بوجھل

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی تعلیم و تربیت

سادہ سی یہ بات صرف ایک سوال نہیں ہے، ایک نظر ہے ایک نقطۂ نظر۔ ایک ایسا‌ نقطۂ نظر جس کے خصوص پر عموم کے اجماع کی ضرورت نہیں ہے۔ ایاد آل حمود ہوں یا حافظ عبدالحسیب مدنی، اس نقطۂ نظر کے حاملین انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ تعلیم و تعلم کے بازار میں تعلیم گاہوں، معملین اور متعلمین کے مثلث سے نظر اٹھاکر فضا میں دھواں، دھند اور دھول دیکھنا کم والدین کا نصیبہ ہے۔ اسکول بھیجنے یا لانے لے جانے اور ہوم ورک کرانے کے لیے والدین کا اسٹرگل، اسکولوں میں ٹیچروں پر انتظامیہ کا پریشر اور انتظامیہ پر بازار میں موجود کمپٹیشن کا اثر جھمیلوں کا ایسا معمول ہے جس کے بیچ رنگے برنگے بچوں کی پیٹھ پر لدے ہوئے بستوں کا بوجھ تو دکھائی‌ دیتا ہے مگر ان کے ذہنوں پر مرتب ہونے والے اثرات، وہی ماحصل ہوتے ہیں اور وہی خطرے میں ہیں۔ اس خطرے کا احساس ہی اس سوال کی بنیاد ہے اور وہی اس سادہ سی بات میں ہے۔ بچے پھول ہوتے ہیں تو انھیں پھول کی طرح ٹریٹ بھی کرنا چاہیے۔ چوہوں کی طرح ان پر ایجوکیشن کا ایکسپریمنٹ نہیں کرنا چاہیے۔ (ایڈیٹر)


ٹویٹر پر سعودی عرب کے ایک سوشل میڈیا انفلوئنسر ہیں جن کا نام إیاد آل حمود ہے۔ ان کی خاصیت یہ ہے کہ وہ پوری دنیا سے اکثر ایسی خبریں بالخصوص چھوٹے موٹے ویڈیو کلپ لاتے ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک میں ٹویٹر پر ٹرینڈ کرتی ہیں۔چند دن قبل انھوں نے اپنے ہینڈل پر ایک ویڈیو کلپ شیئر کیا ہے اور اس کے بارے میں یہ تفصیل ذکر کی ہے کہ:

چین میں ایک پولس اسٹیشن پر ایک دس سالہ بچہ آیا اور سپریٹنڈنٹ سے بصد اصرار کہنے لگا کہ مجھے فی الفور کسی اچھے یتیم خانہ میں شریک کرادیں۔ پولس نے اس کو پہلے اطمینان سے بٹھایا حال احوال پوچھے اور اپنائیت کے ساتھ گفتگو کرکے اس سے تفصیلات لینے کی کوشش کی تو یہ ماجرا سامنے آیا کہ بچہ ایک اچھے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، بچے کے ماں اور باپ دونوں بقید ِحیات ہیں اس سب کے باوجود یتیم خانہ میں شریک کروادینے کی اس عجیب وغریب درخواست کے پیچھے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہے،روزانہ اپنی ماں کی طرف سے آنے والے ذہنی دباؤ کو جھیل نہیں پارہا ہے۔ خاص طور پر اسکول کے ہوم ورک کے حوالے سے اس قدر ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا ہے کہ اس بچہ کوخود کے بھرے پرے گھر کے مقابلے یتیم خانہ ایک عافیت خانہ لگ رہا ہے۔قصہ مختصر یہ کہ پولس نے اس بچہ کی کاؤنسلنگ کی اوراسے احساس دلایا کہ ماں باپ کا وجود کس قدر غیر معمولی نعمت ہے اور سمجھا بجھاکر گھر بھیج دیا ۔

قصہ تمام ہوا اور بچہ اپنے گھر اپنے والدین کے پاس لوٹ بھی گیا تاہم اپنے پیچھے بہت سارے سوال چھوڑ گیا جن کے جواب ہمیں ڈھونڈنے ہیں ۔ کہیں ہمارا اپنا طرز عمل بھی اپنے بچوں کے ساتھ ظالمانہ تو نہیں؟ کیا ہمارے بچے بھی ہمارے طرز عمل سے ایسی ہی گھٹن محسوس کرتے ہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم بچوں کا مستقبل سنوارنے کے نام پر ان سے ان کا اپنا بچپن چھین رہے ہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ تعلیم اورتربیت کے نام پرایسے رویوں کی وجہ سے ہم خود سے اپنے بچوں کو دو ر کرتے جارہے ہیں؟دوسری طرف یہ بھی کہ ہمارے اسکول کے اساتذہ اور انتظامیہ (مینیجمنٹ) کہیں اپنی تعلیمی ذمہ داری کا ایک بڑا بوجھ خود نہ ڈھو کر ہوم ورک کے نام پر والدین کی طرف تو منتقل نہیں کررہے ہیں ؟جو بالآخر ان بچوں کوہی اٹھانا پڑ رہا ہے اور ان کے ناتواں کندھے اسے اٹھانے سے قاصر ہیں ؟ ایسے بیسیوں سوالات ہیں جو آپ خود اپنے آپ سے کرسکتے ہیں۔

ماہرین تعلیم کو اکثر اسکول کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے بڑے بستوں(اسکول بیگ)کے بوجھ کی شکایت کرتے دیکھا ہے۔لیکن کیا ہم بستہ کے اس بوجھ سے بڑے اس ذہنی تناؤ اور دماغی بوجھ کو بھی محسوس کرپارہے ہیں جسے یہ نونہالان قوم چپ چاپ ڈھوئے پھر رہے ہیں ؟

زندگی کے ہرمیدان کی طرح تعلیم اور تربیت کے اس باب میں بھی میانہ روی اور اعتدال کی ضرورت ہے۔ ایک طرف والدین کا وہ طبقہ ہے جو اہمال کاشکار ہے،جنھیں بسا اوقات یہ تک پتہ نہیں ہوتاکہ ان کے بچے کی تعلیمی صورت حال کیا ہے،بسااوقات بچہ یا بچی کی خواہش اور اس کا دل رکھنے کے نام پر اس قدر زیادہ چھوٹ دےدیتے ہیں کہ بچہ مختلف حیلے بہانوں سے ہردن اپنی تعلیم کا نقصان کرنے کا عادی ہوجاتا ہے اور اگرکبھی کتابوں کے ساتھ بیٹھ بھی جائے تو برائے نام دکھاوے کی خاطر۔ دوسری طرف والدین کی یہ صنف ہے جو اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کے نام پر کسی بھی حد کو پار کرنے تیاربیٹھی ہے، جس کی نظر میں تربیت کا عمل محض ’’اسکول اور ہوم ورک ‘‘ ہے،شخصیت کی متوازن نشوونما اور بچہ کی نفسیاتی کیفیت کا لحاظ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ لمحہء فکریہ ہے والدین اور سر پرستوں کے لیے۔
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
Salik Adeeb

ماشاءاللہ نہایت پرمغزاورمبنی برحقیقت تحریرہے جسےعصرنوکےہروالدین اورسرپرست کوضرورپڑھناچاہیے

ام ہشام

فکر انگیز مسئلہ کی طرف مخلصانہ انداز میں والدین اور سرپرستوں کو توجہ دلائی گئ ہے ۔لیکن صرف مسئلہ بتایا گیا ہے اس مسئلے کا حل یا اس کے سدباب کی کچھ صورتوں کا یہاں بیان نہ ہونا مضمون کو تشنہ کررہا ہے۔
جزاکم اللہ خیرا