نفل نمازیں: احکام، مسائل، آداب: سنن ونوافل کا ایک انسائیکلوپیڈیا

ابو تحریر تعارف و تبصرہ

کتاب:نفل نمازیں:احکام،مسائل،آداب

مصنف:راشد حسن مبارک پوری

ناشر: المجمع العلمی بالجامعۃ الاسلامیۃ فیض عام مئو ناتھ بھنجن(یوپی)

سن اشاعت:2022

صفحات:400

قیمت:380 روپے


نماز، اسلام کا دوسرا رکن ہے، اس کی اہمیت وفرضیت، احکام و آداب اور شرائط و مسائل بہت سی آیات واحادیث میں موجود ہیں، نیز نماز پڑھنے والے کے اجر و ثواب اور اس کے چھوڑنے والے کے عذاب و سزاکے بارے میں بھی تفصیلات ملتی ہیں۔ قرآن کے الفاظ میں نماز منکرات سے دور رکھتی ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عبادت کو ’’آنکھوں کی ٹھنڈک‘‘ اور سیدنا عمرؓ بن خطاب نے اس کو ’’دین کا ستون‘‘ قرار دیا تھا۔ اس کے باوجود بھی ہمارے معاشرے میں اس اہم عبادت کے تئیں جو کاہلی اور کسل مندی نظر آرہی ہے، وہ تشویش کے ساتھ تکلیف کا بھی سبب ہے، عام لوگوں کو تو جانے دیجیے، اسلامی تعلیم اور دعوت کے میدان سے وابستہ لوگوں میں بھی پابندی کے ساتھ وقت پر نماز ادا کرنے کے تئیں جو رویہ عام ہے، وہ بھی قابل افسوس ہے۔ ہمارے ایک ندوی دوست کے بقول مولانا سید رابع ندوی مرحوم کہا کرتے تھے کہ بعض طلبہ نماز سے بچنے کے لیے میلوں پیدل چل لیتے ہیں لیکن دو قدم پر موجود مسجد میں نہیں آپاتے ہیں۔ مئو ناتھ بھنجن کے معروف عالم مفتی عبد العزیز عمری مرحوم کہاکرتے تھے کہ فرض نماز سے کوتاہی کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ ’’مرحوم صوم و صلاۃ کے پابند تھے‘‘ کی جگہ ’’مرحوم صوم و صلاۃ کے قائل تھے‘‘ لکھنا چاہیے۔ان تاثرات میں، فرائض سے ہماری کوتاہی اور غفلت کے بارے میں جو حقیقت بیانی موجود ہے، اس پر مزید کسی تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں، اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ پابندی کے ساتھ نماز کے موضوع پر تلقین و تذکیر کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے کیونکہ

نوارا تلخ تر می زن چوں ذوق نغمہ کم یابی

زیر تبصرہ کتاب اسی دعوتی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے جس کا موضوع دن اور رات میں فرض پانچ وقت کی نمازوں کے علاوہ ہے جن کو نفل نماز کہا جاتا ہے۔ عربی میں نفل نماز کو ’صلاۃ التطوع‘ کہا جاتا ہے۔ مصنف نے اس کی دو قسمیں بیان کی ہیں: (1)نفل غیر معین جس سے مراد عام نوافل ہیں جو ممنوعہ اوقات کے علاوہ کبھی بھی پڑھ سکتے ہیں (2)نفل معین سے مراد وہ نمازیں ہیں جن کے اوقات اور رکعات کی شریعت نے تحدید کردی ہے۔(ص:40) کثرت نوافل تقرب الہی کا ذریعہ ہے اور نوافل کا اہتمام کرنے والوں کو جنت میں رفاقت نبوی کی بشارت بھی دی گئی ہے۔ نوافل ادا کرنے سے فرائض کی کوتاہیاں دور اور لغزشیں معاف کردی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے کتاب وسنت میں نوافل کے احکام و آداب کی تشریح میں کافی کچھ لکھا جاچکا ہے اور یہ سلسلہ لگاتار جاری ہے۔ عربی زبان میں اس موضوع پر اچھی کتابیں موجود ہیں، اردو زبان میں بھی نوافل پر رسالے؍کتابچے مل جاتے ہیں لیکن اردو قارئین کو اس موضوع پر ایک جامع اور مستند کتاب کی کمی کا شدت سے احساس تھا اور میں پوری دیانت داری کے ساتھ یہ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ زیر تبصرہ کتاب اس کمی کو پوری کر رہی ہے۔ یہ کتاب سنن ونوافل نمازوں کا ایک تحقیقی مطالعہ ہے جو اپنی جامعیت کے لحاظ سے اردو کے دینی لٹریچر میں ایک شان دار اضافہ ہے جس پر مصنف کو دلی مبارک باد اور نیک خواہشات پیش کرنے کے ساتھ یہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی اس کوشش کو ان کے لیے زاد آخرت بنائے ۔ ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد

یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے اور ہر باب کے تحت متعدد فصلیں ہیں۔ پہلے، دوسرے اور تیسرے باب میں بالترتیب نماز نفل کے معنی و مفہوم، سنن رواتب اورقیام اللیل پر تفصیلی بحث ہے جب کہ چوتھے باب کا عنوان ’دیگر نفلی نمازیں‘ ہیں جس میں تحیۃ المسجد، صلاۃ الضحی، نماز زوال، گھر سے نکلنے اور واپسی کی نماز، مغرب سے قبل کی دو رکعت، نماز توبہ، نماز جمعہ سے پہلے اور بعد کی سنتیں، صلاۃ التسبیح، نماز استخارہ، نماز کسوف، نماز عیدین، نماز استسقاء، نماز طواف، مسجد قبا میں نماز، نماز جنازہ وغیرہ کے احکام، فضائل اور آداب کو اچھے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں صبح و شام کے اذکار پر مشتمل ایک ضمیمہ بھی ہے جس کی وجہ سے کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

مصنف نے ’سخن زیر خامہ‘ کے عنوان سے ایک مقدمہ بھی لکھا ہے جس میں زیر تبصرہ کتاب کے تخیل سے طباعت تک کے مراحل کا ذکر کیا ہے اور کتاب کی تیاری میں جن اہم کتابوں سے استفادہ کیا ہے اس کی تفصیل بھی بیان کردی ہے اور تصنیف وتحقیق کے اسلوب کی طرف بھی اشارہ کردیاہے۔ انھوں نے اس موضوع پر عربی کی جن کتابوں سے خاص طور پر استفادہ کیا ہے، وہ یہ ہیں:

٭بغیۃ المتطوع فی صلاۃ التطوع:محمد بن عمر سالم بازمول

٭الحافل فی فقہ النوافل:ابو العباس بلال بن عبدالغنی السالمی

٭صلاۃ التطوع: مفہوم،فضائل،وأقسام و أنواع وآداب:الدکتور سعید بن علی بن وھب القحطانی

مصنف نے اپنے تخلیقی سفر کے ابتدائی مرحلے یعنی محض بیس سال کی عمر میں اس اہم موضوع کا انتخاب کیا تھا بلکہ کتاب کاFirst draft بھی تیار کرلیا تھا۔ اس سے ان کی علمی ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آئیے! اس کتاب کی تیاری، ترتیب اور تکمیل کی ایمان افروز اور حوصلہ افزا داستان کو مصنف کی زبانی سنتے ہیں:

’’عمر کی بیسویں منزل میں ہی کچھ نہ کچھ حد تک ’’نفل نماز‘‘ پر ایک کتاب ترتیب پاگئی، مدرسہ سے فراغت ہوگئی، مزید تعلیم کے لیے بے سمت راہوں پر چل پڑے، دہلی پہنچ کر سامان سفر رکھنے کے لیے جگہ ڈھونڈ لی گئی، زندگی کے پیچ و خم کا ادراک ہوا، ضروری و غیر ضروری مصروفیتوں کی نذر رہا، یہ مسودہ ساتھ رہا، پانچ سال بعد خیال آیا،نظر ثانی کی گئی، ایک بہت بڑے حصے کو قلم زد کردیا گیا، حذف و اضافہ خاصا ہوگیا، پھر یہ علمی سفر وہیں ٹھہر سا گیا اور کمپوز شدہ حالت میں کمپوزر اور میرے پاس [پڑا] رہا۔ اس دوران تصنیف و تحقیق سے جڑا، مگر توفیق اس طرف نہ ہوسکی، دوسرے عربی و اردو کے متعدد کام بفضلہ انجام پذیر ہوئے، تقریباً سات سال کے بعد جب جامعہ اسلامیہ فیض عام میں تقرر ہوا تو کچھ اہم علمی کاموں سے فراغت کے بعد اس طرف توجہ کی توفیق ہوئی، پھر سے پوری کتاب سرخ ہوگئی، جا بجا تبدیلی، حذف اور اضافے کیے گئے، سارے نصوص اصل سے ملا کر مع تشکیل و اعراب نسخ کیے گئے۔ ایک ایک حرف پر ٹھہر کر علمی و فنی جانچ کی گئی، زبان وبیان کو مزید نکھارنے کی کوشش کی گئی، موضوع خالص علمی اور خشک ہونے کے باوصف اسے دعوتی و عوامی بنانے پر بھی توجہ دی گئی، تاکہ تشنگان علم و دانش کے ساتھ عوامی طبقہ بھی بھرپور انداز میں فیض یاب ہوسکے، اس طرح تقریباً کم و بیش بارہ سال کے عرصہ سے گزر کر ان شاء اللہ اب یہ کتاب قارئین باتمکین کے ہاتھوں میں ہوگی۔‘‘(ص:27-28)

مصنف نے کتاب میں جو انداز اختیار کیا ہے وہ خالص علمی اور سائنٹفک ہے جیسے کسی ایک نفل نماز پر بات کرتے وقت سب سے پہلے قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں اس کی فضیلت بیان کی ہے۔ اس کے بعد اس سے متعلق احادیث(اردو ترجمے کے ساتھ) پیش کی ہے، تشریح کی ہے، فوائد اور نکات کو سلیقے سے بیان کیا ہے۔ احادیث و آثار کی تخریج ہے، راویوں کے مقام و مرتبے پر بھی بحث کی ہے اور اس میں علامہ البانی کی تحقیقی کاوشوں پر زیادہ اعتماد کیا ہے۔ ہندستان کے معروف محدثین(علامہ شمس الحق عظیم آبادی، عبدالرحمان محدث مبارک پوری، شیخ الحدیث عبیداللہ رحمانی مبارک پوری) کے اقوال و اقتباس سے بھی استشہاد و استدلال کیا ہے، جن سے ان کی وسعت مطالعہ، اخاذ طبیعت، فقہی بصیرت اور علوم حدیث میں مہارت کا اندازہ ہوتا ہے۔ دو اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:

’’ان تمام نصوص[قیام اللیل سے متعلق]کو جمع کیجیے تو بعض نصوص کے ’’أمر‘‘سے وجوب کا پتہ چلتا ہے مگر دیگر احادیث جو اس باب میں ذکر کی گئی ہیں، وہ اس کے لیے قرینۂ صارفہ ہیں جن کی موجودگی میں یہ واجب نہیں ہوسکتا۔ اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کے بعد افضل ترین روزہ محرم الحرام کا ہے، اسی طرح فرض نمازوں کے بعد افضل ترین نماز صلاۃ اللیل ہے۔ معلوم ہواکہ جس طرح محرم کا روزہ واجب و فرض نہیں ہے، اسی طرح نماز لیل بھی واجب و فرض نہیں بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔‘‘(ص:126-27)

’’ان معروضات کی روشنی میں یہ طے کرنا مشکل نہیں کہ جب بھی شدید آندھی، طوفان، زلزلے، خطر ناک حد تک بجلیاں، شدید بارش وغیرہ ہو تو ایسے حالات میں نماز کسوف پڑھی جاسکتی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اسے پسند اور قابل ترجیح گردانا ہے۔ شیخ العثیمین نے بھی اسے راجح قرار دیا ہے اور بندۂ خاک بھی اسے ہی راجح سمجھتا ہے۔ اس لیے علت مشترک ہو تو حکم بھی مشترک ہوتا ہے، یہاں علت ’تخویف‘اللہ کا بندوں کو ڈرانا اور دہشت میں مبتلا کرنا ہے، یہی علت تمام مذکور چیزوں میں بھی پائی جارہی ہے، لہذا حکم بھی یکسا ں ہوگا۔‘‘(ص:278)

کتاب کا اسلوب علمی اور تحقیقی ہے، زبان بھی صاف ستھری اور رواں ہے، آیات، احادیث، آثار اور دیگر عربی اقتباسات اعراب و تشکیل اور ترجمے کے ساتھ نقل کیے گئے ہیں، ترجمہ سادہ اورسلیس ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے علمی مسائل پر بحث کرنے اور لکھنے کا سلیقہ معلوم ہوتا ہے، نصوص سے مسائل کا استنباط کیسے کیاجاتا ہے، کسی موضوع پر دلائل کی پیش کش اور ان کے محاکمے کا طریقہ کیا ہوتا ہے، یہ سب اس کتاب میں موجود ہے۔ اس موضوع پر اردو میں اتنی مفصل، جامع اور تحقیقی کتاب اب تک میری نظر سے نہیں گزری ہے۔ اردو میں نماز پر جو کتابیں موجود ہیں ان میں سنن و نوافل کی طرف اشارے ضرور ملتے ہیں لیکن کتابوں کی کثرت کے باوجود ان میں متعلقہ گوشے پر معلومات کی کمی کھٹکتی تھی جس کو اس کتاب نے پورا کردیا ہے اور بہت سی کتابوں سے بے نیاز کردیا ہے۔

راشد حسن مبارک پوری کا شمار جدید نسل کے معتبر اہل قلم میں ہوتا ہے، ان کا تعلق مشرقی اترپردیش کی ایک علمی بستی کے ایک معروف علمی خانوادے سے ہے جس کا اسلامی خدمات خاص طور علم حدیث کی نشرواشاعت اور مسلک سلف کی تفہیم و تبلیغ میں کلیدی کردار رہا ہے۔ وہ اگر چاہتے تو اپنے خاندان کے علمی پس منظر کے سہارے بھی زندگی کر سکتے تھے لیکن وہ خاندان کی علمی روایت سے اکتساب کرنے کے ساتھ اس کو وسعت اور تب و تاب بھی عطا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور اللہ کے فضل سے کام یاب بھی ہیں۔ اس کتاب میں’مؤلف ایک نظر میں‘کے عنوان سے ان کا جو حیات نامہ شامل ہے، وہ اسلامی علوم و معارف اور ادبیات کے میدان میں ان کے ارتقائی سفر کی کہانی کو بیان کرتا ہے اور طلبہ کو یہ کہانی ضرور پڑھنی چاہیے تاکہ ان کے اندر بھی لگاتار آگے بڑھنے کا شوق پیدا ہو۔ اس تعارف میں مصنف کے مکمل؍نامکمل؍مطبوع؍غیر مطبوع تخلیقات، ترجمے، ترتیب کی تعداد تینتالیس(43 )تک پہنچتی ہے اور اسی میں درج ان کی تاریخ پیدایش کے حساب سے وہ اس وقت ان کی عمر کچھ تینتیس(33 ) سال ہوتی ہے۔ یعنی انتاجات کی تعداد عمر سے دس عدد زیادہ ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کے یہاں زبان (عربی؍اردو) اور موضوع (اسلامیات؍ادبیات) دونوں سطح پر رنگارنگی اور بوقلمونی پائی جاتی ہے۔ کاروبار لوح و قلم کے ساتھ درس و تدریس کے مشاغل ہیں، دعوت و تبلیغ کی مصروفیات ہیں اور سوشل میڈیا کے جھمیلے بھی ہیں لیکن ہر جگہ اپنی شان اور شناخت کے ساتھ نظر آتے ہیں ۔ علامہ اقبال نے صحیح کہا تھا:

جرأت ہو نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے

اے مرد خدا، ملک خدا تنگ نہیں ہے

علمی دنیا میں کوئی چیز حرف آخر کی حیثیت نہیں رکھتی ہے اور یہ کتاب بھی اس کلیے سے مستثنی نہیں ہے۔ مجھے دوران مطالعہ کچھ چیزیں نظر آئیں جن کی طرف اشارہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں ۔

٭گھر سے نکلنے اور واپسی کی نماز(ص:217) اور سفر سے واپسی کی نماز(ص:253 )کے بیچ میں دیگر نوافل کا ذکر ہیں جب کہ ان دونوں کو ایک جگہ اور ایک عنوان کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ دونوں کے مشتملات سفر ہی سے متعلق ہیں، الگ الگ بیان کرنے سے تکرار پیدا ہوتی ہے۔

٭صلاۃ الضحی یا نماز اشراق کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’۔۔۔اس طرح اس کے چار نام ہوئے:(1) صلاۃ الضحی(2)نماز اشراق(3)نماز چاشت(4)نماز اوابین۔‘‘(197)میرا خیال ہے کہ تیسرا نام تو صرف صلاۃ الضحی؍ نماز اشراق کا اردو ترجمہ ہے نہ کہ الگ سے کوئی نام۔

٭مصنف نے کتابیات میں جدید علمی اسلوب کا اہتمام کیا ہے تاہم بعض کتابوں پر سن طباعت درج ہونے سے رہ گئے ہیں جیسے: علامہ شمس الحق عظیم آبادی، علامہ عبد الرحمان محدث مبارک پوری اورشیخ الحدیث عبید اللہ رحمانی مبارک پوری کے فتاوے کے جو مجموعے مکتبہ الفہیم،مئو ناتھ بھنجن سے شائع ہوئے ہیں، پر ان پر سن طباعت درج نہیں ہے۔(ص:386) اسی طرح انوار مصابیح بجواب رکعات تراویح کا سن طباعت بھی موجود نہیں ہے۔ (ص:379)

٭ایک حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’یہ دونوں حدیثیں بتاتی ہیں کہ پہلی رکعت میں ’سورۂ اخلاص‘ اور دوسری رکعت میں سورۂ کافرون پڑھنا مستحب ہے۔‘‘(ص:74)مذکورہ حدیث کے لحاظ سے یہ ترتیب الٹ گئی ہے۔

٭’’چہرے کا رنگ فق پڑ گیا‘‘ (ص:357) اردو میں ’’رنگ فق ہونا‘‘محاورہ ہے ۔

٭’’رحمت کا برکھا برستی ہے۔‘‘(ص:55)’ برکھا‘ مؤنث ہے۔(’’رانی‘‘ سے’’ دت‘‘ تک سب مؤنث ہی ہیں۔)

٭ کتاب کی پروف ریڈنگ ڈھنگ سے نہیں ہوپائی ہے، کئی ایک جگہ ’الف ممدودہ‘ غائب ہے جیسے: جامع البیان فی تأویل القران،اثار امام ابن القیم (380)، شرح مشکل الاثار،شرح معانی الاثار(382)، صلاۃ التطوع:مفہوم،فضائل،وأقسام و أنواع و اداب (ص:384) اور العظیم ابادی (386) اور ایک آدھ جگہ Space key کی شرارت کی وجہ سے الفاظ گتھم گتھا ہوگئے ہیں جو پڑھنے میں تو آجاتے ہیں لیکن ذوق پر گراں گزرتے ہیں، جیسے: بے وقعتیکا (ص: 185)

اس کتاب سے عام لوگ استفادہ کرسکتے ہیں اور یہ خواص کے لیے بھی مفید ہے، اسلامی علوم کے میدان میں متحرک طالبات؍طلبہ خصوصا دعوت و تبلیغ کے پیشے سے وابستہ لوگوں کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اپنے خطبات میں اس کے مشتملات سے استفادہ کرنا چاہیے۔ امید ہے کہ یہ کتاب نوافل کے بارے میں بیداری لائے گی، اس کا اہتمام کرنے کی ترغیب دے گی اور تشویق بھی ۔ان شاء اللہ

آپ کے تبصرے

3000