ٹھنڈی تھی جس کی چھاؤں وہ دیوار گر گئی(دادا جان کی یاد میں)

طارق اسعد تذکرہ

میں نے اس سے پہلے موت کو اتنے قریب سے نہیں دیکھا تھا،عشا کی نماز کا وقت ہو چلا ہے اور دادا جان -مولانا محمد اعظمی- اپنے آخری سفر کے لیے آخری سانسیں گن رہے ہیں، پندرہ روز سے اوپر ہو چکے ہیں جب آپ ہوش وہواس سے بیگانہ ہیں، کبھی کبھار آنکھیں کھول رہے ہیں، ارد گرد نظر دوڑا رہے ہیں، آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کو اجنبیت سے دیکھ رہے ہیں، آنکھوں میں شناسائی کی کوئی رمق نہیں نظر آ رہی ہے، پھر آنکھیں موند لے رہے ہیں، ایسی تکلیف سے گزر رہے ہیں کہ ہم سے دیکھا نہیں جاتا، کھانا پینا تقریبا بند ہو چکا ہے، جسم کی ساری طاقت زائل ہو گئی ہے، کبھی کبھی کراہ رہے ہیں اور بلند آواز سے “اللہ” “یا اللہ ” پکار رہے ہیں۔

وہ جن کے ذکر سے رگوں میں دوڑتی تھیں بجلیاں

انھی کا ہاتھ ہم نے چھو کے دیکھا کتنا سرد ہے

میں 20 جون کو بوقت عشا مدینہ منورہ سے اپنے گھر پہنچا، فریش ہو کر سب سے پہلے دادا کے پاس حاضر ہوا، دیکھتے ہی دھچکا سا لگا، یہ وہ دادا تو نہیں تھے جنھیں ایک سال قبل ہم چھوڑ کر گئے تھے، قوی مضمحل، جسم کمزور، یاد داشت غائب ، سلام عرض کرتے ہوئے تعارف کرایا “دادا! آپ نے ہمیں پہچانا؟”ایک مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھا اور کہا کہ “ہاں، پہچانتا ہوں”پھر انھوں نے ایک اجنبی کے نام سے مجھے پکارا،میں سمجھ گیا کہ شناسائی کا رشتہ ختم ہو گیا ہے، اب حالت یوں تھی کہ کسی کسی کو پہچانتے اور بیشتر لوگوں کو اجنبیت کی نگاہ سے دیکھتے، لیکن اس وقت کچھ نہ کچھ باتیں کرتے تھے، سلام کا جواب دیتے، کوشش کر کے خود سے اٹھتے بیٹھتے، بہت معمولی سی خوراک تناول کرتے،مگر رفتہ رفتہ ان معمولات میں کمی آتی گئی ، دانہ پانی کم سے کم ہوتا گیا اور پھر بالکل موقوف ہو گیا،یہاں تک کہ ہوش بالکل نہ رہا، زندہ رہنے کے سارے اسباب دھیرےدھیرے ختم ہونے لگے، 11 جولائی کو عشا کی اذان سے دس منٹ قبل جسم بالکل ساکت ہو گیا، تمام حرکتیں موقوف ہو گئیں، ہم لوگ نماز کے لیے مسجد گئے مگر ذہن برابر ادھر ہی لگا ہوا تھا، نماز کے معا بعد گھر آیا تو دیکھا کہ حالت بدستور ویسی ہی ہے، بلکہ مجھے یہ محسوس ہوا کہ سانس لینے کا وفقہ بھی زیادہ ہوتا جا رہا ہے، معمول سے زیادہ دیر پر سانس لے رہے ہیں، اسی اثنا میں دیگر لوگ بھی نماز سے فارغ ہو کر پہنچ گئے، ہمارے چچا ڈاکٹر اجود انصاری نے اسٹیتھو اسکوپ نکالا، نبض چیک کی، سانس کا جائزہ لیااورنمدیدہ وغمناک آنکھوں سے نفی میں گردن ہلا دی، آہ دادا جان نہیں رہے ، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

نشان مرد مومن با تو گویم

چو مرگ آید، تبسم بر لب اوست

مرحوم نے حیات مستعار کی 9 سے زائد دہائیاں دیکھیں، ان نو دہائیوں میں میری آپ کے ساتھ کم وبیش تیس سالہ معیت رہی، 2003 میں والد محترم کی تقرری جامعہ سلفیہ بنارس میں ہوئی تو ہم لوگ بنارس منتقل ہو گئے اور یہیں پر میرا اور چھوٹے بھائی بہنوں کاتعلیمی سفر دراز ہوا، بنارس میں مع اہل خانہ سکونت کے باوجود دیگر طلبہ کی طرح مجھے بھی چھٹیوں میں گھر جانے اور اعزہ و اقارب سے ملنے کی کی بڑی شدید خواہش رہتی تھی، چنانچہ تعطیل شروع ہوتے ہی فورا ہم لوگ اپنے آبائی گھر دادا کے پاس پہنچ جاتےاور وہیں قیام کرتے، ادھر دادا جان بھی بڑی شدت سے ہماری آمد کے منتظر رہتے اور ہمارے پہنچنے پر خوش ہوجاتے۔آپ اکثر یہ کہتے کہ تم لوگوں کی آمد سے گھر میں رونق ہو جاتی ہے، یوں سمجھیے کہ

ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پہ رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

ہوش سنبھالنے کے بعد میں نے دادا کا جو حلیہ دیکھا وہ کچھ یوں تھا، میانہ قد، دبلا بدن، گول چہرہ، کشادہ پیشانی، لمبی ستواں ناک، گھنی سفید داڑھی ،چہرے پر عینک جو عموما پڑھتے لکھتے یا باہر جاتے ہوئے لگاتے،سفید بغیر کالر کا کرتا اور سفید اجلی لنگی، گھر سے باہر نکلتے وقت سر پر لمبییا گول ٹوپی رکھتے، جاڑے میں جیکٹ، شال اور مفلر کا اضافہ کر لیا کرتے تھے، عیدین کے موقع پر یا شہر سے باہر جاتے تو کرتا پاجامہ زیب تن کرتے، بات کرتے تو آواز مدھم، لہجہ پست ، اور ٹھہر ٹھہر کر بولتے، گاہے تبسم فرماتے ، گاہے زور سے ہنس دیتے، خاکساری ان کا شیوہ اور ملنساری ان کی صفت تھی، جس سے بھی ملتے بڑے تپاک سے ملتے اور سامنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا، طبیعت میں سادگی، میانہ روی اورخلوص خوب خوب تھا۔

ہمارے گھر سے پچھم طرف بالکل سامنے ہی مسجد ہے، بلکہ یوں کہیے کہ گھر اور مسجد کے درمیان فقط ایک پتلی سی گلی ہے، میں نے بچپن سے دیکھا کہ آپ اسی مسجد میں پنج وقتہ نماز کی امامت کرتے ہیں، بلکہ ذہن پر زور ڈالتا ہوں تو یاد آتاہے کہ بڑے دادا جناب مولانا عبد الحکیم فیضی رحمہ اللہ مغرب کی نماز پڑھاتے تھے، بعد میں پیرانہ سالی اور کمزوری کے باعث بڑے دادا نے امامت ترک کر دی، اب دادا باقاعدہ طور پر پانچ وقت کے امام اور بعد میں متولی بھی بنے، دادا جب تک امام رہے کبھی امامت کا ناغہ نہیں ہوا اور نہ ہی مسبوق ہوئے، الا یہ کہ شہر سے باہر گئے ہوں(یا کوئی شرعی عذر درپیش ہو)، آپ کا معمول تھا کہ اذان کی آواز سنتے ہی تمام کام چھوڑ کر اٹھ جاتے، وضو بناتے اور مسجد چل پڑتے،فجر کی سنت عموما گھر ہی پر ادا کرتے (کما ورد فی السنۃ)اور دیگر نمازوں کی قبلی وبعدی سنتیں مسجد میں پڑھتے، آپ کا معمول تھاکہ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد اپنے کمرے میں جاتے اور دادا اور دادی دونوں تلاوت قرآن میں مشغول ہو جاتے، تلاوت سے فراغت کے بعد اپنے چھوٹے موٹے کام خود کرتے، بلکہ اس معاملےمیں آپ بہت حساس تھے، اپنا کوئی بھی چھوٹا بڑا کام اپنے ہاتھوں سے کرتے اور کسی کو اجازت نہیں تھی کہ ان کے روز مرہ کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹائیں، زندگی بھر یہی آپ کا معمول رہا تآنکہ قوی کمزور ہو گئے اور طاقت وقوت کم سے کم ہوتی چلی گئی تب بادل نخواستہ دوسروں سے کام لیتے۔ روز مرہ کے کاموں سے فراغت کے بعد پھر پڑھنے لکھنے میں مشغول ہو جاتے، گھر میں داخل ہوتے ہی بالکل سامنے ایک بستر لگا ہوا رہتا ہے، اسی کو آپ نے اپنے اٹھنے بیٹھنے اور پڑھنے لکھنے کے لیے وقف کر رکھا تھا، اور وہیں سے باہر سے آنے والے مہمانوں اور ملاقاتیوں کی آمد پر اٹھ کر جاتے اور بیٹھک میں ان سے ملاقات کرتے، ان کے لیے از خود ناشتہ پانی اور ضیافت کا اہتمام کرتے، پھر ظہر کی اذان تک یہی معمول رہتا، ظہر سے فراغت کے بعد کھانا کھاتے اور پھر قیلولہ کے لیے لیٹ جاتے ، عصرکے بعد جب دھوپ کی شدت کم ہو جاتی اور مغرب میں قریب ایک گھنٹہ باقی رہتا تو گھر سے تھوڑی دور پر واقع مرزاہادی پورہ چوک تک پیدل جاتے اور وہاں سے سبزیاں اور سودا سلف لیتے، چوک ہی پر آپ کے ایک دوست جناب شکر اللہ صاحب کی دوکان تھی وہاں کچھ دیر بیٹھتےیا پھر اس سے متصل حکیم مصباح الرحمان صاحب کے مطب پر براجمان ہوتے، مغرب سے ذرا قبل گھرواپس آتے اور اذان سے پہلے ہی وضو کر لیتے تاکہ مغرب سے قبل دو رکعت سنت ادا کر سکیں، مغرب اور عشا کے درمیان کبھی تو پڑھنے لکھنے کا کام کرتے، یا کبھی کسی کو اپنے پاس بلا کر اس سے باتیں کرتے، زیادہ تر چھوٹے چچا اسجد انصاری سے دیر تک گفتگو کرتے، پھر عشا بعد ہلکا پھلکا کھانا تناول کر کے دیر تک آنگن میں چہل قدمی کرتے اور اس کے بعد مطالعہ میں محو ہو جاتے، ان گنہگار آنکھوں نے ہوش سنبھالنے کے بعد سے دادا کے مرض الموت سے قبل تک دیکھا کہ کبھی آپ نے تہجد کی نماز نہیں ترک کی۔ کڑاکے کی سردی ہو یا تپا دینے والی گرمی، ہر موسم اور ہر حالت میں آپ اس سنت پر سختی اور پابندی سے تا حیات عمل پیرا رہے۔

نماز کے معاملے میں آپ بہت زیادہ حساس تھے، سنن، نوافل، وتر وغیرہ کا خود بھی اہتمام کرتے اور ہمیشہ ہم سب کو بھی تلقین کرتے اور محاسبہ بھی کرتے، ایک مرتبہ دریافت کیا کہ فجر کی سنت پڑھتے ہو؟ پھر کہنے لگے کہ مدرسہ میں پڑھنے والے عموما سنت فجر سے غفلت برتتے ہیں،ایک بار میں اور عزیزی یاسر اسعد کسی سفر سے واپس آئے، اگلے دن اپنے پاس بلایا اور اثنائے سفر نماز ادا کرنے کے متعلق استفسار کیا، جیسا کہ سطور بالا میں ذکر ہوا کہ آپ ایک لمبے عرصے تک گھر کے سامنے مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے رہے اور نماز تو کجا امامت میں بھی کبھی کسی قسم کا تساہل نہیں برتا، غالبا2004 میں بنارس میں آپ کی آنکھ کا آپریشن ہوا، اس دوران آپ نے دو لوگوں کو امامت کے لیےعارضی طور پر مامور کیا، صحت یابی کے بعد آپ نے پھر سے نماز پڑھانا شروع کیا، البتہ فجر اور عشا کی امامت محلے کے ایک عالم مولانا شاہد کلیم مدنی رحمہ اللہ کے سپرد کر دی، اور پھر جب دادا کی صحت گرتی گئی، آواز ہلکی ہوتی گئی اور کمزوری نے اپنے پاؤں پھیلانے شروع کیے تو آپ نے امامت سے کلیتا استعفی دے دیا اور مولوی شاہد کلیم مرحوم نماز پڑھانے لگے، البتہ کبھی کبھار امام کی عدم موجودگی میں خود پڑھاتے، اس کے بعد جب کمزوری بڑھتی گئی تو مجبورا گھر میں نماز پڑھنے لگے، لیکن آپ کو ہمیشہ اس بات کا افسوس رہتا کہ آپ مسجد میں اب نماز نہیں ادا کر پا رہے ہیں۔

دادا کی پوری زندگی تعلیم وتعلم، درس وتدریس ، تصنیف وتالیف اور خطابت وتقریر میں گذری، ایسی زندگی جسے علم وعمل اور دعوت وتبلیغ سے بھرپور کہا جا سکتا ہے، میں نے آپ کو پڑھاتے نہیں دیکھا کیوں کہ آپ عرصہ ہوا تدریس سے سبکدوش ہو چکے تھے، لیکن اس کے بعد بھی کچھ عرصے تک جامعہ عالیہ عربیہ میں اعزازی طور پر پڑھایا، جب میں پرائمری کا طالب علم تھا تو کبھی کبھار دیکھتا کہ آپ مدرسے میں موجود ہیں، اور بسا اوقات کلاس روم میں ملنے بھی آتے اور اپنے ساتھ کچھ کھانے پینے کے سامان بھی لاتے۔ ایک طفل مکتب کی خوشی کا اندازہ لگائیے کہ جب اس کے دادا اس کی درس گاہ میں آتے ہیں اور اسے تحفہ دیتے ہیں اور حال چال پوچھتے ہیں تو اس کا سینہ فخر سے چوڑا ہو جاتا ہے۔

دادا کے شاگردوں کی تعداد بلاشبہ ہزاروں میں ہے کیوں کہ آپ نے کم وبیش نصف صدی تک تدریس کی ہے، شہر مئو کے اکثر کبار علماء کو آپ سے نسبت تلمذ ہے، کتنے شاگرد ہیں جو گذر گئے اور بہتیرے مرحوم کی شمع علم سے جلا پا کر چہار سو روشنی پھیلانے میں مشغول ومصروف ہیں، سیکڑوں متلاشیان سند عالی نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور حدیث کا اجازہ حاصل کیا۔ عرب دنیا کو جب آپ کے علو سند کے متعلق خبر ہوئی تو ہاتھوں ہاتھ لیا، متعدد مرتبہ سعودی عرب، قطر اور کویت میں آپ کو دعوت دی گئی اور مجلس سماع واجازہ سجائی گئی ، نیز ملک وبیرون ملک سے بکثرت طلبہ وعلما گھر تشریف لاتے اور آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتے ، اطراف حدیث کی قرأت کرتے اور سند اجازہ حاصل کرتے، ہم نے اس وقت یہ بھی دیکھا تھا کہ ایک لمبے عرصے تک بذریعہ فون بھی کئی طلبہ مسلسل حدیث سناتے اور آپ سے پڑھتے، یہ سلسلہ تقریبا اخیر عمر تک جاری رہا، البتہ جب کمزوری زیادہ ہو گئی،یاد داشت خطا کرنے لگی اور پڑھنے لکھنے کا کام کم سے کم ہوتا چلا گیا تو آپ نے مجبورا یہ سلسلہ بند کر دیا اور متلاشیان علم سے معذرت کر لی۔کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ ہم بھائی یا بہنوں کو کسی حدیث کی تخریج کا حکم دیتے، فلاں مصدر یا مرجع طلب کرتے، کوئی حوالہ تلاش کرنے کا مکلف کرتے،چوں کہ آپ کا قیام دور ارضی پر تھا اور اوپر پہلی منزل پر ایک کمرہ بطور لائبریری بنایا گیا تھا ، چنانچہ جب آپ کو کسی کتاب کی ضرورت ہوتی تو ہم لوگوں کو بھیج کر وہ کتاب منگواتے اور پھر واپس رکھواتے،چھٹیوں میں یا عید سے قبل تمام کتابوں، مجلات وجرائد اور دیگر مراجع ومصادر کی صفائی کا حکم دیتے اور انھیں از سر نو مرتب کرتے۔

اللہ کے فضل سے آپ نے ایک طویل عمر پائی اور اس میں بڑی برکت بھی ملی، اللہ تعالی نے آپ کو علم کے ساتھ ساتھ اولاد میں بھی برکت سے نوازا، چنانچہ آپ کے کل چھ بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں ، جن سے21 پوتے پوتیاں، 24 نواسے نواسیاں ہیں، علاوہ ازیں بہت سارے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں(جن کی تعداد فی الحال 24 ہے)گویا آپ کے کل اولاد، احفاد مع اولاد احفاد (81 )افراد ہیں۔آپ کے سب سے بڑے صاحبزادے اور میرے بڑے والد جناب احمد انصاری سول انجینیر ہیں، پھر والد محترم مولانا اسعد اعظمی اور ان کے بعد دو جڑواں چچا ارشد اعظمی و امجد اعظمی ہیں جو حافظ قرآن ہیں، ان سے چھوٹے چچا ڈاکٹر اجود انصاری جو مدرسہ عالیہ عربیہ سے فارغ التحصیل اور بروقت میڈیکل آفیسر ہیں، سب سے چھوٹے چچا اسجد کمال(بی ایس سی) تجارت سے وابستہ ہیں، دو پھوپھیاں معلمہ ہیں، محترمہ نیرہ خاتون مدرسہ عالیہ عربیہ کے شعبہ نسواں میں ٹیچر ہیں اور سب سے چھوٹی پھوپھی گلشاد یاسمین کلیۃ فاطمۃ الزہراء میں پرنسپل کے عہدے پر ہیں، احفاد میں آپ کے نواسے نواسیاں بھی تعلیم وتعلم سے منسلک ہیں، جن میں مولوی فوزان انصاری (مدرس جامعہ عالیہ عربیہ مئو)مولانا وڈاکٹر کاشف جمال (مدرس جامعہ عالیہ عربیہ مئو)مولانا وڈاکٹر فرحان انصاری (مترجم کویت ایمبیسی)مولانا و ڈاکٹر ریحان انصاری(متعلم جواہر لال نہرو یونیورسٹی) براداران شاہد کمال وعادل ضیاء بھی تدریس سے منسلک ہیں، پوتوں میں یہ خاکسار جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ماجستیر کا طالب علم ہے، برادر خورد یاسر اسعد جامعۃ الملک سعود میں بی اے کے مرحلے میں ہیں، جب کہ چچا زاد بھائی عزیزی حماد انصاری جامعہ سلفیہ بنارس سے فراغت کے بعد طائف یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں، تین چچا زاد بھائی عزیزان عبد الرحمن وشیبان و شاداب انصاری جامعہ عالیہ عربیہ میں شعبہ عربی کے طالب علم ہیں۔ علاوہ ازیں پوتیاں اور نواسیاں بھی سب زیور تعلیم سے آراستہ ہیں اور اسی راستے سے جڑی ہوئی ہیں۔ کل ملا کر کہا جا سکتا ہے کہ آپ نے اپنے پیچھے تعلیم یافتہ اولاد کی شکل میں ایسے وارثین چھوڑے ہیں جو”ولد صالح یدعو لہ “کے ساتھ “علم ینتفع بہ “کے بھی مصداق ہیں۔

اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کی بات نہیں

فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں

دادا کے پاس یادوں اور تجربات کا ذخیرہ تھا، انھوں نے اپنی تعلیمی وتدریسی زندگی میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا اور مختلف مدارس ومعاہد سے کسب فیض کیا اور جگہ جگہ علم کے موتی بھی لٹائے، مئو میں مدرسہ فیض عام اور مسلم انٹر کالج کے علاوہ مدرسہ دارالحدیث رحمانیہ، جامعہ دارالسلام عمرآباد میں بھی چند ماہ علمی تشنگی بجھائی، اول الذکر ادارے میں جب زیر تعلیم تھے تو اسی وقت آزادی وتقسیم ہند کا واقعہ پیش آیا جس کے سبب یہ عظیم الشان درسگا مرحوم ہو گئی اور آپ کو بھی واپس ہونا پڑا، جب کہ آخر الذکر مدرسے کی آب وہوا راس نہ آنے کے سبب اس ادارے کو بھی خیر باد کہا، دہلی میں قیام کے دوران آپ نے مولانا ابولکلام آزاد اور پنڈت جواہر لعل نہرو سمیت کئی لیڈروں کو دیکھا، مئو میں کسی مناسبت سے مولانا محمد اسماعیل سلفی گجرانوالہ کی آمد ہوئی تھی اور ان کی تقریر سماعت کی تھی،ایک مرتبہ کسی جلسے کی مناسبت سے مئو آئمہ الہ باد مع اپنے والد(مولانا عبد العلی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ)گئے جہاں پر مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ سے شرف ملاقات حاصل ہوا، مئو میں1927 میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس ہوئی جس میں وقت کے اکابر علماء نے شرکت کی تھی، دادا (غالبا اپنے والد مرحوم کے حوالے سے)روایت کرتے ہیں کہ اس وقت علما کو ٹرین سے رہائش گاہ تک لے جانے کے لیے لوگ پیش پیش تھے جن میں خاکسار کے پر نانا جناب حاجی محمد یسین رحمہ اللہ (والد ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری مرحوم) اور مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ کے والد گرامی خود اپنے ہاتھوں سے تانگہ کھینچ کر علماء کو منزل تک پہنچانے کے فرائض انجام دے رہے تھے، مذکورہ کانفرنس کا ایک دلچسپ واقعہ سیرت ثنائی میں مذکور ہے کہ “آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کے اجلاس منعقدہ مئوناتھ بھنجن کے موقع پر منتظمین نے یہ انصرام کیا کہ جن علماء و مقررین کو جلسہ پر مدعو کیا گیا ان کے لیے حسب پسند سواریاں فراہم کر دی گئیں جو صاحب جس قسم کی سواری پسند کرتے اس کو وہی مہیا کی جاتی۔ اس جلسے پر حضرت مولانا ثناء اللہ اور حضرت مولانا محمد دہلوی مرحوم بھی تشریف لے گئے ،جب یہ دونوں حضرات گاڑی سے اترے تو دونوں سے سٹیشن پر دریافت کیا گیا کہ انھیں کون سی سواری مرغوب ہے ۔ مولانا ابوالوفاء نے پالکی پسند فرمائی اور مولانا محمد نے ہاتھی کی سواری جب یہ دونوں حضرات اپنی اپنی سواریوں پر بیٹھ کر روانہ ہوئے ، تو مولانا محمد نے مہابت سے کہا:”مولانا ابوالوفاء پالکی میں بیٹھ کر آگے نکل گئے ہیں ۔ تم ہاتھی کو ذرا تیز بھگاؤ اور ان کی پالکی سے آگے نکل جاؤ “مہابت نے حکم کی تعمیل کی، جب ہاتھی مولانا ثناء اللہ کی پالکی کے قریب سے گزرا ، تو مولانا محمد نے بلند آواز سے کہا :”ورفعنا لك ذكرك”مولینا ابو الوفا نے فوراً جواب دیا”الم تَرَكَيفَ فَعَلَ رَبُّكَ بأصحاب الفيل”(سیرت ثنائی:162-163)

دادا مرحوم کی یہ عادت تھی کہ وہ زیادہ تر تعلیم وتعلم اور مطالعہ وکتاب خوانی کے متعلق گفتگو کرتے، اپنی اولاد واحفاد کی تعلیمی سرگرمیوں کے متعلق باخبر رہنا، تعلیمی زندگی میں ان کی مشکلات کو سننا اور ان کا مناسب حل پیش کرنا، کامیابی پر خوشی کا اظہار کرنا اور حوصلہ افزائی کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا، یادش بخیر جب میں نے حفظ قرآن کی تکمیل کے بعد پہلی مرتبہ مکمل تراویح کی نماز پڑھائی تو اس وقت دادا بہت خوش ہوئے، وہ عید کا دن تھا جب ہمارے ایک رشتے دار (جناب اعجاز یونائٹیڈ مرحوم) دادا سے ملنے گھر آئے، میں ان کی ضیافت کے لیے ناشتہ لے کر کمرے میں گیا، مہمان نے مجھے ایک نظر دیکھا اور دادا سے پوچھا کہ “ماموں! کیایہی لڑکا ہے جس نے اس بار تراویح پڑھائی ہے؟” میں یہ سن کر چونک گیا، مگر رکا نہیں اور ناشتہ رکھ کر کمرے سے باہر نکل گیا اور دروازے کی آڑ میں چھپ گیا، مجھے یہ سننا تھا کہ آخر میری تراویح خوانی کے متعلق کیا بات ہو رہی ہے، دادا نے مہمان کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ “ہاں، یہی ہے جس نے تراویح پڑھائی ہے، اس لڑکے نے جب پڑھانا شروع کیا تھا تو مجھے امید نہیں تھی کہ پورے رمضان تراویح پڑھا لے جائے گا، مگر اس نے ایسے بہترین انداز میں پڑھایا کہ میں حیران رہ گیا” میں کمرے کے باہر کان لگا کر ان کی باتیں سن رہا تھا اور پھولے نہیں سما رہا تھا، دراصل اس وقت میری عمر 12 سال تھی، اور دادا کو نہیں لگتا تھا کہ میں اس کم عمری میں تراویح کی امامت کا متحمل ہو سکتا تھا، مگر جب میں نے مکمل تراویح پڑھا دی تو بہت خوش ہوئے اور خوب شاباشی دی۔

جامعہ سلفیہ بنارس سے فراغت کے بعد میں نے آپ سے مستقبل کے بارے میں دریافت کیا کہ آگے کیا کرنا چاہیے، اس وقت ابھی جامعہ اسلامیہ میں داخلہ نہیں ہوا تھا، میں اپنے مستقبل کے تئیں فکر مند تھا کہ آیا تعلیمی سلسلہ جاری رکھوں یا پھر تدریس سے جڑ جاؤں، مگر تدریس سےمنسلک ہونے پر میں نے عرض کیا کہ میرے پاس ابھی کوئی تجربہ بھی نہیں ہے، نیا نیا فارغ ہوا ہوں اور علمی اعتبار سے خود کو تدریس کے لیے نا اہل سمجھتا ہوں، اس پر دادا نے بڑی خوبصورت بات کہی، فرمایا کہ “میں بھی جب فارغ ہوا تھا تو کچھ خاص علمی استعداد وصلاحیت نہیں تھی، بلکہ اس وقت تعلیم کا معیار بھی کافی کمتر تھا، کسی کسی سال تو پوری ایک کلاس کی تعلیم بھی نہیں ہوا کرتی تھی، مدرسین اور طلبہ دونوں کا فقدان تھا، علاوہ ازیں گھریلو ذمہ داریاں اور مشقت الگ سے رہتی تھیں، بس یوں سمجھو کہ پڑھائی تو برائے نام ہوئی ہے،” میں نے پوچھا کہ پھر آپ کی تدریسی صلاحیتیں کہاں سے صیقل ہوئیں، فرمایا کہ “تدریس ہی سے چراغ سے چراغ جلا، جب پڑھانا شروع کیا تو اسی وقت خوب جم کر محنت کی اور اللہ نے توفیق دی تو علم اور صلاحیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا”یہ اسی کا ثمرہ تھا کہ آپ نے جن اداروں میں بھی فریضہ تدریس ادا کیا وہاں کے طلبہ آپ سے مطمئن رہے، مدرسۃ الاصلاح سرائے میر میں محض ایک سال پڑھایا مگر آپ کی یاد داشت میں لکھا ہے کہ “مدرسۃ الاصلاح میں یہ پر مشقت تدریسی سال اس طرح نباہ دیا کہ طلبہ مطمئن اور خوش رہیں۔”

جامعہ اسلامیہ میں میرا داخلہ ہوا تو بہت خوش ہوئے، پوچھا کہ کس کلیہ میں داخلہ لو گے، میں نے اپنی ذاتی رغبت اور دلچسپی کی بنیاد پر کہا کہ میرا ارادہ تو کلیۃ اللغۃ العربیۃ میں پڑھنے کا ہے، مگر آپ نے کہا کہ کلیۃ الشریعۃ میں داخلہ لو، اس وقت زیادہ ضرورت اس کی ہے، لیکن میں نے اپنی طبیعت اور مزاج کو دیکھا تو مجھے محسوس ہوا کہ لغۃ ہی میرے لیے زیادہ موزوں ہے سو میں اپنے فیصلے پر قائم رہا، بعد میں بتایا تو کہا کہ چلو بہتر ہے، اپنی مرضی اور رغبت کے بموجب میدان اختیار کرنا چاہیے، ماجستیر میں داخلہ ہوا تو والدین کو خبر کرنے کے بعد سب سے پہلے آپ کو خوش خبری سنائی، بہت خوش ہوئے اور ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا۔

مدینہ رہتے ہوئے میں اکثر رابطہ کرتا اور خیر خیریت دریافت کرتا، جب بھی فون کرتا تو یہی کہتے کہ بڑی خوشی ہوئی کہ تم لوگوں سے بات ہو گئی، کب آنا ہے؟ پتہ نہیں ملاقات ہوگی یا نہیں؟ میں کہتا کہ دادا !ضرور ملاقات ہو گی، اللہ آپ کا سایہ تا دیر قائم رکھے، کہتے کہ طبیعت دن بدن بگڑتی جا رہی ہے، کمزوری کا غلبہ ہے، لیکن الحمد للہ علی کل حال، پھر تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں دریافت کرتے، موسم کے متعلق پوچھتے، پھر کہتے کہ دعامیں یاد رکھنا۔ دادا سے یہی آٹھ دس منٹ رسمی سی باتیں ہوتیں مگر اس کے بعد دادا خوش ہو جاتے اور مجھے بھی بڑا اچھا محسوس ہوتا، پچھلی مرتبہ گھر جانے سے تقریبا ایک ماہ قبل بات ہوئی تھی، اس وقت یاد داشت سلامت تھی، حسب سابق انھوں نے کہا کہ پتہ نہیں اب ملاقات ہو سکے گی یا نہیں ؟ میں بہت شدت سے منتظر ہوں، مگر جب میں گھر پہنچا اور ملاقات کے لیے گیا تو اب یاد داشت تقریبا ختم ہو چکی تھی، نہیں معلوم کہ پہچان سکے یا نہیں۔

کس قدر وہ رات بھاری تھی ترے بیمار پر

چارہ گر اٹھ اٹھ کر سوئے آسماں دیکھا کیے

دادا نے ایک عالم باعمل کے طور پر زندگی گذاری، ایسی زندگی جو زہد وتقوی اور ورع سے معمور رہی، صوم وصلاۃ کی پابندی، تلاوت ، اذکار، نوافل وتہجد کا حد درجہ اہتمام، منہیات، غیبت، بدکلامی وبدزبانی سے سختی سے احتراز، چھوٹوں سے شفقت ومحبت، بڑوں، مہمانوں، رشتہ داروں کی تکریم اور ان کے ساتھ حسن سلوک، مخالفین ومعاندین سے اعراض وتغافل، یہی کل ان کی صفات تھیں، آپ کے زہد وورع کی بہت ساری مثالیں ہیں جن کا ذکر یہاں مناسب نہیں، بس یوں سمجھیے کہ اوامر کی پابندی اور نواہی سے پرہیز سے ان کی زندگی عبارت تھی، ان کی وفات کے بعد زہد وتقوی کی کچھ ایسی مثالیں سامنے آئیں جنھیں سن کر میں حیران رہ گیا، کیوں کہ یہ بظاہر ایسی معمولی چیزیں تھیں جو شاید عوام تو کجا خواص بھی ان کو نظر انداز کر دیں مگر مرحوم نے وہاں بھی پایہ استقامت اختیار کیا جہاں بڑے بڑے سورماؤں کے پیر اور نیت پھسل جاتی۔

دادا اب ہمارے درمیان نہیں رہے اور ہم سے جدا ہوئے 2 مہینے سے زیادہ ہو گیا، ہم نے ان کے متعدد روپ دیکھے، ایک شفیق دادا، ایک مہربان والد، ایک اصول پسند شخص، ایک مخلص بزرگ، ایک زاہد وعابد، ایک مرنجان مرنج ہستی، اور نہ جانے آپ کی شخصیت کے کتنے روپ تھے ، بایں موقع میں آپ کے لیے رئیس احمد جعفری کے الفاظ مستعار لوں گا جو انھوں نے اپنے مرحوم استاد مولوی حیدر حسن خان کے بارے میں کہا تھا “ہمارے لیے تعین مشکل ہے کہ وہ ہمارے کیا تھے، ہم ان کے کیا تھے، ہم ان کی خاک پا بھی نہیں تھے لیکن وہ ہمارے لیے سب کچھ تھے، بہت کچھ تھے، اور ایسے کچھ تھے جس کا بیان لفظ وعبارت کی مدد سے ناممکن ہے۔”

تھوڑی سی اجازت بھی اے بزم گہ ہستی

آ نکلے ہیں دم بھر کو رونا ہے رلانا ہے

اللہ تعالیٰ دادا مرحوم کی تمام خدمات کو شرف قبولیت عطا فرمائے، ان کی بشری لغزشوں کو درگذر کرے، قبر کو نور سے بھر دے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے، نیز ان بیٹیوں کو جزائے خیر دے جنھوں نے آپ کی خدمت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا اور زبان پر حرف شکایت لائے بغیر شبانہ روز آپ کی تیمارداری اور دیکھ بھال میں اپنا آرام، سکون، نیند سب کچھ تج کر دیا، آمین انہ سمیع قریب مجیب الدعوات

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے

سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے

آپ کے تبصرے

3000