جو بھی محصور ہے دروں، نکلے

حمود حسن فضل حق مبارکپوری شعروسخن

سرخ نکلے سیہ نموں نکلے

وحشت دل برنگ خوں نکلے


جاں نکل جائے یا جنوں نکلے

جو بھی محصور ہے دروں، نکلے


ہجر کو ذبح کردے کاش کوئی

اور خوں اس سے سرخ گوں نکلے


جب کہ بیعت ہے بے کلی سے دل

ڈھونڈنے پر بھی کیوں سکوں نکلے


اس کے اندر میں رائیگاں سا ملوں

میرے اندر وہ جوں کا توں نکلے


شاعری عشق اداسیاں شکوے

سارے فن اس میں پر فنوں نکلے


دشت ہجراں میں رہنے والے لوگ

کوچ کرتے ہوئے زبوں نکلے


کب کم و کیف کا تقاضا ہے

کم سے کم منہ سے ہاں یا ہوں نکلے


آخری خامشی ہی راجح ہے

قول کتنا ہی پر فسوں نکلے


مل کے چہرے پہ ہم اداسی کو

تیری محفل سے سر نگوں نکلے


حشر کابوس ہجر برپا ہے

اب سخن سے کہو بروں نکلے

آپ کے تبصرے

3000