شریعت اور فکر و فن کی آزادی

عبدالوحید عبدالقادر سلفی عقائد و نظریات

الشريعة وحرية الإبداع
مقالہ نگار: علی حسن الروبی
ترجمانی: ابو عفاف عبد الوحید سلفی

شریعت اور فکر و فن کی آزادی کے موضوع پر وقتًا فوقتًا بحث و تکرار ہوتی رہتی ہے اور یہ سوال کھڑا کیا جاتا ہے کہ کیا اہل فکر و فن اور تخلیق کاروں کو شریعت کی حدود میں رہ کر اپنے فن کو پروان چڑھانا چاہیے یا انھیں شرعی پابندیوں سے آزاد کرکے اپنے فن میں اعلی مقام و مرتبہ تک پہنچنے کے لیے شترِ بے مہار چھوڑ دینا چاہیے؟۔ بالفاظ دیگر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ شرعی مخالفت کے باوجود کیا فکر و فن کی آزادی کو ترقی کے بامِ عروج تک پہنچنے کے لیے شرعی پابندیوں سے مستثنی کر دینا چاہیے؟ یا یوں کہا جائے کہ انسانی تہذیب و تمدن کے فروغ میں تخلیقی ہنر اور فنی مہارت کا مقام و مرتبہ اتنا عظیم ہے کہ اسے شرعی نگرانی کے دائرے سے مستثنی کر دینا چاہیے؛ کیوں کہ شرعی حد بندی کی وجہ سے یہ ہنر اپنے منزل مقصود تک پہنچنے میں نا کام رہ جاتا ہے۔ یہ بھی دعوی کیا جاتا ہے کہ جس طرح یہ فن تخلیق تمام سیاسی اور سماجی مؤثرات سے آزاد ہوتا ہے اسی طرح شرعی دخل اندازی سے بھی آزاد ہونا چاہیے، نیز تخلیق کار ہر طرح کی قید و بند اور رکاوٹوں سے بے نیاز ہونا چاہیے۔
اس طرح کے سوالوں کا جواب دینے کے لیے یہ جان لینا ضروری ہے کہ ہماری زندگی میں دین اور شریعت کی حیثیت کیا ہے؟ اور یہ کہ فکر و فن کی تخلیق کا ہماری زندگی سے کیا رشتہ ہے؟ جہاں تک دین کی بات ہے تو ہم کو یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارے نزدیک دین و شریعت کی اہمیت، اس کا مقام و مرتبہ اور اس کے مصادر کیا ہیں؟ اگر ہم یہ مانتے ہیں کہ دین و شریعت محض ایک خوبصورت اخلاقی اور روحانی مرتبے کے حصول کا نام ہے اور اس میں خطا اور صواب کا احتمال بھی ہے، اس کا تجزیہ اور بوقتِ ضرورت اصلاح ہونی چاہیے تو ایسی صورت میں فکر و فن دین کی پابندیوں سے اس وقت تک آزاد ہوں گے جب تک کہ عقلی طور پر یہ ثابت نہ ہو جائے کہ دین کا فیصلہ اس خاص معاملے میں برحق ہے اور اس میں کسی چوں چرا کی گنجائش نہیں!
مذکورہ مفروضے کی روشنی میں جب ہم غور کرتے ہیں تو ہم کو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عادات وتقالید کا تعلق اسی سے ہے جسے بہت سے لوگ شعوری یا غیر شعوری طور پر دین سمجھتے ہیں۔ ہم ان کا تحلیل و تجزیہ کرتے ہیں، اور جب اس کو اپنانا اور اس پر عمل کرنا ہمارے لیے درست ہوتا ہے تو اسے اپنا لیتے ہیں، اور کبھی اسے ترک کر دینا اور اس کی مخالفت کرنا ہمارے حق میں بہتر ہوتا ہے تو ہم اس سے کنارہ کشی کر لیتے ہیں۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بعض عادات و تقالید کسی خاص خطے اور علاقے کے لوگوں کے لیے یا کسی خاص نسلی طبقے کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں، ان کو ترک کرنا ان کے لیے آسان نہیں ہوتا، بلکہ اسے چھوڑنے میں انھیں کافی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، جبکہ دوسروں کی نظروں میں ان عادات و تقالید کو اپنانا جمود اوررجعت پسندی اور ظلم تک شمار کیا جاتا ہے!
مذکورہ قضیے کے برعکس جب ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ دین اسلام من جانب اللہ ہے اور محمد ﷺ پر وحی کے ذریعہ نازل ہوا، اس میں کسی خطا اور نقص کی گنجائش نہیں اور یہ حکمت و الے رب کی جانب سے ہے، جو تمام مخلوق کا خالق ہے۔ اپنی شریعت کو اس لیے نازل کیا کہ لوگ اسے بطور قانون اپنی زندگی میں نافذ کریں۔ تو ایسی صورت میں ہم پر یہ لازم ہوجاتا ہے کہ اپنے آپ کو دین و شریعت کا پابند بنائیں، کیونکہ دین کو حق مان لینے کے بعد اس سے راہ فرار اختیار کرنا جائز نہیں۔ اور جب یہ شریعت عدل و انصاف پر مبنی ہے تو اس سے خروج کا راستہ اپنانا ظلم ہے۔
شریعت مطہرہ میں امر و نہی کی پابندی اور حلال و حرام کی پاسداری میں کسی عالم و جاہل، داعی و مدعو، مفسر و غیر مفسر یا محدث و غیر محدث کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ ہر ایک سے شریعت کے احکام کی پابندی مطلوب و مقصود ہے، اور جو بھی اس سے منہ پھیرے گا وہ گمراہ اور منحرف گردانا جائے گا۔ جب شریعت اسلامیہ کے سلسلے میں ہمارا یہ عقیدہ ہے تو یہ کہنا کہ فلاں کے پاس یہ خاص ہنر اور فن ہے اس لیے اسے شرعی احکام سے بالا تر شمار کیا جائے، یہ کہاں تک درست ہے؟ عام لوگوں کے مقابلے اسے خصوصی رعایت ملنی چاہیے؟ اور کیا یہ کہنا بجا ہوگا کہ شریعت اس کے ساتھ استثنائی رویہ اختیار کرے؟ حلال وحرام کا قانون اس پر نافذ نہ ہو؟ اس لیے کہ وہ خصوصی مہارت و صلاحیت کا مالک ہے!
اب آئیے آزادیِ فکر و فن کے نعرے پر غور کرتے ہیں۔ فن تخلیق یا کسی خاص فن میں غیر معمولی صلاحیت اور لوگوں کی زندگی میں اس کی اثر انگیزی کے پہلو پر جب غور کرتے ہیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہنر یا تخلیقی صلاحیت ایک طرح سے انسانی حرکت و نشاط یا سلوک کا نام ہے جسے مطلقًا نہ خیر کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی کلی طور پر شر و فساد، بلکہ اس میں خیر و شر دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔ اس کے تجزیہ و تحلیل میں لوگوں کے نظریات مختلف ہو سکتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح کسی انسان کو تخلیق کار تسلیم کرنے میں اس اعلی معیار کو ماننے میں بھی لوگوں کا اختلاف ہو سکتا ہے جہاں پہنچنے کے بعد ہی اس کے ہنر کا اعتراف کیا جا سکتا ہے۔ اور جس طرح وہ تخلیقی صلاحیت انسانوں کے وضع کردہ فنی اور جمالیاتی پیمانے پر کھرا اترنے کے بعد ہی تخلیقی وصف سے سر فراز ہوتی ہے اسی طرح سے اس ہنر کا انسانی ضمیر اور شرعی قانون کا بھی پابند ہونا چاہیے۔
ایسی صورت میں دیگر انسانی اعمال کی طرح شریعت اس معاملے میں اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ انسان ذاتی طور پر اپنا مراقبہ کرے جب تک کہ اِس تخلیق و ہنر کا تعلق اس کی ذات تک محدود ہو۔ مثلا شریعت اسلامیہ شراب کو حرام قرار دیتی ہے مگر کسی کے گھر میں زبردستی گھس کر اس کو شراب نوشی سے نہیں روکتی بلکہ عمومی نظام و قوانین کی روشنی میں ایسا کرنے سے منع کرتی ہے۔ معلوم ہوا کہ جب فن تخلیق کا اثر صرف صاحب فن تک محدود ہو تو شریعت اس معاملے میں محض شرعی حکم بیان کرنے پر اکتفا کرتی ہے اور اسے اخروی انجام سے متنبہ کرتی ہے، مگر جب اس فن سے معاشرہ متاثر ہونے لگے اور اس کے غلط اثرات اس پر ظاہر ہونے لگیں تو شرعی طور پر ضروری ہے کہ معاشرے کے افراد کو اس کی خطرناکیوں سے محفوظ رکھنے کا اقدام کیا جائے۔ اگر کسی شاعر، کاتب، فلم ساز اور ایکٹر کو لگے کہ اپنے فن کو بلا قید و بند معاشرے میں پیش کرنے کا اسے حق حاصل ہے تو شریعت کو بھی یہ حق ہے کہ اس سلسلے میں اپنے موقف کا اظہار کرے اور معاشرے میں اس کے بُرے اثرات کے پیش نظر اسے فن کار کو لوگوں کے درمیان اپنے فن کا مظاہرہ کرنے سے روکے اور اسے شرعی قوانین کا پابند بنائے۔ ایسا کرنے میں نہ عقلی طور پر کوئی قباحت ہے اور نہ ہی جدید فکری مذاہب کی رو سے ایسا کرنے میں کوئی حرج ہے۔ اس لیے کہ حریت رائے و فکر کے داعیان کا یہ ماننا ہے کہ ہماری آزادی سے جہاں دوسروں کو نقصان پہنچنے لگے وہیں پر ہماری آزادی ختم ہو جاتی ہے۔
ایک مسلمان کا اس بات پر یقین ہے کہ کوئی بھی فن یا ہنر جس میں شرعی مخالفت پائی جاتی ہو اس کو عامۃ الناس کے سامنے پیش کرنا، اس کی نشر و اشاعت کرنا معاشرے کے افراد کے لیے اخروی خسارے کا باعث ہے، تو اگر شریعت ایسے اعمال پر پابندی عائد کرتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اگر وہ عمل دنیوی یا اخروی اعتبار سے نقصان دہ ہو تو اس سے روکنا بدرجہ اولی مطلوب ہے۔
آخری بات!اگر کسی کی نظر میں اخروی کامیابی کی کوئی اہمیت نہیں اور نہ ہی اسے مصالح اور مفاسد کی نظر سے دیکھتا ہے اور معاملات کو صرف دنیوی نفع و نقصان کی عینک سے دیکھتا ہے تو اس کی وجہ سے شریعت اسلامیہ کا روشن چہرہ داغ دار نہیں ہوتا اور ایسے میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سورج کو آئینہ دکھانا تو احمقانہ عمل ہے۔

آپ کے تبصرے

3000