سینے میں معلق ہے یوں، دیوار نہ در ہے
دل جیسے کسی مردۂ مصلوب کا سر ہے
اے خانۂ زنداں تجھے کچھ خیر خبر ہے؟
پھر دامن یوسف پہ زلیخا کی نظر ہے
آتا ہو جو یعقوب سا رونے کا سلیقہ
ہر قطرۂ خوں ناب میں امکان گہر ہے
دل توڑنے والے تجھے یہ بھی تو پتا ہو
کہتے ہیں کہ دل دل نہیں اللہ کا گھر ہے
تھک ہار کے ہم لوگ دوراہے پہ کھڑے ہیں
وہ وعدۂ ہم راہی و اقرار کدھر ہے
کچھ گرد سی چہرے پہ جمی رہتی ہے ہردم
اس شہر میں ہر موڑ پہ درپیش سفر ہے
دیوانہ نظر آتا ہے ہر شخص یہاں پر
دلی کی فضاؤں میں محبت کا اثر ہے
شہرت کو زمینوں کے مسائل سے غرض کیا
لے آؤ خس و خاک میں پنہاں جو ہنر ہے
پاس آؤ ذرا عہد وفا باندھ لیں مل کر
کل جانے یہاں کون رہے کس کو خبر ہے
کس سمت نکل آئے ہو اے جان حسن تم
اس دشت ملامت میں فرشتوں کا گزر ہے
آپ کے تبصرے