مجاز اعظمی(۱۹۲۹-۲۰۱۱ء) ترے فراق سے ہے دیدۂ چمن نمناک

ابو تحریر تاریخ و سیرت

۲۴؍دسمبر کی کہر آلود صبح تھی، اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور راشد اخلاق نے یہ خبر دی کہ مجاز صاحب کا انتقال ہو گیا ہے، زبان سے انا للہ و انا الیہ راجعون نکلا اور ان کے لیے دعائے مغفرت اور بلندیٔ درجات کے کلمات۔ خبر انہونی نہیں تھی کیوں کہ ان کی عمر اوربیماری کا سلسلہ اتنا طویل تھا کہ ہر دم یہ کھٹکا لگا رہتا تھا، لیکن جب تقدیر نے اپنا فیصلہ سنایا تو میں حیرت و حسرت سے درودیوار کو تکتا رہ گیا کہ ’’شہر ناپرساں میں تیری چشم تر دیکھے گا کون‘‘۔ ذہن کے پردے پرگزشتہ دو دہائی سے زیادہ مدت کے واقعات رقص کرنے لگے۔ جامعہ عالیہ عربیہ میں پرائمری، منشی اور عربی کی تعلیم کے دوران کلاس فیلو اور اساتذہ سے وابستہ کہانیاں۔ کاغذ، کاپی اور کتابوں کے بیچ بیتے ہوئے مہ و سال، شوخی و شرارت اور آفس میں طلبی پر مجاز صاحب کی ہدایت، نصیحت اور کبھی کبھی تنبیہ، انجمن ’تہذیب البیان‘ کی سرگرمیاں، تقریری اور تحریری مقابلے اور اس کے لیے گھنٹوں مجاز صاحب کے دفتر میں حاضری، کبھی ابتدائیہ لکھنے کی ضد اور کبھی کچھ عمدہ قسم کے اشعار کی فرمائش جن کو تقریر یا مقالے میں استعمال کر کے میدان مارا جا سکے۔ انجمن کے سالانہ مجلہ ’’تہذیب‘‘ کی تیاری و ترتیب کے لیے مجاز صاحب کے سامنے معصوم تمناؤں کا اظہا ر، سچ پوچھیے توان کے بغیر ’’تہذیب‘‘ کا تصور ذر ادھورا ادھورا لگتا ہے۔ آئیے ذرا اس نابغۂ عصر کے ذکر خیر میں کچھ لمحے بسر کیے جائیں تاکہ دماغ کو تازگی اور دل کو سرور ملے۔

جامعہ عالیہ عربیہ، مئو کی پرانی عمارت (جہاں اس وقت مدرسہ عالیہ نسواں قائم ہے) کے مین گیٹ سے داخل ہوتے ہی بائیں جانب پہلے ہی کمرے کے دروازے پر ’’دفتر‘‘ کی نیم پلیٹ لگی ہوتی تھی، جس کے داہنے گوشے میں ڈیسک پر نئی پرانی فائلوں کے بیچ جھکے ہوئے اور چھوٹے چھوٹے حروف میں کچھ لکھتے ہوئے ایک شخص نہیں بلکہ ایک شخصیت پر نظر پڑتی تھی۔ سفید کرتا پاجامہ اور کلاہ زیب تن کیے ہوئے، موسم سرما میں زمستانی ہوا سے بچنے کے لیے سیاہ رنگ کا اوور کوٹ اور اسی رنگ کی ٹوپی، کام میں محو اور منہمک، آنے جانے والے کی گفتار اور رفتار سے بظاہر بے پروا لیکن باخبر۔ وقفے وقفے سے کمرے کا جائزہ لیتے اور پھر کام میں مصروف۔ دفتر کیاتھا، مدرسے کا پورا نظام یہیں سے چلتا تھا، مطبخ میں کیا بنے گا اور آج کس لڑکے کا کھانا بند ہوگا۔ دارالاقامہ، طلبہ اور اساتذہ کی چھٹی کے مسائل کے ہمراہ شہر میں مختلف مقامات پر ہورہے تعمیراتی کاموں کی خیر خبر، ناظم، اراکین، ہمدردان جامعہ اور مہمانوں کے قافلے آتے جاتے تھے، حساب کتاب کی بات ہوتی تھی، کبھی کبھی ذمے داران اور ملازمین کے درمیان نوک جھونک اور بحث و تکرار سے بھی شاید ان کے کام میں خلل نہیں پڑتا تھا۔ نام کیا تھا، نہیں معلوم، لیکن لوگ ان کو نگراں صاحب کہتے تھے۔ اسی کی دہائی میں نانا مرحوم حاجی محمد یاسین نے میرا بھی داخلہ اسی ادارے میں کرا دیا تھا۔ جس کی وجہ سے روزانہ ان کو دیکھنے کا موقع ملتا تھا۔ وقت ہوا کے دوش پر اڑتا رہا اور میں بھی علم نہیں، درجے میں آگے بڑھتا رہا اور نہ جانے کب نگراں صاحب ہمارے لیے مجاز صاحب ہوگئے اور بہت بعد میں یہ پتہ چلا کہ یہی مولانا ابوالاسرار عبدالحکیم مجاز اعظمی رحمانی ہیں۔ گفتار دلبرانہ اور کردار قاہرانہ کے پیکر، اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصدجلیل کا نمونہ۔

مجاز صاحب کا خاندانی پس منظر علمی تھا، ان کے والد کا نام عبدالاحد تھا۔ ان کے اجدا دمیں ایک مولانا محمد سعید صاحب گزرے ہیں جو میاں صاحب کے شاگرد تھے۔ مجاز صاحب نوآبادیاتی عہد میں مئو کے ایک بنکر گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی پیدائش (تعلیمی کاغذات کے مطابق) ۱۹۲۹ء ہے۔ شہر کی روایتی صنعت پارچہ بافی سے ان کا بھی تعلق تھا اور کافی دنوں تک ان کے ہاتھوں نے کرگھے پر ساڑیاں تیارکی تھیں اور جب اسی ہاتھ میں قلم پکڑا تو ایسے ایسے شہپارے وجود میں آئے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کی تحریروں کی یاد تازہ ہوگئی۔ مجاز صاحب کی ابتدائی تعلیم جامعہ عالیہ میں ہوئی تھی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے ۱۹۴۲ء میں دہلی کا رخ کیا۔ اس وقت تحریک آزادی آخری مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ گاندھی جی نے ’’بھارت چھوڑو‘‘ کا نعرہ دیاتو مجاز صاحب مئو چھوڑ کر انگریزوں کے مرکز اقتدار، دہلی چلے گئے اور ان کا پڑاؤ تھا، دارالحدیث رحمانیہ، جی ہاں، وہی رحمانیہ جہاں اپنے وقت کے بہترین اذہان اکٹھا ہوگئے تھے اور عاملین کتاب وسنت کی ایسی مقدس اور معتبر جماعت تیار کی جس نے جدید ہندستان میں دینی تعلیم وتربیت کے نظام کو آکسیجن عطا کیا۔ داخلے کے لیے مئو کے اس طالب علم کا امتحان علامہ عبیداللہ رحمانی، صاحب مرعاۃ المفاتیح نے اپنے وطن مبارک پور میں لیا تھا اور داخلے کی خوش خبری کے ساتھ دعاؤں کاتحفہ بھی دیا تھا، جس نے عبد الحکیم کو مجاز اعظمی بنادیا۔ ان کے ہم عصروں میں نہ جانے کتنوں کے ماں باپ نے اپنے دلاروں کا یہی نام رکھا تھا، لیکن مجاز اعظمی بننا سب کی قسمت میں نہیں تھا۔ تیسری جماعت میں داخلہ ہوا اور ہماری جدید قومی تاریخ کے ایک اہم سال ۱۹۴۷ء میں فارغ ہوئے۔ فراغت ہوئی تو گاندھی جی انگریزوں کو بھارت سے بھگانے میں کامیاب ہوچکے تھے اور مجاز صاحب (جو اب مولانا عبد الحکیم رحمانی ہوچکے تھے) نے بھی دہلی کو خیرباد کہہ کر وطن کی راہ لی کیونکہ اب دہلی کی فضاؤں میں شگوفے نہیں شعلے برس رہے تھے۔

مجاز صاحب کی تعلیم اور فکر کی تشکیل میں دارالحدیث رحمانیہ کا کردار کافی اہم ہے۔ اس کی پاکیزہ اور علم و عمل سے بھر پور فضا میں انھوں نے مستقبل کی زندگی کا خاکہ بنایا اور کچھ تجربات بھی حاصل کیے۔ ان کی مضمون نگاری کا سلسلہ یہیں سے شروع ہوا، وہ کئی سال تک طلبہ کی انجمن کے ناظم رہے۔ پہلا مضمون یہیں کے رسالہ ’’محدث‘‘ کے لیے لکھا جس پر علامہ نذیر احمد رحمانی نے حوصلہ افزائی کی اور مستقل لکھنے کا مشورہ دیا او ر اگلے بیس سال تک ان کا اشہب قلم پوری رفتار اور روانی سے دوڑتا رہا اور علمی دنیا سے خراج تحسین حاصل کرتا رہا، بعد میں رفتار کافی سست ہوگئی لیکن رعنائی نگارش برقرار رہی۔ مجاز صاحب رحمانیہ کے آخری فارغین میں سے تھے، تقسیم ہند کے نتیجے میں اس ادارے پر خزاں کا ایساموسم آیا کہ یہ پھر بہار نہ دیکھ سکا۔ مجاز صاحب نے شیخ الحدیث عبیداللہ رحمانی مبارک پوری اورعلامہ نذیر احمد رحمانی سے حدیث کی کتابیں پڑھیں۔ مولانا عبیدالرحمان طالب مبارکپوری، مولانا عبد الجلیل رحمانی، مولانا اصحاب الدین پشاوری، مولانا محمد بشیر مبارک پوری، مولانا عبدالصمد حسین آبادی، اور مولانا عبدالحلیم پشاوری بھی ان کے اساتذہ میں سے ہیں۔ مجاز صاحب، شیخ الحدیث مبارک پوری سے زیادہ متاثر تھے اور ان کی علمی جلالت اور پاکیزہ نفسی کا کثرت سے ذکر کیا کرتے تھے اوراستاذ بھی شفقت فرماتے تھے۔ انھوں نے شیخ الحدیث کی وفات پر دو نظمیں لکھی تھیں جن میں استاذ محترم کی غزارت علمی اورصدق و صفا سے عبارت زندگی کا نقشہ اچھے انداز میں کھینچا تھا۔

مجاز صاحب نے دہلی میں طالب علمی کے دوران ہی پنجاب یونیورسٹی سے مولوی و فاضل کا امتحان بھی پاس کرلیا تھا اور ۱۹۴۶ء میں بھوپال تشریف لے گئے اورعلامہ خلیل عرب سے بھی استفادہ کیا۔ وہیں پران کی ملاقات علامہ سید سلیمان ندوی سے ہوئی تھی، وہ اس ملاقات کا برابر ذکر کرتے رہتے تھے۔ میں نے مجاز صاحب کی زبانی خلیل عرب کی عربی صلاحیت اور بلاغت و معانی میں ان کے درک کی تعریف بارہا سنی ہے۔

مجاز صاحب نے ا پنی عملی زندگی کا آغاز جامعہ عالیہ سے کیا، ۴۷-۴۸ ۱۹ ء کے دوران تدریسی خدمات انجام دیں۔ ۱۹۵۰ء میں جب مولانا تقریظ احمد سہسوانی نے علامہ ثناء اللہ امرتسری مرحوم کی یاد میں مجلہ ’’اہل حدیث‘ ‘ کا اجرا کیا تو مجاز صاحب پھر ’’بانداز دگر‘‘ دہلی چلے گئے اور اسی مجلے کی مجلس ادارت سے وابستہ ہوگئے۔ اس کے بعد جب اہلحدیثان ہند نے خوابوں کی کرچیاں چن کر نئے عزم کے ساتھ جماعت کو زندہ کرنے کی کوشش کی اور ۳ ۱۹۵ء میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کا نقیب ’’ترجمان‘ ‘ منظر عام پر آیا تو کانفرنس کے صدر مولانا عبدالوہاب آروی نے مجاز صاحب کو ’’ترجمان‘‘ کی ادارت کی پیشکش کی اور ۱۹۵۸ء تک اسی سے وابستہ رہے، پھر کسی اختلاف کی وجہ سے الگ ہوگئے یا الگ کردیے گئے۔ مجاز صاحب کہا کرتے تھے کہ میں آفس سکریٹری تھا لیکن وہ سب کچھ بھی کرنا پڑتا تھا جس کے لیے لوگ چپراسی رکھتے ہیں۔ وہ ترجمان کے لیے اداریے لکھتے تھے، مضامین کی ایڈیٹنگ اورپروف ریڈنگ کے ساتھ جماعتی رپورٹ واعلان بھی تیار کرتے اور کتابوں پر تبصرے بھی لکھتے تھے۔ اس کے بعد ’’ترجمان‘‘ کو پریس سے لے کر پوسٹ کرنے تک کے سارے کام وہ خودہی کرتے تھے۔ علمی اور غیر علمی مشاغل کے اجتماع کے باوجود بھی انھوں نے اپنی ذمے داریاں سلیقے سے ادا کیں اور اس جماعتی آرگن کو معاصر دینی صحافت میں ایک اہم مقام عطا کیا اور اس بلندی تک پہنچایا جو گزشتہ نصف صدی سے زائد کے سفر میں بھی ’’ترجمان‘‘ حاصل نہیں کر سکا ہے۔

مجاز صاحب ترجمان سے علاحدگی کے بعد جماعت اسلامی کے آرگن ’’دعوت‘‘سے وابستہ ہوگئے تھے۔ اس میں مضامین کے ساتھ ’’کوہ پیما‘‘ کے عنوان سے روزانہ ایک قطعہ بھی لکھتے تھے جن میں ملک کے سیاسی حالات پر تبصرہ ہوتا تھا۔ اسی دوران آپ نے معاشرتی اور تاریخی موضوعات پر کچھ کتابیں بھی لکھیں جیسے آثار نبوت، روح نماز، اسلامی زندگی، ہدایت نامہ مسلمان بیوی، ہدایت نامہ مسلمان شوہر، خلیفۂ اسلام اول، عمر فاروق اور روحانی عورت۔ انھوں نے کچھ عربی مضامین کے اردو ترجمے بھی کیے جو ترجمان میں شائع ہوئے اور دعوت کے ایک خصوصی نمبر میں ان کا ایک مضمون ’’شاہراہ نبوت کے چند روڑے‘‘ کے عنوان سے چھپا تھا۔ انھوں نے الجمعیۃ، دہلی کے لیے بھی لکھا تھا۔ دودہائی تک مجاز صاحب نہایت وقار و تمکنت کے ساتھ علم کی خدمت کرتے رہے، اس دوران انھوں نے فراز دیکھے اور نشیب بھی، لیکن اپنی وضع داری اور عزت نفس پر کبھی آنچ نہیں آنے دی۔ بے باکی لیکن ذمے داری کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا، اسلام کے تعارف اور تبلیغ کے لیے لکھا، جماعت کے دفاع میں لکھا، دل سے لکھا، اپنے منصب کے وقار اور رحمانیہ کی تعلیم کا پاس رکھا۔ ایک لمحے کے لیے بھی مفاد و مصلحت کے نخلستانوں میں آرام کرنے کے بارے میں نہیں سوچابلکہ اصول واخلاص کے ریگستانوں میں جھلستے رہے، یہاں تک کہ پاؤں کے چھالے نے انھیں دہلی سے وطن کی جانب کوچ کرنے پر مجبور کردیا۔

مجاز صاحب مدرس تھے، شاعر اور صحافی تھے لیکن صحافت اور شاعری ہی ان کی شناخت تھی۔ جس وقت انھوں نے لکھنا شروع کیا تھا اس وقت دینی صحافت کے میدان میں عامر عثمانی، عبدالماجد دریابادی اور عثمان فارقلیط کی تحریروں کے چرچے رہتے تھے۔ بہت جلد نوجوان مجاز اعظمی نے ان کے درمیان ایک مقام بنا لیا۔دینی رسائل کی خشکی کی شکایت عام بات ہے لیکن مجاز صاحب نے خالص فقہ و فتاویٰ اور اسلامی موضوعات میں شگفتہ اور رواں تحریریں پیش کیں۔ ان کے قلم کی رعنائی اور اسلوب کی شگفتگی ہر جگہ نظر آتی ہے۔ دینی مضامین و مقالات، ادا ر یے، تعزیتی پیغامات، خطوط، اشتہارات و جنتری ہر جگہ ان کی تحریر کی خوبی اور خوبصورتی قارئین کو پرچاتی ہے۔ دو چار سطری نوٹ بھی لکھتے تھے تو لفظیات اور اسلوب و ادا سے پتہ چل جاتا تھا کہ کس کی تحریر ہے۔ بلا مبالغہ، ان کا قلم ہر جگہ ابر بہاراں بن کے برسا ہے۔

اس وقت میرے سامنے ’’ترجمان‘‘ کے کچھ بوسیدہ شمارے ہیں جن میں ’’لمعات‘‘ کے عنوان سے مجاز صاحب کی تحریریں موتی کی طرح چمک رہی ہیں اور میں ان کو پڑھ کر محظوظ ہو رہا ہوں اور سوچتا ہوں کہ ’’ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی‘‘۔ ان کے اداریے ان کی وسعت مطالعہ، تجزیاتی قوت، گہری بصیرت کی آئینہ دار ہیں۔ ان کا ہاتھ ’’نبض عصر رواں‘‘ پہ رہتا تھا۔ اداریے کے مضامین و موضوعات کے انتخاب میں وہ ’’ترجمان‘‘ کی ترجیحات کے ساتھ علمی اور عوامی ضرورتوں کو بھی دھیان میں رکھتے تھے۔ اسلامیات و تاریخ کے ٹھوس اور گہرے مطالعے، عربی، فارسی اور اردو زبان و ادب پر قابل رشک گرفت نے ان کی تحریروں کو علمیت اور شگفتگی عطا کی تھی۔ انھوں نے عقائد و عبادات کی بابت خود پیروان اسلام کی مداہنت کا نوٹس لیا، برداران وطن کی تنگ نظری اور تعصب کو آئینہ دکھایا اور ان کی اسلام مخالف حرکتوں کا پردہ چاک کیا۔ مشرق وسطیٰ میں ہو رہی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا۔ سویت یونین کی مذہب مخالف پالیسیوں، اہل مغرب کی خطرناک مادیت پرستی اورخود پڑوسی ملک کے ’’مردان با صفا‘‘ کی جذبات فروشیوں پر بھی تنقید کی۔ ایک سعودی وزیر نے جب گاندھی جی کی سمادھی پرگلہائے عقیدت پیش کیے تو ان کا قلم خاموش نہ رہ سکا اور ’’سیاسی پھول دین کے کانٹے‘‘ کے عنوان سے اداریہ لکھا۔ بقول مولانا عبد الحمید رحمانی ’’تقسیم ملک کے بعد جن معدودے چند افاضل نے جماعت اہل حدیث میں بیداری کی لہر پیدا کی ان میں آپ (مجاز اعظمی) کا نام سر فہرست ہے۔ صحافتی سطح پر عبدالماجد دریابادی سے لے کرعامر عثمانی تک، مجلہ دارالعلوم، دیو بند سے لے کر الحرم، میرٹھ تک جس کسی نے مسلک اہل حدیث، تاریخ اہل حدیث اور علمائے اہل حدیث کے خلاف قلم اٹھایا مجاز صاحب کی گرفت سے بچ نہ سکا۔‘ ‘ (التوعیۃ، نئی دہلی مارچ ۱۹۸۸ ص:۲۲)

مجاز صاحب ’’ لمعات‘‘کے عنوان سے اداریے لکھتے تھے، جو مختلف ذیلی عنوانات پر مشتمل ہواکرتے تھے۔ جی چاہتا ہے کہ چند اداریے کے عناوین پیش کروں۔ آئیے، ان کی ایک جھلک دیکھیں، اس کے بعدچند اقتباسات کی سیر کریں:

ترجمان کا سال جدید، عید کیا لائی؟مولانا مودودی اور نعرۂ جہاد (مئی ۱۹۵۶ء)

تبلیغی جماعت کدھر؟ فرشتوں کی حکومت، اکبر اعظم کی برسی، دریاباد کی خشکی، آزادی ہی آزادی(جولائی ۱۹۵۶ء)

ہر لب پہ آہ آہ ہر اک دل میں درددرد، بڑے بے آبرو ہو کر… مصر میں مذہبی اصلاحات، تحفظ ناموس رسول پر چرکے (اکتوبر ۵۶ ۱۹)

اردو میں نماز کہاں سے آئی؟ مذہب کے ذریعے انکار خدا کی آمد، تشہیر کرامات کا پس منظر، شاہ سعود کی سیاست، جرم رکتا نہیں ہے ڈالر سے (جون ۱۹۵۷)

مولانا عبد الماجد دریابادی نے اپنی کتاب ’’محمد علی ذاتی ڈائری کے چند اوراق‘‘ میں محمد علی جوہر اور عبدالقادر صاحب قصوری کے درمیان غیراللہ کی قسم کھانے کے موضوع پر اہل حدیثوں پر طنز کیا تھا۔ مجاز صاحب نے’’ دریاباد کی خشکی‘‘ کے عنوان سے ان کا علمی محاکمہ کیا تھا۔’’غیر اللہ کی قسم کھانی حرام ہے، اس پر تنبیہ کرنی اگر اہل حدیثیت ہے تو مبارک ہے لیکن اس مقدس تنبیہ پر مذاق اڑانا ہی اگر ’’تھانویت‘‘ہے تو ملت کے ہزار آنسو اس کی قسمت پر‘‘۔(ترجمان، دہلی، جولائی ۱۹۵۶ ص: ۴)

ودیا بھون، ممبئی کی جانب سے شائع ہونے والی ایک عیسائی مصنف کی کتاب ’’ریلجس لیڈرس‘‘ کا تنقیدی جائزہ اس عنوان ’’ہر لب پہ آہ آہ ہر اک دل میں درددرد‘‘سے لیا تھا۔ اس اداریے کی تمہید پڑھتے چلیں:

’’ایک بار پھر ملت اسلامیہ دردو کرب سے چیخ اٹھی ہے پتہ نہیں زندگی میں کتنی بار تڑپنا اور لوٹنا پڑے گا۔ اگر ہماری یاد غلطی نہیں کرتی تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ آزاد ہندستان کی نو سالہ زندگی میں دسواں گیارہواں حملہ ناموس رسول پر ہوا ہے۔ تیغ وتیر کے زخم کی ٹیس محدود ہوتی ہے کہ زخم کھایا اور ابدی نیند سو گئے لیکن ایک ایسا بھی زخم ہواکرتا ہے جس کو دیکھا تو نہیں جا سکتا پر دردو کرب کا عالم یہ ہوتا ہے کہ ہر لمحہ جیتے جی موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘ (ترجمان، دہلی اکتوبر ۱۹۵۶ء، ص: ۲)

’’مصر میں مذہبی اصلاحات‘‘ کے عنوان سے جمال عبدالناصر کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’مصر عربی ممالک میں سب سے زیادہ موڈرن اور مغربی تہذیب کا دلدادہ مانا جاتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ مصر میں مغربی تہذیب کو خوب خوب گلے لگایا گیا ہے، لیکن اب مصر کی آنکھیں کھل رہی ہیں کہ مغربی تہذیب نے تو مصر کو سادہ باغ بہشت سے نکال کر رنگین جہنم میں ڈال دیا تھا۔‘‘ (ترجمان، دہلی اکتوبر ۵۶ ۱۹ء، ص:۵)

مجاز صاحب نے ۱۹۵۵ء میں شاہ سعود کی ہندستان آمد پرجریدہ ترجمان کا ’’شاہ سعود نمبر‘‘ شائع کیا تھا، جس کو کافی مقبولیت حاصل ہو ئی تھی۔ ترجمان میں ’’ادارہ‘‘ کے نام سے شائع ہونے والی تحریریں بھی مجاز صاحب ہی کے قلم سے ہوا کرتی تھیں۔ وہ مضامین پر بوقت ضرورت ادارتی نوٹ بھی لگاتے تھے۔ ’’خاندان نجد کے ایک مومن کا پیغام مسلمانان عالم کے نام‘‘ مطبوعہ مضمون کا ادارتی نوٹ پڑھیے:

’’صحرائے نجد میں لیلائے توحید اور سلمائے حقانیت کے لیے جس قیس نے سر دھڑ کی بازی لگائی تھی اس کی یادگار قیس بن عامر کی طرح افسانوی رنگ میں نہیں بلکہ تخت وتاج کے ساتھ حقیقی شکل میں آج ’’حکومت سعودیہ‘‘ کے عنوان سے موجود ہے۔ اس قیس مقدس سے ہماری مراد شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب نجدی کی ذات ہے۔‘‘ (ترجمان، دہلی اکتوبر ۱۹۵۶ء، ص :۱۳(

مجاز صاحب کے اداریوں کے ساتھ ذرا ایک آدھ خطوط کی بھی کچھ عبارتیں پڑھتے چلیں۔ یہاں بھی ان کے قلم کی رعنائی اور اسلوب کی شگفتگی کی وہی دھج ہے۔ مکمل خط پیش نہ کر کے میں نے صرف اسی حصے کا انتخاب کیا ہے، جن سے مجاز صاحب کے اسلوب کی ایک جھلک سامنے آتی ہے۔ خطوط بھی ان کی عربی و فارسی ادبیات شناسی کی شہادت دے رہے ہیں۔ ذیل میں مذکور دونوں خطوط ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری کے نام ہیں اور موضوع جامعہ عالیہ عربیہ ہے۔

السلام علیکم، امید ہے کہ آپ ہر طرح بعافیت ہوں گے۔

محترم! مدرسہ سے آپ کو بڑی توقعات ہیں، یہ تسلیم ہے کہ آپ کو بعض باتوں سے صدمہ یا رنج پہنچا ہے، مگر رفع و درگذر کا یہ انداز کتنا پیارا ہے۔

وفا کنیم، ملامت کشیم، خوش باشیم

کہ در طریقت ماکافریست رنجیدن

)مجاز صاحب کا خط ازہری صاحب کے نام۱۷؍۵؍۱۹۷۹ء(

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، مزاج بخیر۔

گزارش ہے کہ آپ مدرسہ عالیہ کے لیے جوگداز قلب رکھتے ہیں اور اس کے لیے وقتاً فوقتاً جو خدمات انجام دیتے ہیں مدرسہ اس کے لیے ہمیشہ شکر گزار رہے گا۔ امسال مدرسہ عالیہ کی طرف سے چند طلباء کی درخواستیں جامعہ اسلامیہ، مدینہ جارہی ہیں۔ آپ وہاں کے مبعوث اور مزیدبرآں مدیر ہیں اگر چند سطری ایک توصیہ تحریر فرمادیں تو مدرسہ کے لیے فال نیک اور باعث کامیابی ہو۔ امید ہے کہ متنبی کے’’اذا جعل الاحسان غیر ربیب‘‘ پر خوش آیند تضمین کے لیے آپ کی عنایات فراواں ہوں گی اور مدرسہ آپ کا احسان مند ہوگا۔ (مجاز صاحب کا خط ازہری صاحب کے نام۱۹؍۴؍۱۹۸۱ء(

لگے ہاتھ ایک تعزیتی پیغام کی قرأت بھی کرلیں جو استاذ محترم ڈاکٹر رضا ء اللہ مبارکپوری کی وفات پر لکھا گیا تھا اور محدث کے خصوصی شمارے میں شامل ہے۔ مجاز صاحب کی اس تحریر کوذرا رک رک کر پڑھیے، الفاظ کے درو بست اور تراکیب کی معنویت پر غور کیجیے:

’’جامعہ عالیہ عربیہ کے ایک صدی سے جس خانوادہ کے عظیم سرپرست کے ساتھ علمی استفادے کے تعلقات رہے ہیں، آج اس کی تیسری کڑی مولانا ڈاکٹر رضاء اللہ مدنی کی جدائی ادارہ کے جملہ اراکین اور متوسلین کے لیے بڑا سوہان روح ہے۔ محد ث کبیر مولانا ابوالعلی عبد الرحمان مبارک پوری صاحب تحفۃ الاحوذی سے جامعہ کو اتنی عقیدت تھی کہ ادارہ کی پہلی روداد میں آپ کا معائنہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے اور مرور زمانہ کے بعد ان کے حفید شہیر مولانا رضاء اللہ نائب امیر مرکزی جمعیۃ اہل حدیث، ہند اور شیخ الجامعۃ السلفیۃ، بنارس نے اپنے جد امجد کی یاد علمی دنیا میں تازہ کر دی۔ افسوس ابھی پانچویں دہائی میں عمر عزیز گزر رہی تھی کہ قضائے الٰہی نے ہم سے چھین لیا۔

آسمان پر ستارے ہزاروں طلوع ہوتے ہیں اور ان کی کچھ جھلک بھی رہتی ہے لیکن ماہ تاباں کی روشنی عالم گیر ہوتی ہے۔ مولانا مرحوم ملت اسلامیہ کے لیے علمی، فکری اور ثقافتی حیثیت سے ماہ مبین کی حیثیت رکھتے تھے اور اس کی آخری منزل کی طرف رواں دواں تھے کہ دوران سفر اللہ کو پیارے ہوگئے اور آپ کی وفات بھی دین کی راہ میں سفر غربت میں ہوئی اور یہ شعر صادق آتا ہے۔

مل کے خاروں سے دشت غربت میں

آبلے پھوٹ پھوٹ کر روئے

علالت میں بھی بے چین دل نے دین کی راہ میں طویل سفر کا حوصلہ دیا اور دوران سفر مولانا رضاء اللہ ہم سے جدا ہو گئے اور رضائے الٰہی سے ہمکنار ہوئے۔ اس دردناک سانحہ پر جامعہ عالیہ عربیہ، مئو کے اراکین، اساتذہ، طلباء اور تمام متعلقین با چشم نم مجسم تعزیت ہو کر مرحوم کے لیے رفع درجات کی اور خانوادۂ مرحوم کے لیے صبر جمیل کی دعا کرتے ہیں اور ان کے نعم البدل کے لیے بھی قاضی الحاجات سے التجا کرتے ہیں۔‘‘ (محدث، بنارس، جون تا ستمبر ۲۰۰۳ء، ص:۳۲(

میں نے مجاز صاحب کی فکر انگیز تحریروں سے متعدد اقتباسات اس لیے چنے ہیں تا کہ نئی نسل کو ان کی شان اور شوکت کا اندازہ ہو اور یہ بھی معلوم ہو کہ ہر میدان میں ان کا قلم کتنے اعتماد سے رواں رہتا تھا۔ ہو سکتا ہے اسی بہانے لائبریریوں میں محفوظ ان کرم خوردہ رسائل کو بھی پڑھنے کی توفیق حاصل ہو جن کی تیاری اور ترتیب میں انھوں نے اپنا خون جگر کشید کر کے لگا دیا تھا۔ مجاز صاحب نے کلاسیکی ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ ان کا ادبی ذوق نہایت اعلی اورعلمی شعور کافی بالیدہ تھا۔ وہ اردو، عربی اور فارسی ادبیات شناسی میں بہتوں پر فائق تھے۔ الفاظ کے بر محل استعمال، حسن انتخاب اورمضامین کونادر عناوین عطا کر نے میں لاثانی تھے۔ اردو مضامین میں عربی اور فارسی کے محاورات اور ضرب الامثال اتنے کمال اور سلیقے سے جڑ دیتے تھے کہ قاری بہت دیر تک ان کی جمالیاتی فضا کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے لیکن تحریر کی تاثیر اور معنویت چنداں متاثر نہیں ہوتی تھی۔ ان کی تحریروں میں تخلیقیت، اصالت اور شگفتگی کی چاندنی چھٹکی نظر آتی ہے۔ انھوں نے کم لکھا لیکن جو بھی لکھا معیاری لکھا۔ ان کی تحریریں ادبی اور علمی نثر کا عمدہ نمونہ ہیں۔ ان کے مضامین اور اداریے کے عناوین بڑے تیکھے اور فکر انگیز ہواکرتے تھے۔ اشعار اتنے سلیقے سے جڑ دیتے تھے کہ گویاشاعر نے اسی مقام کے لیے کہاہو، اردو کے ساتھ فارسی اور کبھی عربی کے بھی۔ مجاز صاحب کو پڑھتے وقت مولانا آزاد شدت سے یاد آتے ہیں۔ انھوں نے ’’تذکرہ‘‘ اور ’’غبارخاطر‘‘ کے اسلوب کا کامیاب تتبع کیا ہے۔ بلامبالغہ مجاز صاحب نے اردو صحافت کے اس معیار کو برقرار رکھا جس کو ابوالکلام آزاد نے متعارف کر ا یا تھا، لیکن بدقسمتی سے اردو کی دینی صحافت کو ان کی سرپرستی بہت دیر تک نصیب نہ ہوسکی، سبب جو بھی رہا ہو لیکن اس سے جو علمی نقصان ہوا اس کی تلافی بہت مشکل ہے۔ فضا صاحب نے اپنی نظم ’’نیاز-صد آہنگ ساز‘‘ میں نیاز فتح پوری کے طرز نگارش کے بارے میں جو کہاتھا آج وہ اشعار مجھے مجاز صاحب کے حوالے سے یاد آرہے ہیں، آپ بھی پڑھیے:

ہے تجھ پہ ختم، طرز نگارش کی یہ روش

تیرے قلم کا کوئی تتبع نہ کر سکا

کس کو ملی شعور کی یہ داخلی تپش

ہیرے کی روح تو نے سموئی ہے کانچ میں

جب تک تپا، نہ تیری بصیرت کی آنچ میں

سورج نہ کوئی اپنے افق سے ابھر سکا (شعلۂ نیم سوز، فضا ابن فیضی، ص :۲۶۷(

موجودہ دور میں طباعت کی دنیا میں پھیلی ہوئی ’’بے راہ روی‘‘ کی وجہ سے حرف و ہنر کی خدمت کرنے والوں کا خوب استحصال ہورہا ہے۔ اخلاقی اور قانونی اصول و آداب کو کمال بے حیائی سے پامال کرتے ہوئے کہیں ادب اور کہیں دین کی خدمت کے نام پر جس انداز میں یہ کاروبار جاری ہے مجاز صاحب بھی اس کے تیغ ستم سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ ان کی کتاب ’’روحانی عورت‘‘ کا انگریزی ترجمہ امریکہ سے شائع ہوا، میں نے مجاز صاحب کوسنایا، ایک کرب آمیز تبسم کے ساتھ فرمایا ’’جنگل میں مور ناچا، کس نے دیکھا‘‘۔ ۲۰۰۶ کی بات ہے میں کتابوں کی خریداری کے سلسلے میں دارالاشاعت، نظام الدین، دہلی میں کتابیں الٹ پلٹ رہا تھا کہ اچانک’’روحانی عورت‘‘کا نیا ایڈیشن نظر آیا جس پر مصنف کی حیثیت سے نام تھا، مولانا مجاز اعظمی مرحوم، میں نے اس غیر ذمے دار ناشر سے کہا کہ مولانا مجاز اعظمی مرحوم نہیں با حیات ہیں، انھوں نے معذرت کی اور اگلے ایڈیشن میں اصلاح کا وعدہ کیا، میں نے کہا کہ مجاز صاحب عمر کے جس مرحلے میں ہیں، بہتر ہوگا کہ آپ اگلی اشاعت کے وقت تصدیق کر لیں کہ کہیں مجاز، حقیقت میں تو مرحوم نہیں ہوگئے۔میں نے یہ واقعہ ان کو سنایا، ان کی تابناک پیشانی پر چند سلوٹیں نمو دار ہوئیں جن کا مفہوم میں نہیں سمجھ سکا اورمیری معلومات میں اضافہ کی غرض سے گویا ہوئے۔ دہلی میں قیام کے دوران میں نے کئی ایک کتابیں دوسروں کے نام سے لکھی تھیں۔ اس ضمن میں وہ ایک بزرگ عالم کا نام لیا کرتے تھے، جن کی خطابت کے خوب چرچے تھے۔ ناشروں نے ان کی کتابیں چھاپ کر پیسے کمائے لیکن اپنے فائدے میں مصنف کو یاد نہیں رکھا۔ فضا صاحب اسی لیے ’’قلم کے سودے کو مہنگا ‘‘کہا کرتے تھے۔ حق المحنت ادا کرنا تو دور کی بات ہے نہایت دیدہ دلیری سے بلا اجازت کتابیں چھاپی جارہی ہیں اور بعض بد باطن تو اصل مصنف کانام بھی کسی’’ کمسن قلم کار‘‘سے بدل دیتے ہیں۔مجاز صاحب کو اس بات کا اندازہ توضرور رہا ہوگا کہ’’ پبلشنگ مافیا‘‘ کتنی تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔اسی لیے توآخری دنوں میں کہا کرتے تھے کہ بس کتابیں کسی طرح شائع ہوجائیں۔ چند سال قبل مکتبہ الفہیم، مئونے ’’آثار نبوت‘‘کو اور اس سے پہلے مکتبہ نعیمیہ، مئو نے ’’روحانی عورت‘‘کو شائع کردیا تھا، دیکھیے بقیہ کتابوں کا کیا حشر ہوتا ہے۔

مجاز صاحب نے دو قسطوں میں دہلی میں تقریباً تین دہائی گزاری تھی، یہیں پر افتاد سیکھی اور پرواز بھی، قیام دہلی کا ذکر خوب کرتے تھے لیکن ان کی پوری گفتگو ’’میں‘‘سے خالی ہوتی تھی لیکن’’عبرت، عظمت اور دل آویزی‘‘سے پر ہوتی تھی۔ جماعت کے بارے میں اس وقت کے نوجوانوں کے جو جذبات تھے اوران کے اندرشباب و شعور کے آمیزہ سے جو انقلاب جنم لے رہا تھااس کی تفصیل میں نے انھی کی زبانی سنی۔ چاندنی چوک اورمینابازار کی کہانی سناتے تھے۔بتایا کرتے تھے کہ ہم لوگ کبھی کبھی پیدل پرانی دلی سے جامعہ ملیہ اسلامیہ جاتے تھے۔ انھوں نے دہلی میں ایک بھرپور زندگی گزاری تھی۔علما اور دانشوروں سے ان کے تعلقات تھے۔ادبی محفلوں اور علمی مجلسوں سے سیکھا بھی اورسکھایا بھی۔ سیاست، صحافت، ادب اور ثقافت کے میدان سے وابستہ عظیم ہستیوں سے ان کی رسم و راہ تھی۔ حفظ الرحمان سیو ہا ر و ی، عثمان فارقلیط، عطاء اللہ شاہ بخاری اور جنرل شاہنواز کا نام میں نے بارہا ان کی زبان سے سنا۔شاہ بخاری کے بارے میں بتایا کرتے تھے کہ ایک بارا نھوں نے مئو کا دورہ کرنے کے بعد دہلی کے ایک اجتماع میں بنکروں کے اس شہر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ’’میں اعظم گڑھ کے ایک چھوٹے سے قصبے سے آرہا ہوں جہاں درجنوں ایسے علماء ہیں جو آستین چڑھا کر نہایت اعتماد کے ساتھ صحیحین کا درس دے سکتے ہیں‘‘۔ میں نے مجاز صاحب کے دہلوی رفقاء سے ان کی اس وقت کی کہانی سنی ہے ’’جب’’ آتش جوان‘‘تھاجینے اور بہت کچھ کرنے کی امنگ تھی، وہ محفلوں کی شان تھے۔ لیکن دہلی کیا چھوٹی کہ وہ اداس ہو گئے، امنگ رخصت ہو گئی اور نشاط کی کہانیاں داستان پارینہ بن گئیں۔ بقول مولانا عبدالحمید رحمانی’’ہماری جماعتی ناقدری اور حوصلہ شکنی کی ایک مثال مولانا مجاز رحمانی بھی ہیں۔ترجمان سے علاحدگی کے بعد کچھ دنوں مختلف اشاعتی اداروں سے وابستہ ہو کر وہ دہلی میں رہے۔آخر نامہری جماعت سے مایوس ہو کروہ دہلی سے اس طرح گئے جیسے دہلی سے ان کا کوئی رشتہ نہ رہا ہو۔‘‘ (التوعیۃ، دہلی مارچ ۱۹۸۸ ص:۲۲)

مجاز صاحب دہلی میں اپنے ساتھ پیش آنے والے ’’مخصوص حالات‘‘سے بد دل تو تھے ہی، ادھر ذاتی حادثات نے بھی ان پر کافی گہرا اثر ڈالا تھا۔۱۹۵۰ اور ۱۹۶۹ کے درمیان ان کی ایک بیٹی اور تین بیٹے یکے بعد دیگرے چندمہ و سال کاٹ کر ہی دنیا سے چلے گئے، بن کھلے مرجھا جانے والے ان غنچوں نے ان کواحساس محرومی سے دوچار کردیا تھا۔ان کی صرف ایک بیٹی بشریٰ نے بھرپور زندگی پائی اور اب ان کے بچے بھی جوان ہیں اور شادی شدہ بھی۔ان حادثات نے ان کو کافی متاثر کیا تھا لیکن وہ تقدیر کے فیصلے سے راضی تھے اور کبھی شکوہ نہیں کیا۔لیکن ان کے تبسم کے پیچھے جو کرب چھپا تھا اس کا کبھی کبھی اندازہ ہوجاتا تھا۔

ہم نے ہنس ہنس کے تری بزم میں اے پیکر ناز

کتنی آہوں کو چھپایا ہے تجھے کیا معلوم

مجاز صاحب جتنے بڑے عالم تھے، اتنے ہی اعلی صفات کے حامل انسان تھے۔ نرم گفتار اور شگفتہ مزاج تھے۔ بڑی صاف اور شفاف زندگی بسر کی۔ ہٹو بچو کے کلچر سے تو بالکل ناواقف تھے، دہلی جیسے شہر میں بھی عمرکاایک حصہ گزارنے کے باوجود وہ سیلف پروجیکشن کے ہنر سے عاری ہی رہے۔ وہ خاموش طبع، نیک طینت اور صاف طبیعت کے انسان تھے، مجھے ان کی شخصیت میں گہرے سمندر کا سکوت دکھائی دیتا تھا۔ان کی فکر میں وسعت تھی، مزاج اور رویے میں لچک لیکن عقیدے میں پختگی اور مسلکی صلابت تھی لیکن تنگ نظری نہیں تھی۔وہ زاہد خشک نہیں ایک زندہ دل، یارباش اور مرنجاں مرنج شخصیت کے حامل تھے۔ان کے خمیر میں طنز و ظرافت شامل تھی۔مختصر انداز میں ایسی بات کہہ جاتے کہ مخاطب لا جواب ہو جاتا تھا۔ ان کی’’ حکیمانہ شوخیاں‘‘ان کی ظرافت طبع اور بذلہ سنجی پر دلالت کرتی تھیں۔ آسمان علم پر ہونے کے باوجود وہ زمین سے جڑے رہے، مئو کے ماحول میں انکسار، اخلاص اور استغناء کی پہچان بن گئے تھے، مولانا عبد الوحید سلفی کی وفات پر انھوں نے ایک نظم’’سایۂ افسردگی‘‘ لکھی تھی جس کا ایک شعر یہ ہے۔

منصب عزوشرف پر وہ مثالی انکسار

ایسے کم ہوں گے یہاں جو خود کوکم دیکھا کریں

اس شعر کو پڑھتے وقت خود اس کا خالق مجھے شدت سے یاد آتا ہے کیوں کہ علمی مرتبے کے باوجود ان کے اندر جو انکسار تھا اس کو مثالی ہی کہا جاسکتا ہے۔جامعہ عالیہ میں ان کی جو جگہ اور جو کام تھا اس سے بہتوں کو ان کی علمی حیثیت کا صحیح صحیح اندازہ نہیں ہو پاتا تھا لیکن باذوق حضرات ہمیشہ ان کے حلقہ بگوش رہے۔فضا ابن فیضی کی زبان سے میں نے بارہا مجاز صاحب کی علمی وسعت اور برجستہ گوئی کا اعتراف سنا ہے کبھی کبھی ادب و شعر کے حوالے سے کوئی بات ہوتی تھی تو کہا کرتے تھے کہ ذرا ایک بار مجاز صاحب سے بھی سمجھ لیجیے گا۔ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری، جن کی علمی و ادبی صلاحیت کا ایک عالم ثنا خواں ہے۔ وہ مجاز صاحب کی تبحر علمی کے قائل و قتیل تھے، کہا کرتے تھے کہ مجھے فخر ہے کہ میں اس شہر سے تعلق رکھتا ہوں جہاں پر فضا ابن فیضی اور مجاز اعظمی پیدا ہوئے۔ علامہ حنیف بھوجیانی جیسے محدث نے ان کو’’الاعتصام‘‘، لاہور کی ادارت کے لیے خود دعوت دی تھی لیکن ان کی گفتار اور انداز سے کبھی بھی ایسا نہیں لگتا تھا کہ وہ اتنے بڑے عالم ہیں۔ ان کی انشا پردازی کا اعتراف تو اچھے اچھے لوگوں نے کیا لیکن اس کے باوجود وہ ہمیشہ خود ستائی سے دور ہی رہے، کبھی اپنی کسی تحریر کی تعریف نہیں کی اور نہ کبھی یہ کہا کہ میں نے تو اس پہ لکھ دیا ہے۔ ان کے اندر قناعت تھی۔ مجاز صاحب سے میری آخری ملاقات۵؍ستمبر ۲۰۱۱ کو ان کے گھرپر ہوئی تھی اور اس وقت ان کی صحت اچھی تھی۔ ڈھیر ساری باتیں ہوئیں۔ میری موجودہ مصروفیت پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ تم شروع سے مسلسل آگے بڑھنے پر یقین رکھتے ہو۔ لیکن میرے اندر قناعت ہے، وہی قناعت جس کی جانب ابوالعلاء معری نے اشارہ کیا تھا۔ اس دن عزیزم عبد الرحمان محمد یحییٰ (متعلم، کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض) بھی ساتھ میں تھے اورانھوں نے چند باتوں کو نوٹ کر لیا تھا، ان کے شکریے کے ساتھ معری کے یہ اشعار پیش کر رہا ہوں، جو مجاز صاحب نے سنائے تھا۔

أ فوق البدر یوضع لی مھاد

أم الجوزاء تحت یدي وساد

قنعت فخلت ان النجم دونی

و سیان التقنع و الجہاد

(کیا میرا بسترچاند پر سجایا جائے گا، کیا جوزاء کو میرا تکیہ بنایا جائے گا، میں نے قناعت کی تو میں نے خیال کیا کہ ستارے مجھ سے کم تر ہیں اور میرے لیے قناعت اور جہاد دونوں ہم پلہ ہیں)

مجاز صاحب ایک علم دوست انسان تھے، ان کی زندگی لوح و قلم کی پرورش میں گزری تھی، لیکن جامعہ عالیہ کی لائبریری کے لیے جب بھی نئی کتابیں خریدنے کی بات ہوتی تھی تووہ کہا کرتے تھے کہ لائبریری میں موجود تمام کتابیں پڑھ چکے ہیں کیا؟ان کی اس دلیل پر بہتوں کی بھنویں تن جاتی تھیں اور و ہ لوگ کہتے تھے کہ یہ بات ان کی عالمانہ شان کو زیب نہیں دیتی ہے۔لیکن اس سچ کے پیچھے کا کرب کسے معلوم تھا، درحقیقت ان کی یہ سوچ اسی مخصوص ماحول کی پیداوار تھی جہاں مطالعہ کرنے کا رواج بہت ہی کم ہے، کتنے مدرسین درسی کتابیں بھی بغیر مطالعے کے غلط سلط عبارتیں پڑھ کر بس جیسے تیسے خواندگی کی مقدار پوری کر دیا کرتے تھے اور یہ سب مجاز صاحب اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے۔ اسی لیے جب بھی نئی کتاب کا مطالبہ ہوتا تھا، وہ ہمیشہ اپنا پرانا جملہ ہی دہراتے تھے۔ مئو کے مدارس کے اساتذہ کے درمیان مطالعے کی بے رغبتی کا ذکر میں نے وہاں کے کتاب بیچنے والوں کی زبانی بھی سنا ہے۔علامہ اقبال کو شکایت تھی کہ ’’کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں‘‘ لیکن اب تومعاملہ الٹ گیا ہے’’ صاحب کتاب‘‘ ہیں لیکن’’ کتاب خواں نہیں‘‘۔میرا خیال ہے کہ اس ضمن میں مجاز صاحب سے اتنی زیادتی ضرور ہوئی کہ انھوں نے ان باذوق، با صلاحیت اور ایمان دار اساتذہ کے جذبات کی بھی رعایت نہیں کی جن کی کاوشیں اور قربانیاں بہرحال قابل تعریف ہیں اور ان کے اجلے دھندلے نقوش بھی نظر آرہے ہیں۔

میں تقریباً دو دہائی تک مجاز صاحب کے کافی قریب رہا اورایک عرصے تک جامعہ عالیہ میں زیر تعلیم بھی رہا لیکن مجازصاحب سے صرف چھے مہینے تک پڑھنے کا موقع ملا۔ عربی کی پانچویں جماعت میں ایک کتاب پڑھائی جاتی تھی’’تلخیص المفتاح ‘‘اور مجھے صرف یہی کتاب پڑھنے کاشرف حاصل ہوا۔ پڑھاتے وقت جب وہ’’جرجانی‘‘ اور’’سکاکی‘‘ کہتے تھے تو ان کے لہجے میں ایک خاص قسم کا علمی جلال ہوا کرتاتھا جو ان دونوں شخصیات کے نبوغ اور عبقریت کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ابھی کتاب کے پانچ چھے صفحے ہی پڑھاپائے تھے کہ ششماہی امتحان کا وقت آگیا۔ میں نے ایک خاص ارادے سے پوچھا کہ خواندگی کی اتنی مختصر مقدار میں آپ امتحان کے لیے سوالات کیسے تیار کریں گے؟ فوراًدبیز عینک کے عقب سے ان کی ذہین آنکھیں نمودار ہوئیں اور لب پرزہر خنداں بکھیرتے ہوئے جواب دیا، یہ تو امتحان گاہ ہی میں پتہ چلے گا اور سچ بات ہے کہ سوال ہی نہیں سمجھ میں آرہا تھا، جواب کیا خاک دیتے۔

مجاز صاحب نے ۱۹۶۹ میں جامعہ عالیہ جوائن کیا تھا، ابتدا میں دفتری امور دیکھتے تھے پھرتدریسی خدمات پر بھی مامور ہوئے اور عقیدہ، تفسیر اور ادب و بلاغت کی کتابیں پڑھائیں۔ اسی دوران کلیہ فاطمۃ الزہراء للبنات میں ۱۹۸۲ تا۹ ۱۹۸ تدریسی خدمات انجام دیں۔ ارباب جامعہ کو ان پر بڑا اعتماد تھا۔ انھوں نے تقریباًکم نصف درجن نظماء کا دور دیکھا، جامعہ کے لیے ان کا اخلاص ہر چیز سے بالا تر تھا، وہ بعض معمولی چیزوں میں بھی جامعہ کے مفاد کو بالا تر رکھتے تھے، جس کی وجہ سے کبھی کبھی طلبہ اور اساتذہ ناراض بھی ہوجا تے تھے۔ وہ جس جگہ پر تھے اگر غلطی سے بھی ان کو ’’ہر دلعزیز‘‘بننے کا شوق سما گیا ہوتا تو پھرکم ظرف لوگ اپنے ساتھ ان کو بھی لے ڈوبتے۔ اس دوران جامعہ نے تعلیمی اورتعمیراتی لحاظ سے کافی ترقی کی، مئوکے مشرقی حصے میں لڑکیوں اور لڑکوں کی دینی اور عصری تعلیم کے ساتھ صحت عامہ کے میدان میں بھی جا بہ جا اس کے نمونے نظر آرہے ہیں۔ تعلیمی اور تعمیراتی ترقی کے اس سفر میں ماسٹر نثار احمد انصاری مرحوم، مولانا محمد اعظمی، حبیب الرحمان پہلوان، محمد ابراہیم، فخرالدین اور مولانا مظہرا حسن ازہری کے ساتھ ہر جگہ مجاز صاحب موجود رہے اور اپنے علم اور قلم کی طاقت اور تجربے سے جامعہ کے کاموں میں رنگ بھرا۔ جہاں تک معیار کی بات ہے اس کو بڑے بڑے ادارے محفوظ نہیں رکھ سکے تو ایک عالیہ کا کیا شکوہ۔ جامعہ کے لیے انھوں نے بہت کچھ کیا لیکن ایک کسک بہر حال رہ گئی کہ انھیں ’’کچھ اور‘‘ کرنا چاہیے تھا۔ نقوی صاحب کہا کرتے ہیں کہ’’جس آدمی کو شیخ الحدیث ہونا چاہیے تھا، اس سے ایک اکاؤنٹنٹ کا کام لیا گیا‘‘۔پھر بھی جامعہ میں ان کی موجودگی سے باذوق طلبہ اور اساتذہ کا کافی فائدہ ہوا۔ جامعہ عالیہ کے طلبہ نے دینی تعلیم کے ساتھ جدید دانش گاہوں میں جو جگہ بنائی ہے اس کے لیے انتظامیہ کی دور اندیشی اور تدبر کی داد دینی چاہیے۔ جامعہ کے یونیورسٹی سے الحاق پر ایک رائے نہیں تھی، یونیورسٹی میں زیر تعلیم عالیاوی فضلا کو وہاں کے بعض اساتذہ اچھی نظر سے نہیں دیکھتے ہیں۔ جہاں تک مجھ کو یاد ہے مجاز صاحب نے کبھی اس تبدیلی کی حوصلہ شکنی نہیں کی۔ ان کی بات چیت اور برتاؤسے بھی کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا۔

’’دیر آید‘‘ ہمیشہ’’درست آید‘‘نہیں ہوتا ہے، یہ بات’’افکار عالیہ‘‘ پر بھرپور صادق آتی ہے، ماسٹرنثار احمد انصاری مرحوم کی نظامت کے آخری ایام میں جامعہ سے ایک اردو مجلے کی اشاعت کی بات تقریباً مکمل ہوچکی تھی لیکن کسی وجہ سے اس پر عمل نہیں کیا جا سکا، اس وقت سبب ذکر کرنے سے کچھ حاصل بھی نہیں ہے لیکن اس نیک تجویز پرعمل نہ ہونے کی وجہ سے علم و ادب کا نقصان تو بہر حال ہوا، اسی وقت اگر مجلہ منظر عام پر آگیا ہوتا تو نئی نسل کو مجاز اعظمی کے قلم سے کچھ افکار تازہ پڑھنے کا موقع مل جاتا لیکن ارباب جامعہ کا خواب اس وقت شرمندۂ تعبیر ہواجب اردو صحافت کے ’’یوسف گم گشتہ‘‘ مجاز اعظمی کے ہاتھوں میں لرزہ طاری ہو گیا تھا، پھر بھی انھوں نے ۲۰۰۴ میں منظر عام پر آنے والے’’ افکار عالیہ‘‘ میں اپنے رشحا ت قلم سے تھوڑا بہت پیش کر کے ان لوگوں کا منہ بند کردیا جو یہ کہا کرتے تھے کہ حساب کتاب لکھتے لکھتے ان کے قلم کی روشنائی خشک ہوگئی ہے۔ وہ’’افکار عالیہ‘‘ کے مدیر اعلیٰ تھے، ان کے نام نے اس رسالے کووقعت اوراعتبار عطا کیا تھا۔ادھر وہ کافی دنوں سے معذور تھے اور مجلے کے امورزیادہ تر استاذ محترم مولانا عبد اللطیف اثری انجام دیتے تھے، جن کو اللہ تعالیٰ نے تدریس میں قابل رشک مہارت کے ساتھ صحافت کا اچھا ذوق بھی عطا کیا ہے اور اب تو مکتبہ الفہیم، مئو نے ان کو ایک محقق کی حیثیت سے بھی متعارف کرا دیا ہے۔اللہ تعالیٰ ان کو تادیر سلامت رکھے اور نئی نسل کو ان سے استفادہ کرنے کی توفیق بخشے۔آمین۔ ’’افکار عالیہ‘‘ کا پہلا شمارہ منظر عام پر آیا تو نقوی صاحب نے اداریہ ملاحظہ کرنے کے بعد کہاکہ لگتا ہے کسی نے مولانا آزاد کے’’ تذکرہ‘‘ کا ورق کھول کر رکھ دیا ہے۔

جامعہ عالیہ کی انجمن تہذیب البیان اپنی کارکردگی اور نشاطات کے لحاظ سے شہر کی سب سے متحرک انجمن تھی۔ اسی اورنوے کی دہائی میں مضمون نگاری کی جوسرگرمیاں یہاں نظر آتی تھیں، مئو کے اکثر مدرسے اس سے محروم تھے۔ ہفتہ واری تقریر ی پروگرام کے ساتھ انشا و صحافت کا ایک ماحول تھا، روح رواں اور رہبر مجاز صاحب تھے۔طلبہ کا مجلہ’’تہذیب ‘‘ غالباً شہر کا سب سے پرانا طلبہ مجلہ ہے۔ اب تک جتنے لوگ انجمن اور مجلے کی ذمے داری سے وابستہ رہ چکے ہیں، وہ اس باب میں مجاز صاحب کی بے مثال قربانی اور حیرت انگیز صلاحیت کا اعتراف کریں گے۔ مجلے کی ترتیب میں جو حسن اورسلیقہ نظر آتا ہے، وہ انھی کی روشنی طبع کی دین ہے۔ ہرسال ان کی کوشش سے ہماری لفظیات میں اضافہ ہواکرتا تھا۔ مجلے میں ناظم جامعہ کے نام سے شائع ہونے والے تاثرات مجاز صاحب ہی لکھتے تھے، اس سالانہ تحریر میں بھی ہمیشہ لفظیاتی اور معنیاتی سطح پر جدت اور ندرت ہوتی تھی۔ ’’تہذیب کا ‘‘پہلا اداریہ ’’نمودسحر‘‘ کے عنوان سے آپ ہی کے زر نگار قلم کی دین ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔گزشتہ دو دہائی کے اندر جو نئے لکھنے والے ابھرے ہیں ان میں عالیہ کے فارغین کی تعداد قابل ذکر ہے اور ان میں سے کوئی بھی اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتا ہے کہ اس نے اس میدان میں مجاز صاحب استفادہ نہیں کیا ہے۔کتنے بے ڈھنگوں کو ان کی صحبت نے قلم کار بنا دیا ۔

میں نے مجاز صاحب سے کلاس سے باہرزیادہ استفادہ کیاہے اور اگرآج مجھ کو تھوڑا بہت جو لکھنا آتا ہے تواس میں ان کی تربیت کا اہم رول ہے۔مجھے درسیات سے دلچسپی کم تھی اور ادبی کتابوں کے مطالعے کا شوق تھا۔ مطالعے کے دوران مشکل الفاظ و عبارات اور فارسی کی ادق تعبیرات ایک کاغذ پر نوٹ کرلیتا اور فرصت کے اوقات میں ان کے پاس بیٹھ کر ایک ایک لفظ حل کرتا تھا، کبھی کبھی میری نادانی پر ناراض ہوجا تے تھے لیکن ان کا غصہ سطح آب پر حباب کی مانند بہت جلد فرو ہوجاتاتھا۔ میری کتنی بے ربط اور اٹ پٹی تحریروں کو ان کے زرنگار قلم کی جنبش نے چمکا دیا۔ انجمن تہذیب البیان سے وابستہ ہونے کے بعد ان سے بہت قریب ہوگیا، انجمن سے تعلق کی بنا پر کچھ نئے تجربات تو ضرور ہوئے لیکن اس دوران مجاز صاحب سے تحریر و انشاء کے میدان میں جو کچھ حاصل کیادر اصل وہی ’’حاصلات عالیہ‘‘ہیں۔ انجمن کا ایک الٹا سیدھا تعارف لکھ کر ان کے پاس پہنچا اور ذرا نادر قسم کا عنوان لگانے کی گزارش کی۔ انھوں نے’’رود سلسبیل:فی جنۃعالیۃ‘‘ کا عنوان لگا کر میری حوصلہ افزائی کی۔ ان کے پاس الفاظ و تراکیب کی کمی نہیں تھی۔ ان کا ہر عنوان قاری کو چونکا دیتا تھا۔ وہ برجستہ لکھتے تھے اور خوب لکھتے تھے۔ان کی صحافتی زندگی کی جو اٹھان تھی اگر وہ جاری رہتی تو آج منظرنامہ کچھ اور ہی ہوتا۔ہمارے عہد کا اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ جس قلم سے قوموں کی تقدیر لکھی جاتی ہیں، ہم نے اس کوگوشوارۂ آمدو خرچ لکھنے تک محدود کردیا تھا۔یہ ایک روح فرسا علمی سانحہ ہے اورادبی زوال کی بد ترین مثال، دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ زوال، مائل بہ عروج ہے۔

یادش بخیر !۱۹۹۲میں ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری کو عربی زبان و ادب کی خدمت پر صدر جمہوریہ ایوارڈسے نوازا گیا تو جامعہ عالیہ نے ان کے اعزاز میں ایک تقریب کا انعقاد کیا، بہت ہی شارٹ نوٹس پر ہونے والے اس پروگرام میں مجاز صاحب نے ازہری صاحب کاایک مختصر تعارف لکھا تھا، جو اسی مجلس میں پڑھا گیا تھا۔ ان کی یہ تحریرزبان و ادب کا اعلیٰ شاہکار تھی۔فارسی تراکیب اور استعارے کی مدد سے انھوں نے کاغذ پر جو گل بوٹے کھلائے تھے ان پر کشت زعفران کا گمان ہوتا تھا۔اس وقت مجھ کو اس تحریر کے ایک آدھ جملے ہی یاد آرہے ہیں جن میں انھوں نے ازہری صاحب کے لیے’’ علم کا شاہین‘‘ کی ترکیب استعمال کی تھی۔ اگراس تحریر کو افکار عالیہ میں شائع کردیا جائے تو ازہری اور مجاز دونوں کے لیے خراج تحسین ہوگا۔

مجاز صاحب کوامام الہند مولانا ابوالکلام آزاد سے کافی عقیدت تھی، دہلی میں قیام کے دوران ایک بار ان کو دیکھا بھی تھا۔ان کی تحریروں کو خوب خوب پڑھا تھا، ’’تذکرہ‘‘ کا ایک پرانا نسخہ جو چھوٹی تقطیع پر چھپا تھا، ان کے پاس تھا اور اس کو بہت ہی سہیج کر رکھتے تھے۔ ان کی عبقریت، دور اندیشی، بے لوثی اور بے داغ سیاسی زندگی کا ذکر کیا کرتے تھے۔ان کی علمیت کے ساتھ ان کے سیاسی خیالات کے حامی بھی تھے۔مسلم لیگ کی سیاست نے کبھی ان کو متاثر نہیں کیا۔دو قومی نظریے کے شدید خلاف تھے اورمسلم لیگ کی سیاست کو ہندستانی مسلما نوں کے لیے خطرناک سمجھتے تھے، لیکن کانگریس کے اس گروپ کی بھی تنقید کرتے تھے جس نے فرقہ پرستانہ سیاست کو بڑھاوا دیا اوراردو کی مخالفت کی، پاکستان کی سیاسی حالت پر ان کا تبصرہ بڑا زہر ناک ہوا کرتا تھا۔

نثر نگاری کے ساتھ شعر میں بھی ان کے پاس اچھا خاصا سرمایہ موجود ہے، انھوں نے نظمیں کہیں، رباعیات و قطعات بھی اورچند غزلیں بھی۔اردو کے ساتھ عربی اور فارسی میں بھی ان کی کچھ تخلیقات موجود ہیں جن سے شعر و شاعری کے میدان میں بھی ان کی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے شخصیات کی وفات پر خوب نظمیں لکھیں جیسے علامہ ثنا ء اللہ امرتسری، مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی، حافظ حمید اللہ دہلوی، شیخ الحدیث عبیداللہ رحمانی مبارک پوری، مولانا محمد احمد ناظم (سابق ناظم جامعہ فیض عام، مئو) مولاناعبد الوحید سلفی (سابق ناظم جامعہ سلفیہ، بنارس)، ماسٹر نثار احمد انصاری (سابق ناظم جامعہ عالیہ عربیہ، مئو )۔ ان نظموں میں ان شخصیات کے تئیں ان کے جذبات کا اظہار ہوتا ہے اور ان کے کام اور کارناموں سے متعلق ان کی رائے کا بھی۔ شخصیات کے علاوہ مختلف موضوعات جیسے تاریخ اہل حدیث، لیلۃ القدر، مجرمین دیوبند اور ضرورت خلیل کے عنوان سے بھی ان کی فکر انگیز نظمیں ہیں۔اپنی اہلیہ زہرہ خاتون (۸۹ ۹ ۱) کی وفات پر ایک درد انگیز مرثیہ لکھا تھا جو سوز اور سادگی کا بہترین مرقع ہے۔ میں نے مجاز صاحب کا کلام سب سے پہلے اپنی والدہ محترمہ کی زبانی سنا، جن کا ادبی ذوق ان کی معاصر خواتین میں قابل رشک ہے۔مکتبی تعلیم کی کمی کے باوجود بھی اسلامیات و ادب کا مطالعہ موٹی موٹی تنخواہیں وصول کرنے والی بے مغز معلمات سے بھی بہتر۔ حافظہ اگر وفا کررہا ہے تو ’’لیلۃالقدر‘‘اور حافظ حمیداللہ پر ان کی نظمیں بچپن میں بار ہا والدہ کی زبانی سنیں۔

مجاز صاحب خود شعر کہتے تھے اوربرجستہ اور بر محل متنبی، معری، عرفی، سعدی، حافظ، میر، غالب اور اقبال کے اشعار بھی سنایا کرتے تھے۔دہلی سے جاتا توان سے ملنے کے لیے مدرسے جاتا تھا۔جب بیماری اور درازیٔ عمر کے باعث انھوں نے مدرسہ جانابند کردیا تو میں ملاقات اور استفادے کی غرض سے ان کے گھر حاضر ہوتا تھا۔ کبھی کبھی گھر کے پاس ہی ایک دکان پر ملاقات ہو جاتی تھی اور وہیں علم کا دفترکھل جاتاتھا۔ادب و شعر کے کتنے نکات جو جدید دانش گاہوں کے کلاس روم میں حل نہیں ہو پاتے تھے، وہ لب سڑک بات چیت کے دوران ایسے حل کر دیتے تھے کہ ایک خوش گوار حیرت کا احساس ہوتا تھا۔ میں مئو میں تھا۔۱۸؍ستمبر۲۰۱۰ کو ملاقات کے لیے حاضر ہوا، خیریت دریافت کی تو اپنی دو رباعیوں میں پوری کہانی سنا ڈالی، لیجیے آپ بھی سنیے اور ان کی ذہانت اور برجستہ گوئی کی داد دیجیے۔

خالی متاع زیست سے جب ظرف ہوگیا

تحلیل آہ سرد میں ہر حرف ہوگیا

اب گرمی حیات کا کیا خواب دیکھنا

جو دل کہ پہلے دل تھا وہی برف ہوگیا

یوں چلو ں سر خم کہ جیسے عمر رفتہ کی تلاش

آگے بڑھتا جاؤں اس سے دور ہوتا جاؤں میں

میرے چہرے کی لکیروں پر حروف آخریں

سب پڑھیں، پڑھنے سے خود معذور ہوتا جاؤں میں

مجاز صاحب کی شاعری کے نمونے مختلف رسائل و جرائد میں بکھرے ہوئے ہیں اور اچھا خاصاکلام ابھی تک غیر مطبوعہ ہے لیکن ان کے پاس محفوظ ہے عزیزم طاہر جمال سلمہ جنھوں نے مجاز صاحب کی حیات و خدمات پر مقالہ لکھا ہے، کلام مجاز کو مختلف رسائل و جرائد سے نقل کر کے جمع کیا ہے۔اللہ کرے جلد از جلد ان کی اشاعت کا سامان ہوجا ئے۔ مجاز صاحب تو اپنے حصے کی زندگی جی کر چلے گئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی نسل ان کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے، ہم لوگ اپنے محسنوں کی خدمات کے تعارف میں جس بخل کا مظاہرہ کرتے آرہے ہیں، اس کو دیکھتے ہوئے تو طرح طرح کے اندیشے پیدا ہورہے ہیں۔فضا ابن فیضی، ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری اور مجاز اعظمی کے درمیان فرق مراتب کے باجود کچھ چیزیں مشترک تھیں اب تینوں حضرات اس دنیامیں نہیں ہیں۔فضا صاحب تو زندگی بھر ناقدری فن کا شکوہ کرتے رہے، اور ایسا نہیں کہ بے جا ہی کرتے رہے۔ اپنوں نے بھی ان کونظر انداز کیا، اس وقت میرے سامنے جامعہ عالیہ عربیہ، مئو کی جنتری (۱۲۔۲۰۱۱) ہے جس میں فضا ابن فیضی کی تین تخلیقات حمد (ص۲) نعت (ص۳)اور ترانۂ جامعہ (ص ۱۲۔۱۳)موجود ہیں اور کسی جگہ ان کا نام نہیں لکھا گیا ہے، ہوسکتا ہے اپنے محسنوں کو یاد کرنے کایہ بھی ایک طریقہ ہو، لیکن میں ابھی اس سے آشنا نہیں ہوں۔ازہری صاحب جب تک جیے اخلاص اور دیانت کے ساتھ جامعہ سلفیہ کی خدمت کی اور دوسرے بہت سے اداروں اور افراد کے ساتھ اہل مئو نے بھی ان کی صلاحیت، علم، رسائی اور رسوخ سے فائدہ اٹھایا۔لیکن ان کی یاد میں خصوصی شمارے بنارس یا مئو سے نہیں، کرشنا نگر، کپل وستو، نیپال (نورتوحید نومبر، دسمبر ۲۰۰۹) اور جھنڈا نگر، نیپال (السراج، اپریل تا جولائی ۲۰۱۰)سے شائع ہوئے۔ برادر مکرم اسعد اعظمی، استاذ جامعہ سلفیہ، بنارس مبارک باد کے مستحق ہیں جنھوں نے جامعہ سلفیہ، بنارس میں طاہر جمال کومجاز صاحب پرمقالہ لکھنے کا مشورہ دیا اورخود اس کی نگرانی بھی فرمائی، جس کی وجہ سے ان کی زندگی کے کئی گوشے سامنے آگئے ہیں۔ میں اپنا مضمون سمیٹ رہا تھا کہ مئو سے استاذ محترم مولانا عبد الرحمان عالی (صدر شعبۂ فارسی، جامعہ عالیہ عربیہ )کا فون آیا اور انھوں نے مجاز صاحب کی زندگی سے متعلق کچھ اہم باتیں بتاکر میری معلومات میں اضافہ کیا اور کچھ اصلاح بھی، جوان کے شکریے کے ساتھ اس مضمون میں شامل ہیں۔

ڈاکٹررضاء اللہ مبارک پوری، فضا ابن فیضی اورڈاکٹر مقتدی حسن ازہری کے بعد اب مجاز صاحب بھی رخصت ہوگئے جومیرے مربی اور محسن تھے، آج میں اردو میں جو کچھ بھی لکھ لیتا ہوں، اس میں ان کی تربیت کا بہت دخل ہے۔ان کے بعد تواب اندھیرا ہے اور بڑا وحشت ناک اندھیرا۔علم و ثقافت کی وادی قد آور شخصیات سے خالی ہوتی جارہی ہے۔ مجاز صاحب کی وفات سے اردو زبان ایک اچھے نثرنگار، جامعہ عالیہ ایک بے لوث خادم، افکار عالیہ، ایک فاضل مدیر اور میں ایک بے مثال استاذ اور مربی سے محروم ہو گیا ہوں۔

اے خدائے واحد ولم یزل

ترے ایک حرف کے صید ہیں

یہ زماں مکاں، ترے فیصلوں کے حضور میں

نہ مجال ہے کسی حرف کی نہ کسی کو تابِ سوال ہے

یہ جو زندگی کی متاع ہے

تری دین ہے، ترا مال ہے

مجھے ہے تو اتنا ملال ہے

۔۔۔کہ جب اس کی ساعتِ آخری سرِ راہ تھی

میں وہاں نہ تھا!

(امجد اسلام امجد)

نوٹ:یہ مضمون مولانا عبدالحمید رحمانی رحمہ اللہ تعالی کے حکم پر لکھا گیاتھا اور ماہ نامہ التبیان، نئی دہلی (جنوری2012) میں شائع ہوا تھا۔

آپ کے تبصرے

3000