بہار کی سرزمین ہمیشہ سے ہندوستانی سیاست کا محور رہی ہے۔ یہاں کے کھیت کھلیان ہوں یا کارواں در کارواں چلنے والی تحریکیں، ہر دور میں بہار نے ملک کے مستقبل پر اپنی گہری چھاپ چھوڑی ہے۔ ایسے میں کانگریس کے رہنما راہل گاندھی کا حالیہ بہار کا دورہ محض ایک سیاسی سفر نہیں بلکہ ایک نئے سیاسی منظرنامے کی تشکیل کی جھلک بھی ہے۔ ان کا یہ قدم خاص طور پر مسلمانوں کے درمیان گفتگو کا اہم موضوع بن گیا ہے، جو برسوں سے سیاسی عدم تحفظ اور بے وزنی کا شکار ہیں۔
بلا شبہ ہندوستانی سیاست کی تاریخ میں کانگریس کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ آزادی کی تحریک سے لے کر ملک کے آئین کی تشکیل اور جمہوریت کی جڑوں کو مضبوط کرنے تک کانگریس نے ناقابلِ فراموش خدمات انجام دی ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ طویل اقتدار کے دوران اس جماعت سے متعدد غلطیاں ہوئیں۔ اور یہ غلطیاں ایسی تھیں جنھوں نے عوام کے دلوں میں کبھی کبھی شکوہ بھی پیدا کیا۔ راہل گاندھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ کئی بار کھلے منچ پر صاف لفظوں میں کہہ چکے ہیں کہ “ہاں، کانگریس سے غلطیاں ہوئی ہیں”۔ سیاست میں اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرنا آسان نہیں ہوتا، مگر راہل گاندھی کا یہی انداز انھیں دوسروں سے مختلف بناتا ہے۔
راہل گاندھی کے اس اعتراف سے یہ امید بندھتی ہے کہ وہ ماضی کی کوتاہیوں سے سبق لیتے ہوئے عوامی مسائل کے حل کی طرف سنجیدگی سے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ان کی سیاست کا محور اب محض اقتدار کی سیاست نہیں بلکہ مساوات، انصاف اور بھائی چارے کی بحالی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوامی اعتماد دوبارہ جیتا جائے اور کانگریس ایک بار پھر عوامی امنگوں کی سچی نمائندہ بنے۔
راہل گاندھی نے بہار کے حالیہ دورے میں مختلف طبقوں کے لوگوں سے ملاقات کی۔ جن باتوں کو انھوں نے اپنی تقریروں اور ملاقاتوں میں دوہرایا، وہ مسلمانوں اور دیگر پسماندہ طبقوں کے دلوں کی دھڑکن سے قریب تر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جمہوریت اور آئین کی حفاظت ہی ہندوستان کی اصل روح ہے۔ فرقہ وارانہ سیاست ملک کو کمزور کرتی ہے، ہمیں بھائی چارے کو مضبوط کرنا ہوگا۔ نوجوانوں کو تعلیم، روزگار اور بہتر مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ اقلیتوں اور دلتوں کو وہ مقام ملنا چاہیے جو ان کا آئینی حق ہے۔ یہ سب نکات اس وقت کی ضرورت ہیں اور خاص طور پر مسلمانوں کے لیے امید کا پیغام رکھتے ہیں۔
بہار میں مسلمانوں کی تعداد کم نہیں، بلکہ کئی علاقوں میں یہ آبادی فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ مگر افسوس کہ ان کی سیاسی آواز اکثر ٹوٹ پھوٹ اور منتشر قیادت کی نذر ہو گئی۔ ماضی میں سیکولر پارٹیوں کو مسلمانوں کی حمایت حاصل رہی، لیکن بدلتے وقت کے ساتھ یہ ووٹ بینک کئی حصوں میں بٹ گیا۔ آج بھی مسلمان روزگار کی کمی، تعلیمی پسماندگی اور فرقہ وارانہ فضا کے دباؤ میں اپنی شناخت اور تحفظ کے لیے سرگرداں ہیں۔
بہار کے مسلمان اس دورے کو محض ایک سیاسی مہم نہیں سمجھ رہے بلکہ اپنی حالتِ زار سے نکلنے کے امکانات کی ایک نئی کرن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کے لیے معیاری تعلیم اور روزگار کے دروازے کھلیں۔فرقہ وارانہ سیاست کے زہر سے نجات ملے۔ ان کے مسائل کو محض جلسوں میں نہیں بلکہ اسمبلی اور پارلیمنٹ کی سطح پر سنجیدگی سے سنا جائے۔
راہل گاندھی کا یہ دورہ اگرچہ وقتی جوش بھی پیدا کر سکتا ہے، لیکن اس کی اصل کامیابی تب ہوگی جب وہ مسلمانوں سمیت سبھی کمزور طبقات کو اپنے ساتھ لے کر چلنے میں کامیاب ہوں گے۔ بہار میں اگر کانگریس دوبارہ قدم جما سکی تو یہ نہ صرف مسلمانوں کے اعتماد کی بحالی ہوگی بلکہ قومی سیاست پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔
راہل گاندھی اگر واقعی سنجیدہ ہیں اور ملک کے کمزور طبقات کے لیے کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں تو بہار کا ان کا یہ دورہ امید کا ایک پیغام ہوسکتا ہے۔ یہ پیغام آئین کی بالادستی، مساوات اور بھائی چارے کا ہے۔ آج کے حالات میں جب مسلمان عدم تحفظ کے سائے میں جینے پر مجبور ہیں، ایسے میں یہ دورہ ان کے دلوں میں ایک نئی روشنی جگاتا ہے۔ البتہ تاریخ نے بارہا یہ سبق دیا ہے کہ محض وعدوں اور دعوؤں سے کچھ نہیں ہوتا، اصل طاقت عملی اقدامات میں ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ واضح ہوگا کہ راہل گاندھی کے یہ الفاظ بہار کے مسلمانوں اور دیگر کمزور طبقات کے لیے خواب ہیں یا حقیقت کا دروازہ۔


تحریر نہایت جامع اور حالاتِ حاضرہ کے عین مطابق ہے، اندازِ بیان بھی بےحد مؤثر اور قابلِ تحسین ہے۔