بسترِ مخمل و سنجاب سے آگے لے چل
میری آنکھوں کو نئے خواب سے آگے لے چل
دل کسی اجڑے شبستاں کی طرف مائل ہے
دل کو اِس قریہ شاداب سے آگے لے چل
ناخدا یہ بھی کوئی رنگ ہے طوفانوں کا
کشتئ زیست کو گرداب سے آگے لے چل
تشنگی پھر نہ ٹھہر جائے لبِ ساحلِ شوق
شدتِ پیاس کو زہراب سے آگے لے چل
اک یہی راستہ صبر و شکیبائی ہے
آرزو کو دلِ بے تاب سے آگے لے چل
اے قضا! اتنی عنایت کی نظر ہو مجھ پر
ہوسکے تو مجھے احباب سے آگے لے چل
آپ کے تبصرے