موسی کو کارہاۓ خضر سے حذر رہا

حمود حسن فضل حق مبارکپوری شعروسخن

کل رات اس کی یاد کا ایسا اثر رہا

سینے کی دھڑکنوں سے بھی میں بے خبر رہا


دل کے ملال کا وہ مداوائے کن فکاں

بن کر دعائے شام و سلام سحر رہا


سینے سے بے قراریاں جب تک لگی رہیں

راز بقائے ذات کے شانے پہ سر رہا


تکمیل دیدہ بانئ عرفاں سے پیشتر

موسی کو کارہاۓ خضر سے حذر رہا


منزل کے آس پاس بھٹکتے رہے قدم

مادام انتہائے سفر میں سفر رہا


کس کو دوام عجلت دنیا کے سامنے

خواب و خیال نعرۂ رقص شرر رہا


تجھ سے بچھڑ کے میں تو ترا ہوکے رہ گیا

ہجر و فراق مسئلہ بے ضرر رہا


یارو! “قفا” یہ شہر اسی بے وفا کا ہے

غم جس کا اس حیات میں آٹھوں پہر رہا


تھا کفر اعتبار کا محمل وہ مہ لقا

جنگ وفا میں پاؤں اکھڑنے کا ڈر رہا


“هل من مزيد” اس کی زباں پر ہے مثل نار

توحید اختیار میں وہ کم نظر رہا


یادوں سے صلح کل ہے مگر پھر بھی کیوں حسن

آنکھوں میں بس اسی کا ہی جوش گہر رہا

آپ کے تبصرے

3000