مولانا ارشد مدنی صاحب کی طرف سے مولانا رشید گنگوہی کی اندھی تقلید کی دعوت اور صحابہ وتابعین کا مسلک

محمد ضیاء الحق تیمی عقائد

مولانا ارشد مدنی صاحب جمعیت علماء ہند کے صدر، دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور مسلک دیوبند کے صف اول کے عالم دین اور ترجمان ہیں، آپ نے حالیہ ایک ویڈیو میں اپنے طلبہ کو یہ دعوت دی ہے کہ وہ آنکھ بند کرکے دیوبندی مسلک کے خلیفہ ثانی مولانا رشید احمد گنگوہی کی تقلید کریں اور یہ اعتقاد رکھیں کہ جو انھوں نے فرمایا وہی صحابہ وتابعین کا مسلک تھا، محدثین کا مسلک تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے اپنے مسلک کی ترجمانی میں بڑی امانت داری اور حقیقت بیانی سے کام لیا ہے، حلقہ دیوبند کا اپنے بزرگوں کے بارے یہی غلو آمیز عقیدہ ہے کہ انھوں نے جو فرما دیا وہ عین کتاب وسنت ہے، ان پر شریعت کا ہر ہر مسئلہ واضح اور روشن تھا، اس لیے ان کے فرمودات سے سرمو انحراف کرنا جائز نہیں ہے؟ گویا دبی زبان میں ان کی عصمت کا عقیدہ رکھتے ہیں جیسا کہ اہل تشیع اپنے ائمہ کے بارے عقیدہ رکھتے ہیں۔ العياذ باللہ
یہاں پر علماء دیوبند کے دیگر عقائد کو زیر بحث لانا مقصود نہیں ہے، بس مولانا صاحب کے اسی دعوے کی حقیقت کو بیان کرنا مقصود ہے کہ کیا واقعی کسی امتی کی اندھی تقلید کرنے سے کتاب وسنت اور صحابہ وتابعین کے مسلک پر عمل کرنا ممکن ہے؟ جیسا کہ مولانا کا دعوی ہے اور جس کی دعوت وہ اپنے طلبہ کو دے رہے ہیں۔
اگر یہ ممکن ہوتا تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے یار غار خلیفہ اول صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اس کے سب سے زیادہ مستحق تھے کہ صحابہ کرام ان کی اندھی تقلید کرتے کیونکہ بالإجماع وہ اس امت کے افضل ترین انسان، سب سے بڑے عالم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے قریبی اور محبوب ساتھی تھے، لیکن صحابہ کرام نے ان کی اندھی تقلید نہیں کی اور نہ ہی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنے لیے جائز سمجھا اور اس کی دعوت دی بلکہ انھوں نے خلیفہ بننے کے بعد اپنے پہلے خطبہ میں اس خدشے کا اظہار کیا اور اس سے سختی سے روکا اور فرمایا:
أَمَا وَاللَّهِ مَا أَنَا بِخَيْرِكُمْ، وَلَقَدْ كُنْتُ لِمَقَامِي هَذَا كَارِهًا، وَلَوَدِدْتُ لَوْ مَنْ يَكْفِينِي فَتَظُنُّونَ أَنِّي أَعْمَلُ فِيكُمْ سُنَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذًا لَا أَقُومُ لَهَا «إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُعْصَمُ بِالْوَحْيِ، وَكَانَ مَعَهُ مَلَكٌ» ، وَإِنَّ لِي شَيْطَانًا يَعْتَرِينِي، فَإِذَا غَضِبْتُ فَاجْتَنِبُونِي، لَا أُوثِرُ فِي أَشْعَارِكُمْ، وَلَا أَبْشَارِكُمْ أَلَا فَرَاعُونِي، فَإِنِ اسْتَقَمْتُ فَأَعِينُونِي، وَإِنْ زِغْتُ فَقَوِّمُونِي قَالَ الْحَسَنُ: «خُطْبَةٌ وَاللَّهِ مَا خُطِبَ بِهَا بَعْدَهُ»
جامع معمر بن راشد (11/ 336 ،رقم الحديث: 20701)
یعنی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے پہلے ہی خطبہ میں آگاہ کر دیا کہ تم میرے ہر عمل کو سنت نبوی نہ سمجھ لینا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت کے لیے وحی ضامن تھی اور ان کے ساتھ فرشتے بھی ہوتے تھے جبکہ میرے اوپر شیطان بھی طاری ہوتا ہے لہذا غصہ کی حالت میں کچھ کہوں تو اس سے اجتناب کرنا اور اگر راہ راست پر رہوں تو میری مدد کرنا اور اس اگر اس سے دور ہو جاؤں تو میری اصلاح کرنا۔
لہذا جب صدیق اکبر نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میرا ہر قول وفعل ضرور سنت رسول کے عین مطابق ہوگا، میں بشری کمزوریوں اور شیطانی چالوں سے مکمل محفوظ رہوں گا اور مجھ سے غلطی کا امکان نہیں ہے اور شریعت کا ایک ایک حکم میرے اوپر واضح اور روشن ہے لہذا تم میری اندھی تقلید کرو تو پھر مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب کے لیے مولانا کا یہ دعویٰ کرنا کہ انھوں نے جو کہا وہی حق ہے، اس کو آنکھ بند کرکے قبول کرو کیسے جائز ہوسکتا ہے؟
اسی طرح آپ دیکھیں کہ صحابہ کرام بھی یہی عقیدہ رکھتے تھے کہ غیر رسول کے علاوہ کوئی بھی معصوم نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے بارے یہ گمان کرنا جائز ہے کہ انھوں نے پوری شریعت کا احاطہ کر رکھا ہے لہذا ان کی ہر بات عین کتاب وسنت ہے، چنانچہ جب وہ کسی نازلہ پر غور کرتے یا کسی مسئلے کو دریافت کرتے اور کوئی ادنی صحابی بھی اس سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث سنا دیتے تو وہ بلا چوں چرا اس کو تسلیم کرتے، اس کے بعد ہرگز اس کا انتظار نہیں کرتے کہ فلاں صحابی کی کیا رائے ہے؟ ابو بکر وعمر اس تعلق سے کیا فرماتے ہیں؟ اور نہ ہی کسی دوسرے صحابی کی رائے کی بنیاد پر اس حدیث کو یہ کہہ کر رد کرتے کہ انھوں نے ضرور کوئی حدیث سن کر ہی یہ رائے قائم کی ہوگی؟ اس اندھی تقلید کے وہ ہرگز قائل نہیں تھے بلکہ اس کو سخت حرام اور رب کے غیظ وغضب کا موجب سمجھتے تھے۔
ایک بار حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کسی نے کوئی مسئلہ پوچھا، آپ نے حدیث رسول سے اس کا جواب دیا تو سائل نے کہا کہ ابو بکر وعمر نے یہ کہا ہے، تو حبر امت ابن عباس رضی اللہ عنہما جلال میں آگئے اور فرمایا: يوشك أن تنزل عليكم حجارة من السماء أقول قال رسول الله صلى الله عليه وأنتم تقولون قال أبو بكر وعمر…
قریب ہے کہ تمھارے اوپر آسمان سے پتھروں کی بارش ہو میں کہتا ہوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تم کہتے ہو کہ ابو بکر وعمر نے فرمایا۔
اللہ اکبر! جب حدیث رسول کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ساتھی ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کی رائے پیش کرنے پر پتھروں کی بارش کا خدشہ ہو تو پھر نبی کی سنتوں اور احادیث کو رد کرنے کے لیے مولانا رشید احمد گنگوہی کو معصوم بنا کر پیش کرنے سے آسمان سے کس چیز کے نزول کی توقع کی جا سکتی ہے؟ رب کی رحمتیں یا پھر رب کے غضب اور آگ کے گولے کا؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثاروں کا ان کی سنت سے محبت، فدائیت اور وارفتگی کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیں کہ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے صرف ایک حدیث سننے کے لیے مدینہ سے مصر کا سفر کرتے ہیں اور ان سے وہ حدیث سن کر الٹے پاؤں مدینہ واپس چلے آتے ہیں۔
مسند احمد میں حدیث کے یہ الفاظ ہیں:
وَرَكِبَ أَبُو أَيُّوبَ، إِلَى عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، إِلَى مِصْرَ، فَقَالَ: إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ أَمْرٍ لَمْ يَبْقَ مِمَّنْ حَضَرَهُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا أَنَا وَأَنْتَ، كَيْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي سَتْرِ الْمُؤْمِنِ؟ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ سَتَرَ مُؤْمِنًا فِي الدُّنْيَا عَلَى عَوْرَةٍ سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» فَرَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ «فَمَا حَلَّ رَحْلَهُ يُحَدِّثُ هَذَا الْحَدِيثَ» (17454)
آپ اس واقعے سے صحابہ کے دلوں میں حدیث رسول کی، وقعت، عظمت اور اس کی محبت کا اندازہ لگائیں اور یہ کہ وہ کس طرح ایک ایک حدیث کو یاد کرنے، اس پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کے حریص تھے، کہ وہ خوشی خوشی اونٹنی پر سوار ہو کر اس طویل اور دور دراز سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرتے ہیں اور حدیث رسول سننے کے معا بعد واپس مدینہ آجاتے ہیں۔
پھر آپ غور کریں کہ صحابہ کرام آپس میں کئی مسائل میں اختلاف کرتے ہیں، ان کی آراء مختلف ہوتی ہیں، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، عمر، ابن عمر، ابو ہریرہ اور کئی جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کئی مسئلے میں ٹوکتی ہیں اور حدیث رسول سنا کر ان کی غلطیوں کی اصلاح کرتی ہیں، عمر رضی اللہ عنہ پیچیدہ اور مشکل مسائل میں اہل بدر اور کبار صحابہ کو جمع کرکے مشورہ کرتے ہیں، ابن عباس رضی اللہ عنہما کئی مسائل میں دیگر صحابہ سے اختلاف کرتے ہیں۔
آخر یہ اختلاف کیوں؟ اور ان میں سے کسی کے لیے عصمت کا دعویٰ کیوں نہیں؟ کیا ان میں سے کوئی نہیں جن کا مقام ومرتبہ مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب کے برابر ہو جن کی اندھی تقلید کی جا سکے اور ان کی ہر ہر بات کو کتاب وسنت پر پیش کیے بغیر یہ سمجھ کر قبول کر لیا جائے کہ انھوں نے کتاب وسنت کا احاطہ کر رکھا ہے اور ان پر کتاب وسنت کے سارے دلائل بالکل واضح اور روشن ہیں؟
اللہ کی قسم ان میں سے ہر کوئی گنگوہی صاحب سے کڑورہا درجہ بہتر و افضل ہیں اور ان میں سے کتنے ہیں جو اس امت کے سب سے بڑے علماء اور فقہاء میں شمار ہوتے ہیں، جن کے علم وفقہ کے لیے نبی نے خود دعا فرمائی ہے، اور جن کے علم وفقہ کو پوری امت پر تقسیم کیا جائے تب بھی ان کا علم وفقہ اس پر بھاری پڑے گا، خصوصا کبار فقہاء صحابہ جیسے ابو بکر، عمر، عثمان، علی، ابن مسعود، ابن عباس، معاذ بن جبل، ابي بن كعب، ابو ہریرہ وغیرہم كثير رضوان اللہ علیہم اجمعین۔
پھر جب صحابہ کرام نے ان میں سے کسی کی اندھی تقلید نہیں کی اور نہ ہی کسی کی بات کو کتاب وسنت پر پیش کیے بغیر من وعن قبول کیا، تو پھر کیسے مولانا رشید گنگوہی کے لیے یہ دعویٰ کرنا قرین صواب ہو سکتا ہے کہ ان کی اندھی تقلید کرو کیونکہ ان کی ہر بات حق وصواب ہے، کیا یہ کسی غیر نبی کے لیے عصمت کا دعویٰ اور نبوت رسالت میں انھیں شریک وسہیم بنانا نہیں ہے؟ اور کیا یہ اللہ کے سوا اپنے علماء اور عباد کو رب بنانے کے قبیل سے نہیں ہے؟
پھر صحابہ کرام کے بعد آپ تابعین کی مقدس جماعت پر غور کریں کہ کیا تابعین کرام نے صحابہ کرام کی جماعت کے بعد سید التابعین سعید بن المسیب کے ہاتھ پر بیعت کرکے یہ فرمایا کہ آپ تو سید التابعین ہیں، سید المحدثین ابو ہرہرہ رضی اللہ عنہ کے داماد ہیں ہم آپ کی ہر بات کو عین کتاب وسنت سمجھ کر قبول کر رہے ہیں؟
اسی طرح کیا امام ابو حنیفہ کے دونوں تلامذہ امام ابو یوسف اور امام محمد نے اپنے استاذ سے کہا کہ آپ تو اتنے بڑے فقیہ ہیں، آپ تو امام اعظم ہیں، ہمیں آپ کی کسی بھی بات کو کتاب وسنت پر پیش کرنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارا ایمان وعقیدہ ہے کہ آپ دلیل وبرہان کے بغیر کوئی بات کہہ ہی نہیں سکتے، بلکہ ہم آپ کی کسی بھی بات سے ذرہ برابر انحراف کو آپ کی شان میں گستاخی سمجھتے ہیں؟
یا پھر انھوں نے ان سے اختلاف بھی کیا، ان کی ہر ہر بات کو کتاب وسنت پر پیش کیا اور ایک دو مسئلے میں ہی نہیں بلکہ پورے دو تہائی مسائل میں ان سے اختلاف کیا؟ بھلا مجھے بتائیں کہ اگر امام ابو حنیفہ کی ہر ہر بات کتاب وسنت کے عین مطابق تھی تو امام محمد اور امام یوسف کو اپنے استاذ سے اختلاف کی ضرورت کیوں پڑی؟ اور ان کا اجتہاد اور استنباط ان سے مختلف کیوں ہوا؟ کیا اس کا سبب اس کے علاوہ اور کچھ ہو سکتا ہے کہ کسی غیر نبی کے لیے عصمت نہیں ہے، اور نہ ہی کسی غیر نبی کی بات کو کتاب وسنت پر پیش کیے بغیر قبول کرنا جایز ہے؟
یہی حال امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا بھی ہے، ان میں سے ہر امام اپنے پیشرو کی عظمت، امامت، فقہاہت، جلالت شان اور دقت اجتہاد وقوت استنباط سے واقف ہونے کے باوجود وہ ان سے اختلاف کرتے ہیں، انھیں معصوم نہیں سمجھتے، اور نہ وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان کی ہر بات، ہر اجتہاد، ہر مسئلہ اور ہر فتوی عین کتاب وسنت ہے، بلکہ ان کا یہ اعتقاد ہے کہ (كل يؤخذ من قوله ويرد إلا صاحب هذا القبر) کہ نبی کے علاوہ ہر کسی کی بات کو رد کیا جا سکتا ہے، اور ان میں سے ہر کوئی اپنے تلامذہ کو یہ وصیت کرتے ہیں کہ (إذا قلت قولا خالف قول الرسول صلى الله عليه وسلم فاضربوه عرض الحائط) میری بات اگر حدیث رسول کے خلاف ہو تو اسے دیوار پر دے مارو۔
ان میں سے کسی کو بھی نہ اپنے بارے میں کامل ہونے کا عقیدہ تھا، اور نہ ہی اپنے پیشرو ائمہ، محدثین و فقہاء کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے اور نہ ہی لوگوں کو یہ دعوت دیتے تھے کہ ان کی بات کتاب وسنت پر پیش کیے بغیر آنکھ بند کرکے قبول کرو کیونکہ وہ بڑے بڑے ائمہ ہیں، ان کی نظر کتاب وسنت پر بڑی گہری ہے، وہ دلیل کے بغیر کوئی بات نہیں کہہ سکتے اور تم ان کے مقام ومرتبہ تک نہیں پہنچ سکتے۔ بلکہ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: عجبت لقوم عرفوا الإسناد وصحته، يذهبون إلى رأي سفيان؛ والله تعالى يقول: {فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ} [النور: ٦٣]، أتدري ما الفتنة؟ الفتنة: الشرك: لعله إذا رد بعض قوله أن يقع في قلبه شيء من الزيغ فيهلك
یعنی مجھے ایسے لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو صحیح حدیث جاننے کے باوجود اس کی مخالفت کرتے ہیں، اور سفیان ثوری کی رائے کی طرف جاتے ہیں جبکہ رب کا ارشاد ہے: “سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انھیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں وہ فتنے میں نہ پڑ جائیں”، اس فتنے سے مراد شرک ہے، شاید جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض قول کو رد کرے گا تو دل میں کجی پیدا ہوگی اور وہ اپنی آخرت تباہ کر لے گا۔
واقعی آپ ان لوگوں کے عقائد کا جائزہ لیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر اقوال رجال کو ترجیح دیتے ہیں اور مختلف حیلوں اور بہانوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو رد کرتے ہیں ان میں یہ مہلک مرض ضرور پائیں گے۔
آپ یہاں اس بات پر بھی غور کریں کہ امام احمد جن لوگوں پر تعجب کر رہے ہیں اور نبی کی حدیث رد کرنے پر ان کی ہلاکت سے ڈر رہے ہیں وہ ایسا نہیں کہ سب مجتہد مطلق ہیں اور جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جائے کہ ان کے لیے بس تقلید جایز نہیں بلکہ اس میں سارے لوگ شامل ہیں۔
یہی حال قرون اولی میں مختلف شہروں اور علاقوں میں پھیلے ہوئے سیکڑوں ائمہ، مجتہدین اور فقہاء کا ہے، وہ سب کتاب وسنت کو ہی صرف اپنا مصدر ومرجع سمجھتے تھے، اور اپنے مشایخ کی آراء واجتہادات کو کتاب وسنت پر پیش کرتے تھے، اور دلائل کی روشنی میں ان سے اختلاف بھی کرتے تھے، ان میں سے کسی نے اپنے مشائخ کے بارے میں عصمت کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی یہ کہہ کر ان کی اندھی تقلید کی وکالت کی کہ وہ تو بڑے بڑے ائمہ ومجتہدین ہیں بھلا ان سے غلطیاں کیسے ہو سکتی ہیں؟ اور دلائل ان سے کیسے مخفی رہ سکتی ہیں؟ بھلا بتائیں کہ اگر وہ لوگ بھی یہی سوچ کر اپنی عقلوں پر قفل چڑھا لیتے اور آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں تو پھر مجاہد، عکرمہ، طاووس، سعید بن جبیر، عروہ، قاسم، خارجہ، سالم، ربیعہ الرای، حسن بصری، ابن سیرین، قتادہ، عطاء، ابراہیم نخعی، علقمہ، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، عبد اللہ بن مبارک، لیث بن سعد، اوزاعی، امام بخاری، امام مسلم، ابو داؤد، ترمذی، ابن خزیمہ، ابن المنذر، امام طبری وغیرہم جیسے سیکڑوں ائمہ، مجتہدین اور فقہاء کیسے پیدا ہوتے؟
اور پھر جب کسی کے بارے میں یہ گمان کرنا درست تھا کہ وہ جو بھی کہے وہی حق ہے تو پھر محدثین کرام لاکھوں میلوں کی خاک چھان کر اور اپنا غالی ونفیس قربان کرکے ایک ایک حدیث کو کیوں جمع کرتے، جوامع، سنن، مسانید، مصنفات، مستدرکات، مستخرجات، مشیخات، معاجم، أجزاء وعلل جیسے انواع واقسام کی کتابیں کیوں تصنیف کرتے؟ پھر کیا ضرورت تھی کہ لاکھوں روات کی چھان پھٹک کرتے، ان کی مرویات کا دراسہ کرتے، ان کے احوال بیان فرماتے اور جرح وتعدیل سے متعلق سیکڑوں کتابیں تصنیف فرماتے، کیا ان کے سامنے مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب جیسے کوئی نہیں تھے جن کا دامن وہ تھام سکتے تھے، اور اپنی آنکھیں بند کرکے ان کی ہر بات قبول کر سکتے تھے؟
یا پھر محدثین وفقہاء وائمہ اسلام کی یہ حیرت انگیز علمی مساعی وجہود، دقیق استنباطات واجتہادات، علم حدیث وعلم الرجال کے یہ محیر العقول کارنامے، علوم وفنون کی ترتیب وتبویب وتنویع کی انتھک کوششیں صرف اسی لیے تھیں کہ انھیں صرف تبرک کے طور پر لوگ پڑھیں، ان کو پڑھتے وقت اپنی عقل کا استعمال ہرگز نہ کریں، بحث وتحقیق کی جرات نہ کریں، اتباع سنت کے جذبے کے ساتھ احادیث مبارکہ کو نہ پڑھیں، مختلف آراء کے درمیان کتاب وسنت سے قریب تر قول جاننے کی کوشش نہ کریں، حزبیت وعصبیت سے بالا تر ہوکر ان علوم وفنون کی عملی تطبیق کی کوشش نہ کریں، مجہول ومتروک راوی کی حدیث کو ثقہ وحجہ راوی کی حدیث پر، مرسل ومنقطع، معضل ومعلق کو متصل پر، موقوف کو مرفوع پر، معل ومضطرب، وشاذ ومنکر کو ان علل سے پاک صحیح حدیث پر ترجیح دینے کی ضرورت پڑے تو پڑے لیکن اپنے شیوخ کے ملفوظات سے ذرہ برابر روگردانی کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ حق وصواب تو ان کے ارشادات وفرمودات میں ہی منحصر ہوں گے، گرچہ اس کے لیے تاویل وتحریف اور انکار کے کتنے ہی مرحلوں سے گزرنا پڑے، کیا ان بزرگوں کا یہی مقصد ہے؟
مولانا صاحب! اگر آپ کا دعویٰ ہے کہ علماء دیوبند اور مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب کتاب وسنت اور منہج سلف کے حقیقی متبع ہیں تو پھر بلا واسطہ تمسک بالکتاب والسنہ علی ضوء منھج السلف کی دعوت دینے سے کون سی چیز مانع ہے؟ آپ درس حدیث میں طلبہ کے دلوں میں اتباع کتاب وسنت کا جذبہ پیدا کرنے کے بجائے حزبیت وعصبیت اور شیخی ومریدی کی بدبودار چیز کیوں داخل کر رہے ہیں؟ انھیں سلف کے اصول ومنہج کا پابند نہ کرکے اپنے مشایخ کے اصول کا پابند کیوں بنا رہے ہیں؟ جب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تركتُكم على البيضاءِ ليلِها كنهارِها لا يزيغُ عنها بعدي إلا هالِكٌ) اور (تركتُ فيكم أَمْرَيْنِ لن تَضِلُّوا ما تَمَسَّكْتُمْ بهما : كتابَ اللهِ وسُنَّةَ نبيِّهِ صلَّى اللهُ عليہ وسلم…)
تو پھر بلا واسطہ کتاب وسنت کی اس روشن شاہراہ کی طرف دعوت دینے میں گمراہی کا ڈر کیوں ستا رہا ہے؟
کیا کتاب وسنت ہمارے سامنے موجود نہیں ہیں؟ کیا صحابہ وتابعین کے اقوال وآراء واجتہادات کو ہمارے اسلاف نے مدون نہیں کیا ہے؟ کیا ان کے عقائد ہمارے علماء نے نقل نہیں کیے ہیں؟ کیا امام محمد، امام مالک، امام شافعی، امام احمد اور دیگر ائمہ ومحدثین کی تصنیفات ہمارے سامنے موجود نہیں ہیں؟
پھر گمراہی کا ڈر کیو‍ں؟
کیا اس کی وجہ اس کے علاوہ اور کچھ ہے کہ
آپ اپنے تصوف، اشعریت وماتریدیت اور مذہب کی اندھی تقلید کے لیے کتاب وسنت سے دلائل فراہم کرنے، اسلاف امت صحابہ وتابعین کے اقوال سے استناد کرنے اور اپنے طلبہ کو مطمئن کرنے سے عاجز ہیں؟ لہذا ان کے دلوں سے جذبہ اتباع کتاب وسنت، سنت نبوی کی محبت اور مٹھاس، اور عقل وفہم کی عظیم نعمت سلب کر لینا چاہتے ہیں تاکہ ان کے اندر حق وباطل، صحیح وغلط اور راجح ومرجوح کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت ہی پیدا نہ ہو سکے، وہ اسلاف کے اجتہادات واستنباطات اور ان کے دلائل کو سمجھنے سے قاصر رہیں، اور آپ کے اکابر کے اقوال واعتقادات کو وہ کتاب وسنت پر پیش کرنے کی جرات نہ کر سکیں ورنہ کہیں وہ آپ کے تصوف وماتریدیت اور اندھی تقلید کو چھوڑ کر کتاب وسنت اور منہج سلف کے پابند نہ بن جائیں؟
یقینا آپ کے اس بیان کا یہی مقصد ہے۔ ورنہ فکری آوارگی، منہجی بے راہ روی اور سلف کے بندھن سے آزاد ہوکر خود ساختہ اجتہاد استنباط کے سخت مخالف سلفی علماء بھی ہیں اور اس کو ضلالت وگمراہی سمجھتے ہیں۔
رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو کتاب وسنت پر عمل کرنے اور صحابہ تابعین کے مسلک ومنہج کو مضبوطی سے تھامنے کی توفیق دے۔
نوٹ:
ذیل میں دو مضامین کے لنک شئیر کیے جا رہے ہیں جن کو پڑھ کر آپ تصوف اور اشعریت وماتریدیت کی حقیقت بھی جان سکتے ہیں:
https://thefreelancer.co.in/?p=10812
https://thefreelancer.co.in/?p=11214

2
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
Mohd Abubakar Al Furqani

ما شاء الله.بارك الله فيكم

محمد ضياء الحق

وفيكم
وجزاكم الله خيرا