دوستی دیے سے ہے خود کو بھی بچانا ہے
تند رو ہوائیں ہیں گھر مرا پرانا ہے
عشق اور محبت کا کام کیا سوا اس کے
زندگی کے ہجرے میں داغ دل سجانا ہے
چاند سی جبینوں پر اوڑھنی مچلتی ہے
سادگی کی بانہوں میں حسن کا ٹھکانہ ہے
مختلف طریقے ہیں آشنائی پانے کے
باہمی تعارف کا نکتہ جاہلانہ ہے
دل کے ٹوٹ جانے پر کیا گلہ کرے کوئی
رسم بے وفائی کا سلسلہ پرانا ہے
اس جہان قاسی کے آہنی تراشوں کا
سبقت نمودی میں لہجہ مخلصانہ ہے
دل کبھی چہکتا تھا خیر اب اداسی ہے
ہائے کیا زمانہ تھا ہائے کیا زمانہ ہے
کیا خبر کتاب زیست کس طرح سمجھ آتی
عشق کے توسط سے زندگی کو جانا ہے
سب رتیں تغزل کی اس پہ ہوگئیں کامل
میر کا سخن ہے وہ رنگ مومنانہ ہے
گو نہیں وہ پہلو میں آہٹیں تو ہیں اس کی
اس کی یاد سے دل کا رشتہ غائبانہ ہے
تم متاع ہستی کا دائمی تقاضا ہو
دور جس قدر جاؤ لوٹ کر ہی آنا ہے
کتنے زخم لگتے ہیں کیسے موت آتی ہے
تیغ ہجر پر سانسیں رکھ کے آزمانا ہے
غل کرو کہ رہنے دو شمع محفل جاناں
دل تو جا چکا اپنا صرف جاں سے جانا ہے
آپ کے تبصرے