائید کی ہوگی۔

فلسطینیوں کے خلاف رافضیت گزیدہ حماسی لیڈروں اور مرسی حکومت کی سازش جب کھل کر سامنے آگئی تو سارے تحریکی رافضی بلبلاہٹ کا شکار ہو گئے اور کالی پیلی میڈیا کا سہارا لے کر فورا اس الزام کو سعودی عرب کے سر منڈھ دیا اور اس کا خوب خوب پرچار بھی کیا۔ ان پروپیگنڈوں کو درج ذیل ویب سائٹس پر دیکھ سکتے ہیں:

1/http://www.aljazeera.net/news/alquds/2018/4/17/السعودية-بين-صفقة-القرن-ونزع-الوصاية-الأردنية-عن-الأقصى

2/https://www.google.co.in/amp/s/arabic.sputniknews.com/amp/arab_world/201803171030830718-صحيفة-تسليم-صفقة-القرن-للسعودية-بنود-تصدم-الفلسطينيين/

3/http://www.akhbarona.com/mobile/world/236363.html

جب ان تمام داخلی وخارجی دشمنان فلسطین کو ہر طرح سے ناکامی نظر آئی تو آخری حربہ استعمال کرتے ہوئے اپنے ایجنٹ اخوانی حماسیوں کے ذریعے ۷/اکتوبر۲۰۲۳ کو اسرائیل پر حملہ کروا دیا اور اسی معمولی حملے کو بہانہ بنا کر ۲۵/لاکھ کی آبادی والے سنی شہر کو برباد کردیا گیا، تاکہ اس اقتصادی اہمیت کے حامل شہر پر قبضہ کیا جاسکے اور پھر صدی کی مجوزہ ڈیل کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔ اسی سازش کو پورا کرنے کے لیے ٹرمپ بری طرح بیان بازی کر رہا ہے جس کی راہ پہلے کی طرح اس بار بھی مصر، اردن اور سعودی عرب پورے عزم واستقلال کےساتھ رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

حماس اسرائیل گٹھ جوڑ کو سمجھنے کے لیے قیدیوں کی رہائی کےعمل پر ایک نظر ڈالیں جس کا ایک سرسری جائزہ لیا گیا ہے:

جب آپ غزہ کے مرکز میں اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے مناظر دیکھتے ہیں، تو آپ نوٹ کریں گے کہ یہ جگہ، جو حماس کا معروف گڑھ ہے (محافظۃدير البلح)، جہاں حماسیوں کا ہیڈکوارٹر ہے حیرت انگیز طور پر بمباری سے محفوظ رہا ہے،اسے کوئی نقصان کیوں نہیں پہنچا، آخر کیوں؟ جب وہی اصل دشمن تھے تو ان کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیوں نہیں کیا گیا؟ جبکہ غزہ کے دیگر علاقوں کو ملبے میں تبدیل کر دیا گیا ہے، یہاں تک کہ اسرائیلی زمینی فوج بھی اس علاقے میں داخل نہیں ہوئی!

یہ حقیقت کچھ سوالات کو جنم دیتی ہے:

(۱)کیا اسرائیل کو پہلے دن سے پتہ تھا کہ اس کے قیدی کہاں رکھے گئے ہیں؟ اگر ایسا ہے، تو یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ اس نے پورے غزہ کو تباہ کر دیا، لیکن اس علاقے کو محفوظ رکھا تاکہ اس کے قیدی سلامت رہیں۔کیا یہ منطقی ہے کہ اسرائیل پورے غزہ پر بمباری کرے، مگر اپنے قیدیوں کی فکر نہ کرے؟ اور اگر وہ واقعی قیدیوں کی تلاش میں تھے، تو جب انھیں یحییٰ السنوار ملا، تو انھوں نے اسے گرفتار کرنے کے بجائے قتل کیوں کر دیا؟ کیا وہ اس سے تفتیش نہیں کرنا چاہتے تھے کہ قیدی کہاں ہیں؟

(۲)کیا واقعی اس جنگ کا مقصد حماس کو ختم کرنا ہے؟

اگر ایسا ہوتا، تو اسرائیل ان مقامات کو نشانہ بناتا جہاں حماس کے اہم مراکز اور کیمپ موجود ہیں۔کیا یہ معقول ہے کہ وہ لاکھ کے قریب فلسطینیوں کو قتل کر چکے ہیں، دو لاکھ سے زائد کو زخمی کر چکے ہیں اور پورے شہروں اور اسپتالوں کو ملبے کا ڈھیر بنا چکے ہیں، مگر “تحریک حماس” کو کچھ نہیں ہوا؟ اگر اسرائیل حسن نصراللہ کو لبنان میں تلاش کر سکتا ہے اور اسماعیل ہنیہ کو ایران میں ٹریس کر سکتا ہے، تو وہ دیر البلح میں کیوں داخل نہیں ہوا؟

اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ حماس کے لوگ نئی گاڑیوں میں، استری شدہ فوجی وردیوں میں باہر آ رہے ہیں ،کیا واقعی یہ لوگ سارا وقت زیر زمین سرنگوں میں چھپے ہوئے تھے؟ پھر وہی بنیادی سوال کہ کیا حماس درحقیقت اسرائیل کی ایک “پیداوار”ہے؟

اگر کوئی مزاحمتی گروہ اپنے عوام کو اس قدر تباہی میں جھونک دے، تو کیا اسے حقیقی مزاحمت کہا جا سکتا ہے؟

اگر ان کے پاس ہتھیار ہیں، مگر وہ اپنی عوام کو نہتے چھوڑ کر ایک منظم فوج کے خلاف لڑنے پر مجبور کرتے ہیں، تو کیا یہ حقیقی مزاحمت ہے یا کچھ اور؟ درج ذیل لنک پر اس سازشی منظر کو دیکھ سکتے ہیں:

https://x.com/RTarabic/status/1881033883308663278?t=h_0SOFXgw1not-9PYXyoMQ&s=19

محترم جناب نسیم احمد مدنی حفظہ اللہ نے حالیہ صہیونی صلیبی سازش کا حصہ بننے والےرافضیت نواز اخوانی حماسیوں کے سازشی کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:

پورا غزہ کھنڈر میں تبدیل ہوگیا، لاکھوں فلسطینی مع خواتین بچے شہید کردیے گئے ،کتنے زخمی اور بے گھر ہوگئے لیکن غزہ ہی میں حماسی فوجیوں کا علاقہ اور ان کی کمین گاہیں بالکل محفوظ رہیں۔

ان منافقوں نے طوفان الاقصی برپا کرکے یہ چاہا تھا کہ مصر اور سعودی عرب کو اس جنگ میں کھینچ لائیں اور شام،عراق اورلیبیا کی طرح امریکہ،نیٹو ، اسرائیل و ایران کی شراکت سے ان دونوں عظیم ملکوں کا وہی حال کردیا جائے لیکن(ویمکرون ويمكر الله والله خير الماكرين)مصر اور سعودی عرب کی حکمت عملی اور وہاں کے حکمرانوں کی گہری فکر اور مؤمنانہ فراست کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا، فالحمد للہ اولا وآخرا۔

سب کچھ برباد کرکے منافقین امت نے جنگ بندی پر یہودیوں سے مصالحت کرلی اور قیدیوں کے تبادلے کا کام شروع ہوگیا، پھر امریکی صدر ملعون ٹرمپ نے غزہ کے مسلمانوں کی مصر و اردن میں منتقلی کی بات کی اس پر سعودی عرب اور مصر و اردن نے نیز اور بہت سارے ممالک نے زبردست ناراضگی کا اظہار کیا اور سعودی شہزادے محمد بن سلمان آل سعود حفظہ الله ووفقہ لکل خیر نے فلسطين کے تعلق سے زبردست اپنے قدیم موقف کا اعادہ کیا اس سے منافقوں کو محسوس ہوگیا کہ سعودی عرب اور مصر عملی طور پر اس جنگ میں گویا کہ شریک ہوچکے ہیں اس لیے انھوں اس قضیہ کو د ھماکہ خیز بنانے کے لیے نقاب پوش ابوعبیدہ نامی رافضی ایجنٹ کے ذریعہ یہ اعلان کروا دیا کہ قیدیوں کی تبدیلی کا عمل روکا جارہا ہے اور ادھر ٹرمپ ملعون اعلان کررہا ہے کہ اگر یہ عمل روکا گیا تو ہم غزہ کو جہنم بنادیں گے۔

اب یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی کہ منافقین امت رافضی، اخوانی ،حماسی، یہودیوں، صہیونیوں کے ساتھ مل کر کیا کرنا چاہ رہے ہیں ان کا مقصد یہی ہے کہ سارے سنیوں کو بے خانماں تباہ وبرباد کردیا جائے اور سارے طاقت ور سنی عرب ممالک کو تباہ وبرباد کرکے ان کو کمزور ترین کردیا جائے اور گریٹر اسرائیل کاخواب شرمندہ تعبیر ہوجائے۔

اب تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ سعودی عرب اور مصر کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر فلسطین کے معاملے کو حل کرنے میں ان کا ساتھ دیں اور ان کے خلاف افواہوں پر کان نہ دھریں ، اللہ بہت بڑا ہے وہ اپنے اچھے بندوں کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑے گا۔ان شاء الله تعالی

آخر میں دعا ہے کہ اللہ رب العالمین مظلوم فلسطینیوں کی مدد فرمائے اور جو مسلم ممالک ہر سطح پر ان کا تعاون کر رہے ہیں انھیں کامیاب کرے اور جتنے بھی داخلی وخارجی سطح پر ان کے دشمن پائے جاتے ہیں انھیں ذلیل ورسوا کرے۔ آمین(۱۲فروری ۲۰۲۵)

آپ کے تبصرے

3000