بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں

رفیق احمد رئیس سلفی تاریخ و سیرت

جامعہ سلفیہ بنارس میں زیر تعلیم رہتے ہوئے جن سینئر،جونیر اور ہم درس احباب سے روابط رہے ان میں خاصی بڑی تعداد ان حضرات کی تھی جن کا تعلق مئو سے تھا۔ دارالاقامہ کے میرے کمرے میں ایک کم عمر خوبصورت نوجوان اپنے شہر مئوکے ساتھیوں سے ملنے کے لیے آیا کرتا تھا ، کافی جو نیر ہونے کی وجہ سے ان سے بات چیت تو نہیں ہوتی تھی لیکن چہرے سے ہم ایک دوسرے سے متعارف ہوچکے تھے ۔ یہی نوجوان بعد میں مولانا عبدالرحمن عالیاوی کے نام سے جانے گئے اور انھوں نے میرے علی گڑھ آنے کے بعد بھی مجھے یاد رکھا ۔نہ صرف یاد رکھا بلکہ موقع موقع سے عزت افزائی بھی کرتے رہے اور جامعہ عالیہ کے ترجمان ’’افکار عالیہ‘‘ کے لیے کئی مضامین بھی لکھوائے اور ان کو اہتمام سے رسالہ کے مختلف شماروں میں شائع بھی کیا۔ جامعہ عالیہ سے میرے تعلق کی دوسری خاص وجہ میرے انتہائی شفیق اور محترم استاذ مولانا شریف اللہ سلفی حفظہ اللہ کی ذات گرامی تھی جو ایک طویل عرصے تک شیخ الجامعہ کی حیثیت سے ادارے کی خدمت انجام دیتے رہے۔

مختلف اسفارمیں اپنی جماعت کے مدارس جامعہ عالیہ اور فیض عام میں خطاب کرنے کے مواقع بھی ملے اور مئو کی سب سے بزرگ فاضل شخصیت مولانا محفوظ الرحمن فیضی حفظہ اللہ سے ملاقات کرکے ان سے استفادہ بھی کیا۔ مکتبہ فہیم کے دونوں فاضل دوستوں شفیق الرحمن اور عزیز الرحمن کی محبت ہر سفر میں حاصل رہی اور ان حضرات کے علاوہ دوسرے علماء وفضلاء سے بھی ملنے اور ان سے تبادلۂ خیال کرنے کی سعادت حاصل ہوتی رہی۔ ان سب کے درمیان صدیق محترم عبدالرحمن عالیاوی صاحب کی محبت کے کیا کہنے ،اسے تو لفظوں میں بیان بھی نہیں کرسکتا۔

آج جس شخصیت پر مجھے کچھ لکھنا ہے ،وہ عبدالرحمن صاحب کے والد گرامی الحاج حبیب الرحمن پہلوان صاحب ہیں۔ جن سے کئی ایک سفر میں ملاقات بھی ہوئی ہے اور ایک موقع پر ان کا خطاب سننے کی سعادت بھی حاصل رہی ہے۔

زیر مطالعہ مجموعۂ مقالات پر آخری نظر ڈالنے کا حکم مولانا عبدالرحمن عالیاوی صاحب نے دیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ خواہش بھی ظاہر کی کہ میں بھی ان کے والد گرامی کے سلسلے میں اپنے تاثرات کا اظہار کروں۔ کاموں کے ہجوم میں کئی دن میں مجموعۂ مقالات کی خواندگی کی تکمیل کرسکا اور اپنے علم کے مطابق اسے مزید سنوارنے کی کوشش کی۔خدا کرے کہ اپنے حسن ظن کے مطابق جو امید انھوں نے مجھ سے باندھ رکھی ہے ، وہ پوری ہوجائے ۔

الحاج حبیب الرحمن پہلوان رحمہ اللہ جیسے حضرات قوم وملت کے لیے کیوں، کیسے اور کتنے اہم اورضروری ہیں، اس کی تفہیم کے لیے ماضی اور حال کا مختصر تجزیہ درکار ہے۔ اس کے بغیر ملت کے اعاظم رجال کی قدروقیمت کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ ملت اسلامیہ کے زوال نے ہمیں اس منصب سے بے دخل کردیا ہے جس پر اللہ نے ہمیں فائز کیا تھا اور اب تو اس جہان بے ثبات کو ہم دوسروں کے رحم وکرم پر چھوڑ کر ذکر وفکر صبح گاہی تک خود کو محدود کرچکے ہیں۔

یورپ کی نشاۃ ثانیہ کو تہذیب جدید اور معاصر افکار ونظریات کا سنگ بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی تہذیب جدید کے روشن اور مثبت پہلو ہیں لیکن اس کا منفی پہلو بھی ہے جس پر ہماری نظر کم ہی جاتی ہے۔ چرچ کی ظالمانہ اور غیر اخلاقی سوچ اور طرز عمل نے تہذیب جدید کو مجبور کردیا کہ وہ اپنی اجتماعی زندگی سے مذہب کو بے دخل کردے ۔چنانچہ یورپ میں اب مذہب انسان کا ذاتی معاملہ بن گیا ہے۔ سیاسی، معاشی،سماجی اور تعلیمی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ عیسائیت کے خلاف جنم لینے والے اس نظریے کی زد اسلام پر بھی پڑی اور اسے بھی عیسائیت کی طرح انسان کی اجتماعی زندگی سے دور کردیا گیا۔ ہرچند مفکرین اسلام نے اس وبا کو روکنے کی کوشش کی لیکن ذاتی خواہشات اور مفادات کے تحفظ اور تکمیل کے لیے دنیا کی مسلم قیادت بھی اسی راہ پر چل پڑی جو یورپ کی نشاۃ ثانیہ نے دکھائی تھی۔ اس فکر جدید نے ملت کی صفوں میں جو انتشار اور ذہنی آوارگی پیدا کی،اس کے اثرات ہر چہار جانب دیکھے جاسکتے ہیں۔جس ملت کو دنیا کے عام انسانوں کی خیرخواہی اور بھلائی کے لیے برپا کیا گیا تھا ،وہ آج کاسۂ گدائی لے کر دروازے دروازے اپنے لیے انصاف مانگنے پر مجبور ہے۔دنیا کو عدل ومساوات کا پیغام دینے والے جگہ جگہ بے انصافی اور نسلی ومذہبی تعصب کا شکار ہیں۔ نشاۃ ثانیہ کے منفی اثرات کا ایک خطرناک نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ اب دین دار حلقوں میں یہ تاثر عام ہوچکا ہے کہ چند مذہبی رسومات اور اذکار وتسبیحات ہمیں جنت تک پہنچادیں گے ۔ کارجہاں سے تعلق اور واسطہ دنیاداری ہے جس سے ایک دین دار کو بے زار بھی رہنا چاہیے اور دور بھی۔

سیاسی شعور کی کمی اور اسلام کے شورائی نظام کی عدم تفہیم نے ایک نئے تصور کو بھی جنم دیا اور اسے بڑی ہوشیاری سے ایمان وعقیدہ کا حصہ بنادیا گیا کہ آپ کے ارد گرد جو بھی ظلم وستم ہورہا ہے ،اس کو روکنے کی ذمہ داری وقت کے حکم رانوں کی ہے ۔وہ اگر روکتے ہیں تو اللہ کا شکرادا کریں اور اگر اپنے کسی مفاد کے زیر اثر ظلم وتعدی کو نظر انداز کرتے ہیں تو صبر کریں اور وقت کے حکم رانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لیے دعا کریں۔ اس سے زیادہ عام افراد ملت کی کوئی ذمہ داری نہیں اور اگر کسی نے وقت کے سیاسی نظام اور اس سے وابستہ افراد پر تنقید کی تو اسے بغاوت پر محمول کیا جائے گا اور ایسے شخص کوسلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے گا۔

دین داروں میں پیدا ہونے والی اس سوچ نے بے دین اور مادہ پرست افراد کو سماج میں کھیل کھیلنے کا موقع فراہم کیا اور آج دنیا کا سیاسی،معاشی اور سماجی نظام ایسے ہی افراد کے ہاتھوں میں ہے اور خود کو اللہ والا کہنے والے لوگ گوشۂ عافیت میں سکون سے تسبیح ومناجات میں مصروف ہیں۔ہمارے ملک میں تو ایک بڑی معتبر دینی جماعت نے انتخابی سیاست میں کسی بھی طرح کی دلچسپی اور حصے داری کو شرک اکبر بتاکر نصف صدی تک اسلام پسندوں اور دین داروں کو سیاست سے دور رکھا۔ حالانکہ اب اس جماعت نے اپنے فکر کا قبلہ درست کرلیا ہے لیکن نصف صدی کے نقصان اور خسارے کی بھرپائی کوئی آسان کام تو نہیں ہے۔

۱۹۴۷ء کے بعد ایک نئے دستور اور آئین کے تحت ملک نے اپنا سفر شروع کیا ۔ ملک کی اولین قیادت نے فرقہ وارانہ ذہنیت سے اوپر اٹھ کر ملک میں پائی جانے والی تمام اقلیتوں کو مساوی حقوق دینے اور یکساں مواقع فراہم کرنے کی وکالت کی لیکن آہستہ آہستہ ملک میں وہ عناصر غالب آتے چلے گئے جو ملک میں بھائی چارہ، مذہبی رواداری اور گنگا جمنی تہذیب کے خلاف تھے ۔ مسلمانوں کو قرآن نے جس حبل اللہ کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے اور اندرونی اختلاف سے بچنے کی تلقین کی تھی ،وہ اپنے اپنے مسلکی ترجیحات میں کھوگئے ،چند علامات ہر مسلک کی شناخت اور پہچان بن گئی اور دین کی کل کائنات ہم مسلمانوں کی وہی مسلکی علامات اور ترجیحات ہیں، ان سے آگے سب کچھ دنیاداری ہے اور فلاح ونجات کے لیے غیر ضروری۔

ملک کے مسلم سماج کی غالب اکثریت مذکورہ بالا فکری اور عملی رویے سے اوپر اٹھنے کے لیے تیار نہیں،مشکل حالات میں اپنے لیے جگہ کیسے بنائی جائے،اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی ۔مجھے تو اتباع کتاب وسنت کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے یہ کہنے میں ذرا باک نہیں کہ قرآن مجید واضح طور پر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ اولوالامر کی اطاعت کا بھی حکم دیتا ہے۔ آیت کا تیور بتارہا ہے کہ یہ کسی وقت اور جگہ کے لیے خاص نہیں ہے ۔ اسی لیے مفسرین عام طور پر اس کا مصداق سیاسی اور دینی نظام سے وابستہ کارپردازان حکومت، علماء اور فقہاء کو قرار دیتے ہیں۔ لیکن آیت کے اس مثبت پہلو کی معنویت پر غور کرنے اور اپنے درمیان اولوالامر کو کھڑا کرنے کے بجائے ہماری ساری توجہ آیت کے اس پہلو پر مرکوز ہوگئی جو اس کے دوسرے حصے میں موجود ہے یعنی اختلاف کی صورت میں قرآن وحدیث کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔اس سے بھلا کس کو انکار ہوسکتا ہے لیکن پہلے اولوالامر کو تو وجود میں لایا جائے ۔ صحیح بات یہ ہے کہ مسلکی تشدد اور تنازعات کی وجہ سے ہم مسلمانوں سے دینی روح رخصت ہوچکی ہے ، نتیجہ ہمارے سامنے ہے اور پچیس کروڑ کی مسلم آبادی اپنا وزن کھوبیٹھی ہے۔

افکار ونظریات اور حالات وظروف کے اس پس منظر میں الحاج حبیب الرحمن پہلوان کی شخصیت کو دیکھیے تو نصف صدی تک انھوں نے ملک اور سماج کو بہتر بنانے اور اس کے مسائل کو حل کرنے میں جو سعی وجہد فرمائی ہے ،اس کی قدروقیمت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ مجموعے میں شامل بہت سے اہل قلم کی نگارشات ہمیں ان کی شخصیت کے کئی پہلو سے روشناس کراتی ہیں، میں انھیں ترتیب وار لکھنے کی کوشش کرتا ہوں:

(۱)الحاج حبیب الرحمن پہلوان صاحب کی وابستگی کئی سالوں تک کمیونسٹ پارٹی سے رہی بلکہ مئو کے کئی ایک علماء اس سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے تھے۔ جہاں تک میں نے پڑھا اور سمجھا ہے ،کمیونسٹ خیالات کی حامل ہندوستان کی سیاسی جماعتیں روس کے کمیونزم سے مختلف ہیں ۔ہمارے ملک میں سیکولر ازم کا مطلب مذہب کا انکار نہیں بلکہ ملک میں موجود تمام مذاہب کا یکساں احترام ہے،کسی مذہب کو دوسرے مذہب پر کوئی برتری اور فوقیت حاصل نہیں ہے۔ ملک کا دستور یہی کہتا ہے ۔آزادی کے آس پاس کے سالوں میں فرقہ پرستی کا جو زور بڑھ رہا تھا، اس کی روک تھام کے لیے ضروری تھا کہ سیاسی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دی جائے جو ملک کے تمام مذاہب اور مذہب سے وابستہ لوگوں کو ایک نظر سے دیکھتے ہوں، مذہب کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان کسی تفریق کے قائل نہ ہوں۔مئو کے کئی ایک معتبر علماء کے بارے میں طالب علمی کے زمانے میں جب سنتا تھا کہ وہ کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں تو سخت حیرت ہوتی تھی لیکن عمر اور تجربہ بڑھنے کے ساتھ اور ملک کی موجودہ فرقہ وارانہ سنگین صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ لکھنے اور کہنے پر مجبور ہوں کہ ملک میں سیکولر کردار کی حوصلہ افزائی کرنا اور اسے بڑھاوا دینا ملک اور ملت دونوں کے مفاد میں ہے۔ یہ اوربات ہے کہ آہستہ آہستہ ملک کی کمیونسٹ پارٹیاں بھی اپنے اصولوں پر باقی نہ رہ سکیں اور کسی حد تک وہ بھی اسی رنگ میں رنگتی چلی گئیں جو اکثریت کا تھا۔دنیا میں طاقت کا توازن برقرار رہے تو بہت سے کمزور ممالک کو سہارا اور استحکام ملتا ہے ،روس کے زوال کے بعد دنیا کا جو سیاسی منظر نامہ ہے ، اسے ہر شخص دیکھ سکتا ہے۔ یہ ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ دنیا کی تمام اسلامی تحریکوں اور اسلام پسند مفکرین نے جس شدومد کے ساتھ کمیونزم کے افکار وخیالات کی تردید کی ،اس شدت کے ساتھ تردید انھوں نے سرمایہ دارانہ نظام کی نہیں کی جب کہ سرمایہ دارانہ نظام دنیا کے لیے سب سے زیادہ تباہ کن ہے۔

میں شہر مئو کے کامریڈ حضرات سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنی تنظیم کو منظم کریں اور جس زرد سیاست اور صحافت سے ملک کی فضا روز بروز سنگین اور نازک ہوتی جارہی ہے ، اس کو آئین ودستور کا سبق پڑھائیں۔ ملک کی اکثریت کا تعلیم یافتہ طبقہ دیومالائی تصورات سے باہر آچکا تھا لیکن گزشتہ کئی سالوں سے پڑھے لکھے سماج کو اندھیروں میں واپس لے جانے کی کوشش ہورہی ہے اور بڑی حد تک وہ کامیاب بھی نظر آرہی ہے۔

(۲)الحاج حبیب الرحمن پہلوان صاحب کی زندگی میں کئی واقعات ایسے ملتے ہیں کہ انھوں نے ضلع کی سرکاری انتظامیہ سے اپنے روابط استوار رکھے ۔ شہر کی فضا کوپر امن بنائے رکھنے کے لیے جب بھی کوئی امن کمیٹی وجود میں آئی تو اس میں ان کی شمولیت نمایاں نظر آتی ہے۔ پہلوان صاحب کی یہ خوبی اور صلاحیت ان کی صحیح اور درست سوچ کا نتیجہ تھی۔ ایک طویل عرصے تک سماج کی خدمت کرنے اور اس کے لیے کھڑے رہنے کی وجہ سے سماج ان سے متعارف تھا، ان کے مخلصانہ جذبات عوام کے سامنے تھے اور ضلع انتظامیہ کے سرکاری عملے کو ضرورت ہوتی ہے کہ وہ سماج کے مشہور،مقبول اور بے غرض افراد کو ساتھ میں لے کر امن عامہ کو بحال رکھے۔ پہلوان صاحب کی یہ بصیرت اور ان کا یہ شعور ہماری ملت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ تالاب میں رہ کر مگر مچھ سے دشمنی مول لینا کوئی عقل مندی نہیں ہے بلکہ دینی مدارس کے اس ممتاز شہر میں مدارس کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اپنی مختلف تقریبات میں انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کو لازمی طور پر مدعو کرئےاور طلبہ سے ان کے سامنے اردو کے علاوہ ہندی اور انگریزی میں ایسی تقریریں کرائے جن سے پتا چلے کہ مدارس اپنے طلبہ کے اندر کیسا سماجی اور سیاسی شعور پیدا کرتے ہیں۔

(۳)الحاج حبیب الرحمن پہلوان شہر کی میونسپلٹی کے بھی اہم رکن رہے اور آج بھی ان کے دوبیٹے اس کے ممبر ہیں۔ یہ بھی ان کے سماجی اور سیاسی شعور کی پختگی کی دلیل ہے۔ شہر کی سڑکیں،گلیاں،نالیاں، صفائی ستھرائی اور بجلی پانی کا پورا نظام بہتر رکھنا ہے تو نگر مہا پالیکا میں مخلص،بے غرض اور ایمان دار افراد کی ضرورت ہے۔ حکومت اس کے لیے جو بجٹ منظور کرتی ہے ، کرپشن کے ماحول میں کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہوپاتا۔ پہلوان صاحب نے اس اسٹیج سے اپنے اثرورسوخ کا استعمال کرکے بہت سے کام کیے اور اپنے شہر کی تمام آبادی کو بغیر کسی مذہبی تفریق کے سب کو فائدہ پہنچایا۔اس حوالے سے انھیں شہر انتظامیہ کے اعلیٰ افسران اور پولس محکمے کے اعلی عہدے داران سے روابط استوار کرنے میں آسانی ہوئی اور اپنے اسی تعلق کے نتیجے میں انھوں نے کئی ایک زمینوں کے مسائل حل کیے بلکہ مدرسے کے ایک طالب علم کی ناگہانی وفات کے مسئلے کو بڑی آسانی سے سلجھا لیا جو اگر نہ سلجھتا تو مدرسے کو تالا بھی لگ سکتا تھااور کتنے لوگوں کو جیل کی سزا بھی ہوسکتی تھی۔

(۴)مسلمانوں میں دینی شعور کی کمی اور ازدواجی رشتوں کو کھیل تماشہ سمجھنے کی وجہ سے مسلم معاشرے میں کئی طرح کی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ہنستے مسکراتے گھر تباہ ہو جاتے ہیں ، رشتوں میں دشمنیاں پیدا ہوجاتی ہیں جن کی بسااوقات بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ پہلوان صاحب کو اللہ نے جو بصیرت عطا فرمائی تھی ، وہ روایتی تعلیم نہ ہونے کے باوجود اللہ کی خاص نعمت تھی جو انھیں حاصل تھی۔ بیسیوں گھرانوں کے مسائل کو انھوں نے سلجھایا اور تنازعات حل کرائے ۔ {حکما من اھلہ وحکماً من اھلھا}کے قرآنی حکم پر عمل کرنا تو ایک مسلمان کی سماجی ضرورت ہے۔ آخر ہمارے علماء کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اس اہم قرآنی کام کے لیے خود کو تیار نہیں کرتے۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ انھوں نے سماج کے سامنے اپنا کوئی ایسا کردار نہیں رکھا ،جاہلی تعصبات کے دلدل سے خود کو نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور نہ سماج کے سامنے ان کی شبیہ بہتر ہوسکی کہ فریقین ان کو اپنا حکم بنانے پر راضی ہوسکیں۔ علماء کے شہر میں ایک غیر عالم (پہلوان صاحب) اگر سماج میں اپنا یہ اعتبار قائم کرنے میں کامیاب تھا اور اس کا نام سنتے ہی فریقین اگر اس کو اپنا حکم بنانے پر راضی ہوجاتے تھے تو اس کی سب سے بڑی وجہ اس کا حق وانصاف پر مبنی فیصلہ ہوا کرتا تھا۔انھیں یقین ہوتا تھا کہ معاملہ اگر پہلوان کے سامنے گیا ہے تو کسی فریق کے ساتھ ظلم نہیں ہوگا اور ظلم کرنے والا اپنے لیے کوئی رعایت نہیں پائے گا۔ { ولا یجرمنکم شنآن قوم علی ان لا تعدلوا۔۔۔}ہمارے علماء پڑھتے ضرور ہیں لیکن تعلقات اور سفارش کا بوجھ اتارنے کی سکت نہیں رکھتے۔ پہلوان صاحب نے بسااوقات انصاف کرتے ہوئے اپنے قریبی عزیزوں کی رعایت بھی نہیں کی کیوں کہ حق ان کی طرف نہیں بلکہ دوسرے فریق کی طرف تھا۔ یہ کام بڑی ہمت کا ہے اور اس کی توفیق صرف خاصان خدا کو ہی ملتی ہے۔

(۵)پہلوان صاحب نصف صدی تک دینی مدارس بطور خاص جامعہ عالیہ عربیہ کی انتظامیہ کمیٹی سے وابستہ رہے اور اس کی ہمہ جہت ترقی کے لیے کوشاں رہے۔ حیرت کی بات ہے،اسے اللہ کا خصوصی انعام نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے کہ ایک شخص جو دینی اور دنیا وی تعلیم سے محروم تھا لیکن قوم وملت کے بچوں کو آج کے ماحول میں تعلیم کی کتنی ضرورت ہے، اس سے اسے بھرپور آگاہی تھی۔مدرسے کی تعمیر، اس کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات، اس کے لیے مالیات کی فراہمی، سرکاری سطح پر پیش آنے والی پریشانیوں کو حل کرنا اور زمین کے کاغذات کو چانچنا پرکھنا اور اسے سنبھال کر رکھنا ،یہ تمام کام ہوشیاری بھی چاہتے ہیں اور حکمت وبصیرت بھی ، پہلوان صاحب نے اپنے ناخن تدبیر سے اس راہ میں آنے والی بہت سی الجھنوں کو سلجھایا ہے جس کی گواہی ہر وہ شخص دے گا جس نے ان کے ساتھ کام کیا ہے۔ ان کی کوششوں کا ثمرہ ہے کہ آج جامعہ عالیہ عربیہ کی عمارت کشادہ،کھلی ہوئی اور طلبہ و اساتذہ کے لیے بڑی حد تک آرام دہ ہے جب کہ ہمارے دوسرے دونوں بڑے ادارے جامعہ فیض عام اور جامعہ دارالحدیث ابھی تک اپنی پرانی عمارتوں میں ہیں اور تنگی کا شکار ہیں۔ اللہ کرے انھیں بھی پہلوان صاحب جیسا بیدار مغز اور بابصیرت قائد مل جائے اور وہ بھی اپنی عمارت میں بقدر ضرورت توسیع کرسکیں۔

مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے حقوق کی رعایت اور حفاظت کے تعلق سے بھی پہلوان صاحب بڑے حساس تھے۔ برابر مدرسے آنا ،ناظم اور صدر مدرس سے مدرسے کے احوال سننا اور اس کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے مخیر حضرات سے رابطہ قائم کرنا اور ان سے تعاون کی درخواست کرنا زندگی بھر ان کا معمول رہا۔

)۶(اسلام کا اجتماعی نظام اور اس کے اجتماعی ادارے جس شورائیت کا مطالبہ کرتے ہیں اور مختلف آراء کے درمیان جس صبروبرداشت سے راہیں نکالنے کی تدبیر سجھاتے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ ملت کے زوال کی وجہ سے ہم نے اپنی بہت سی اخلاقیات تباہ کردی ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ مجلسوں میں بہتر سے بہتر کوئی تجویز سامنے آئے تو اس کی مخالفت معزز اراکین کی جانب سے اس وجہ سے بھی کی جاتی ہے کہ اس کا پیش کرنے والا ہمارا حریف ہے یااگر اس کی بات تسلیم کرلی گئی تو اراکین کے درمیان اس کا قد اونچا ہوجائے گا۔اس طرح کے جاہلی تعصبات نے ہمارے ملی اور تعلیمی اداروں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔اسلام کا مزاج یہ ہے کہ شورائی نظام میں جو بھی فیصلہ ہوجائے ،تمام اراکین کو اس کے ساتھ کھڑے رہنا ہے۔نتیجہ ہماری توقعات کے مطابق برآمد ہو یا ان کے خلاف۔کسی ممبر کو بعد میں یہ کہنے کا حق اسلام نہیں دیتا کہ میری بات یا میری تجویز تسلیم نہیں کی گئی ،اس لیے امید کے خلاف نتیجہ سامنے آیا۔سیرت نبوی میں غزوۂ احد اس کی نمایاں مثال ہے۔ جنگ باہر لڑی جائے یا مدینہ میں محصور ہوکر اپنا دفاع کیا جائے۔ اصحاب رسول کی آراء مختلف ہیں۔ جنگ باہر لڑی گئی اور ستر صحابہ کرام شہید ہوگئے ۔مدینہ کی مختصر آبادی میں کہرام مچ گیا،کتنے بچے یتیم اور کتنی عورتیں بیوہ ہوگئیں لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہماری تراث میں ایک جملہ بھی نہیں ملتا کہ کسی نے یہ کہا ہو کہ میری رائے کے برخلاف باہر نکل کر جنگ لڑی گئی ،اس لیے یہ نتیجہ سامنے آیا۔ یہ ہے اسلام کا شورائی نظام اور اس کا مزاج جس سے ہم نے اپنے اداروں کو بڑی حد تک محروم کردیا ہے۔ پہلوان صاحب کو مختلف مواقع پر ان سنگلاخ راہوں سے بھی گزرنا پڑا لیکن انھوں نے اپنے دلائل اور اپنی کارکردگی سے ثابت کیا کہ انھوں نے جو فیصلہ لیا تھا ،وہ ادارے کے حق میں مفید اور بہترتھا۔ اس دشوار گزار گھاٹی کو پار کرتے ہوئے انھیں اپنے ہی ساتھیوں کی ناراضگی بسااوقات مول لینی پڑی لیکن چوں کہ دل صاف تھا اور نیت نیک تھی ،اس لیے مخالفین کو بھی نتائج سامنے آنے کے بعد ان کے فیصلوں کو صحیح اور درست کہنا پڑا۔

ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھیں تو مسلمانوں کے یہ روایتی اور عصری تعلیمی ادارے ملت کا عظیم سرمایہ ہیں۔ ملت کے نونہالوں کا مستقبل ان ہی اداروں کی حسن کارکردگی پر منحصر ہے۔ مدارس اور اسکولوں کی معزز انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کے اداروں میں اپنی انا کی تسکین کا سامان نہ تلاش کرے۔

)۷(ملک کے موجودہ حالات میں جس سنگین صورت حال سے ملت دوچار ہے،اس میں ملت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ملکی سیاست میں اپنی حصے داری بڑھائے اور اس کی راہ نکلتی ہے انتخابی سیاست میں حصہ لینے سے ،بدقسمتی سے جسے ہمارا دین دار طبقہ شجر ممنوعہ آج بھی سمجھتا ہے۔ اب تو یہ حقیقت دو دوچار کی طرح واضح ہوچکی ہے کہ سیاست میں اپنا وزن بڑھائے بغیر ہم اپنی عبادت بھی نہیں کرسکتے اور نہ اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے بہرہ ور کرسکتے ہیں۔ پہلوان صاحب نے اللہ کی دی ہوئی بصیرت سے بہت پہلے اپنی عمر کے ابتدائی ماہ وسال میں اس حقیقت کا ادراک کرلیا تھا۔ایک موقع پر جب بات یہاں آکر رک گئی کہ یا تو ادارے کی ممبرشپ بچالیں یا پھر انتخابی سیاست میں حصہ لے لیں لیکن انھوں نے انتظامیہ کو سمجھایا کہ انتخاب جیتنے کے بعد میں ادارے کی اور زیادہ خدمت کرسکوں گا۔اپنے اسی جذبے کی وجہ سے انھوں نے اپنے دو بڑے بیٹوں کو نگرمہاپالیکا میں داخل کیا اور وہ اپنی خدمات آج بھی انجام دے رہے ہیں اور اپنے پوتے سعید الرحمن سلمہ کو کانگریس میں شامل کیا جو آج اس پارٹی کی ایک اہم شاخ کے ذمہ دار ہیں۔ سعید الرحمن سلمہ سے میری ملاقات ہے اور اپنے صحافتی مزاج کی وجہ سے جس طرح کے سوالات میں نے ان سے کیے اور انھوں نے جو جوابات دیے ،اس سے مجھے پورا یقین ہے کہ وہ ایک دن میدان سیاست میں اپنا،اپنے دادا اور اپنے خاندان کا نام ضرور روشن کریں گے۔ اللہ انھیں سلامت رکھے اور اخلاص اور ایمان داری سے اپنے خاندانی ورثے کو آگے بڑھانے اور اسے مستحکم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔میری دعائیں اور نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں۔

سیاست اور قیادت کے بارے میں میرے سوچنے کا انداز قدرے مختلف ہے۔ ایک مسلمان ایمان ویقین کے ساتھ جب اس خاردار وادی میں قدم رکھتا ہے تو اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔ خدمت خلق جو اسلام کا آدھا حصہ ہے ،اس کے مواقع ایک سیاست داں کو جتنے ملتے ہیں ،ہمارے علماء کو ان کا عشرعشیر بھی نہیں ملتا۔ غلط فہمی،شک یا کسی تعصب کے نتیجے میں ایک مسلم نوجوان کو پولس نے گرفتار کرلیا ہے ،مولانا رفیق احمد رئیس سلفی تمام تر دعوائے ہمہ دانی کے باوجوداس معصوم نوجوان کی کوئی مدد نہیں کرسکتے اور نہ اس پر ہونے والے ظلم کو روک سکتے ہیں لیکن سیاست کی کشتی پر سوارسعید الرحمن جیسا ہمارا نوجوان تھانے جاکر اعلیٰ افسران سے اس کے بارے میں بات کرسکتا ہے اور اپنی ذمہ داری پر اسے رہائی بھی دلا سکتا ہے۔یہ ہے سیاست کی طاقت اور اس کاوزن جسے حاصل کرنے میں ہم ذرا بھی دلچسپی نہیں لیتے۔

محترم حبیب الرحمن پہلوان صاحب رحمہ اللہ کی شخصیت مئو کے مسلمانوں کے لیے ایک روشن چراغ تھی ۔ بشری تقاضے ہر کسی کے ساتھ لگے رہتے ہیں،بھول چوک انسان کی کمزوری ہے ۔پہلوان صاحب سے بھی زندگی میں ہوئی ہوگی اور بار بار ہوئی ہوگی۔انبیائے کرام کے علاوہ کوئی معصوم نہیں لیکن اگر نیت صاف ہو تو اللہ اس طرح کی بھول چوک سے درگزر کرتا ہے۔ دنیا کا نظام اللہ چلارہا ہے،اسے دین اسلام کو قیامت تک باقی بھی رکھنا ہے ، اس لیے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ۔دور زوال میں بھی ملت ایسے مخلصین سے ان شاء اللہ کبھی محروم نہیں رہے گی۔ بلکہ اسلام تو یہ مطالبہ کرتا ہے کہ انسانیت کو اگر امن اورخوش حالی چاہیے تو اسے اسلام کی طرف لوٹنا ہوگا اور الحمد للہ اس گئے گزرے دور میں بھی ملت ایسے مخلصین سے ابھی خالی نہیں ہوئی ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے جہاں اپنی والدہ اور غالب کا مرثیہ لکھا ہے ،وہیں ایک مرثیہ فاطمہ بنت عبداللہ کا بھی لکھا ہے جو ملت کی معصوم بیٹی غازیوں کوجنگ طرابلس میں پانی پلاتے ہوئے شہید ہوگئی تھی ۔ اسی مرثیہ کے یہ اشعار ہیں:

یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی

ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی

اپنے صحرا میں بہت آہُو ابھی پوشیدہ ہیں

بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں

اقبال نے اپنے اندلس کے سفر میں جب مسجد قرطبہ میں نماز ادا کی تو ایک پوری نظم لکھی، اس کا ایک شعر یہ بھی ہے:

پھر تیرے حسینوں کو ضرورت ہے حنا کی

باقی ہے ابھی رنگ مرے خون جگر میں

مسلمان کا ایمان وعقیدہ اسے مایوسی کی طرف نہیں لے جاتا بلکہ وہ ہر مشکل اور مصیبت میں سیکھتا ہے اور آگے بڑھتا ہے۔ پہلوان صاحب کی شخصیت برسے ہوئے بادل(زوال پذیر ملت اسلامیہ) میں سوئی ہوئی بجلی کی طرح تھی جو گھپ اندھیروں میں بھی رہ کر ہر چہار جانب اپنی چمک سے روشنی عام کرتی رہی اور برادران وطن کو یہ پیغام دیتی رہی کہ اندھی اور غیر حقیقی دنیا سے نکل کر تمھیں جس توحید کی یقینی شاہراہ کی ضرورت ہے اسے روشن اور تابندہ بنانے کے لیے ابھی میرے جگر میں خون موجود ہے۔

قیادت بہت مشکل سے وجود میں آتی ہے،قائد بننا کوئی کھیل نہیں ،خون جگر جلانا پڑتا ہے ، مسلم قیادت کو بھروسہ دینا اور میدان میں اس کے دست وبازو بنے رہنا ہماری دینی ضرورت بھی ہے اور اسلامی تعلیمات کا مطالبہ بھی ، جس دن ہم اپنی قیادت کو یہ بھروسہ دلاپائیں گے اور قیادت اپنے پیچھے مخلصین کی جماعت کھڑی دیکھے گی ،وہ ہر نازک موقع پر پہاڑ کی طرح ملت کے لیے جمی رہے گی اورپھر ہمیں اپنی قیادت سے کبھی نہ شکایت ہوگی اور نہ مایوسی۔

آپ کے تبصرے

3000