اب بھی ہیں دل میں کلفت و فکرِ انام اور
ساقی! خدا کے واسطے دو چار جام اور
رندوں کو اشتیاق تھا جامِ شراب کا
ساقی نے کر رکھا تھا مگر انتظام اور
دل گنگنا رہا تھا مرا اور ہی غزل
ان کو سنایا آج بھی میں نے کلام اور
اے گردشِ زمانہ وہی چال کب تلک
آنکھیں ترس گئی ہیں دکھا صبح و شام اور
تھکنے لگا تو شوق نے آواز دی مجھے
منزل بہت قریب ہے دو چار گام اور
علم و عمل میں کیسا تصادم ہے دیکھیے
گھر کا ولی ہے اور، حرم کا امام اور
ہر خاص و عام قیس بنا پھر رہا ہے اب
بد نام کتنا ہوگا محبت کا نام اور
رنگینیِ تصورِ جاناں کچھ اور ہے
ہوتا ہے رنگِ بزم دمِ اختتام اور
ہاں سچ ہے شاد میں ہوں گنہگار آدمی
دنیا لگا رہی ہے مگر اتہام اور
آپ کے تبصرے