سفر سفر نہ رہا دشت ناگہاں سا رہا
ہماری آنکھوں کے آگے دھواں دھواں سا رہا
میں اس کو دیکھ کے کچھ دیر تک رہا خاموش
پھر اس کے بعد خیالوں کا امتحاں سا رہا
کسی کے ہونے سے کھلتا ہے راز بود و نبود
مکیں رہے نہ تو دل بھی کہاں مکاں سا رہا
بس ایک لمحے کی غفلت کا یہ نتیجہ تھا
میں انتظار کی آنکھوں میں رائیگاں سا رہا
تری جدائی کے مقتل میں بچ گئی جاں جب
بدن میں روح نہ ہونے کا پھر گماں سا رہا
ہزار قسم کے غم قطرہ قطرہ جمع ہوئے
مآل غم شب فرقت میں خوں فشاں سا رہا
جگر میں درد برائے سیاہی بھرتے رہے
قلم کا حال سر صفحہ خونچکاں سا رہا
کبھی چراغ بجھا اور کبھی خزاں آئی
مزار دل میرے سینے میں بے اماں سا رہا
آپ کے تبصرے