دورِ زوال کا ایک ظاہرہ: ملامت کاری

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی عقائد

انسان کی انفرادی نفسیات کی طرح قوموں کی بھی اجتماعی نفسیات ہوتی ہیں، جس طرح زندگی کے بدلتے حالات انسان کی نفسیات کو متاثر کرتے رہتے ہیں اسی طرح عروج و زوال کا اثر قوموں کی اجتماعی نفسیات پر بھی ہوتا ہے۔اور اکثراس قوم کے افراد کی اکثریت یا ایک بڑی تعداد ایک جیسی کیفیت سے دوچار ہوجاتی ہے۔

ناکامی اور زوال کے دور میں انسانی نفسیات اکثر شعور و ادراک کے منفی رخ پر بہنے لگتے ہیں اور فکر و نظر کی ایک ایسے ڈھلان پر لڑھکنے لگتے ہیں جو فرد و قوم ہر دو کے لیے سم قاتل ہوا کرتے ہیں۔ لہذایہ جان لیں کہ عام حالات میں اقدام و ہجوم، آگے بڑھ کر حالات سے لوہا لینے سے زیادہ مشکل یہ ہوتاہے کہ ناموافق حالات میں حالات کے دھارے پر بہنے کے بجائے خود کوتھام لیں،اپنی جگہ جم جائیں ڈٹ جائیں۔ دور زوال میں خود کو حالات کے رحم وکرم پرنہ چھوڑ کر حوصلہ و ہمت کو سہارا دینا، سوچ کو منفی رخ لینے سے روک لینا اپنے آپ میں ایک بہت بڑا کارنامہ اور بہت بڑی یافت ہے۔

قرآن مجید میں متعدد ایسی آیات ہیں جن میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ناموافق حالات میں خود کو سنبھالو، آپا کھونے سے بچو، آخری دم تک ڈٹے رہے ،کامیابی صرف ہمیشہ آگے بڑھنے کا نام نہیں، اکثر اپنی جگہ ڈٹ جانا بھی کامیابی کا ایک اہم عنوان اور باب ہے ۔ ارشاد بارئ تعالی ہے:

{یا أیھا الذین آمنوا إذا لقیتم فئۃ فاثبتوا واذکروا اللہ کثیرا لعلکم تفلحون}اے ایمان والو! جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تا کہ تمھیں کامیابی حاصل ہو۔(الأنفال : ۴۵)

ایک اورمقام پر ارشاد فرمایا:

{قال موسی لقومہ استعینوا باللہ واصبروا إن الأرض للہ یورثھا من یشاء من عبادہ والعاقبۃ للمتقین} موسی نے اپنی قوم سے کہا: اللہ تعالی کا سہارا حاصل کرو اور صبرکرو،یہ زمین اللہ تعالی کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے وہ مالک بنادے اور اخیر میں کامیابی ان ہی کی ہوتی ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔(الأعراف: ۱۲۸)

مذکورہ بالا آیات میں سے پہلی آیت میدان جنگ کے مشکل ترین لمحات سے متعلق ہے تو دوسری آیت دور زوال اور مظلومیت کے حالات سے دوچار قوم سے جڑی ہے دونوں ہی آیتوں میں ”فاثبتوا” اور ” واصبروا” کی معنویت، افادیت اور اہمیت ہر اس طالب علم اور ہر اس قاری پر عیاں ہوجائے گی جو ذرا رک کر ان الفاظ کے مالہ و ماعلیہ پر غور کرلے۔

زندگی کی دھوپ چھاؤں میں جو شخص افراد کی زندگیوں اور اقوام کی تاریخ کو پڑھنے کا ایک مخصوص زاویہ اور ڈھنگ اپنالے،یاکم از کم کبھی رسہ کشی کے مقابلوں میں یہ منظر دیکھ لے کہ مقابلے میں کئی بار پورا زور لگا کر رسہ کھینچنے والے کے مقابلے اپنے قدموں کو زمین میں گاڑ کر کھڑا ہوجانے والا ہی بالآخر جیت جاتا ہے وہ مذکورہ بالا حقیقت کا بخوبی ادراک کرلے سکتا ہے ۔

کسی بھی قوم کے افراد کے لیے،بالخصوص خواص کے لیے دور ِزوال میں ایک طرف خود کو، خودی کو اور خود کے فکر و شعور کو سنبھالنا جس قدر اہم ہے اسی قدر اس دور میں در آنے والے مفاسد اور امراض کی پہچان رکھنا اور ان پر نظر رکھنا بھی ازحد ضروری ہے۔ عہد ِزوال وادبار میں مایوسی،بے چارگی، کم مائیگی،خود کے تئیں اور اپنے متعلقین کے تئیں عدِم تحفظ کا احساس،امید کی جگہ بے یقینی،مستقبل کے نام پر گھپ اندھیرا،ایک دوسرے کے تئیں عدم اعتماد، باہم الزام تراشی اور نہ جانے ان جیسے اور کتنے امراض ہیں جو بآسانی افراد کے قلب ودماغ میں گھر کر جاتے ہیں اور اپنے اثرات بھی مرتب کرتے رہتے ہیں ۔اس تحریر میں ہم ان امراض میں سے سر دست صرف ایک مرض اور ایک ظاہرہ پر گفتگو کرتے ہیں۔ یہ ظاہرہ ہے زوال کے بعد زوال کے اسباب کی تعیین کے نام پرایک دوسرے پر الزام دھرنا اور اس طرح زوال سے دوچار قوم کو مزید انتشار اور بکھراؤ کا شکار بنادینا ۔

ناکامی اور زوال کے بعد اس کے اسباب کا تعین کرنا یقینا اپنے آپ میں ایک انتہائی اہم عمل ہے، زندہ افراد ہوں کہ اقوام وہ اپنی ناکامیوں سے سیکھتے اور انہی کی روشنی میں اپنے مستقبل کی بِنا ڈالتے ہیں،ماضی کی غلطیوں سے سیکھ لے کر حال میں صحیح رخ پر محنت کرتے ہیں تاکہ مستقبل میں کامیابی کی ضمانت نہیں تو کم از کم امکانات پہلے سے زیادہ روشن ہوں،اس طرح ان کی ناکامی بھی کامیابی کاپہلا زینہ بن جاتی ہے ۔لیکن اس تحریر میں جس ظاہرہ کی بات ہورہی ہے اس سے مرادخوداحتسابی اورحالات کے صحیح تجزیہ کے ذریعے تعمیر کے رخ پر آگے بڑھنے والوں کے بجائے ان اشخاص کا تذکرہ ہے جو احساس ناکامی کی شدت میں ایسے نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں اور انھیں کچھ سجھائی نہیں دیتا یا سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہوگیا، کیسے ہوگیا، تو نتیجہ میں کبھی خود کو نوچنے کھسوٹنے لگتے ہیں تو کبھی قوم کو اور قوم کے رہبروں کواورعلماء کو کوسنے لگ جاتے ہیں اور اسی کو کرنے کا اہم ترین کام سمجھتے ہیں۔ایک طر ف وہ ڈٹ نہیں سکتے،کائنات کے اس نظام کو نہیں سمجھ سکتے کہ {وتلک الأیام نداولھا بین الناس}یہ تو زمانہ کے نشیب وفراز ہیں جن کو ہم لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں (آل عمران :۱۴۰)بلکہ اپنی خفت مٹانے کے لیے اور دنیا کے سامنے یہ تأثر دینے کے لیے کہ فکر امت میں ہم بھی کچھ نہ کچھ کررہے ہیں وہ ڈھونڈنے لگتے ہیں کہ نزلہ کس پر گرائیں، اور پھر ایک زوردار تقریر یا پرتاثیر تحریر، سوالات کے تیر، چبھتا لہجہ،جذباتی تنقیدجیسی کچھ چیزیں امت کے حوالے کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں۔

یہ کام اگر واقعتا اسباب کی تعیین کے سلسلے میں سنجیدہ کوشش کے طور پر ہو جس کی بنیاد پر آئندہ تعمیر کی بنیاد رکھی جانے والی ہو تو پھر بھی ایک معقول بات ہے تاہم یہاں جس ظاہرہ کی بات ہورہی ہے وہ ایک نفسیاتی بیماری ہے جس میں مبتلا شخص ایک طرف ناکامی سے پریشان بھی ہے اور دوسری طرف اس ناکامی میں اپنے شعوری یا غیر شعوری کردار کی نفی بھی کرنا چاہتا ہے او ر تیسری جانب اس ناکامی کا ٹھیکرا کسی اور کے سر پھوڑ کر مطمئن ہوجانا چاہتاہے کہ میں نے ایک تیر سے کئی شکار کر لیے۔ زوال کا ’حقیقی‘ ذمہ دار بھی ڈھونڈ لیا اور خود کو بریٔ الذمہ بھی قرار دے لیا ۔یوں جیسے اس ناکامی و نامرادی میں اس کا اپنا کوئی کردار ہی نہ ہو۔ جیسے اس نے ان ’’کالی بھیڑوں‘‘ کی پہچان بتلاکرامت پر احسانِ عظیم کیا ہو۔ اس کی اس کوشش میں یہ معاملہ کب معاملہ فہمی یا خودشناسی سے آگے بڑھ کر بلیم گیم(blame game) کی شکل اختیار کرگیا اس کا بالکل بھی اسے احساس نہیں ہوتا۔ اس روش کو اپنانے والے بہت سارے لوگ تو یہ تک سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ کرلیا تو قوم کے تئیں اپنی ذمہ داری پوری کرلی اور پھر لمبی تان کر سوبھی جاتے ہیں۔

دور زوال کے اس ظاہرہ کا شکار لوگوں کی الگ الگ اقسام آپ کو ملیں گی، ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جو امت کی زبوں حالی کا رونا روئیں گے، امت کی معلوم حالت کو کچھ اس انداز سے بیان کریں گے جیسے اس حالت کا ادراک اللہ کی خصوصی توفیق سے بس انھیں نصیب ہوا ہے،گھنٹے بھر کی تقریر میں یا کئی صفحات کی تحریر میں وہ صرف اپنے افسوس اور غم کا اظہار کریں گے، ساری امت کو کوسیں گے لیکن اس کے ازالے کے لیے کیا کیا جائے اس سلسلے میں یا تو ہوائی باتیں کریں گے یا سرے سے کوئی حل ہی نہیں دیں گے۔

دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کی تان صرف مسلم حکمرانوں پرٹوٹے گی،وہ امت کا رونا روئیں گے اوراس کی زبوں حالی پرافسوس کریں گے پھر ان حکمرانوں پر برس جائیں گے جیسے سارا گناہ، ساراقصور،ساری کمی اور کوتاہی صرف انہی کی ہو،ایسے ملامت کاروں کے پاس امت کے اجتماعی کردار اور مشترکہ ذمہ داری (Collective Responsibility)کا کوئی تصور سرے سے ناپید ہوتا ہے وہ اس حقیقت سے صرف نظر کرلیتے ہیں کہ( کیفما تکونوا یولی علیکم ) جیسے ہم ویسے ہمارے حکمران، ایسے بیماروں اور ملامت کاروں کو امام قرطبی کی تفسیر میں درج ذیل آیت {وکذلک نولي بعض الظالمین بعضا بما کانوا یکسبون}کی تفسیردیکھ لینی چاہیے جس میں انھوں نے قوم کے کردار اور اس کے ذمہ دار کے درمیان کے ربط کو بحسن وخوبی و سمجھا یا ہے۔

قوم کے ان خدمتگاروں کی ایک اور قسم بھی ہے جو قوم کی ہر ناکامی کا ذمہ دار ہمیشہ قوم کے علماء کو مانتی ہے،یہ وہ لوگ ہیں جو کبھی مکمل طور پر علماء کی سرپرستی میں رہنا نہیں چاہتے، وہ چاہتے ہیں کہ علماء ان کے طے کردہ اصولوں پر او ران کے ترتیب دیے گئے منصوبوں کواپنا کرہی قوم کی خدمت کریں، گویا علماء کی قیادت بالواسطہ انہی کی قیادت بن جائے۔ جب علماء ان کے اس مطالبہ کو پورا نہیں کرتے یا ان کے طے کردہ راستے پر چل کر خدمت نہیں انجام دیتے اور ان کے معیار پر کھر ے نہیں اترتے تو ان کی نظر میں قوم کا مبغوض ترین طبقہ بن جاتے ہیں اور بالآخر قوم کی تباہی کے مکمل ذمہ دار بھی وہی قرار پاتے ہیں۔

قصہ مختصر یہ کہ ملامت کاروں کی یہ صنف قوم کا سرمایہ نہیں وہ درد سر ہے جس سے جس قدر جلد چھٹکارا پالیا جائے اس قدر اچھا ہے تاکہ قوم کا مورال بلند رہے، پہلے سے تباہ قوم اور زیادہ انتشار کا شکار ہو کر پستی کی طرف نہ جائے،کیونکہ ایسے ملامت کاروں کی ساری تگ ودو کا حاصل ملامت کے سوا کچھ نہیں جس سے امت کا کچھ بھلا ہونے کی کوئی امید یا امکان تو کجا الٹامزید انتشار اور انارکی میں اضافہ ہی ہوگا۔

یہ ملامت کار اس معاملے میں بہت حد تک خود فریبی کا شکار بھی رہتے ہیں،وہ ایک مخصوص زعم میں جیتے ہیں اوراپنی ’تشخیص‘ کو ’ناقابل تنسیخ‘ مان کر پھر ساری تگ و دو اس تشخیص کی صحت کا یقین دلانے میں صرف کرتے رہتے ہیں۔ رخ اس قدر منفی ہوتا ہے کہ وہ اتنا بھی نہیں کرپاتے کہ کم از کم خود کی تشخیص کی روشنی میں ’علاج‘ کی طرف خود ہی دوچار قدم بڑھادیں اورقوم کی تعمیر میں کم ازکم اپنے حصہ کی اینٹ ہی لگادیں۔

ایسے لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ افراد کی زندگی ہو کہ قوموں کی، عہد ِعروج میں سب چیزیں باہم ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوتی چلی جاتی ہیں تو دورِ زوال میں ایک اینٹ کے کھسکنے پر اکثر پوری دیوار ہی زمیں بوس ہوجاتی ہے۔لہذا ملامت کاری کے اس رویہ سے فائدہ بہت کم نقصان بہت زیادہ ہوتا ہے، اس لیے اگر وہ کچھ کرنا ہی چاہتے ہیں تو تعلیم وتربیت، دعوت واصلاح، سیاست،معاشیات اور سماجیات جیسے کسی بھی شعبے میں مقدور بھر مثبت کام انجام دیں کہ

شکوہ ظلمت شب سے توکہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

(احمد فراز)

اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق مذکورہ بالا کسی بھی ایک میدان میں محنت کرتے رہیں تاکہ سنت الہی {وتلک الأیام نداولھا بین الناس }یہ تو زمانہ کے نشیب وفراز ہیں جن کو ہم لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں (آل عمران :۱۴۰)کے مطابق کل جب امت کا سفر پھر سے عروج واقبال کی سمت شروع ہوتو ان کی خدمات کے نتیجہ میں امت کو کم ازکم ایک شعبہ یا بعض شعبے فعال اورصحت مند ملیں جس سے سفر آسان اور تیز رفتار ہوجائے۔

اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو کم از کم خاموش ہی رہ جائیں کہ بسا اوقات لکھنے اور بولنے سے زیادہ خاموشی بہتر ہوتی ہے اور کئی بار بعض لوگوں کے بولنے سے زیادہ ان کا خاموش رہ جانا امت کے حق میں زیادہ مفیداور بڑی خدمت ہوتی ہے ۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
وسيم المحمّدي

بہت عمدہ
بہت شاندار
بارك الله فيكم وزادكم توفيقا وتسديدا