بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ
ٱلرَّحۡمَٰنُ(١) عَلَّمَ ٱلۡقُرۡءَانَ(٢) خَلَقَ ٱلۡإِنسَٰنَ(٣) عَلَّمَهُ ٱلۡبَيَانَ(٤)
یہ سورہ رحمن کی ابتدائی آیات ہیں۔ اس سورت کا مرکزی مضمون ہے: اللہ کی رحمت اور اس کی جانب سے بندوں کو عطا کی گئی بے شمار نعمتیں۔ اسی لیے اس میں آیت فَبِأَيِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ کی تکرار ہے۔ یعنی انس وجن پر یہ ساری نعمتیں اللہ کی طرف سے ہیں تو تم دونوں اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
ٱلرَّحۡمَٰنُ:
اسی رحمت اور عطا کی وجہ سے ہی سورت کے شروع میں صفت رحمن وارد ہے۔ یعنی اللہ کی ذات انتہائی مہربان ہے۔ اسی لیے ساری مخلوق اس کی نعمتوں سے مسلسل لطف اندوز ہورہی ہے پھر بھی بہت سارے لوگ ناشکری کرتے ہیں۔
عَلَّمَ ٱلۡقُرۡءَانَ:
اللہ نے انسان کو جو نعمتیں دی ہیں ان میں سے ایک نعمت قرآن بھی ہے۔ جس سے بندہ اپنے مالک کو پہچانتا ہے۔ کھرے کھوٹے کی تمیز کرتا ہے۔ اعلیٰ اخلاق کے مرتبے پر فائز ہوتا ہے۔
خَلَقَ ٱلۡإِنسَٰنَ:
اسی طرح انسان کی تخلیق بھی اللہ کی رحمت ہے۔ جس کی وجہ سے یہ دنیا ہنگاموں سے معمور ہے۔ اس ویرانے میں چہل پہل ہے۔ ہر طرف تعمیر و ترقی ہے۔
عَلَّمَهُ ٱلۡبَيَانَ:
انسان کی تخلیق میں سب سے اہم عنصر قوتِ گویائی ہے۔ جو اسے دیگر جانداروں سے ممتاز کرتی ہے۔ کیا ہوتا اگر ہر قسم کے جذبات و احساسات کے لیے آپ کے پاس صرف ایک ہی لفظ ہوتا۔ ہزاروں لاکھوں الفاظ نہ ہوتے۔ تو آپ اپنا ما فی الضمیر کیسے ادا کرتے؟
آپ نے عید الاضحٰی میں بکرے کو دیکھا ہوگا اس کے پاس صرف ایک ہی آواز ہوتی ہے۔ مِیں. مِییں..
جب خوشی کا اظہارِ کرنا ہو تب بھی مِیں۔ دکھ ظاہر کرنے کے لیے بھی مِیں۔
بھوک لگی ہو تب بھی مِیں۔ پیٹ بھرا ہو تب بھی مِیں۔ پیار کا اظہار کرنے کے لیے مِیں۔ کچھ ان کمفرٹیبل محسوس ہو تب بھی مِیں۔
ایسے ہی دیگر جانور بھی ہوتے ہیں۔
یعنی ہر جذبے اور احساس کے لیے ان کے پاس صرف ایک ہی آواز ہوتی ہے۔ جب کہ انسانوں کے پاس ہزاروں الفاظ ہوتے ہیں۔
اسی لیے منطق کی اصطلاح میں انسان کو حیوان ناطق کہا جاتا ہے۔
یعنی بولنے والا جاندار۔ اور دیگر جانوروں کو حیوان غیر ناطق۔ کیونکہ ان کے پاس مافی الضمیر کے اظہار کے لیے انسانوں کی طرح الفاظ نہیں ہیں۔
عزیز طلبہ! اظہار و ادائیگی کی صلاحیت پروان چڑھانے کے لیے آپ کو ان چار مراحل سے گزرنا ہوگا۔ میں جن کو مختصراً بیان کررہا ہوں:
1-معلومات: آپ کو جس موضوع پر اظہارِ خیال کرنا ہے۔ ضروری ہے کہ آپ کو اس کی پوری اطلاع ہو۔ مکمل واقفیت ہو۔ پہلے ہر ممکن ذریعے سے اس کے بارے میں معلومات اکٹھی کیجیے۔ کتابوں کے ذریعے، اساتذہ کے ذریعے، آڈیو اور ویڈیو کے واسطے سے.. یہ پہلا مرحلہ ہے۔
2-تجزیہ: جو معلومات آپ کے پاس جمع ہیں، ان کا تجزیہ، انالسس اور منتھن کیجیے۔ اس کے مخالف و موافق امور کو پہچانیے۔ نکات کو ذہن نشین کیجیے۔ چھان پھٹک کر ذہن میں اس کا نچوڑ دلائل کے ساتھ محفوظ کرلیجیے۔
اگر دینی موضوع ہے تو متعلقہ آیات و احادیث کو حفظ کرلیجیے، ان کی تفسير اور شرح کی جانکاری حاصل کیجیے۔ دوسرا مرحلہ تمام ہوا۔
3-رائے اور نظریہ: چونکہ معلومات جمع ہوچکی ہیں۔ تجزیہ بھی ہوچکا ہے اس لیے دلائل کی بنیاد پر اس موضوع کے متعلق اپنی رائے قائم کیجیے۔ ایک نظریہ بنا لیجیے تاکہ اس موضوع پر مفید اضافے کرسکیں۔ مشتتات پر تنقید کرسکیں۔ مالہ وماعلیہ کو واضح کرسکیں۔ نفع بخش نتائج برآمد کرسکیں۔
یہ تیسرا مرحلہ ہے۔
4-اظہار وبیان: معلومات جمع ہیں تجزیہ ہوچکا، رائے اور نظریہ بھی قائم ہوچکا۔ اب اس کے اظہار کی باری ہے۔ اب دلائل کے ساتھ خوبصورت الفاظ میں اس موضوع کے متعلق اپنی رائے یا ما فی الضمیر کو ترتیب دیجیے۔ ترتیب میں پہلے تمہید ہو۔ پھر غرض ہو۔ آخر میں خاتمہ ہو۔
اب بڑے شوق سے ما فی الضمیر کا اظہار کیجیے۔
یہ چوتھا اور آخری مرحلہ ہے۔
مافی الضمیر کا اظہار یا تو بول کر ممکن ہے یا لکھ کر اگر آپ بول کر اظہار کررہے ہیں تو اسے تقریر کہیں گے۔
اور اگر لکھ کر کررہے ہیں تو اسے تحریر کہتے ہیں۔
واضح رہے کہ اصل تو رائے کا اظہار اور خیالات کی ترسیل ہے۔ الفاظ تو محض ایک ذریعہ ہیں۔ اگر آپ کے پاس خیالات ہیں تو الفاظ آپ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے رہیں گے کہ صاحب مجھے استعمال کر لو۔ بلکہ خیالات تو ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بھی پیش کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن گِفٹ اگر اچھے پَیک میں پیش کیا جائے تو اس کا اثر زیادہ اچھا پڑتا ہے۔ آپ کی تقریر یا تحریر بھی اثر ڈالنے کے لیے ہے۔ فرض کیجیے آپ کے خیالات ایک گفٹ ہیں اور الفاظ گِفٹ پَیک۔ تو اس پَیک کو خوب صورت ہونا چاہیے۔ اور یہ گفٹ پَیک وہ زبان ہوتی ہے جس میں آپ اظہار خیال کررہے ہیں۔
مثلاً یہاں تقریر وتحریر میں مشق و ممارست کی زبان اردو ہے تو آپ کو اردو اچھی طرح آنا چاہیے یعنی تذکیر و تانيث، تشبیہ و تمثیل، استعارہ و کنایہ، محاورے و ضرب الامثال، تلفظ و ادائیگی، نیز اشعار وغیرہ ازبر ہونا چاہیے۔
اس مقصد کے لیے آپ کو اردو زبان کے اساتذہ کی ادبی کتابیں اور ان کا کلام پڑھنا ہوگا۔
اگر ان امور کا لحاظ کرکے آپ تقریر کرتے ہیں یا لکھتے ہیں تو اثر ضرور ہوگا۔ اگر یہ سب نہیں آتا تو سیکھنا ضروری ہے۔ ورنہ آپ اس شعر کے مصداق ٹھہریں گے
ناز ہے طاقتِ گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو
(جواب شکوہ – ڈاکٹر اقبال)
حديث میں ہے:
أنَّهُ قَدِمَ رَجُلانِ مِنَ المَشْرِقِ فَخَطَبا، فَعَجِبَ النّاسُ لِبَيانِهِما، فَقالَ رَسولُ اللَّهِ ﷺ: إنَّ مِنَ البَيانِ لَسِحْرًا، أوْ: إنَّ بَعْضَ البَيانِ لَسِحْرٌ۔(صحيح البخاري:٥٧٦٧)
دو آدمی مشرق (عراق) کی طرف سے آئے اور انھوں نے خطبہ دیا۔ تو لوگوں کو ان کا بیان اچھا لگا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: یقیناً بعض بیان جادو ہوتے ہیں۔
خطیب یا مضمون نگار کی شان یہ ہے کہ وہ سامع یا قاری کو اپنی بات سے متفق کرلے یہاں تک کہ اسے گمان گزرے کہ یہ بات ان کے دل میں پہلے سے موجود تھی۔ یہی تقریر کا کمال ہے۔ غالب نے اسی بات کو شعر میں بیان کیا ہے
دیکھنا تقریر کی لذت کو جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
عزیز طلبہ! آپ جو تقریر کرتے ہیں وہ کسی کتاب سے رٹی ہوئی ہوتی ہے۔ جو اوپر بیان ہوا ان کا لحاظ مصنف نے کیا ہوتا ہے۔ آپ نے نہیں۔ لہذا یہ آپ کے خیالات بھی نہیں ہیں۔ یہ تو لکھنے والے کے خیالات ہیں جس کا اظہار آپ کررہے ہیں۔ کوشش کیجیے کہ آپ اپنی تقریر خود تیار کریں۔ اور جو مراحل اور طریقے بتائے گئے ہیں ان کا لحاظ کرکے کریں تاکہ جو کچھ بولیں یا لکھیں وہ کسی اور کا چربہ یا نقل نہ ہو۔ آپ کے اوریجنل خیالات ہوں۔
اگر ایسا کرلے گئے تو بتدریج آپ ایک مقرر یا مضمون نگار بن جائیں گے۔ اظہار و بیان کا سلیقہ مل جائے گا اور اظہار خیال میں پختگی و اتقان آپ کو بہتر کریئر کی طرف لے جائے گا ان شاءاللہ۔ ملک وقوم کو جس کی اشد ضرورت ہے۔
اللہ ہم سب کو اس پر عمل کی توفيق دے اور دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہمکنار کرے۔ آمین و آخر دعونا أن الحمد لله رب العالمين
آپ کے تبصرے