بچوں کی تربیت کیوں اور کیسے

عبدالکریم شاد تعلیم و تربیت

چڑیا اپنے چوزوں کے لیے گھونسلا بناتی ہے، ادھر ادھر سے دانہ چگ کر لاتی ہے اور ان کی چونچ میں ڈالتی ہے، جب چوزے کچھ بڑے ہونے لگتے ہیں اور ان کے پر آنا شروع ہو جاتے ہیں تو چڑیا انھیں پر تولنا اور پھر پرواز کرنا سکھانے لگتی ہے۔اگر چڑیا عمر بھر چوزوں کے لیے دانے پانی کا انتظام کرتی رہے اور انھیں اڑنے کا ہنر نہ سکھائے تو کیا فضاؤں کو ایک اچھا پرندہ میسر ہوگا؟ اسی طرح اگر چڑیا اپنے چوزوں کی پرواز پر ہی ساری توانائی صرف کرے اور ان کی بھوک پیاس کا خیال نہ رکھے تو کیا گھونسلے میں ایک صحت مند چڑیا نمو پا سکتی ہے؟

کسی بھی معیاری معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ معیاری افراد تیار کیے جائیں کیونکہ قابل افراد سے ہی ایک معتدل اور اچھا معاشرہ تشکیل پاتا ہے، اورافراد تبھی قابل ہو سکتے ہیں جب بچپن سے ہی ان کی با قاعدہ تربیت کی جائے۔بچوں کی تربیت سے ہی ان کا ذہنی و جسمانی ارتقا ہوتا ہے۔

اب یہ تربیت ہو کیسے؟ تو اس کے دو اہم اور بنیادی ذرائع ہیں، ایک گھر اور دوسرا مدرسہ۔گرد و پیش کے واقعات بھی بچوں پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن اچھی تربیت مرتے دم تک ثابت قدمی میں معاون ہوتی ہے۔بچے نے گھر اور مکتب سے جو کچھ سیکھا ہوتا ہے اسے اپنے ماحول پر لاگو کر کے اس کے مثبت پہلوؤں سے مستفید ہوتا ہے اور منفی پہلوؤں سے دامن بچا کر نکل جاتا ہے۔مثال کے طور پر اگر کہیں عیسی علیہ السلام کی تاریخ پیدائش یعنی کرسمس ڈے منایا جا رہا ہو اور آپ کا بچہ وہاں سے گزرے تو اس حال میں دو باتیں ہو سکتی ہیں، اگر اس کو حقیقت کا علم نہیں ہے تو وہ اس جشن سے مرعوب ہو جائے گا اور اگر اس کو علم ہے تو وہ اس سے متنفر ہوگا۔ اگر وہ گھر میں باحجاب و با ریش حضرات کو دیکھتا ہے تو بازار کی بے حیائی اس کی نظر میں کھٹکے گی اور اباحیت اس کے نزدیک عیب ہوگی۔ اگر وہ مدرسے کے اساتذہ سے متاثر ہے تو وہ ماحول کا اثر لینے کے بجائے ماحول پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرے گا، وہ خود بگڑنے کے بجائے دوسروں کی اصلاح کرے گا۔

اس کے بر عکس اگر اس کو گھر اور مکتب سے اچھی تربیت نہیں ملی ہے تو وہ اپنے ماحول سے صحیح غلط کی تمیز کیے بغیر کچھ بھی کشید کرے گا اور اس کا کردار ڈھلمل ہو کر رہ جائے گا۔

مدارس یقینا اسلام کے قلعے ہیں اور مائیں بچوں کا پہلا مدرسہ۔ یہ صرف کہنے کی بات نہیں ہے، آج اس کی عملی تصویر پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بچوں کی تربیت کے لیے مدرسہ اور گھر دونوں کا باہمی تعاون لازمی ہے، اس کے بغیر بچے نتیجہ خیز تعلیم و تربیت کے حامل ہو ہی نہیں سکتے۔اگر آپ بچے کو مدرسے کے حوالے کر کے خواب خرگوش میں محو ہو گئے ہیں کہ اب تو بچہ پڑھ لکھ کر نام روشن کرے گا تو یہ فقط آپ کی خوش فہمی ہے، اگر آپ خود کی تربیت پر اکتفا کر رہے ہیں اور بچوں کو کانوینٹ اسکولوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رہے ہیں تو یہ آپ کی حماقت ہے بلکہ بہت بڑا ظلم ہے۔ دینی تعلیمات کے سلسلے میں مدرسہ ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ یہاں کا ماحول، یہاں کی فضا، یہاں کی صحبتیں، یہاں کے اساتذہ، یہاں کا ذرہ ذرہ دین اسلام کے رنگ میں رنگا ہوتا ہے اور ایک بار ذہن و قلب پر یہ رنگ چڑھ گیا تو مرتے دم تک ساتھ نہیں چھوڑتا، دنیا کتنے ہی چھینٹے مار لے لیکن یہ دینی رنگ بہر صورت ابھر ہی جاتا ہے۔

چڑیا تو خود اپنے چوزوں کی سرپرست بھی ہوتی ہے اور استاذ بھی لیکن انسانوں میں ایسا نادر ہی ہوتا ہے، انسانی معاشرہ کسی بھی طرح کے نظم و نسق میں باہمی تعاون کا متقاضی ہوتا ہے اور اسی سسٹم کے چلتے بچوں کی سرپرستی ان کے گھروں میں اور تعلیم با قاعدہ درس گاہوں میں ہوتی ہے لیکن تربیت کی ذمہ داری بہر صورت گھر اور درس گاہ دونوں پر عائد ہوتی ہے۔تربیت میں کوتاہی ہی بچوں میں بگاڑ کا اصل موجب ہے۔

آج المیہ یہی ہے کہ والدین سرپرستی تو کر رہے ہیں اور مدارس میں روایتی طور پر تعلیم تو ہو رہی ہے لیکن بچوں کی تربیت کے باب میں فریقین قابل افسوس بے توجہی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس کے نتائج ہر گلی محلے میں نظر آتے ہیں۔بچوں کے دودھ کے دانت ٹوٹتے نہیں ہیں کہ وہ سگریٹ اور تمباکو نوشی کی لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں، مسلمانوں کے علاقوں میں چرسی اور گنجیڑی بچے ہول سیل میں میسر ہیں، ابھی آواز توتلی ہی رہتی ہے کہ طرح طرح کی گالیاں بکنی شروع کر دیتے ہیں، ابھی الف با سے واقفیت نہیں ہوتی ہے کہ آئی لو یو بولنا سیکھ لیتے ہیں، ابھی اچھے سے استنجا کرنا بھی نہیں آتا ہے کہ گرل فرینڈ کے آنسو پونچھنے لگ جاتے ہیں، ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہم کو آئیڈیل بنانے کے بجائے سلمان خان و شاہ رخ خان کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں، قرآن سے دل لگانے کے بجائے ناچ گانوں میں مگن رہتے ہیں، بد تمیزی و بے حیائی میں غیروں سے بھی چار قدم آگے ہیں، قوم و ملت کی خوشی و غمی میں شامل ہونے کے بجائے اپنی ہی دنیا میں مست رہتے ہیں۔۔۔۔الخ۔ یہ کچھ تلخ زمینی حقائق ہیں جن سے چشم پوشی محال ہے۔

ابھی کچھ دنوں پہلے ایک مدرسے کی سالانہ انجمن میں شرکت کا موقع ملا، نماز عصر کا وقت ہوا تو ایک صاحب نے اعلان کیا کہ بچے باہر جا کر کچھ کھائیں پیئیں آرام کریں، نماز کے بعد دوسری نشست شروع ہوگی۔ ذرا سوچیں، کیا ان بچوں پر نماز فرض نہیں ہے؟ مدرسے میں رہتے ہوئے اگر یہ بچے نماز نہیں پڑھ رہے ہیں اور اساتذہ و ذمہ داران کو اس کا احساس بھی نہیں ہے تو کیا ضرورت ہے ایسے مدرسوں کی اور کیا مطلب ہے ایسی تعلیم کا؟

معزز اساتذہ کرام!آپ بے شک معمار ملت ہیں لیکن آپ کا کام صرف بچوں کو رٹو طوطا بنانا نہیں ہے، کچھ یاد کر کے سنا دینا کوئی ایسا کمال نہیں ہے کہ اس پر ناز کیا جائے چہ جائے کہ اسی پر اکتفا کر لیا جائے۔ بچے جو کچھ رٹ کر بول دیتے ہیں اس کو تھوڑا بھی سمجھ سکیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں تو کمال ہے اور یہی مقصود ہے۔اکثر جگہوں پر تعلیم کے نام پر بس یہی ہو رہا ہے کہ ایک سبق سن لیا اور دوسرا سبق دے دیا۔ اس پر کوئی توجہ نہیں ہے کہ آیا جو کچھ سبق میں پڑھا گیا اس کو طالب علم نے کتنا سمجھا اور کیسے اس کو عمل پر ابھارا جائے۔ آپ کو زعم ہے کہ آپ بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں لیکن کیا واقعی آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہیں؟ کیا آپ کے طلبہ عملی طور پر غیروں سے ممتاز ہیں؟ کیا وہ نماز روزے کا اہتمام کر رہے ہیں؟ کیا ان کے عادات و اطوار میں ان کے اسباق کی جھلکی نظر آ رہی ہے؟ اگر مدرسے کا طالب علم مدرسے کے باہر وہی کچھ کر رہا ہے جو انگریزی اسکولوں کے اسٹوڈینٹ کر رہے ہیں تو آپ کس گمان میں ہیں؟ کیا چیز آپ کو ممتاز کرتی ہے؟ کیوں کر مدارس اسلام کے قلعے ہوئے؟ کبھی آپ نے غور کیا؟ کبھی اس فکر نے آپ کو پریشان کیا؟ کچھ اقدام کیا آپ نے؟ کوئی معقول جواب ہے سوائے بے جا عذر پیش کرنے کے؟ ہاں والدین کی بھی کوتاہیاں ہیں اور ماحول بھی پر فتن ہے لیکن ایسے میں آپ کی ذمہ داری تو مزید بڑھ جاتی ہے، آپ کو مزید فعال ہونا ہے، آپ کو نت نئے طریقے ڈھونڈنے ہیں کہ کیسے بچوں کو دنیا کی برائیوں سے دور رکھا جائے اور اسلامی اخلاق و کردار کا پابند کیا جائے۔عذر پیش کرنا تو آپ کی کم زوری اور بے بسی کا اظہاریہ ہے اور اگر اہل علم ہی بے بس ہو گئے تو قوم کی ناؤ ڈوبنے میں کتنی دیر لگے گی۔ آخر انھی بچوں کو بڑے ہو کر ہمارا مستقبل سنبھالنا ہے جس کے لیے انھیں تیار کرنا ضروری ہے اور یہ تیاری آپ کی تربیت کے بغیر ممکن نہیں۔

اکثر والدین یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کے لیے کھانے، کپڑے اور مکان کا بند و بست کر دیا تو ہم اپنی ذمہ داری سے بری ہو گئے۔ اگر صرف پال پوس کر بڑا کرنا ہی مقصود ہے تو یہ کام تو حیوانات بھی کر لیتے ہیں، پھر ایک بندر اور انسان میں فرق کیا ہے؟ اللہ کے لیے اپنی انسانیت اور دین کا کچھ تو پاس رکھیں اور بچوں کی کما حقہ تربیت کر کے انھیں ایک معیاری انسان اور با عمل مسلمان بنائیں۔اگر آپ کے بچے صرف اس لیے مسلمان ہیں کیونکہ وہ آپ کے گھر میں پیدا ہو گئے اور اگر ان کے عادات و اطوار غیروں کی طرح ہیں کیونکہ مختلف ذرائع اور ماحول سے انھوں نے وہی کچھ سیکھا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ آپ نے بچوں کے ناز اٹھائے، ان کی چھوٹی بڑی تمام ضدیں پوری کیں، ان کے لیے زمانے کے سرد و گرم کو برداشت کیا حتی کہ حلال و حرام کا بھی خیال نہیں کیا لیکن کیا آپ نے ان کو ایک اچھا مسلمان بنانے کی کوشش کی؟ کیا آپ کو ان کی آخرت کی کوئی پروا نہیں؟ بچے ڈاکٹر بنیں، انجینئر بنیں، دنیا کی تمام نعمتیں انھیں حاصل ہو جائیں لیکن اگر وہ اپنے خالق و مالک کے شکر گزار بندے نہ بنیں اور عذاب الہی کے مستحق ٹھہریں تو کیا یہ سراسر خسارے کا سودا نہیں ہے؟ آپ اپنے بچے سے بہت پیار کرتے ہیں، انھیں ذرا سی چوٹ لگ جائے تو پریشان ہو جاتے ہیں، پھر آپ یہ کیسے گوارا کر لیتے ہیں کہ وہ فرشتوں کے سوالات کا جواب نہ دے سکے اور عذاب قبر میں مبتلا ہو۔ عجیب بات ہے کہ آپ کا جگر گوشہ آگ میں کود رہا ہے اور آپ تماشا دیکھ رہے ہیں۔

جب والدین سے کہا جاتا ہے کہ آپ نے خود بچوں کو بگاڑا ہے تو وہ ماننے کو تیار نہیں ہوتے اور جوابا کہتے ہیں کہ بھلا ماں باپ بھی اپنے بچے کو بگاڑنا چاہیں گے! میں کہتا ہوں ٹھیک ہے، ماں باپ اپنے بچوں کو ہرگز بگاڑنا نہیں چاہتے لیکن بات یہ ہے کہ صرف چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا ہے خاص کر اس دور میں جب کہ چاروں طرف سے دین بیزاری و اباحیت پسندی کے فتنوں کی برسات ہو رہی ہے، ہر قدم پر انسان کسی نہ کسی آزمائش کی زد میں ہے، والدین کو با قاعدہ محنت کرنی ہوگی کیونکہ تربیت کوئی کھلانے پلانے اور استنجا کرا دینے کا نام نہیں ہے، یہ کار تعمیر ہے جو کافی وقت اور توجہ کا متقاضی ہے۔

کچھ والدین تو خود بچوں کی عادتیں خراب کرتے ہیں، مثلا بچہ رونے لگا تو اس کو منانے کے بجائے کھٹ سے موبائل تھما دیا، اب اس سے ایک تو بچے کی آنکھیں کم زور ہوتی ہیں، اس کا اٹینشن اسپین کم ہوتا ہے دوسرے موبائل میں وہ جو کچھ الم غلم دیکھتا ہے اس کا اثر اس کے عادات و اطوار میں ظاہر ہوتا ہے۔ پھر رقص و سرود، بے پردگی، نمائش دولت و شہرت وغیرہ اس کی دل چسپی کا سامان ہوتے ہیں۔

بچوں کو بگاڑنے میں موبائیل اور ٹیلی ویژن کے علاوہ دوسرے اہم عوامل بھی کار فرما ہوتے ہیں جن میں سب سے خطرناک گھر میں دینی ماحول کا نہ ہونا ہے جس کے لیے والدین کو بہت زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت ہے۔ والدین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کا بچہ بس ایک بچہ نہیں بلکہ ایک مسلم معاشرے کی امانت ہے جسے قابل اور صلاحیت مند بنا کر معاشرے کے حوالے کر دینا ہے تاکہ وہ اپنے اور ہم سب کے حق میں فائدہ مند ثابت ہو سکے۔ ہر فرد واحد جسد امت کا ایک جزو لا ینفک ہوتا ہے، تربیت ہی ہے جو اسے کارآمد بنا دیتی ہے یا بے کار۔ اس لیے بچوں کی تربیت کے سلسلے میں حساس ہو جائیں، بھر پور توجہ دیں، توانائیاں صرف کریں اور قوم کا مستقبل سنوارنے میں معاون بنیں۔

ظاہر ہے کہ بچوں کی کما حقہ تربیت والدین و اساتذہ کے باہمی تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے اس لیے ہم کو مدارس و مکانات کے ماحول میں انقلاب لانے کی ضرورت ہے، درس و تدریس کو مزید مؤثر بنانے اور دور حاضر کے تقاضوں کے موافق طلبہ کو میدان عمل کے لیے تیار کرنے کی ضرورت ہے، والدین کو حالات کی خبر رکھنے اور بچوں کو خبر دار کرنے کی ضرورت ہے، جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہونے اور اس کے منفی اثرات سے بچنے بچانے کی ضرورت ہے۔ الغرض اس سلسلے میں بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ ہر علاقے اور حالات کے حساب سے لائحہ عمل تیار کیا جا سکتا ہے، سر دست جو تجاویز ذہن میں آ رہی ہیں رقم کیے دیتا ہوں۔

(واضح رہے کہ یہاں اساتذہ کا طریقہ تدریس اور اولاد کی تربیت موضوع کا حصہ نہیں ہیں، وہ تو عام معاملات ہیں اور ان پر کافی مواد تحریری و تقریری شکل میں موجود ہے۔ ہم یہاں تربیت طفل کے تعلق سے والدین و اساتذہ کے باہمی تعاون کی بات کر رہے ہیں)

(۱)والدین کچھ چھوٹی چھوٹی مگر اہم باتوں کا خیال رکھیں مثلا بچہ اپنے مدرسے اور اساتذہ کے بارے میں کیا سوچتا اور محسوس کرتا ہے، وہ استاد کی باتیں سمجھ پاتا ہے کہ نہیں، اسے کوئی شکایت تو نہیں ہے وغیرہ۔ اسی طرح اساتذہ بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ بچہ اپنے والدین کے بارے میں کیا سوچتا ہے، کہیں باپ بہت زیادہ پیٹتا تو نہیں یا ماں گالی تو نہیں دیتی، گھر کا ماحول کیسا رہتا ہے، قرآن کی تلاوت ہوتی ہے کہ نہیں وغیرہ۔ اگر والدین یا اساتذہ کو کوئی شکایت پیش آتی ہے تو باہم مل کر اس کو دور کریں۔

(۲)بچوں کے سامنے ان کے اساتذہ کی برائی بالکل نہ کریں۔ اس سے بچوں کی نظر میں اساتذہ کی عزت کم ہوسکتی ہے جو اس کی تعلیم کے لیے خطرناک ہے۔اگر کچھ غلطی لگے تو استاذ سے مل کر بات کریں، مفاہمت سے کام لیں۔ اسی طرح اساتذہ بھی بچوں کے سامنے ان کے والدین کو برا بھلا نہ کہیں۔

(۳)بچوں کو ان کے اساتذہ کی بابت اچھی باتیں بتائیں تاکہ ان کے دل میں اساتذہ کی قدر و منزلت بڑھے اور وہ ان سے محبت کرے، ان سے سیکھے، ان کی باتوں کو اہمیت دے، ان سے ڈرے نہیں بلکہ ان کا ادب کرے، ان سے کھل کر سوال کر سکے، ان کے متعلق حسن ظن غالب رہے۔اسی طرح اساتذہ بھی بچوں کے والدین کا ذکر خیر کرتے رہیں۔

(۴)مہینے میں کم از کم ایک بار فریقین کی میٹنگ ہو جس میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے متعلق گفتگو ہو اور حسب ضرورت اصلاح کی کوشش بھی کی جائے۔اگر بچہ نماز نہیں پڑھ رہا ہے یا کسی خراب عادت کا شکار ہورہا ہے یا خود والدین عبادات کا اہتمام نہیں کر رہے ہیں تو فوری طور پر ان کی اصلاح کی جائے۔میں تو کہتا ہوں اگر والدین مستقل بے نمازی ہوں تو بچے کا داخلہ ہی قبول نہ کیا جائے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس چکر میں کتنے ہی بچوں کا مستقبل خراب ہو سکتا ہے۔پھر بھی جہاں ممکن ہو ایسے انقلابی اقدامات ضرور کیے جائیں۔

(۵)اساتذہ پڑھائی لکھائی کے علاوہ بھی ہوم ورک دیا کریں مثلا آج اپنے گھر پر یہ تقریر کرنی ہے، ان کو جہیز کی برائی بتانی ہے، حلال کھانے اور حرام سے بچنے کی تلقین کرنی ہے، اگر اہل خانہ نماز نہیں پڑھیں تو ناراض ہو جانا ہے، ان سے قرآن پڑھنے کی ضد کرنا ہے وغیرہ۔ اسی طرح والدین بھی بچے سے کچھ ایسے کام کروائیں جس سے وہ اچھے اخلاق کا عادی ہو مثلا استاد کو تحفہ دینا، ساتھیوں کے ساتھ کھانا ساجھا کرنا، کسی غریب بچے کی فیس ادا کرنا وغیرہ۔

(۶)والدین اپنے بچوں سے روز پوچھیں کہ آج آپ نے کیا سیکھا اور پھر انھیں عمل کرنے کی تلقین بھی کریں۔ اساتذہ بھی استفسار کرتے رہیں کہ آپ کے ابو نے نماز پڑھنا شروع کیا کہ نہیں، امی کو قرآن سکھایا کہ نہیں، بھائی نے سگریٹ پینا بند کیا کہ نہیں وغیرہ۔

(۷)اساتذہ جو بھی پڑھائیں اس پر عمل بھی کروائیں۔بچوں کے ذہن میں با قاعدہ یہ بات بٹھا دیں کہ وہ اپنے گھروں میں ہونے والی برائیوں کو نظر انداز کرنے کے بجائے ان کا نوٹس لیں اور والدین کو خبر دار بھی کریں۔ہو سکتا ہے بچوں کی تنبیہ سے والدین کو شرم آئے اور وہ غلطی سے باز آ جائیں۔مثلا جیسے ہی باپ نے گالی دی بچے نے ٹوک دیا، ماں نے غیبت کی بچے نے روک دیا، بھائی نے روزہ نہیں رکھا تو اس کو سمجھایا وغیرہ۔

(۸)بچے کی صحبت کا خیال رکھیں، وہ مدرسے اور محلے میں کس طرح کے بچوں کے ساتھ رہتا ہے، کون سے کھیلوں میں دل چسپی رکھتا ہے وغیرہ۔

(۹)سال میں دو تین مرتبہ اساتذہ بچوں کے والدین کو بھی درس دیا کریں۔دراصل آج کل کے جو حالات ہیں گھر کے بڑے بزرگوں کو بھی یکساں بلکہ کہیں کہیں بچوں سے بھی زیادہ تربیت کی ضرورت ہے۔کچھ لوگ واقعی دھوپ میں ہی بال سفید کر لیتے ہیں اور انھیں احساس تک نہیں ہوتا۔والدین کو سکھایا جائے کہ بچوں کی تربیت کے کیا وسائل و ذرائع ہیں، گھر کا ماحول کیسا رہنا چاہیے وغیرہ۔ کسی شخص کی ظاہری وضع قطع کو دیکھ کر اس خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیں کہ یہ تو اچھی ہی تربیت کرتے ہوں گے کیوں کہ ہم نے اچھے اچھے گھرانوں میں برائیوں کو پنپتے دیکھا ہے اور دانتوں تلے انگلی دبائی ہے، سبب بس ایک ہی ہے، شعور تربیت کا فقدان۔

(۱۰) ایک انتہائی ضروری بات یہ ہے کہ خود والدین و اساتذہ اپنی اپنی اصلاح کرتے رہیں۔فطری طور پر بچوں پر آپ کا عمل آپ کے قول سے کہیں زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔آپ کی بد عملی بچوں کی تربیت کے لیے سم قاتل ہے اور آپ کے قول و عمل کا تضاد ساری کوششوں پر پانی پھیر سکتا ہے۔ اس لیے اپنی اصلاح کریں اور خود کو بچوں کے لیے آئیڈیل بنائیں۔کم از کم بچوں کے سامنے تو دین داری و حسن اخلاق کا مظاہرہ کرتے رہیں اور ایسی تمام منفی چیزوں سے اجتناب کریں جن سے ان کی تربیت متاثر ہو سکتی ہو۔

(۱۱)بچوں کو پڑھانا کوئی آسان کام نہیں ہے، اس کے لیے حد درجہ ضبط، اخلاص اور فن افہام کی ضرورت ہوتی ہے. بچوں کی نفسیات سمجھنا اور اس کے موافق تعلیم دینا با قاعدہ ایک فن ہے جو آج کل کے اساتذہ میں خال خال ہی نظر آتا ہے۔اس لیے اساتذہ کی تعیین کرتے وقت ان کی علمی لیاقت کے ساتھ ساتھ ان کی استادانہ صلاحیت کو بھی مد نظر رکھیں۔بسا اوقات کسی کم پڑھے لکھے استاد کو بھی بہت اچھے سے پڑھانا سکھانا آتا ہے۔اسی طرح ہر استاد کو ہر سبجیکٹ کی ذمہ داری نہ دی جائے۔ہر کوئی اپنے فن میں ہی ماہر ہوتا ہے۔ کوئی تعلیم تو کوئی خطابت کے میدان کا شہسوار ہوتا ہے۔ہر اہل علم کا احترام واجب ہے لیکن بھرتی کے اساتذہ تعلیم و تعلم کے حق میں بہت نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔اگر کسی کسان کو کچی مٹی دے دی جائے تو اس کی کوزہ گری کے نتیجے میں کوزے آڑے ٹیڑھے ہی بنیں گے۔اس لیے بہ صد احترام اساتذہ سے گزارش ہے کہ اگر آپ میں پڑھانے کا ذوق و شوق نہیں ہے تو خانہ پری کرنے کے بجائے حسب استعداد کچھ اور کام کریں لیکن بچوں کے مستقبل سے سمجھوتہ بالکل نہ کریں۔ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے۔فانتشروا في الأرض وابتغوا

(۱۲) اساتذہ کی قدر دانی میں کوئی کسر نہ چھوڑیں، ان کو اچھی تنخواہ دیں، ان کا ہر طرح سے خیال رکھیں۔ سمجھنے کی بات ہے کہ جس انسان کو اپنے بچوں کے آدھے پیٹ کی فکر لاحق ہوگی وہ آپ کے بچوں کی تربیت پر خاک دھیان دے گا، جب باغباں ہی پریشان رہے گا تو کلیوں پر کیا گزرے گی!

الغرض متعدد ایسی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں جس سے فریقین باہمی ربط و ضبط کے ذریعے بچوں کی صحیح تربیت کر سکیں اور انھیں عملی طور پر قابل بنا سکیں تاکہ وہ دین و دنیا کے لیے سود مند ثابت ہوں۔یاد رکھیں اگر کسی ایک بچے کی بھی تعلیم و تربیت صحیح طور پر ہو گئی تو سمجھ لیں ایک پورے معاشرے کی اصلاح ہو گئی اور قوم کا مستقبل روشن کرنے کے لیے آپ نے اپنے حصے کا چراغ جلا دیا۔اللہ ہمیں ظلمت کے بڑھتے ہوئے سائے سے محفوظ رکھے اور ہمارا مستقبل تاب ناک بنائے۔آمین

آپ کے تبصرے

3000