زندگی کیا ہے اک سفر کے سوا۔
سفر جسمانی ہو یا روحانی، ایفیکٹ اور امپیکٹ میں صرف انگیجمنٹ کے لیول کا فرق ہوتا ہے۔
یاسیت اور قنوطیت ہنر مند، مال دار اور وجیہ کے بھی شب و روز کا عنوان ہوسکتے ہیں، اس سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے، سلیبریشن۔ مگر وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے بنا ممکن نہیں ہے۔
اکثریت امید رکھتی ہے، گیو اینڈ ٹیک (کما تدین تدان) سے صرف نظر کرتی ہے۔ نتیجتاً جو ہاتھ کبھی تالیاں بجاتے ہیں وہی موقع پڑنے پر کان کے نیچے بھی بجا دیتے ہیں۔ تالیوں کو تھپڑ بننے میں دیر نہیں لگتی۔
جسمانی سفر کے لیے روزہ مرہ کی زندگی میں مختلف مشاغل سے ربر کی طرح جڑے ہوئے تاروں کو ڈٹیچ کرنا پڑتا ہے، اس کا یارا اکثریت میں نہیں ہوتا۔
اکثریت روحانی سفر زیادہ کرتی ہے۔ گھر، سماج اور کام کی جگہ سے جڑے سارے تار اپنی اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں اور انسان سوشل میڈیا کی مدد سے ساری دنیا کی سیر کرتا رہتا ہے، مردوں کے نام پر عورتوں اور عورتوں کے نام پر مردوں سے رابطے میں رہتا اور ملاقاتیں کرتا ہے۔
یہ رابطے اور ملاقاتیں جسمانی واسطے اور تعلقات سے زیادہ ٹیمپٹنگ ہوتے ہیں۔ نتیجتاً منتخب اور مزین اقوال، محنت سے ایڈٹ کی ہوئی تصویروں اور قرینے سے سیلیکٹ کیے گئے ویڈیو کی بنیاد پر بنایا گیا ورچول رابطہ حقیقی رشتوں سے زیادہ وقت اور توجہ لیتا ہے۔ اس طرح دونوں کے بیچ بیلنس بگڑ جاتا ہے۔
یہ بگاڑ انسان کی زندگی میں سب کچھ ہونے کے باوجود باقی رہتا ہے۔ زندگی تو خود ہی ایک سفر ہے، انسان اپنے ہاتھوں اسے مزید سفرنگ (Suffering) بنالیتا ہے۔ وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ۔ حالانکہ ان میں سے اکثر معاملات میں تو اللہ رب العالمین بندے کو معاف ہی کردیتا ہے۔
جسمانی سفر کے معاملے میں مسلمان ہی نہیں ہر انسان کا معاملہ ایک جیسا ہے۔ ضرورت کی کم سے کم چیزیں لے کر سفر کرنے میں بندہ عافیت محسوس کرتا ہے۔ سفر میں پیش آنے والے واقعات و مشاہدات سے اگر سبق حاصل کیا جائے تو انسان اپنی اصل زندگی میں، اللہ کی بنائی ہوئی فانی دنیا میں بہت سی غیر ضروری چیزوں سے بچ سکتا ہے۔
تقریباً 28 سالوں میں درپیش 280 سے زائد یاتراؤں میں بہت سے لوگ ایسے ملے جو ہماری زندگی کا حصہ لگے، لگا کہ بناکر رکھیں گے۔ پہلے ایڈریس لیے جاتے رہے بعد میں نمبر۔
اب بھی سفر میں یہی خیال آتا ہے، مگر نمبر لینے تک بات نہیں پہنچتی۔ جو ایڈریس اور نمبر پہلے لیے گئے تھے وہ کاغذات پتہ نہیں کہاں ہیں، جس ڈائری میں پتے اور نمبر لکھے جاتے تھے کئی سال سے وہ نظر نہیں آئی، دو ڈھائی سو کانٹیکٹ لسٹ کی لمٹ والے وہ ہچ (Hutch)، بی پی ایل(BPL)، اورینج (Orange)، یونینار(Uninor) اور ٹاٹا ڈوکومو(Tata Docomo) کے سم بھی کہیں رکھے ہوں گے جن میں مختلف ہم سفروں کے نمبر ٹرینوں میں سیو کیے گئے تھے۔ کچھ نمبر نوکیا کے 1100 اور 6600 میں بھی تھے مگر ان کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ ابھی موبائل فون میں جو 2707 نمبر ہیں ان میں سے ستر بھی مسلسل رابطے میں نہیں ہیں۔
ایسے نمبروں کی طرح انسان زندگی کے سفر میں بہت ساری ایسی چیزیں جمع کرلیتا ہے جن کی اسے ضرورت نہیں رہتی۔ یہ سمجھنے اور برتنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اللہ رب العالمین کا حکم یاد رکھنا پڑے گا:
كُنْ في الدُّنْيا كأَنَّكَ غريبٌ، أَوْ عَابِرُ سبيلٍ (صحیح بخاری:6416) دنیا میں پردیسی یا راستہ چلتے مسافر کی طرح رہو۔
آپ کے تبصرے