عروج ذات کو لازم بس اک اشارہ ہے
وگرنہ کس نے مجھے آج تک پکارا ہے
اگر غرور پہ دل مطمئن تمھارا ہے
تو یہ ستم بھی بہ طرز کرم گوارا ہے
تمھارے پاس میں خود کو تلاش کرتا ہوں
تمھارے ساتھ میں رہ کر بڑا خسارہ ہے
مری نگاہ کا محور رہا ہے برسوں سے
وہ ماہتاب کے اوپر جو اک ستارہ ہے
وہ عادتا ہی سہی چاہتا تو آجاتا
کہ عادتوں پہ کسے اختیار سارا ہے
بس ایک ٹک تکے جاتی ہیں پتھروں کی طرح
شہید ہجر کی آنکھوں میں دل تمھارا ہے
میں منتظر نہیں ساحل کا ناخدا کی طرح
جہاں بھی پاؤں اتارا وہیں کنارہ ہے
بس ایک آہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا
محبتوں میں کہاں اذن استخارہ ہے
حواس دہر پہ طاری ہے میرے دل کی خلش
یہ میں ہوں یا کہ کوئی ہم کا استعارہ ہے
بدن میں پھیل رہی ہے اذیتوں کی تھکن
رگوں میں خون کا مشکل سے اب گزارا ہے
پس مژہ ہے کوئی بازگشت منظر کی
نشہ ہے نیند کا یا خواب ہی دوبارہ ہے
بہترین لاجواب
بدن میں پھیل رہی ہے اذیتوں کی تھکن