مولانا یوسف جمیل جامعی رحمہ اللہ کی شخصیت اہلِ علم، شعراء، دعاۃ و مبلغین، مدارسِ اسلامیہ کے طلبہ وطالبات، جماعت وجمعیت کے احباب تعلیم یافتہ عوام کے لیے محتاجِ تعارف نہیں ہے۔
مجھے اپنے مادرِ علمی جامعہ دار السلام عمر آباد میں دورانِ طالبِ علمی فنِ حدیث اور مسابقات میں شرکت کے علاوہ اردو اسلامی شاعری کا بہت شوق تھا، اسی شوق کے چلتے جب کسی ایسے شاعر سے تعلق ہو جائے جو عالمِ دین ہو، سلفی العقیدہ ہو، متحمس ہو، ہمعصر ہو، اپنے کسی ساتھی کے والد بھی ہوں، پھر آگے چل کر ان سے سسرالی رشتہ بھی بن جائے ، تو ایسی شخصیت سے تعلقِ خاطر والہانہ عقیدت سے خالی ہونا مشکل ہے ۔
کچھ ایسا ہی میرا تعلق مولانا یوسف جمیل جامعی رحمہ اللہ کے ساتھ رہا، سن 1994-1992ء کی بات ہے کہ جب میں جامعہ محمدیہ منصورہ بنگلور میں قرآن مجید حفظ کر رہا تھا، اس وقت عالمیت کے طلبہ میں ایک ساتھی اپنے لمبے قد، سریلی آواز اور اذان و اقامت کے فرائض کی ادائیگی میں آگے آگے رہتے تھے، وہ مولانا یوسف رحمہ اللہ کے بڑے فرزند جاوید اقبال جامعی تھے، جو جامعہ محمدیہ عربیہ رائیدرگ سے فارغ التحصیل ہوئے اور والد ہی کی طرح معیاری اردو شاعری میں بھی مشہور ہوئے۔
سنہ 1994ء کے آخر میں جب میں نے دینی تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ دار السلام عمرآباد میں داخلہ لیا ، تو وہاں مختلف انجمنوں اور سالانہ جلسوں میں بعض خوبصورت نظمیں اور مثبت پیغام سے بھر پور ترانے سنتے تھے، انہی میں کچھ نظمیں مولانا یوسف جمیل صاحب کی تخلیق کردہ تھیں، مولانا مرحوم کے دوسرے اور تیسرے فرزند حافظ نذیر الحق اور حفظ الرحمن بھی مجھ سے دو تین سال جونئیر تھے، اور آگے چل کر دونوں نے جامعہ سے فضیلت کی تکمیل بھی کی۔
پھر 4/ جنوری 2004ء کو خلیجی ملک قطر کی وزارۃ الاوقاف و الشؤون الاسلامیہ میں امامت کے لیے مجھ سمیت جن پچاس حفاظ کا وفد قطر روانہ ہوا تھا ، ان میں ممدوح کے دوسرے فرزند حافظ نذیر الحق عمری بھی میرے ساتھ پابہ رکاب تھے، وہ اب تک بھی وہیں امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں، لیکن میں نو ماہ کا قلیل عرصہ گزار کر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں اعلی تعلیم کے حصول کی خاطر قطر سے روانہ ہوگیا۔
جامعہ اسلامیہ سے پہلے سال کی چھٹی کے ایام میں ( اگست 2005ء ) میری منگنی ہوئی ، اور سسرال کا جب تعارف ہوا تو ان میں سرِ فہرست ہمارے ممدوح محترم مولانا یوسف جمیل جامعی صاحب ہی نکلے، جو میرے منگیتر کے سگے بڑے خالو اور شیخ برھان الدین عمری حفظہ اللہ کے بڑے بہنوئی تھے، لیکن اب تک مرحوم سے میرا براہِ راست آمنا سامنا نہیں ہوا تھا، لیکن ملاقات کی چاہت بڑھنے لگی تھی۔
پھر سنہ 2006ء میں مولانا یوسف صاحب سفرِ حج پر تشریف لائے ۔ مکۃ المکرمۃ میں شارع الخلیل کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے، میں نے اولین فرصت میں آپ سے سرسری ملاقات کرلی، صغرِ سنی سے جو نام سنتے آرہے تھے، اب اس شخصیت سے بالمشافہ ملاقات بھی ہوگئی ۔
سنہ 2009ء میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فراغت کے بعد اپنے اولین مادرِ علمی جامعہ محمدیہ منصورہ، بنگلور ہی میں بحیثیتِ مدرس میرا تقرر ہوا، اس دوران سسرالی خاندان کے بعض مناسبات میں مولانا یوسف جمیل صاحب سے مختصر علیک سلیک ہوئی۔
سنہ 2015ء کی بات ہے کہ جامعہ محمدیہ منصورہ بنگلور کی انجمنوں کے سالانہ جلسہ کی صدارت کے لیے کچھ مشہور ذی علم شخصیات کو بحیثیتِ صدر و مہمانِ خصوصی مدعو کرنے کے لیے ناموں کے انتخاب کی بات چل رہی تھی، اسی دوران میں نے ناظمِ جامعہ سے آپ کی شخصیت کا مختصر تعارف کروایا اور کسی ایک انجمن کی صدارت کے لیے آپ کے نام کی سفارش کی ، جسے قبول کر لیا گیا، فجزاہ اللہ خیر الجزاء۔
دسمبر 2015ء جامعہ کی سب سے بڑی انجمن النادی المحمدی علیا بنین و بنات دونوں کی صدارت کے لیے آپ کو مدعو کیا گیا، اجلاس سے قبل میں نے آپ کا مکمل تعارف تیار کروا کر انجمن کے ایک ذمہ دار کے حوالے کردیا اور انجمن میں شریک ہوئے بغیر نئی دہلی کے لیے رختِ سفر باندھ لیا۔
ہوا یوں کہ ان دنوں جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ الریاض سعودی عرب کی جانب سے اور سعودی سفارت خانے کے اشراف میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے وسیع وعریض کیمپس میں ہندوستان، نیپال اور بنگلہ دیش میں سعودی جامعات کے قدیم و جدید فارغین کا آٹھ روزہ ملتقی منعقد تھا، جو کسی وجہ سے دو ایک مرتبہ ملتوی بھی ہو چکا تھا اور اس میں شرکت اور استفادہ کے لیے میں کافی مہینوں سے بے صبری سے انتظار کر رہا تھا، وجہ یہ تھی کہ اس میں بعض سعودی کبار علماء کرام مثلاً فضیلۃ الشیخ الاستاذ الدکتور سعد بن ناصر الشتری (عضو ھیئۃ کبار العلماء و مستشار خادم الحرمین الشریفین) اور فضیلۃ الشیخ عبد اللہ المطلق (رکن کبار علماء کمیٹی)اور جامعۃ الامام محمد بن سعود ریاض کے دیگر علماء و باحثین بحیثیتِ مدرس و محاضر تشریف لا رہے تھے، اور عصرِ حاضر کے بعض نازک اور پیچیدہ مسائل پر ان تجربہ کار علماء کے دروس و محاضرات طے تھے۔
درحقیقت ہندوستان میں ان جیسے کبار علماء سے ملاقات اور استفادہ بہت بڑی غنیمت اور نعمتِ غیر مترقبہ ہوتی ہے، اس پر طرہ یہ بھی کہ اس آٹھ روزہ ملتقی میں شرکت اور استفادہ کے لیے تین پڑوسی ممالک کے بہت سے خریجین شریک ہونے والے تھے ، جن سے باہمی تعارف، آپسی تبادلۂ خیال اور ایک دوسرے کی علمی و دینی خدمات کو قریب سے جاننے کے مواقع میسر آتے ہیں، لہذا میں دس دنوں کے لیے نئی دہلی چلا گیا، اور مولانا یوسف جمیل صاحب صدارت کے لیے جامعہ تشریف لائے ، پیرانہ سالی کے باوجود آپ نے دو مختلف اوقات میں بنین اور بنات کی انجمنوں کی صدارت کی، اور صدارتی فریضہ کو بحسن و خوبی انجام دیا۔ اپنے صدارتی خطاب میں قیمتی کلمات اور تجربات سے تمام طلبہ و طالبات کو مستفید کیا۔ فجزاہ اللہ خیر الجزاء۔
انہی دنوں کی بات ہے کہ آپ کے تینوں شعری مجموعے لوحِ جمیل، عکسِ جمیل اور ذوقِ جمیل زیورِ طباعت سے آراستہ ہوکر اہلِ علم سے دادِ تحسین وصول کر رہے تھے اور میرے پاس بھی پہنچے تھے۔ میں نے فارغ اوقات میں ان کا مطالعہ بھی کیا تھا، پھر کیا تھا، موصوف رحمہ اللہ سے تعلقات بھی بڑھنے لگے، بالمشافہ ملاقات اور بذریعہ فون بات چیت بھی ہونے لگی، کبھی میرے سسرال میں آپ کی آمد کی خبر سن کر میں آپ سے ملنے چلا جاتا، اور میری خوش نصیبی کی کہ آپ نے صرف ایک مرتبہ میرے غریب خانے میں قدم رنجہ فرمایا تھا، اس دوران آپ میری کتابوں کا بغور جائزہ لے رہے تھے اور بعض کتابوں کے نام اپنی جیبی ڈائری میں لکھ رہے تھے۔
آپ نے کئی مرتبہ مجھے اپنے گھر کرنول آنے کی پر خلوص دعوت دی تھی، لیکن میری بد نصیبی کہ اپنی گونا گوں مصروفیات کے سبب آپ کی زندگی میں آپ کے دولت کدے پر حاضر نہ ہو سکا۔ لیکن ہمارے اہلیہ بچوں سمیت اپنے بڑے خالہ اور خالو کے گھر دو تین مرتبہ ہو آئے تھے، واپسی پر آپ کے کشادہ گھر کا نقشہ، مہمان نوازی اور حسنِ سلوک کی داستان بڑے شوق سے سناتے تھے۔
کورونا کے وبائی مرض کے ایام میں آپ بیمار ہوئے، پھر مختصر سی علالت کے بعد بتاریخ6/ رمضان المبارک 1441ھ مطابق 30 / اپریل 2020ء اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کی وفات پر بہت سے اہلِ علم، محبانِ علم اور جماعت وجمعیت کے ذمہ داران نے تعزیتی پیغامات لکھے، جمعیتِ ابنائے قدیم جامعہ محمدیہ عربیہ رائیدرگ وفرزندامِ جمیل نے نومبر 2021ء میں آپ کی حیات وخدمات پر ایک خصوصی نمبر بنام ذکرِ جمیل شائع کیا جسے جاوید اقبال جامعی نے ترتیب دیا ہے۔
ممدوح محترم کی بعض خصوصیات
(1)مولانا یوسف جمیل جامعی رحمہ اللہ جنوبی ہندکے قدیم سلفی ادارے جامعہ محمدیہ عربیہ رائیدرگ کے فارغ التحصیل تھے۔
(2)آپ رحمہ اللہ عالمِ باعمل، کہنہ مشق شاعرِ اسلام، شعلہ بیان مقرر، مؤثر خطیب، ماہر مدرس، اردو وفارسی زبان کے ماہر، تین تین شعری مجموعوں کے تخلیق کار، حسنِ اخلاق کا نمونہ اور مہمان نوازی کی مثال جیسی خوبیوں کے حامل تھے۔
(3)آپ کو ملکی وغیر ملکی بہت سے ایوارڈ سے نوازا گیا، سنہ 1992ء میں صدرِ جمہوریہ شنکر دیال شرما کے ہاتھوں ’’ نیشنل بیسٹ فارسی ٹیچر ایوارڈ ‘‘۔ سنہ 2007ء میں اردو اکیڈمی متحدہ آندھرا پردیش کی جانب سے ’’ اسٹیٹ بیسٹ ٹیچر ایوارڈ ‘‘۔ سنہ 2008ء میں ’’ کرنول ڈسٹرک بیسٹ ٹیچر ایوارڈ ‘‘۔ سنہ 2012ء میں احیاء التراث الاسلامی کویت کی جانب سے ’’ خادمِ جماعت ایوارڈ ‘‘۔ سنہ 2013ء میں جامعہ محمدیہ عربیہ رائیدرگ کی جانب سے ’’ فخرِ جامعہ ایوارڈ ‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔
(4)آپ رحمہ اللہ نے تقریر و تحریر کے علاوہ شاعری کو بھی خدمتِ اسلام اور تبلیغِ دین کا ذریعہ بنایا، ہم بچپن میں آپ کی نظمیں اور ترانے جلسوں میں سنتے تھے، جن میں عموماً دعوتِ توحید ، تمسک بالکتاب و السنۃ، بدعات و خرافات کی مذمت، اوصافِ حمیدہ اپنانے اور عاداتِ رذیلہ سے دور رہنے کی تلقین جیسے اہم موضوعات اور پیغامات ہوا کرتے تھے۔ یقینا ً حدیثِ رسول ﷺ : “وإن من الشعر لحكمة”کے مصداق آپ کے پُر مغز اشعار ، نظمیں ، ترانے اور شعری مجموعے نے آپ کو مشہورِ زمانہ کر دیا تھا، وہیں ان سے امتِ مسلمہ کو بہت فائدہ بھی پہنچا ۔
(5)آپ رحمہ اللہ نے اپنی تینوں اولاد کو عالمِ دین بنایا، دوسرے اور تیسرے فرزند عرصۂ دراز سے قطر میں ہیں، جبکہ بڑے فرزند جامعہ محمدیہ عربیہ رائیدرگ کے فارغ التحصیل ہیں اور باپ کی طرح اچھے شاعر ہیں۔ آپ کے بڑے داماد مولانا اسلم جامعی رحمہ اللہ بھی جامعہ محمدیہ عربیہ رائیدرگ سے فارغ التحصیل ہیں
؎ایں خانہ ہمہ آفتاب است
(6) آپ نے کئی مدارس کے لیے ترانے لکھے، لیکن مسلکِ اہلِ حدیث کے تعارف، اس کی حقانیت وصداقت اور اس سے اظہارِ محبت میں ترانۂ اہلِ حدیث کے نام سے جو ترانہ لکھا تھا وہ مشہورِ زمانہ ہوا اور مختلف مناسبتوں میں اسے بڑے ذوق وشوق سے پڑھا جاتا ہے، وہ یہ ہے:
ترانۂ اہلِ حدیث
صد شکر ہے کہ ہم کو، اس رنگ نے نکھارا
ہم حاملِ شریعت، توحید اپنا نعرہ
سینوں میں جل اٹھا ہے، سنت کا اک شرارہ
بجھنے نہ دیں گے ہرگز، ہر ظلم ہے گوارا
اہلِ حدیث ہیں ہم، یہ عزم ہے ہمارا
درسِ کتاب وسنت، سب کو پڑھائیں گے ہم
ایثار اور اخوت، سب کو سکھائیں گے ہم
حرفِ غلط کے مانند، بدعت مٹائیں گے ہم
جی جان سے ہے ہم کو، خدمت یہی گوارا
اہلِ حدیث ہیں ہم، یہ عزم ہے ہمارا
ہم اقتدا نبی کی، کرتے رہیں گے پیہم
تن میں ہمارے باقی، جب رہے گا یہ دم
وہ مقتدی ہمارے، وہ ہیں امامِ اعظم
قرآن سے ہے واضح، دو ٹوک یہ اشارہ
اہلِ حدیث ہیں ہم، یہ عزم ہے ہمارا
شمعِ محمدی ہے، پھونکوں سے کیا بجھے گی
اس کی محافظت تو، خود ہی ہوا کرے گی
پروانہ وار اس پر، خلقِ خدا گرے گی
کتنا حسین ہوگا، اس وقت کا نظارہ
اہلِ حدیث ہیں ہم، یہ عزم ہے ہمارا
تربت پہ اولیا کے، ہم سر نہیں جھکاتے
یا غوث کا کبھی ہم، نعرہ نہیں لگاتے
مشکل کشا کسی کو، اپنا نہیں بناتے
کافی ہے ہم کو یارو، اللہ کا سہارا
اہلِ حدیث ہیں ہم، یہ عزم ہے ہمارا
گائیں گے ہم ہمیشہ، توحید کے ترانے
آتے نہیں ہیں ہم کو، قصے نئے پرانے
پامال ہو چکے ہیں، تقلید کے فسانے
سنت کی پیروی میں، کر لیں گے ہم گزارا
اہلِ حدیث ہیں ہم، یہ عزم ہے ہمارا
آؤ پڑھیں پڑھائیں، ہم مسلم وبخاری
خود ساختہ روایت، ہوتی ہے ہم پہ بھاری
یعنی صحیح حدیثیں، لگتی ہیں ہم کو پیاری
ہوگا نہ ہم سے ہرگز، کبھی دین کو خسارہ
اہلِ حدیث ہیں ہم، یہ عزم ہے ہمارا
حبِ نبی ہمارا، دستورِ زندگی ہے
دستورِ زندگی ہے، دستورِ زندگی ہے
رخشندگی یہی ہے، تابندگی یہی ہے
طرزِ عمل ہمارا، ہے سب پہ آشکارہ
اہلِ حدیث ہیں ہم، یہ عزم ہے ہمارا
ایک تیشۂ خلیلی، رکھتے ہیں پیرہن میں
لرزہ ہے جس سے طاری، طاغوتی انجمن میں
اب کفر ہے ہمیں سے، کُلفت میں اور گھٹن میں
یوسف جمیل ہم سے، اس کا جگر ہے پارہ
اہلِ حدیث ہیں ہم، یہ عزم ہے ہمارا
اہلِ حدیث ہیں ہم، یہ عزم ہے ہمارا
سنہ 2020ء میں کورونا وائرس کی آزمائش کے دوران پانچ ماہ کی قلیل مدت میں میرے سسرال کے تین عظیم انسان اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے:
(1)پہلے مولانا یوسف جمیل جامعی صاحب 6/ رمضان المبارک 1441ھ مطابق 30 / اپریل 2020ء کو وفات پاگئے۔
(2) دوسرے آپ کے بڑے داماد مولانا محمد اسلم جامعی صاحب رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ ہیں، جو عید الاضحیٰ کے آٹھ دن بعد 12/ اگست 2020ء کو وفات پائے، آپ بھی جامعہ محمدیہ عربیہ رائیدرگ سے فارغ التحصیل تھے، کولہاپور مہاراشٹرا میں امامت و خطابت کے فرائض کی انجام دہی کے ساتھ نیک نام تاجر کی حیثیت سے مشہور تھے، دیندار اور خدمتِ اسلام کے جذبے سے معمور عالمِ دین تھے، سنا ہے کہ بڑے مہمان نواز تھے اور آپ کا گھر بڑے بڑے علماءِ کرام کا مہمان خانہ رہا ہے، مجھ سے اچھے تعلقات تھے، جمعیت اہلِ حدیث مہاراشٹر کے امیر منتخب ہوئے تھے، دلجمعی سے خدمت کر رہے تھے کہ وقتِ موعود آ پہنچا۔
اللہ تعالی آپ کی تمام دینی خدمات کو قبول فرمائے اور اجرِ عظیم سے نوازے۔ آپ کے تین فرزندان میں سے ایک فرزند محمد طاہر عمری ہیں جو عوام و خواص میں نواسۂ جمیل کے نام سے مشہور ہیں، ان دنوں جمعیت اہلِ حدیث تلنگانہ کے صدر دفتر حیدرآباد میں خدمت کر رہے ہیں، اللہ تعالی بیٹے کو اپنے باپ کا صحیح جانشین بنائے اور دین کی مزید خدمات انجام دینے کی توفیق عطا کرے۔
(3)تیسرے میرے بڑے نسبتی برادر سید عطاء اللہ بن سید ثناء اللہ رحمہ اللہ ہیں ، میری اہلیہ کے بڑے بھائی ہیں، حرمِ مکی میں A/C شعبہ کی انچارج کمپنی Aal Salim Johnson Controls میں بڑے عہدے پر فائز تھے، حرمین شریفین، طائف اور نجران جیسے چار بڑے شہروں کے برانچ منیجر تھے، پچھلے چھ سات سالوں سے اہل و عیال اور والدہ کے ساتھ مکۃ المکرمۃ میں مقیم تھے۔ بااخلاق، ملنسار، مہمان نواز و سخی، ہر دلعزیز، با ہمت ، زمانے کی اونچ نیچ سے مقابلہ کی ہمت رکھنے والے اور مضبوط انسان تھے، حج و عمرہ پر آنے والے اپنے خاندان کے تمام افراد کی خوب خدمت کرتے تھے اور موسمِ حج میں اپنے فرزند عبدالرحمن کے ساتھ حجاج کی رہنمائی کے فرائض بھی انجام دیتے تھے، خدمتِ خلق کے جذبے سے معمور تھے، حدیث رسولﷺ: “خير الناس أنفعهم للناس” کے سچے پیکر تھے، ہندوستان سے وقتاً فوقتاً ضرورت مند بے روزگار نوجوانوں کو اپنی کمپنی میں نوکری دلایا کرتے تھے، اللہ تعالی نے انھیں دو بیٹے عبد الرحمن ، عبد اللہ اور ایک بیٹی خولہ عطا کیا تھا ، تینوں ہی اولاد بڑی پیاری ، قابل اور ذہین ہیں، اللہ تعالی ان بچوں کو باپ کی طرح قابل اور نیک نام بنائے۔
عطاء اللہ مرحوم نے اپنی وفات سے قبل ایک کام یہ کیا کہ اپنے بڑے خالو مولانا یوسف جمیل صاحب رحمہ اللہ کے نام پر ماہِ شوال 1441ھ میں اپنے ننھیال کے چھوٹے بچے اور بچیوں کے درمیان قرآنِ مجید کی مخصوص سورتوں کے حفظ و تجوید کا مسابقہ اپنے خرچ پر منعقد کیا ، جس میں مجھ سمیت تین چار اور اہلِ علم کو حکم اور جج کی حیثیت سے متعین کیا گیا ، مسابقہ کے اختتام پر تما م مشارکین میں انھوں نے اپنی جیبِ خاص سے قیمتی انعامات نقد اور اسکولی بستہ کی شکل میں تقسیم کیا، جس کی ایک نشانی میرے گھر میں بھی موجود ہے۔
خدمتِ خلق کے جذبہ سے معمور تھے۔ خود کی پرواہ کیے بغیر اپنی کمپنی کے کورونا وائرس سے متاثر بیماروں کی خدمت میں ایسے جٹے کہ ماہِ اگست کے وسط میں خود بھی کوویڈ 19 سے متاثر ہوگئے، آخری ایام اپنی والدہ محترمہ کے ہمراہ اکیلے گھر پر گزارے ، آخر کار اپنے عنفوانِ شباب میں عمر کی 40 بہاریں دیکھ کر بروزِ جمعہ بتاریخ 3/ ستمبر 2020ء سعودی عرب کے وقت کے مطابق رات 10:30 بجے انتقال کر گئے، مقبرہ الشہداء مکۃ المکرمۃ میں تدفین عمل میں آئی، وفات سے پہلے مخلصانہ خدمتِ قرآن مجید اور بروزِ جمعہ وفات یہ دو چیزیں ان کے حسنِ خاتمہ کی علامت ہیں۔ اللهم اغفر له وارحمه وأسكنه فسيح جناتك جنات النعيم
پھول تو دو دن ، بہارِ جانفزا دکھلا گئے حسرت ان غنچوں پہ ہے، جو بن کھلے مر جھا گئے
اللہ تعالی انھیں جنت الفردوس اور اعلی علیین میں مقام عطا کرے۔ اللہ تعالی ہم تمام کو دینِ خالص، عملِ صالح اور صحت و عافیت کے ساتھ اپنی دنیا و آخرت سنوار نے کی توفیق عطا فرمائے، ایمان پر ہمارا خاتمہ کرے۔
اللهم إنا نسألك العفو والعافية في الدنيا والآخرة، وصلى الله وسلم على نبينا محمد، وعلى آله وصحبه أجمعين
آپ کے تبصرے