شعبان بیدار کے تقریباً ستر مضامین کا مجموعہ “آبشار خیال” ابوالمیزان نے مرتب کیا ہے۔ مرشد پبلیکیشن، نئی دہلی سے ٢٠٢٣ میں شائع ہونے والی یہ کتاب تین سو چھتیس صفحات پر مشتمل ہے۔ سرورق دیدہ زیب، کاغذ معیاری اور جلد بندی مضبوط ہے۔
شعبان بیدار کے تعارف میں شیخ سرفراز فیضی حفظہ اللہ نے اسی کتاب کے آغاز میں لکھا ہے:
“شعبان بیدار پیدائشی قلمکار ہیں، قلمکاری ان کے خون میں شامل ہے، ان کی فطرت کا حصہ ہے، وہ مولوی، مدرس یا خطیب نہ ہوتے، تاجر یا سیاستدان ہوتے تب بھی قلمکار ہوتے، معروف نہ ہوتے گمنام ہوتے تب بھی قلمکار ہوتے، دینی تعلیم کے بجائے دنیاوی علوم میں رسوخ حاصل کرتے، دیہات کے بجائے کسی شہر میں پیدا ہوئے ہوتے، اردو کے بجائے عربی، فارسی بولتے تب بھی وہ قلمکار ہی ہوتے۔”
موضوعات کا تنوع ایسا ہے کہ ہر ایج گروپ کے لیے اس کتاب میں مواد موجود ہے۔ معلمین کی رہنمائی، بڑوں کی عزت افزائی، قرآن میں غیر عربی الفاظ کا تجزیہ، قرآن اور مجاز ایک تعارف، ساس بہو کے بگڑتے تعلقات، جدید دور کے فتنے، خواتین کے خصوصی مسائل، غیر مذہبی فتنوں میں ملوث نوجوان مثلاً: لیو ان ریلیشن شپ، سنگل پیرنٹ وغیرہ، تدریسی زندگی کی مشکلات، ائمہ و محدثین کے معاشی حالات، جنسی بگاڑ، اولاد کی تربیت، نیز اقبال اور تصوف جیسے مضامین ہیں۔ اسلوب منفرد ہے۔ زبان میں ادب کی چاشنی سے قاری کی دلچسپی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ کم وقت میں قیمتی معلومات کا ذخیرہ جمع ہوتا ہے۔ ہر کسی کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔
شعبان بیدار نے اقبال کے حوالے سے تصوف کی جو بات کی ہے وہ نہ صرف قابل غور و فکر ہے بلکہ اس نقطہ نظر سے اقبال کی شاعری کو برتنے کی ضرورت ہے۔ اس مضمون کی تمہید ہی چونکا دیتی ہے:
“جو لوگ شرعی تزکیہ کے مقابل ایک الگ نظریہ کی حیثیت سے تصوف کی کھلی تردید کرتے ہیں اور ساتھ ہی علامہ اقبال سے گہری عقیدت بھی رکھتے ہیں وہ علامہ کے افکار و خیالات کی تاویل کرتے ہیں حالانکہ عقیدت و محبت اپنی جگہ ہے اور اصولوں کے حوالے سے گفتگو اپنی جگہ ہے۔ صاف ستھری بات یہ ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری میں تصوف انتہائی اہم عنصر ہے۔ اقبال کی شاعری میں جو رمزیت اور ماورائی کیف ہے اس میں تصوف کا خاص دخل ہے۔ جنوں، وجود، خرد، عشق کے الفاظ اقبال کے یہاں جب پڑھنے میں آ تے ہیں تو ان کا حسن الگ ہی محسوس ہوتا ہے۔ آپ غور کیجیے تو یہ الگ احساسِ حسن اقبال نے تصوف سے پیدا کیا ہے۔ اگر کہیں پورا پورا تصوف نہیں تو کم ازکم اس کی اصطلاحات ہیں، اصطلاحات نہیں تو اسلوب ہے، اسلوب بھی نہیں تو تصوف کی گرمی ہی ہے، مگر ہے۔ شکوہ اقبال کا شاہکار ہے اس کے بعد اقبال کو شاعر کہنے کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ ’’شکوہ‘‘ صاف تصوف کی جرأت مجذوبانہ اور ہمت رندانہ ہے۔ ’’ہرجائی‘‘ جو اردو میں آوارہ اور بد چلن عورت کے لیے آتا ہے کم از کم بد معاشی کی سطح پر بے وفائی اس لفظ کی امتیازی شان ہے، وہی لفظ اقبال نے رب کے حضور بھی عرض کر ڈالا ’’بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہر جائی ہے‘‘ اب بتائیے اسے ہم منصور حلّاج کی طریقت نہ کہیں تو کیا کہیں؟”
اس طرح کی اور کئی جرأتیں ‘آبشار خیال’ کی زینت ہیں جنھیں پہلی فرصت میں پڑھنے کی ضرورت ہے۔
نوٹ: کتاب حاصل کرنے کے لیے رابطہ کریں:
عبدالقدیر (دہلی): 9990674503
آپ کے تبصرے