بنارس ہندوستان کا قدیم ترین شہر ہے جس کو مندروں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہاں مسجدوں کا تناسب مندروں سے کم نہیں ہے۔ بنارس میں مساجد اور منادر کی اچھی تعداد کو تاریخی حیثیت حاصل ہے جو بنارس کی شہرت اور آفاقیت میں غیر معمولی اضافہ کرتا ہے جن میں سے “مسجد گیان واپی” سر فہرست ہے۔
مسجد گیان واپی ایک شاہی تاریخی مسجد ہے جو ہندوستانی مسلم حکمرانوں کے سنہری دور کی یادگار ہے۔ یہ مسجد مغل بادشاہوں کی توجہ کا مرکز تھی لیکن افسوس دریدہ دہن شر پسند عناصر اس کی تاریخ مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کی جگہ مندر تعمير کرنے کی ناپاک منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی لا یعنی کوشش کر رہے ہیں کہ مسجد ہذا مندر توڑ کر اس کی اراضی پر تعمیر کی گئی ہے حالاں کہ تاریخ اس کے برعکس درشاتی ہے۔
مسجد گیان واپی کی تاسیس اور مغلیہ دور:
مسجد گیان واپی کی بنیاد کس سن میں رکھی گئی اور اس کا اصل مؤسس کون ہے اس سلسلہ میں تاریخ خاموش ہے، لیکن عہد اکبری میں اس کے موجود ہونے کی دلیل متعدد تاریخی کتابوں میں ملتی ہے۔ اکبر کے دور میں بنارس کے شاہ طیب بنارسی اور شیخ تاج الدین چھونسوی منڈواڈیہ سے چل کر اس مسجد میں نماز ادا کرنے آتے تھے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں بنارس کی تاریخی مسجدیں اور مسجد گیان واپی از سلام اللہ صدیقی ص:38 صاحب کتاب نے گیان واپی کو گیان باپی لکھا ہے جس کو راقم نے اس مضمون میں گیان واپی لکھا ہے جو کہ معروف ہے)
“اس مسجد کی تاسیس کے متعلق ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ سلطان ابرہیم شاہ مشرقی (متوفی 844ھ مطابق 1440ء) جون پور کے صدر الصدور قاضی صدر جہاں اور ان کے ایک متمول شاگرد شیخ سلیمان محدث نے نویں صدی ہجری میں عالم گیر بادشاہ کے جد امجد ہمایوں بادشاہ (متوفی 963ھ مطابق 1556ء) کے عالم وجود میں آنے کے بہت پہلے بنوائی ہے..” جس کا ذکر “تذکرۃ المتقین” کے مصنف نے بھی کیا ہے۔ (مرقع بنارس از نبی احمد سندیلوی ص:174)
مفتی عبد الباطن نعمانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں”متذکرہ بالا باتیں اگر چہ حتمی اور یقینی طور پر نہیں کہی جاسکتیں لیکن ان کو سرے سے خارج از مکان بھی قرار نہیں دیا جا سکتا کیوں کہ اکبر کا دور محدث سلیمان سے بہت بعد کا ہے۔ بہر حال اس کے صحیح عہد تاسیس کا علم اللہ ہی کو ہے”۔ (مسجد گیان واپی تاریخ کے آئینہ میں: ص5،7)
اس مسجد کے وجود کا ثبوت شاہ جہاں کے دور میں بھی ملتا ہے۔ اس نے بنارس کی جامع مسجد (گیان واپی) میں ایک مدرسہ قائم کیا جس کا نام ایوان شریعت رکھا (حوالہ مذکور ص39) جس کا ایک بڑا ثبوت بھی ہے ض، مولانا عبدالسلام نعمانی لکھتے ہیں:
“جامع مسجد کے پچھم جانب کے کھنڈرات میں حسن اتفاق کچھ عرصہ قبل ایک سہ رخا (تکونا) پتھر دستیاب ہوا تھا جس پر ایوان شریعت 1048ھ درج تھا..چند سال قبل یہ پتھر “انجمن انتظامیہ بنارس” کے دفتر میں موجود تھا۔۔ (لیکن)۔۔اب وہ پتھر وہاں دکھائی نہیں دیتا جس کے ضائع ہونے کا قوی امکان ہے۔ (تاریخ آثار بنارس ص154)
عہد عالم گیری میں اس مسجد کو ثابت کرنا دھواں دیکھ آگ ثابت کرنے کے مانند ہے بعض لوگ تو عالم گیر کو ہی اس مسجد کا مؤسس گردانتے ہیں اور اس مسجد کی نسبت عالم گیر کی طرف کرتے ہوئے مسجد عالم گیری کے نام سے موسوم کرتے ہیں حالاں کہ تاریخ کے رو سے یہ دونوں دعوے باطل ہیں، ہاں یہ بات درست ہے کہ عالم گیر نے اس مسجد کی از سر نو تعمیر کرایا جیسا کہ تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔
نام اور وجہ تسمیہ:
گیان واپی محلہ کا نام ہے اسی مناسبت سے مسجد اس محلہ کی طرف منسوب ہے:
“اس مسجد کو بعض لوگ گیان وافی کہتے ہیں جو درست نہیں اصل نام “گیان واپی” ہے”۔ (تاریخ آثار بنارس ص: 156)
قدیم کتابوں میں گیان بافی نام بھی مذکور ہے جیسے مرقع بنارس وغیرہ لیکن عرف میں گیان واپی ہی معروف و مشہور ہے۔
نبی احمد سندیلوی نے اپنی کتاب مرقع بنارس میں گیان واپی مسجد کو جامع مسجد بنارس اور جمعہ مسجد کا بھی نام دیا ہے۔ (ص170۔175)
مسجد میں نماز و جمعہ کا اہتمام:
اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی مسجد میں نماز و جمعہ کا اہتمام اس کے قیام سے ہی شروع ہو جاتا ہے یہی حال مسجد ہذا کا بھی ہے لیکن سلام اللہ صدیقی کی تحقیق کے مطابق 804ھ (بنارس کی تاریخی مسجدیں اور مسجد گیان واپی ص38) سے اس مسجد میں جمعہ کے اہتمام کا تاریخی ثبوت ملتا ہے اس کے علاوہ دور اکبری میں جمعہ کا قیام معروف ہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ اکبر کے دور میں شاہ طیب بنارسی اور اور شیخ تاج الدین چھونسوی منڈواڈیہ سے چل کر اس مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے آتے تھے تب سے یہ سلسلہ بلا انقطاع جاری و ساری ہے۔ (تفصیل کے لیے محولہ کتابوں کی طرف رجوع کریں)
اس مسجد میں جمعہ کی نماز پورے تزک و احتشام کے ساتھ ادا کی جاتی تھی لوگ دور دراز سے یہاں جمعہ کی نماز ادا کرنے آتے تھے احمد سندیلوی لکھتے ہیں:
“۔۔۔نمازیوں کا ہجوم ہر جمعہ کو اسی مسجد میں ہوتا ہے اور جمعۃ الوداع کی نماز میں شہر اور قرب و جوار کے اضلاع اور ضلع بنارس کے مسلمان اسی انہماک اور ذوق و شوق کے ساتھ یہاں نماز پڑھنے آتے ہیں جس طرح دہلی اور نواح کے مسلمان دہلی کی جامع مسجد میں جمعۃ الوداع کے دن حاضر ہو کر خضوع و خشوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں، رمضان شریف کے جمعوں میں اس مسجد میں تل رکھنے کی جگہ نہیں ملتی۔۔۔”۔ (مرقع بنارس ص:175)
آج بھی بنارس کے لوگ شہر کے مختلف گوشوں سے جمع ہوتے ہیں اور دین کے اس فریضہ کی علی الارکان ادائیگی کرتے ہیں، جو مسلمانوں کے اس مسجد سے لگاؤ کی اعلی مثال ہے۔
امام و خطیب:
اس سلسلہ میں مفتی عبد الباطن نعمانی کا اقتباس نقل کیا جا رہا ہے وہ لکھتے ہیں۔
“جامع مسجد گیان واپی میں ہمیشہ سے باضابطہ جمعہ و پنچ وقتہ جماعت کا اہتمام تھا عہد تاسیس سے لے کر ڈھائی سو سال قبل تک کے ائمہ و خطبا کا نام تو معلوم نہ ہوسکا البتہ ڈھائی سو سال قبل حضرت مولانا رحمت اللہ صاحب محدث دہلوی جن کا شمار حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے ارشد تلامذہ میں تھا بنارس تشریف لائے تو انھوں نے اس مسجد کی خدمات میں نمایاں حصہ لیا اور انھوں نے اپنی حیات ہی میں مولوی عبد اللہ بنارسی نامی شخص کو مسجد کا امام مقرر کردیا جو تا حیات اس منصب پر فائز رہے ان کی وفات کے بعد۔۔حضرت مولانا عبد الصمد بنارسی۔۔مولانا محمد اکرام بنارسی۔۔۔مفتی محمد ابرہیم بنارسی۔۔۔مولانا عبدالسلام نعمانی (صاحب تاریخ آثار بنارس)۔۔مفتی عبد الباسط ابراہیمی۔۔اور راقم الحروف(عبد الباطن نعمانی) تا دم تحریر…”بالترتیب اس منصب کے جانشیں مقرر ہوئے۔
مسجد میں درس و تدریس کا اہتمام:
اوپر یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ شاہ جہاں نے مسجد کے احاطہ میں ایوان شریعت نامی مدرسہ قائم کیا تھا جس کے متعلق مولانا عبد السلام نعمانی لکھتے ہیں:
“یہ مدرسہ ایوان شریعت ساڑھے تین سو سال سے اپنی قدیم روایت کے ساتھ 1971ء تک قائم تھا۔ درس نظامی کے ساتھ ساتھ طب یونانی اور آلہ آباد بورڈ کے نصاب منشی، کامل، مولوی، عالم، فاضل وغیرہ کی بھی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس مدرسہ سے بہت سے علماء اور اطباء فارغ ہوئے، جن میں مولانا عبد الحکیم مکی کے والد مولانا حکیم عبدالمجید (متوفی 1937ء) مولانا حکیم محمد حسین الٰہی (1950ء) ساکن رسول پورہ بنارس اور مولانا حبیب اللہ کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ (تاریخ آثار بنارس ص:155) متعدد بار اس مدرسہ کے دوبارہ اجرا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ کوشش کارگر ثابت نہ ہوئی۔
مسجد کی انقلابی حالت:
اس مجسد پر مغل بادشاہوں کی بڑی کرم فرمائیاں رہیں اس کی اصلاح و ترقی کا کوئی موقع فروگزاشت نہیں کرتے لیکن اس مسجد پر بھی خزاں کے ادوار آئے، اس نے بھی انقلابی نشیب و فراز کا سامنا کیا، اس کی زمینوں کو غصب کرنے اور عمارت کو منہدم کرنے کی ناپاک کوششیں کی گئیں جس کی کئی مثالیں تاریخ کے اوراق میں مندرج ہیں، سلام اللہ صدیقی ورما جی نامی مؤرخ کی تحقیق کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
جس وقت شہاب الدین محمد غوری کا حملہ بنارس پر ہوا اس کے قبل بدھوں نے (اپنے عروج کے زمانہ میں) گیان واپی پٹوا کر موجودہ مسجد کی جگہ اپنا مندر (دہار بہار) بنوایا۔ناظرین اب بھی اورنگ زیب کی مسجد (مسجد گیان واپی) کے نیچے بودبہار (دہار) دیکھ سکتے ہیں۔ (حوالہ مذکور ص:64)
شاہ جہاں کے زمانہ میں بنارس کے ہندوؤں نے شرپسندی کی انتہا کردی ان لوگوں نے ایک، دو نہیں بلکہ کئی ایک مسجدوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا، سلام اللہ صدیقی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
“شاہ جہاں کے زمانہ میں بنارس کے ہندوؤں نے 75 مسجدیں توڑ کر بت خانے بنواے لیکن شاہ جہاں نے ہندوؤں کو کوئی سزا نہیں دی البتہ جن مسجدوں کو مندر بنایا گیا تھا ان کو دوبارہ مسجد بنا دیا گیا۔۔۔نارائن بھٹ نے قنائی مسجد (مسجد گیان واپی کا مغربی حصہ) اور ایوان شریعت برباد کر کے وہاں مسجد کی دیوار سے ملا کر بلا اجازت مندر بنا لیا۔ لہذا شاہ جہاں کے حکم سے جہاں 75 مندر توڑے گئے یہ مندر توڑے گئے۔۔۔(بنارس کی تاریخی مسجدیں اور مسجد گیان واپی ص:40,41)
شرپسند ہندوؤں کی نفرت انگیزی کا یہ سلسلہ تا ہنوز جاری ہے، آج بھی ایذا دہندہ کبھی نمازیوں کو تکلیف دیتے ہیں تو کبھی مسجد کو نقصان پہنچانے کے ہر حربے استعمال کرتے ہیں جس میں ان ناہنجاروں کو پولیس اور دیگر محکمہ کے افسران کی پشت پناہی حاصل رہتی ہے جن کی مدد سے کبھی اچانک سے اہل ہنود کو مسجد کی چاروں طرف پریکرما (طواف) کرنے تو کبھی مسجد کی دکھن جانب نندی کی پوجا کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے، یہی نہیں بلکہ کارگل جنگ کے نام پر مسجد کی چھت پر یگیہ کا پروگرام بنایا جاتا ہے، افسران کی سخت نگرانی میں اہل ہنود دھڑلے سے مسجد میں داخل ہوجاتے یہاں تک کہ مسجد کی تعمیر و مرمت اور روغن و چونا قلعی اور دیگر اصلاحی امور میں بھی یہ روسیاہ رخنہ انداز ہوتے ہیں۔ اس قماش کے متعدد واقعات مفتی عبد الباطن نعمانی نے اپنی کتاب میں ذکر کیے ہیں، تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں ان کی کتاب “جامع مسجد گیان واپی تاریخ کے آئینہ میں”
کیا مسجد گیان واپی وشوناتھ مندر کی جگہ پر ہے؟:
جدید کاشی وشوناتھ مندر گیان واپی مندر سے متصل ہے جس بنا پر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ گیان واپی مسجد کو وشوناتھ مندر کی بنیاد پر تعمیر کیا ہے جو کہ باطل اور بے بنیاد ہے، اس بات کا اقرار مسلم تاریخ نویسوں کے علاوہ غیر جانب دار ہندو مؤرخین بھی کرتے ہیں، مشہور انصاف پسند مؤرخ بابو کرشن ورما حسرت لکھتے ہیں:
“موجودہ مسجد (جامع) قدیم وشوناتھ مندر کی جگہ پر نہیں ہے”۔ ( مرقع بنارس ص:175,176)
مولانا عبدالسلام نعمانی اپنی کتاب تاریخ آثار بنارس میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا جلد اول کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
“۔۔قدیم سے قدیم روایت میں بھی اس جگہ مندر ہونا ثابت نہیں”۔ (تاریخ آثار بنارس ص:156)
ہندوؤں کے یہاں “پران گرنتھ” تاریخ کی سب سے قدیم اور معتبر کتاب شمار کی جاتی ہے جس سے وشوناتھ مندر کا مسجد گیان واپی کی جگہ پر ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ احمد سندیلوی ایک اقتباس نقل کرتے ہیں جس میں لکھا ہے: “…افسوس ہے کہ اس پرانی تاریخ کے ہوتے ہوئے ہمیں پرانی مندر کا پتہ نہیں لگا۔ اور ہم گیان بافی مسجد کی کو پرانا مندر سمجھے ہوئے ہیں…(مرقع بنارس ص:286)
احمد سندیلوی اپنی کتاب میں متعدد دلائل کے بعد ایک نتیجہ پر پہنچتے ہیں اور لکھتے ہیں:
“۔۔اس دلچسپ اور مدلل نوٹ کے پڑھنے کے بعد نتیجہ نکلتا ہے کہ قدیم مندر اس جگہ نہ تھا مگر انگریزی کے بعد سیاحوں کو سمجھا دیا گیا کہ اس مشہور مندر کی جگہ پر عالم گیر نے مسجد بنوا لی اور اسی روایت پر بھروسہ کر کے مؤرخین نے صفحہ کے صفحہ سیاہ کر ڈالے۔ حالاں کہ مسٹر ورما یقینی طور پر لکھتے ہیں کہ قدیم مندر کی یہ جگہ نہیں ہے کاشی کھنڈرات ثابت کرتی ہے کہ قدیم مندر اس جگہ نہ تھا اور ایک معتبر مصنف لکھتا ہے کہ جامع مسجد سلطنت مغلیہ کے قبل تعمیر ہوئی ہے ایسی صاف شہادت کے مقابلہ میں بازاری خبروں پر اعتماد کرنے کی وجہ سربستہ راز ہے۔” (مرقع بنارس ص178)
وشوناتھ مندر پر کئی ایک حملے ہوئے کئی بار اس مندر کو مسمار کیا گیا صرف مسلمانوں نے نہیں بلکہ خود ہندوؤں، آریوں اور بدھوں نے بھی اس مندر کو اپنا نشانہ بنایا اور منہدم کیا۔ہ(تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں”بنارس کی تاریخی مسجدیں اور مسجد گیان واپی ص67)
ان انقلابی حالات کے سبب وشوناتھ مندر کی اصل جگہ کے سلسلہ میں لوگوں کے مختلف نظریات ہوگئے۔ سلام اللہ صدیقی نے اپنی کتاب “بنارس کی تاریخی مسجدیں اور مسجد گیان واپی” میں 14 اقوال اس سلسلہ میں ذکر کیے ہیں جس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ مختلف نظریات کے سبب کوئی بھی مؤرخ گیان واپی مسجد کا وشوناتھ مندر کی جگہ پر ہونے کا حتمی فیصلہ نہیں کر سکتا مزید برآں کتاب مرقع بنارس میں مصنف نے مختلف قوی دلائل خاص طور پر ہندوؤں کی معتبر کتاب “پران گرنتھ” سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ گیان واپی مسجد وشوناتھ مندر کی جگہ پر نہیں ہے۔ اور ساتھ وشوناتھ مندر کے اصل جگہ کی تعیین بھی صاحب کتاب نے کی ہے۔ اس سلسلہ میں “پران گرنتھ” کے علاوہ مسٹر ورما حسرت کی کتاب “کاشی اور بشوناتھ کا مختصر تذکرہ” سے استفادہ کیا ہے۔ مرقع بنارس میں منقولہ اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کتاب میں مصنف ورما نے مسجد گیان واپی کا وشوناتھ مندر کی جگہ پر تعمیر کیے جانے کے دعوے کی تبطیل دلائل کی روشنی میں کی ہے، لیکن افسوس! قدر بایست سعی کے باوجود یہ کتاب ہاتھ نہ لگی۔ قارئین میں سے اس کتاب تک اگر کسی کو رسائی حاصل ہو تو ضرور استفادہ کریں۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وشوناتھ مندر کی جگہ ہی متعین نہیں تو موجودہ وشوناتھ مندر کس زمین پر تعمیر شدہ ہے؟ موجودہ وشوناتھ مندر وہ تاریخی مندر نہیں جس کا ذکر کاشی کھنڈ میں آیا ہے بلکہ یہ نیا وشوناتھ مندر ہے جو مسجد کے احاطہ میں قائم ہوئی ہے، ویکیپیڈیا کے مطابق 1965 میں اس کی تعمیر ہوئی جب کہ احمد سندیلوی نے انگریزی قبضہ کا چوتھا سال 1785ء ذکر کیا ہے اور اس واقعہ کو مفصل انداز میں لکھا ہے لیکن یہاں پر اختصار کے پیش نظر سلام اللہ صدیقی کا اقتباس نقل کیا جا رہا وہ نئے وشوناتھ مندر کی تعمیری کارستانیوں کو ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“انگریزوں نے نواب ابراہیم علی خاں کو بنارس کا گورنر بنا کر ان کے ذریعہ مسلمانوں کو دبایا اور رانی اہلیہ بائی کو اجازت دے دی کہ وہ مسجد کے احاطہ کے اندر نئی مسجد تعمیر کرائیں یہ تعمیر 1785ء میں شروع ہوئی۔ مسجد کے احاطہ کی مشرقی دیوار میں ایک شاندار گیٹ تھا جو نمازیوں کی آمد و رفت کے لیے کھلا رہتا تھا انگریزوں نے پھاٹک اور اس دیوار کو منہدم کرا کے وہاں سے مندر کی حد قائم کر دی اور احاطہ کے جنوبی سمت میں مندر کی بنیاد رکھوا دی اس پر مسلمانوں میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا شہر فرقہ وارانہ فساد کی آگ میں جلنے لگا۔ اس فساد میں 880 مسلمان اس احاطہ میں شہید ہوئے۔۔۔۔24 برس بعد 1809ء میں متنازعہ احاطہ میں دوسرا تیرتھ استھان بن گیا جو مسجد سے متصل ہے۔ مسجد کے صدر کرانے کے بعد برٹش حکومت نے مسجد کی مشرقی و شمالی دیواروں کے پاس کئی کئی مورتیوں کے استھان کا موقع فراہم کر دیا۔
اسی سال 1809ء میں مہاراجہ نیپال کی طرف سے نادیہ بیل بھی اس احاطہ میں نصب کرا دیا گیا۔ اسی کے ساتھ اس قدیم مسجد کو عالمگیری مسجد کے نام سے شہرت دی گئی اور سرکاری گزٹ میں عالمگیری مسجد کے نام سے اس مسجد کو درج کرایا گیا”۔ (بنارس کی تاریخی مسجدیں اور مسجد گیان واپی ص66)
کاش کہ اہل ہنود اصل جگہ کی تلاش میں ہوتے تو آج عبادت گاہیں فرقہ وارانہ کشیدگی کا سبب نہ بنتیں۔ آج ہنود یہ واویلا مچا رہے ہیں کہ اورنگزیب نے مندر کو منہدم کیا جس کی اوٹ میں زعفران پوش باد منافرت بھڑکا رہے ہیں حالاں کہ اورنگزیب کا مندر مسمار کرنا سیاسی نقطہ نظر کے تحت تھا چوں کہ اس مندر میں کچھ مہارانیوں کی عصمت دری کا سانحہ پیش آیا جس کے سبب مندر کا انہدام ناگزیر تھا۔ امروز یہ واقعہ نفرت انگیزی کا سبب صرف اس لیے بنا ہے کیوں کہ یہ ایک مسلم حکمراں نے منہدم کیا اس بات سے صرف نظر کہ اس میں کیا حکمتیں پوشیدہ تھیں ان کا مقصد صرف لڑانا ہے ورنہ قریب ہی میں بنارس میں “کوری ڈور” کی تعمیر میں توڑی گئی بے شمار مندروں پر چپی کیوں سادھی گئی۔ راجستھان میں 300 سال قدیم مندر کو توڑا گیا اس پر کوئی ایکشن نہیں اگر آپ کی نظر میں یہ اقدامات سیاسی تھے تو اورنگزیب کا یہ عمل مزید قابل قبول ہونا چاہیے۔
آئین تحفظ عبادت گاہ اور گیان واپی:
1991ء میں گانگریس کی حکومت میں “Places of worship act 1991” ایک بل پاس ہوا تھا جس کا مطلب ہے کہ وہ عبادت گاہیں جو 15 اگست 1947 سے پہلے موجود تھیں ان کو اسی حال پر چھوڑ دیا جائے، اس میں کسی طرح کی مداخلت قابل قبول نہیں ہوگی، اس ایکٹ کے مطابق گیان واپی مسجد پر بے جا دعویٰ کرنا اور مندر میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کرنا قانونا جرم ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں Wikipedia.com )
آپ کے تبصرے