ہر سطر سے وا ہوا در خائہ تنویر کا
عارض قرطاس پر غازہ بچھا تحریر کا
یک بیک ہی جل گئی وہ جلتے جلتے میں جلا
مجھ سے اچھا حال نکلا ہے مری تصویر کا
سوز پنہاں خوگر رقص ملامت ہی رہا
ڈھے نہ پایا ایک بھی بت کعبۂ دل گیر کا
حاصل مکتوب ہے ہر ذرۂ سود و زیاں
بزم ہستی میں مگر دھڑکا رہا تقدیر کا
تھرتھراتا، کانپتا، خواب عدم کو ڈھونڈتا
دیدنی تھا کوئے حسرت میں دیا تعبیر کا
تھی اسیری میں نہ جب فکر نجات و حریت
قید کرلے کیوں نہ پھر بس واہمہ زنجیر کا
درد دل از راہ خاموشی بیاں کرنا پڑا
بار خاطر ہی رہا لہجہ مری تقریر کا
کس ادا سے صید افگن کھینچتا ہے تیر ہائے
بے نشانہ ہی نکل جائے نہ دم نخچیر کا
جوہر غم پیکر شعری میں ڈھل جائے حسن
پڑھ کے دم کردے کوئی دیوان مجھ پر میر کا
آپ کے تبصرے