بے زار ہوگیا تھا بہت میں حیات سے
لیکن ملا سکون ترے التفات سے
آنکھیں تمھارے حسن کے جلووں میں کھوگئیں
منظر پکارتے ہی رہے شش جہات سے
میرے جنون و شوق کی کیا حد ہے اے خدا!
بہلا سکا نہ دل کو تری کائنات سے
یوں محو ہوگیا ہوں کسی کے خیال میں
سب کام لگ رہے ہیں مجھے واہیات سے
لاتی ہیں توڑ توڑ کے شاخوں سے رات دن
کیا ایسا مسئلہ ہے ہواؤں کو پات سے
ہم بھی نگاہ ڈالتے دنیا کے حسن پر
فرصت کہاں ملی ہمیں تزئین ذات سے
جلتے ہیں اس طرح کہ ندارد ہے روشنی
کچھ عہد کرلیا ہے چراغوں نے رات سے
چنگاریاں سمیٹے ہوئے ہے مرا وجود
مجھ کو کریدیے گا ذرا احتیاط سے
دنیا نچوڑتی رہی ہم کو تمام عمر
چھوٹا نہ کوئی رنگ ہماری صفات سے
کہتے ہیں آپ آپ ہی دیوانہ شاد کو
نالاں بھی ہو رہے ہیں دِوانے کی بات سے
آپ کے تبصرے