داعی عظیم مولانا سید محمد اظہر بہاری رحمہ اللہ

فیروز احمد بلرام پوری تاریخ و سیرت

حضرت مولانا سید محمد اظہر بہاری رحمہ اللہ کی حالات زندگی کی تفصیل تو دستیاب نہیں ہوسکی البتہ آپ رحمہ اللہ کے بارے میں بزرگوں کے اقوال اور بعض مختصر تحریریں ملتی ہیں جن کی مدد سے میں نے کچھ باتیں منظر عام پر لانے کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اس تحریر کو طلبہ، علماء اور دعاۃ و مبلغین کے لیے نفع بخش بنائے۔ آمین

ہندوستانی علماء ومشائخ میں سے جن شخصیات نے نمایاں خدمات انجام دیں اور دین کی ارتقا و سربلندی کے لیے سب کچھ قربان کردیا انھی اللہ کے برگزیده بندوں اور عبقری شخصیات میں سے ایک مولانا سید محمد اظہر بہاری رحمہ اللہ بھی ہیں۔ جنھوں نے اپنی پوری زندگی شرک وبدعات کو مٹانے اور عقیدہ توحید اور تعلیمات کتاب وسنت کو لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے اور اس کی دعوت و تبلیغ کے لیے وقف کردی اور اپنے بے پناہ علم و عمل، تقوی و پرہیز گاری، محنتوں اور کوششوں سے دین اسلام کی وہ خدمت انجام دی کہ علاقہ میں جس کی دور دور تک نظیر نہیں ملتی ہے۔ سابق ضلع گونڈہ و بستی حالیہ ضلع بلرام پور اور سدھارتھ نگر کے بعض علاقوں میں اہل حدیثیت کی جو داغ بیل ڈالی گئی وہ مولانا سید محمد اظہر بہاری رحمہ اللہ ہی کی مرہون منّت اور انھی کی محنتوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہے۔

جامعہ سلفیہ بنارس میں تحصیل علم کے دوران قاعة المحاضرات میں مولانا عبد المعید مدنی حفظہ اللہ نے ایک مرتبہ دوران تقریر کہا تھا کہ مولانا محمد اظہر بہاری رحمہ اللہ کی دعوت و تبلیغ سے ضلع گونڈہ حالیہ ضلع بلرام پور میں تقریبا ڈھائی سو گاؤں اہل حدیث ہوئے تھے۔ (استفاده از مولانا عبد المعید مدنی حفظہ اللہ)

مولانا محمد اظہر شاہ بہاری رحمہ اللہ اصلا بہار کے رہنے والے تھے۔ مولانا عبدالغفور بسکوہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مولانا اللہ بخش بسکوہری رحمہ اللہ کے ہم عصر جناب مولانا سید محمد اظہر صاحب مرحوم ہیں۔ کسی وقت اس علاقہ (حالیہ ضلع بلرام پور موضع ادئی پور) میں تشریف لائے۔ آپ کی بزرگی ودینداری پر اکثر لوگ فریفتہ ہو کر آپ سے بیعت ہوگئے اور اس تعلق کی بنا پر ان کی نگرانی کی اور دینداری پر انھیں آمادہ رکھنے کے لیے آپ نے ساری عمر اس علاقہ میں صرف کر دی۔ آپ نہایت شکیل و قد آور گندمی رنگ تھے۔ سنت کے سچے شیدائی تھے۔ اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا غرض کل کام میں سنت کا بہت خیال رکھتے تھے۔ آپ کا کتب خانہ بے نظیر کتابوں سے بھرا رہتا تھا۔ باوجود تقریبا سو برس عمر پانے کے آپ کے ہوش و حواس میں کچھ فرق نہ آیا تھا۔ (ماخوذ از اہل حدیث امرتسر مجریہ 23 رمضان 1346 ہجری)

آپ رحمہ اللہ کا بڑا زبردست کتب خانہ تھا۔ غالبا مولانا عبدالرؤف صاحب رحمانی رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ استقبالیہ (برائے اجلاس عام نوگڑھ منعقدہ 16 – 19 مارچ 1961ء ص 10) میں جن کتابوں کے جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر منتقل ہونے کا ذکر کیا ہے ان میں آپ کی کتابیں بھی شامل ہیں۔ مولانا محمد اسحاق رحمانی گونڈوی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ آپ غیر شادی شدہ اور پہلوان تھے۔ ایک پہاڑی کو جو بہت مشہور تھا ایک لمحہ میں پچھاڑ دیا تھا۔ قرب و جوار میں کوئی شادی اسی وقت ہوتی تھی جب آپ کا دستخط ہو جاتا۔ آپ کیمیا گر تھے۔ پالکی پر چلتے تھے اور پالکی اٹھانے والوں کو پیسہ پہلے ہی دے دیتے تھے۔ ( علماء اہل حدیث بستی و گونڈہ از ڈاکٹر بدر الزماں نیپالی حفظہ اللہ ص 135 تا 137)

آپ رحمہ اللہ علامہ عبدالحق محدث بنارسی رحمہ اللہ( 1206 ھ 1286ھ مطابق 1791ء1869ء) کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ انھوں نے اس کوردہ خطہ اور شرک و بدعت میں ڈوبے علاقہ کو اپنی دعوتی تگ و تاز کا مرکز بنا رکھا تھا۔ آپ کی بزرگی اور ورع و تقوی سے علاقہ کے لوگ کافی متاثر ہوئے اور ان کے عقیدت مند بن گئے یا بلفظ دیگر ان کے حلقہ ارادت میں داخل ہو گئے۔ وہ سچے متبع سنت تھے اور اپنے عقیدت مندوں اور مریدوں کو سنت کے رنگ میں رنگنے کے لیے تاحیات کوشاں رہے۔ علمی تبحر بھی خوب تھا مولانا عبد الغفور بسکوہری رحمہ اللہ کے بقول:

“آپ کو جزئیات مسائل بہت مستحضر تھے، علاوہ صحاح ستہ کے نیل الاوطار، زاد المعاد و کشف الغمہ وغیرہ کتب حدیث کے گویا حافظ تھے۔” (اہل حدیث امرتسر 23 رمضان 1346ھ)

مولانا عبدالغفور بسکوہری رحمہ اللہ نے بڑے اختصار و جامعیت کے ساتھ ان کی دعوتی کاوشوں کے ثمرات کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے: “آپ کے ذریعے سے علاقہ میں سنت کا بہت کچھ چرچا ہوا، اکثر مرد و عورت آپ کی ذاتی کوششوں سے آباء و اجداد کے رسوم کو ترک کر کے سنت پر عامل ہوگئے اور آج اکثر اہل حدیث مولانا کی بحیثیت یادگار باقی ہیں۔ ( اہل حدیث امرتسر 23 رمضان 1346ھ )

اس علاقہ میں تشریف لانے کے بعد موصوف نے اولا کواپور اسٹیشن (ضلع بلرام پور سابق ضلع گونڈہ) سے متصل گاؤں جے نگرا میں قیام کیا، پھر وہاں سے تقریبا 10 کلومیٹر شمال کی جانب واقع ادئی پور گاؤں کو اپنا مستقر بنایا اور وہیں سے پورے علاقہ میں اپنا مشن چلاتے رہے۔(کاروان سلف: ج1 ص20 – 21 مع حاشیہ)

مولانا محمد اظہر شاہ بہاری رحمہ اللہ نہایت جری، حق گو اور مجاہد داعی تھے اور حق کے سلسلے میں بڑے سے بڑے شخص کو بھی خاطر میں نہ لاتے تھے۔ مولانا ڈاکٹر بدر الزمان نیپالی حفظہ اللہ نے لکھا ہے کہ :

“علاقے کے مسلمانوں پر آپ کی ایسی گرفت تھی کہ آپ کی اجازت کے بغیر لڑکی اور لڑکے کا رشتہ طے نہیں ہوسکتا تھا۔ نہ نکاح کی تاریخ مقرر ہوسکتی نہ بارات میں بلا اجازت ایک متنفس آ جا سکتا تھا۔ بارات وغیرہ رسومات پر بڑی نظر رکھتے تھے۔ بڑے بڑے زمیندار (جبکہ زمیندار واقعی زمیندار تھے اور رئیسانہ وجاگیردارانہ دماغ رکھتے تھے) آپ کے سامنے آنے اور جواب دہی سے خائف رہا کرتے تھے ان بڑے بڑے زمینداروں کو کسی فعل منکر پر اس طرح ڈانٹ پلاتے تھے جیسے کوئی اپنے سائیس کو ڈانٹ ڈپٹ رہا ہو”

از شکوہ بوریا لرزد سریر

(علمائے اہل حدیث بستی و گونڈہ ص 136 و خطبہ استقبالیہ مولانا عبد الرؤف جھنڈا نگری رحمہ اللہ ص 9 – 10)

ضلع بلرام پور سابق ضلع گونڈہ اور اس سے متصل ضلع سدھار تھ نگر میں آپ کے دعوتی اثرات بڑے نمایاں طور پر محسوس کیے جا رہے ہیں۔ ادئی پور کا علاقہ جو شرک و بدعت کا گڑھ سمجھا جاتا تھا وہاں گاؤں کا گاؤں آپ کی مخلصانہ کوششوں سے اہل حدیث ہو گیا۔ ادئی پور، رجوا پور، بدلپور، گلرہا، املیا، بنہونی، بھلوہیا، جے نگرا، سمرہن وغیرہ تلسی پور کے اطراف کے مواضعات دیالی پور، ہرہٹہ، دینہ ڈیہہ، بلرام پور کے علاقہ میں شنکر نگر، بھیکم پور، سیکھرپور، بھکچیہا اور بڑھنی سے قریب مواضعات بجوا، بیروا، گورا بھاری، دھنکرپور، ملگیہا، مصرولیا اور اس وقت کے دیگر اہل حدیث مواضعات میں توحید اور اتباع سنت کی جو باد بہار چلی بڑی حد تک وہ آپ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ ان مقامات میں جو چھوٹے بڑے مدارس ومکاتب قائم ہوئے ان کے قیام میں بھی براہ راست یا بالواسطہ مولانا محمد اظہر شاہ بہاری رحمہ اللہ کی کاوشوں ہی کا دخل ہے۔

مولانا محمد اظہر شاہ بہاری نے ضلع گونڈہ حالیہ بلرام پور کے اس کوردہ شمالی خطہ کے علاوہ اس کے جنوبی خطہ یعنی اترولا اور بونڈیہار وغیرہ کا علاقہ اور اسی طرح موجودہ ضلع سدھارتھ نگر اور سابق ضلع بستی کے بسکوہر، ڈومریا گنج اور بانسی کے اطراف کا بھی بارہا دعوتی دورہ کیا اور ان کی تبلیغی کوششوں سے اضلاع بستی وگونڈہ کے قصبات و مواضعات انوار توحید و سنت سے جگمگا اٹھے۔ اس سلسلہ میں مولانا عبدالوہاب حجازی حفظہ اللہ کے خطبہ استقبالیہ کا ایک اقتباس نقل کرنا شاید بے محل نہ ہوگا جسے مولانا نے فلاح انسانیت کانفرنس منعقدہ 20- 19 مئی 2012ء بمقام کسمہی ضلع سدھار نگر میں پیش کیا تھا اور اپنے علاقہ میں بزرگ اہل حدیث علماء مبلغین کی دعوتی کاوشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا تھا: “علاقہ بلرام پور کے معروف بے باک اور مجاہد داعی کتاب و سنت حضرت علامہ مولانا سید اظہر بہاری (متوفی 1925ء) تلمیذ علامہ عبدالحق محدث بنارسی (1791 ء 1879 ء) تلمیذ امام شوکانی سے مولانا ممتاز علی کے والہانہ روابط تھے۔ علامہ اظہر ہمارے اس علاقہ میں آتے جاتے تھے۔ ہماری والدہ “بشیرہ” رحمہا اللہ کی روایت ہے کہ بابو یعنی مولانا شکراللہ فیضی کی کردھن (جو پہلے بچوں کو کمر میں پہنائی جاتی تھی) مولانا اظہر بہاری نے اپنے دست مبارک سے کاٹی تھی۔” (خطبہ استقبالیہ از مولانا عبدالوہاب حجازی ص: 14و اضلاع بستی وگونڈہ میں میاں سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے تلامذہ کے دعوتی اصلاحی وتعلیمی اثرات ص 54-55-56)

دور دراز علاقوں میں دعوتی اور تبلیغی پروگراموں میں حصہ لینے کے لیے آپ پالکی پر چلتے تھے۔ ہمارے ضلع بلرام پور کو آج منہج سلف اور عقیدہ صحیحہ سے جو وابستگی ہے مولانا سید محمد اظہر بہاری کی رہین منت ہے۔( کاروان سلف ج1 ص 21 )

جہاں آپ نے مستقل قیام گاہ اختیار کیا تھا وہاں آپ کے نام سے ایک مدرسہ بھی ہے جس کا نام مدرسہ اظہر العلوم اودئی پور ہے اور یہیں آپ کی آخری آرام گاہ بھی ہے۔

اللہ تعالیٰ کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے ایسی مقدس و بزرگ ہستی پر جن کے ذریعہ لاکھوں افراد شرک وبدعت کی عمیق تاریکیوں سے نکل کر ہدایت کی راہ پر گامزن ہوئے۔ اور اس عظیم کام کو آپ کے لیے ذخیرہ آخرت اور نجات کا ذریعہ بنائے۔

اللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه وأكرم نزله ووسع مدخله واجعل الجنة مثواه۔ آمين يارب العالمين

مراجع و مصادر


1۔استفاده از مولانا عبد المعید مدنی حفظہ اللہ

2۔اہل حدیث امرتسر مجریہ 23 رمضان 1346ھ

3۔علماء اہل حدیث بستی و گونڈہ (ڈاکٹر بدر الزماں نیپالی حفظہ اللہ)

4۔کاروان سلف (مولانا عبد الرؤف ندوی حفظہ اللہ)

5۔خطبہ استقبالیہ مولانا عبد الوہاب حجازی حفظہ اللہ

6۔اضلاع بستی وگونڈہ میں میاں سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے تلامذہ کے دعوتی اصلاحی وتعلیمی اثرات مولانا عبد المنان عبد الحنان سلفی رحمہ اللہ

7۔خطبہ استقبالیہ مولانا عبد الرؤف جھنڈا نگری رحمہ اللہ

آپ کے تبصرے

3000