ثلاثةٌ تُشرِقُ الدُّنيا بِبَهْجَتِها

ابوالمیزان منظرنما

کوئی حسن ظن انتہائی خوشگوار حقیقت میں تبدیل ہوجائے تو صرف حیرت ہی نہیں ہوتی، بڑی مسرت بھی ہوتی ہے۔ وہ گھڑی بھی ایسی تھی کہ آنسو چھلک پڑے، خوشی کے آنسو۔حقیقت کے مشاہدے میں ذرا سا وقت گزرا تھا کہ اس کوالٹی کی تصدیق بھی ہوگئی جس کے بغیر کوئی تعلق نہیں سنبھلتا۔

پیچھے مڑکر دیکھوں تو اب تک گزری ہوئی زندگی دو حصوں میں بٹی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ دوسرے حصے میں جتنا بھی خیر نظر آتا ہے سب اسی علم دین کی برکت کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے جس کے حصول میں پہلا حصہ گزرا ہے۔

لکھنے پڑھنے کا جو ذوق اللہ کی طرف سے ودیعت ہوا ہے اس کو پروان چڑھانے میں والدین، اساتذہ، ساتھیوں اور علم دوستوں نے بڑی مدد کی ہے، وہ مزید خیر کا باعث بنا ہے۔

مدینہ میں دکتور علی العوفی /حفظہ اللہ کے گھر بیٹھا ہوا میں یہی سوچ رہا تھا کہ دنیا میں جس نے مسافتیں بنائی ہیں اسی نے وسائل بھی پیدا کیے ہیں۔دوریاں ایسے سمٹ جاتی ہیں کہ حساب میں آتی ہیں نہ کتاب میں۔

جامعہ رحمانیہ کاندیولی کا معادلہ نہیں تھا اس لیے جامعہ عالیہ عربیہ مئوناتھ بھنجن جانا پڑا۔عالمیت کی سند ملی، شیخ الجامعہ مولانا شریف اللہ سلفی صاحب کی تصدیق کے ساتھ ملی۔ دوسری تصدیق استاذ محترم شیخ محمد وسیم ازہری صاحب نے لکھ دی اور تیسری ایک درخواست پر بذریعہ ڈاک ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری /رحمہ اللہ نے لکھ کر بھیج دی۔ بات اس سے آگے نہیں بڑھی کبھی۔ ۲۰۰۴ کی یہ بات پہلے بھی کئی بار یاد آئی ہے مگر ۲۰۲۴ میں بہت یاد آئی جب مدینہ میں دکتورعلی العوفی/ حفظہ اللہ کے سامنے بیٹھنا نصیب ہوا۔

دکتور علی العوفی کا تخصص بلاغہ ہے۔ بہت ہی کریم اور انتہائی فیاض شخصیت ہیں۔بہت مالدار ہیں۔جتنے مالدار ہیں اتنے ہی کریم۔ وہیل چیئر پر تھے پھر بھی اس قدر عزت افزائی کی کہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔جامعہ اسلامیہ مدینہ کے کلیۃ اللغہ العربیہ میں قسم الادب والبلاغہ کے دو ٹرم رئیس رہے۔حسن خلق میں پورے کلیہ میں ان کی مثال دی جاتی ہے۔

اپنے ایک شاگرد سے دکتور علی نے ایسے ملاقات کی اور اس طرح چہک چہک کر بارہ بجے رات تک بات کرتے رہے جیسے وہ شاگرد نہیں ان کا سب سے عزیز بیٹا ہو اور کہیں دور دراز سے ملاقات کے لیے آیا ہو۔چار سوکلومیٹر کم بھی تو نہیں ہوتے، ڈرائیوکرکے اپنے استاذ کی عیادت اور زیارت کو آنا نارمل بات نہیں ہے۔

اسی بات پر دکتور علی کو جامعہ کے ایک پروفیسر کا سنایا ہوا قصہ یاد آگیا۔

پروفیسر جامعہ سے پڑھاکر نکل رہے تھے تو گیٹ پر ایک طالب علم کو دیکھا، رکے، پوچھا تو پتہ چلا وہ حرم جارہا ہے۔ جامعہ کے طلباء عموما عصر بعد حرم جاتے ہیں۔راستے میں انھوں نے دریافت کیا: تم ظہر کی نماز پڑھنے حرم کیوں جارہے ہو؟

علم چاہے جتنا زیادہ ہو، صلاحیت چاہے جتنی یگانہ ہو، تدریس کا طریقہ چاہے جتنا اچھا ہو، اعلیٰ اخلاق کے بغیر طلباء کے دلوں پر ایسا اثر ممکن نہیں ہے۔ ایسا سفر بھی ممکن نہیں ہے۔ سفر چاہے استاذ کی عیادت کے لیے چار سو کلومیٹر ڈرائیو کرنا ہو، چاہے کلاس چھوٹتے ہی ظہر کی نماز کے لیے حرم جانا۔

طالب علم نے جواب دیا: میرے ایک استاذ دکتور علی العوفی / حفظہ اللہ بیمارہیں، ان کی شفایابی کی دعا کرنے حرم جارہا ہوں۔

شاگرد نے مدینہ پہنچ کران کی عیادت کا ارادہ ظاہر کیا تو کار بھیج دی، ہوٹل سے پک اپ بھی کروایا اور ڈراپ بھی۔

ان کے گھر کے دونوں طرف سڑکیں ہیں، ایک طرف سے کوئی ریزارٹ اور دوسری طرف سے محل لگتا ہے۔ علم اور مال کے ساتھ اخلاق عالیہ سے مزین ایسی شخصیت کی زیارت پہلی صدی ہجری میں پہنچا دیتی ہے۔

کچھ دنوں پہلے کسی کام سے جارہے تھے۔ راستے میں ایک سوڈانی پیدل چلتا ہوا نظر آیا۔ ڈرائیور سے کہا گاڑی روکو اور اسے بٹھالو۔ تقریبا بارہ کلومیٹر دور سوڈانی کو اس کے گھر چھوڑا، پھر اپنے کام کی طرف پلٹے۔ دوسرے دن کچھ تحائف اور ایک اچھی رقم دے کر اپنے ڈرائیور کو اس کے گھر بھیجا۔

ڈرائیور کی عمر پینتیس سال ہوگی۔ اس نے بتایا ایسے کئی واقعات ہیں۔ میں نے اتنا اچھا آدمی نہیں دیکھا۔ انھیں اپنے لیے جب بھی کچھ لینا ہوتا ہے تو سب سے پہلے مجھے دلاتے ہیں پھر خود لیتے ہیں۔

قہوہ اور چائے سے لے کر البیک کے مختلف الانواع شاندار ڈنر تک اتنی خوش طبعی سے باتیں کرتے اور سنتے رہے محسوس نہیں ہورہا تھا کہ سامنے بیٹھا ہوا انتہائی متواضع انسان وہیل چیئر پر ہے۔ چہرے پر بکھری ہوئی مسکان کے ساتھ کچھ جھریاں بھی جھلک رہی تھیں مگر کسی اینگل سے بھر پور زندگی کا اہتمام کم نہیں معلوم ہوتا تھا۔ جامعہ کی یادیں، تعلیم کی باتیں، تلامذہ کا تذکرہ اور اولاد کے حالات تقریبازندگی کے ہر رنگ پر روشنی پڑتی رہی اور آدھی رات کب نکل گئی اندازہ نہیں ہوا۔

جامعہ اسلامیہ کی زیارت تو ۲۰۲۰ میں ہی ہوگئی تھی۔ ہاسٹل، مسجد، لائبریری ہر جگہ جامعہ کو محسوس کرنے کا موقعہ مل گیا تھا مگر اساتذہ جامعہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کا شرف باقی تھا۔ جامعہ کا کلاس روم نہیں ملا، استاذ کے گھر پر خصوصی مجلس میں استفادے کی توفیق مل گئی۔ یہ نعمت کسی کیلکولیشن میں بیٹھ نہیں سکتی تھی، قسمت میں لکھی ہوئی تھی اور اسباب ایسے بنے کہ بنیادی سبب کا جتنا شکریہ ادا کیا جائے کم ہے۔

۱۹؍دسمبر ۲۰۲۴جمعرات کی یہ رات زیارت مدینہ کا ایک اہم باب بن گئی۔ اگلے دن جمعہ بعد دکتور مبارک الحبیشی کی زیارت تھی۔

دکتور مبارک ایک سنجیدہ، باوقار اور ذی علم شخصیت ہیں۔ علم دوست اور اچھے طلبہ کی قدر کرنے والے۔ کچھ ہی دنوں پہلے دل کا آپریشن ہوا تھا پھر بھی بڑی عزت افزائی کی۔ جامعہ اسلامیہ کے کلیۃ اللغہ العربیہ میں قسم الادب والبلاغہ کے دو ٹرم رئیس رہے۔ بلاغہ ان کا تخصص ہے مگر شرعی امور کی پاسداری اور عمل میں اس کی جھلک واضح ہے۔ مندی اتنی لذیذ تھی کہ ان کے شاگرد سے رہا نہ گیا۔ کہا تو دکتور کے جواب نے چونکا دیا۔

علم میں ایسا شعور، استدلال میں ایسا ظہور اور استفادے میں ایسا سرور خال خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ دکتور نے کہا دراصل یہ اس ایمان کی مٹھاس اور اس یقین کا ذائقہ ہے جو ہمارے درمیان مشترک ہے، یہی ہماری اس مجلس اور ملاقات کے خوشگوار ہونے کی بنیاد ہے۔ بات بات پر نصوص کے حوالے، ہر نعمت کے ذکر پر شکر الہٰی، بات کے شروع، درمیان اور آخر میں دعائیں، یاد ہی نہیں رہا تھا کہ بلاغہ ان کا تخصص ہے۔

ایکسٹیریئر سے لے کر انٹیریئر تک دکتور کا ذوق ہر ذرے پر نقش تھا۔ گھر کی ہر ایک چھوٹی بڑی چیز کا رنگ یکساں تھا، ایک ہی کلر کے بے شمار شیڈ اور ہر طرف۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے تمنا کی گئی اور پھر ہر چیز ان کی خواہش کے مطابق بنادی گئی ہو۔ تصور کرنا ناممکن ہورہا تھا کہ بازار سے مختلف اشیاء خرید کر کوئی انسان اپنے گھر میں اس طرح کیسے سجاسکتا ہے۔ مانو گھر نہیں کوئی ایچ ڈی امیج ہو جو کمپیوٹر سے بنائی گئی ہو۔ صوفے، دروازے، ٹیبل، کرسیاں، پردے، دسترخوان، پاپوش ہر ایک چیز جس طرف بھی نظر جائے ایک ہی رنگ کے مختلف ڈارک اور لائٹ شیڈ کا ایسا اہتمام کہ تصور تھک جائے امکانیات کے جنگل میں دماغ بھٹک جائے اس کھوج میں کہ آخر ایسا کیسے ہوا ہوگا۔ کیا کیا کہاں کہاں تلاشا یا کیسے کیسے بنوایا ہوگا؟

دسترخوان لگنے کی اطلاع دی گئی تو ہاتھ دھونے کی غرض سے مہمان خانے سے متصل واش بیسن کی طرف جانا ہوا۔ ہینڈ واش کی تین الگ الگ باٹل، ٹیشو باکس، صابن کیس اور ڈسٹ بن پر نظر پڑی تو ان کے کلر اور مٹیریل کی یکسانیت دیکھ کر عش عش کر اٹھا۔ شاگرد نے انٹیریئر پر کچھ تحسین آمیز جملے کہے مگر جواب دیا نہ توجہ۔ موضوع ایسے تبدیل کیا کہ سکتے کا احساس ہوا نہ قطع کلام کا۔

یہ دوسرے استاد تھے، دونوں ایسے مل رہے تھے جیسے اپنے شاگرد سے نہیں سب سے عزیز بیٹے سے مل رہے ہوں۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا چیز مشترک ہے جو اتنی گہرائی تک ہے۔ صرف استاد اور شاگرد کا رشتہ نہیں ہوسکتا، ایک ہی تخصص بھی نہیں ہوسکتا، پرانی یادیں بھی نہیں ہوسکتیں وہ تو ہر شاگرد کے ساتھ ہوتی ہیں یا کم از کم تمام ذہین شاگردوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ کچھ تو الگ محسوس ہورہا تھا مگر اس علاحدہ احساس تک پہنچنے کا سرا نہیں مل رہا تھا۔

کھانے کے بعد عصر کی باجماعت نماز ادا کی گئی۔ کھانے کے دوران ہی اذان اور نماز ہوچکی تھی۔ نماز سے فارغ ہوتے ہی ایک واقعہ ہوا جس نے استاد اور شاگرد کے اس انوکھے رشتے کی گتھی سلجھادی۔

تیسرے استاد سے ملاقات عشاء کے فورا بعد تھی۔ ایک ایمرجنسی صورت حال کی وجہ سے صرف میں نہیں جاسکا۔ خبر ملی کہ مجلس قائم ہوئی اور دیر رات تک چلی۔ بڑی ایمان افروز بیٹھک تھی۔ اس محرومی کا احساس اتنا شدید تھا کہ جو ہوا اس پر دل مطمئن نہیں ہورہا تھا۔ اس مجلس میں غیر حاضری تقدیر کا حصہ بن چکی تھی مگر ایسا لگ رہا تھا جیسے ایک اہم سبجیکٹ چھوٹ گیا، ایک ناقابل تعویض کلاس مس ہوگئی اور یہ بات بہت بے چین کررہی تھی۔ اگلے دن سنیچر ۲۱؍دسمبر۲۰۲۴کو صبح یہ خوشخبری ملی کہ دکتور عبد الخالق الزہرانی /حفظہ اللہ نے عصر بعد پھر بلایا ہے۔

دکتور انتہائی نفیس اور نستعلیق شخصیت کے مالک ہیں۔باوقار، ذی علم اور انتہائی سنجیدہ۔جامعہ اسلامیہ میں کلیۃ اللغہ کے استاذ تھے۔ اب ریٹائر ہوچکے ہیں۔عربی نقد ان کا تخصص ہے۔ اپنے تخصص پر اس قدر ہولڈ ان کے زمانے میں کلیہ میں کسی کو نہیں تھا۔ قدیم وجدید نقد پر اس قدر دسترس کہ جیسے علم کا دریا بہتا ہو۔پڑھاتے تو معلومات نقش کردیتے۔ ادبی ونقدی مباحث پڑھاتے وقت اسلامی اقدار کی حفاظت اور شرعی اصول وضوابط کی پاسداری، ان کا دفاع اور شرعی اصولوں پر ادب کی تدریس میں وہ بے نظیر استاذ تھے۔ علمی بورڈ (جامعہ اسلامیہ) کے جنرل سکریٹری رہے۔ ایک ٹرم کلیۃ اللغہ کے عمید بھی رہے۔ پھر معذرت کرلی۔

یہاں بھی وہی پرتپاک استقبال، وہی محبت، وہی توجہ جیسے استاد کسی ممتاز شاگرد سے نہیں بلکہ اپنے سب سے پیارے بیٹے سے مل رہا ہو۔ باتیں ایسی جیسے زمانے بعد ہورہی ہوں۔ حالانکہ سنا گیا رات کی مجلس بڑی لمبی تھی، جب تک آنکھیں نڈھال نہیں ہوگئیں چھٹی نہیں ملی تھی۔

باتیں بھی کیسی؟ ویسی نہیں جیسی ہمارے یہاں لوگ کرتے ہیں، ادب کے نام پر شرم کی ہر حد پار کرجاتے ہیں، جو چھپانا چاہیے اسے کھول دیتے ہیں، جو ڈھکنا چاہیے اسے چوراہے پر لاکر پھوڑ دیتے ہیں۔ بے حیائی اور فحاشی کی آخری حد کو زبان اور قلم سے کرید کرید کر منظر عام پر ایسا لاتے ہیں جیسے ادیب نہیں مکھی ہوں، ادب نہیں گندگی ہو۔ سستی شہرت کی ہوس کو کرب ناآسودگی بننے میں دیر نہیں لگتی، یہی لوگ ادب کے نام پر اپنے قلم سے ہر گندگی کھودنے کا کام کرتے ہیں۔

دکتور عبدالخالق صاحب ایسی باتیں کررہے تھے جیسے عربی نقد میں نہیں شریعہ کے کسی سبجیکٹ میں پی ایچ ڈی کی ہو۔ ان کے سلوک سے یہ اندازہ کرنا مشکل تھا کہ شاگرد سے کل رات ہی ملاقات ہوئی اور ڈھیر ساری باتیں ہوئی تھیں۔ لہجے اور باڈی لینگویج سے گرمجوشی محسوس ہورہی تھی۔ دکتور کے چہرے پر جو چمک تھی وہ ہر مرض کی دوا معلوم ہورہی تھی۔ ایک مہینے سے زیادہ وقفہ گزرچکا ہے مگر ایک سیکنڈ میں وہ احساس تازہ ہوجاتا ہے۔

تینوں اساتذہ کے اپنے شاگرد سے تعامل میں جو خاص بات محسوس ہورہی تھی مگر گرفت میں نہیں آرہی تھی وہ دکتور مبارک کے یہاں عصر بعد نظر آئی۔

دوران نماز ہی مجھے سامنے قالین پر تین چاول نظر آگئے تھے، جو دسترخوان اٹھاتے وقت گرگئے ہوں گے۔ اتنی نفیس شخصیت کے گھر اتنی خوبصورت قالین پر وہ تین چھوٹے چاول بڑے بڑے دھبے معلوم ہورہے تھے۔ نظر پڑتے ہی خیال آگیا تھا کہ سلام پھیرنے کے بعد تینوں چاول اٹھاؤں گا اور واش بیسن کے پاس ڈسٹ بن میں پھینک کر آؤں گا۔ مگر مجھے یہ کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔ سلام پھیرتے ساتھ ہی دکتور وسیم المحمدی صاحب نے وہ تینوں چاول اٹھائے اور کھالیا۔ میری آنکھوں سے فورا آنسو چھلک پڑے، خوشی کے آنسو۔ اور تینوں اساتذہ کے اپنے اس دکتور شاگرد سے بیٹے جیسی انتہائی محبت کا راز بھی سمجھ میں آنے لگا، جو چار سو کلومیٹر ڈرائیو کرکے اپنے ان عظیم مربیوں کی عیادت و زیارت کے لیے آیا تھا۔

وہاں سے رخصت ہوتے ہوئے جب دکتور وسیم صاحب نے کہا کہ اصل آپ کی عیادت مقصود تھی تو دکتور مبارک/حفظہ اللہ نے جو بات کہی اس سے پوری گتھی سلجھ گئی۔

محبت جتنی ماترا میں ہوتی ہے نظر آتی ہے، شفقت جس لیول کی ہوتی ہے محسوس ہوتی ہے، احترام کے آثار بھی کھلی آنکھوں سے دکھائی دیتے ہیں، مدینہ جیسے شہر میں اعلیٰ علمی مناصب پر فائز رہ چکے اصحاب ثروت اساتذہ کے رویوں میں اپنے شاگرد سے ایسا لگاؤ تب تک ہی معمہ رہا جب تک دکتور مبارک کے یہاں سے رخصت نہیں ہوئے تھے۔

جیسے ہی انھوں نے کہا: وسیم! تمھارے اندر جو پاس وفا ہے وہ دوسروں میں تقریبا معدوم نظر آتا ہے، تب جاکر اس علاحدہ احساس کا سرا ملا جو تینوں اساتذہ کے اپنے شاگرد کے ساتھ عزیز بیٹے جیسے سلوک کا اصل سبب تھا۔

آپ کے تبصرے

3000