دل محو تماشایے غم جاں سے بری ہے
پھر کیسی در و بست میں شوریدہ سری ہے
اک دل ہے کہ صحراؤں سی وحشت ہے یہاں پر
اک جاں ہے کہ رگ رگ میں اذیت ہی بھری ہے
آنکھیں ہیں کہ شمشیر بہ کف جیسے مجاہد
میدان محبت میں شہادت ہی دھری ہے
جس دم کہ ہمیں چھوڑ گیا تھا وہ سر خواب
دائم ہے وہی حال وہی بے خبری ہے
ہر چند قبا چاک ہوئی ہوش و خرد کی
پر عشق نے سمجھایا یہی دیدہ وری ہے
باقی ہیں ابھی اور بھی خم زلف جہاں میں
کچھ شوق کی قسمت میں ابھی در بدری ہے
چلتے چلے جاتے ہیں پہ منزل نہیں آتی
سچ مچ یہ سفر ہے کہ فقط بے سفری ہے
ہم چاہ کے بھی جب نہیں ہو پاتے فسردہ
ان کے ہی تغافل میں کوئی بے اثری ہے
دامن ہو کہ ہو سینۂ صد چاک ہمارا
لا ریب ترے ہاتھ میں ہی بخیہ گری ہے
بہت بہترین کلام ہے
در بہ دری والے شعر میں کچھ ٹائپنگ کی غلطی ہے وزن برابر نہیں آ رہا