وطن سے جذباتی وابستگی اورمحبت والفت فطرت کا تقاضا ہے۔ جائے پیدائش سے ہر کسی کا والہانہ تعلق ہوتا ہے۔انسان تو انسان دیگر تمام مخلوقات کے طرز زندگی اور اسلوب بودوباش پر اگر آپ غور کریں گے تو آپ کو ہر مخلوق کی اپنے مقر ومسکن سے دل بستگی واضح طور پر نظر آئے گی۔پرندہ اگر اپنے آشیانے سے بچھڑ جائے تو اس کی حالت نادیدنی بن جاتی ہے۔ مرغی کو اگر اس کے ڈربے سے نکال کر دوسرے ڈربے میں رکھ دیا جائے تو اس کی حالت زاروزبوں ہوجاتی ہے۔بکری ایک گھر سے دوسرےگھر جاتی ہے تو کچھ دنوں تک پرانے گھر کی یاد میں نئے گھر کو اپنے سر پر اٹھاکر رکھتی ہے۔غرضیکہ وطن ومسکن سے محبت و الفت ہر انسان بلکہ ہر ذی روح کے اندر قدرت کی طرف سے کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔اسی فطری محبت کی وجہ سے کوئی شخص بہ رضا ورغبت وطن سے جدائی گوارا نہیں کرتا ۔حصولِ علم، ملازمت، کاروباری مصروفیات یا دیگرضروریاتِ زندگی کی تکمیل کے لیے انسان با دل ناخواستہ وطن سے دوری اختیار کرتا ہے ، لیکن اس کے دل میں اس کی محبت ہر وقت تازہ رہتی ہے ۔ اس کے ذہن ودماغ کے گوشے گوشےاور قلب وجگر کے ریشے ریشے میں اپنے وطن کی یادیں ارتسام پذیر رہتی ہیں۔اس کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی ہے کہ كب اس كی ضرورت پوری ہوجائے اور اپنے وطن کی طرف روانہ ہوجائے۔
غربت میں ہوں اگر ہم ، رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہیں ہمیں بھی ، دل ہو جہاں ہمارا
وطن اگر پر امن ہو۔انسان اپنے گھر میں محفوظ ہو۔خطرات و خدشات سے مامون ہو۔تو اسلام کی نظر میں وہ دنیا کا سب سے زیادہ خوش نصیب اور خوش حال انسان ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَن أصبحَ منكم آمنًا في سربِهِ ، مُعافًى في جسدِهِ عندَهُ قوتُ يومِهِ ، فَكَأنَّما حيزت لَهُ الدُّنيا(صحيح الترمذی :۲۳۴۶)تم میں سے جس نے بھی اس حال میں صبح کی کہ وہ اپنے گھر یا قوم میں امن سے ہو، جسمانی لحاظ سے تندرست ہو اور دن بھر کی روزی اس کے پاس موجود ہو تو گویا اس کے لیے پوری دنیا سمیٹ دی گئی ۔
وطن سے محبت انسان کی سرشت میں داخل ہے۔جب اسے اپنے وطن سے نکالنے کی دھمکی دی جاتی ہے تو اس کے ذہن ودماغ کے اندر ہلچل سی مچ جاتی ہے۔قلق واضطراب کے آثار اس کے چہرے پر نمایاں ہوجاتے ہیں۔نبی کریم ﷺ جب ابتدائی وحی کے بار گراں سے خوف زدہ ہوکر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو واقعے کی اطلاع دیتے ہوئے فرمایا کہ مجھے تو اپنی جان کا ڈر لگتا ہے تو خدیجہ رضی اللہ عنہانے آپ کو تسلی دی اور آپ کے اخلاق حسنہ اور خصال حمیدہ کا ذکر کیا۔پھر اس کے بعد آپ ﷺ کو اپنے چچیرے بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزی کے پاس لے گئیں۔ورقہ نے آپ کی بات سننے کے بعد کہا کہ یہ وہی ناموس ہے جو اللہ تعالی نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمایا تھا۔کاش کہ میں طاقت ور جوان ہوتا ، کاش میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ کو آپ کی قوم(مکہ سے)نکال دے گی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب سے فرمایا:’کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟‘ ورقہ نے کہا: جی ہاں، جو آدمی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی دعوت لے کر آیا ہے اس سےضرور دشمنی کی گئی ہے اور اگر میں نے آپ کا زمانہ پایا تو آپ کی زبردست مدد کروں گا۔پھر ورقہ جلد ہی فوت ہوگئے اور وحی منقطع ہوگئی۔(بخاری:۶۹۸۲)
کفارِ مکہ نے جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب کا مکےمیں جینا دوبھر کر دیا ۔صحابۂ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین پر مصائب وآلام کے پہاڑ توڑے جانے لگے۔تو اللہ تعالی نے ہجرتِ مدینہ کی اجازت دی۔ مکہ چھوڑتے وقت صحابۂ کرام کن جاں گسل لمحات سے گزرے ہوں گے۔فراقِ دیار کا وہ وقت ان کے لیے کس قدر دل فگار اور جگر خراش رہا ہوگا۔ان کے دلوں کی کیا کیفیت رہی ہوگی۔اس کا ہم سب بہ خوبی اندازہ کرسکتے ہیں ۔نبی ﷺ کا حالِ دل بھی ان سے کچھ مختلف نہ تھا ۔حدیث میں آتا ہے کہ مکے سے نکلتے وقت آپ نےانتہائی رقّت آمیز لہجے میں فرمایا :
ما أطيبك من بلدٍ و أحبّك إلىّ و لولا أن قومي أخرجوني منك ما سكنت غيرك (صحيح الترمذی:۳۹۲۶)تو سب سے زیادہ پاکیزہ شہر ہے اور مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ۔ اگر میری قوم نے مجھے تجھ سے نہ نکالا ہوتا تو میں کبھی تجھے چھوڑ کر کہیں اور نہ جاتا ۔
صحابۂ کرام جب مدینہ پہنچے تو انھیں ابتدا میں وہاں کی آب و ہوا راس نہیں آئی ۔ متعدد صحابۂ کرام بطور خاص حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت بلال رضی اللہ عنہما بیمار پڑ گئے ۔ حضرت بلال نے بعض سردارانِ قریش جیسے شیبہ بن ربیعہ ،عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف کا نام لے کر بد دعا کی کہ اے اللہ !تو ان پر لعنت بھیج اور انھیں اپنی رحمت سے دور کر دے ، جس طرح انھوں نے ہمیں وطن سے نکال کر اس وبا زدہ علاقے میں آنے پر مجبور کر دیا ۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ اطلاع پہنچی تو آپ نے اپنے وطن ثانی سے محبت کی یہ دعا فرمائی :
اللهم حبّب إلينا المدينة کحبّنا مكة أو أشد (بخاری :۱۸۸۹)اے اللہ ! ہمارے دلوں میں مدینے کی ویسی ہی محبت ڈال دے جیسی مکہ کی ہے ، بلکہ اس سے زیادہ ۔
وطن سے اس فطری محبت کا اسلام نے بہت زیادہ پاس ولحاظ رکھا ہے۔ چنانچہ اس کی نظر میں کسی کو اپنے وطن سے نکلنے پر مجبور کرنا اور گھر سے بےگھر کرنا جائز نہیں ۔ قرآن کریم میں بنی اسرائیل سے لیے گئے اس عہدومیثاق کا ذکر کیا گیا ہےجس میں ایک دوسرے کا خون بہانا اور ایک دوسرے کو گھر سے بےگھر کرنا جرم قرار دیا گیا تھا ۔ ساتھ ہی ان کےقتل، اخراج، ایک دوسرے کے خلاف مدد کرنے اور میثاقِ الہی کو توڑنےکے مذموم کردار کو بیان کیا گیا ہے اور یہ صراحت کی گئی ہے کہ انھوں نے اس میثاق کا کوئی پاس ولحاظ نہیں رکھا اور حقیر دنیاوی اغراض و مفادات کے لیے اپنے بھائیوں کی جان کے در پے ہوئے اور انھیں ان کے گھروں سے نکال باہر کیا:
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ ، ثُمَّ أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِّنكُم مِّن دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِم بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِن يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ ۚ (البقرۃ:۸۴۔۸۵)
اور جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ آپس میں خون نہ بہانا(قتل نہ کرنا)اور آپس والوں کو جلا وطن نہ کرنا، تم نے اقرار کیا اور تم اس کے شاہد بنے۔لیکن پھر بھی تم نے آپس میں قتل کیا اور آپس کے ایک فرقے کو جلا وطن بھی کیا اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ان کے خلاف دوسرے کی طرف داری کی،ہاں جب وہ قیدی ہوکر تمھارے پاس آئے تو تم نے ان کے فدیے دیے،لیکن ان کا نکالنا جو تم پر حرام تھا(اس کا کچھ خیال نہ کیا)۔
جنگ آزادی کی پوری تاریخ پر آپ اگر عمیق نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں نے وطن سے محبت کا جو ثبوت پیش کیا وہ اور کسی نے نہیں کیا۔ملک ان سے چھینا گیا ، حکومت ان کی مسلوب ہوئی۔اقتدار سے وہ محروم ہوئے۔اس لیے دیگر برادرانِ وطن کے مقابلے میں فطری طور پر تکلیف انھیں سب سے زیادہ ہوئی اور تحریک آزادی میں ان کاحصہ قدرتی طورپرسب سےممتازونمایاں رہا ۔محکومیت وغلامی سے آزادی کی اصل لڑائی انھی کولڑنی پڑی۔تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ انھوں نے ملک کو انگریزوں کے پنجۂ استبداد سے آزاد کرانے کی خاطرقائداوررہنماکاپارٹ ادا کرتے ہوئے اپنی جان ومال کا بے نظیر نذرانہ پیش کیا۔ انگریزوں کے خلاف متنوع تحریکیں چلائیں ، پھانسی کے پھندے پر لٹکے، اہل وعیال اور مال و منال کی قربانیاں پیش کیں ۔ کالاپانی کی خوفناک وہیبت ناک سزائیں برداشت کیں ۔مصائب وآلام کے ہر پہاڑ سے بلا جھجھک متصادم ہوئے۔ہر طرح کی حوصلہ شکن مشقتوں کو برداشت کرنےکےباوجود بھی ان کے پائے ثبات میں ذرہ برابر بھی لغزش نہ آئی اور وہ غاصبوں کے چنگل سے اپنے وطن عزیز کو آزاد کرانے کی پر خطر راہ پر یہ کہتے ہوئے رواں دواں رہے۔
سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوے قاتل میں ہے
لیکن شر پسندوں کی شر پسندی اور ستم گروں کی ستم گری دیکھیے کہ جنگ آزادی میں ہر موڑ پر قائدانہ رول ادا کرنے والے انھی مسلمانوں کی بے مثال قربانیوں کو فراموش کرانے کی سازشیں رچی جارہی ہیں۔مسلم مجاہدین آزادی کے ناموں کو تاریخ کے صفحات سے حرف غلط کی طرح محو کردینے کی منصوبہ بندیاں ہورہی ہیں۔ملک کو سونے کی چڑیا بنانے والوں، اسے قطب مینار، لال قلعہ، تاج محل اورمیزائل جیسے بیش بہا اور شہرہ آفاق تحفے دینے والوں سےوفاداری کا ثبوت مانگا جارہا ہے۔فرقہ پرست طاقتیں ملک کو آزاد کرانے والے مسلمانوں کی ہی آزادی سلب کرنے کے درپے ہیں۔جن کے اکابر کےلہو کی خوشبو اب تک ارضِ وطن کے شجر وحجر اور ذرے ذرے سے آرہی ہے، انھی سے سندِ محبت طلب کی جارہی ہے۔ سچ کہا ہے کسی شاعر نے۔
جب پڑا وقت تو گلشن کو لہو ہم نے دیا
اب بہار آئی تو کہتے ہیں تیرا کام نہیں
آپ کے تبصرے